آصف علی زرداری کی مفاہمتی پالیسی ضیاء الحق کے ورثے سے پی پی پی کا جبری نکاح ہے
پاکستان میں پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے دھرنوں سے موجودہ سیاسی سیٹ اپ کی عوام دشمنی اور خواص کے ساتھ دوستی کا شعور عام ہورہا ہے اور اب ہر طرف سے مک مکا کی سیاست کو رد کیا جارہا ہے اور جمہوریت کے اشراف پنے کے خلاف جمہوریت کے عوام دوست ہونے اور جمہور کے لیے ہونے کا سوال بھی سیاسی مباحث میں بنیادی سوال بنتا جارہا ہے
اس تبدیلی سے سب سے زیادہ سوالات اگر کسی سیاسی جماعت کی قیادت سے کئے جارہے ہیں تو وہ پاکستان پیپلزپارٹی ہے اور اس کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری کے سیاست کرنے کے طریقہ کار پر سب سے زیادہ بحث ہورہی ہے
پی پی پی کو سنٹرل پنجاب اور سرائیکی خطے میں سب سے بڑے چیلنج کا سامنا خود اس پارٹی کے کارکنوں اور ہمدردوں کی جانب سے ہے جوکہ پیپلزپارٹی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری سے ان کی مبینہ مفاہمت کی پالیسی بارے سوالات اٹھارہے ہیں
آج جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو شریک چئیرمین آصف علی زرداری کو لاہور آئے تیسرا دن ہے اور اس دوران انہوں نے سنٹرل پنجاب اور جنوبی پنجاب کی تںظیموں کے عہدے داران کے اجلاسوں کی صدارت کی ہے اور یہ بلاول ہاؤس کراچی میں ہونے والی ملاقات کا ہی تسلسل ہے
ان تینوں اجلاسوں میں پی پی پی کی آصف علی زرداری کی سنٹرل پنجاب اور جنوبی پنجاب کی صوبائی تںطیموں کے عہدے داران نے پی پی پی کی نواز شریف کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی ترک کرنے اور مرکز و پنجاب میں حقیقی حزب اختلاف کا کردار ادا کرنے کی رائے دی
ایسے ہی ایک اجلاس میں گجرات سے پی پی پی کے معروف رہنماء مشتاق پگانوالہ نے آصف علی زرداری کو باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ اس بات پر غور کریں کہ اگر ان کے وزیروں ، مشیروں کی کارکردگی اتنی ہی بہترین تھی تو پارٹی کو پنجاب ، خیبرپختون خوا اور بلوچستان سے اس قدر بدترین شکست کیوں ہوئی ؟ انھوں نے کہا کہ جن کی وجہ سے پی پی پی کی ساکھ برباد ہوئی وہ آج بھی قربت زرداری کے مزے لوٹ رہے ہیں
ڈاکٹر عاشق فردوس اعوان ، ندیم افضل چن ، نذر محمد گوندل ،چوہدری غلام عباس سمیت کئی اور اہم لیڈروں نے آصف علی زرداری کو بتایا کہ ان کی مفاہمت کی پالیسی سے پی پی پی پنجاب میں اپنا اثر کھورہی ہے اور اس کی جانب سے جگہ پی ٹی آئی پر کررہی ہے
لیکن پی پی پی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری نے گنے چنے منتخب چند لوگوں کی اس مجلس میں یکسر پنجاب میں پی پی پی کی مقبولیت کا گراف مزید نیچے آنے کے تاثر کو غلط قرار دے ڈالا اور یہ ماننے سے انکار کرڈالا کہ پنجاب میں ان کی جگہ پی پی پی لے رہی ہے
آصف علی زرداری کی جانب سے نواز شریف کے خلاف حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کی بجائے ان سے مفاہمت پر زور دیا جارہا ہے اور پی پی پی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری اپنے والد کی حرف بحرف تائید کررہے ہیں
آصف علی زرداری پاکستان کے اندر سٹیٹس کو کی حفاظت کرنے پر جس قدر مصر ہیں اتنا ہی ان کی اپنی پارٹی کے اندر اور باہر سے ان کی اس کوشش کے خلاف احتجاج ابھر رہا ہے اور اب تو پی پی پی کے جیالے بات کو صرف “گو نواز گو ” تک محدود نہیں ہیں بلکہ وہ اپنی پارٹی کے اندر انتخابات کا مطالبہ بھی کررہے ہیں
میں پی پی پی کے اوپر دوستانہ تنقید کرنے والوں میں شمار ہوتا ہوں اور بعض اوقات اپنے بتوں کو پوجنے کے باوجود یہ سوال کرنے پر مجبور ہوں کہ آصف علی زرداری کی مفاہمت کی پالیسی آخر ہے کیا؟
اس پالیسی کا ایک بڑا حصّہ تو یہ ہے کہ پاکستان کی عوام بھلے کیسے ہی کرائسس اور بحران کا شکار ہوں اور اس کی زمہ دار حکومت کے خلاف کوئی ایجی ٹیشن کی سیاست نہ کی جائے اور پانچ سال تک ان کے کسی بھی ظلم پر آواز بلند نہ کی جائے
مفاہمتی پالیسی کا دوسرا حصّہ ہے کہ جس طرح نواز شریف اینڈ کمپنی اپنے اردگرد سرمایہ داروں کی کہکشاں بنائے ہوئے ہیں ، اسی طرح شریک چئیرمین آصف علی زرداری کے گرد بھی اکٹھے ہوں
آصف علی زرداری نے اس ملک کے سٹاک ایکسچینج ، شوگر مل ، فلور مل ، اپٹماء وغیرہ میں اپنی جڑیں مضبوط کرجکا ہے ، وہ سرمایہ داروں کی ایک پرت کو نواز شریف کی چمک کا مقابلہ کرنے کو ساتھ ملاچکا ہے اور سرمایہ داروں کا یہ سیکشن بھی وہ ہے جو ضیاء الحق کی باقیات ہے
آصف منصورہ جماعت اسلامی کے مرکز چلے جاتے ہیں اور جماعت اسلامی کے امیر کے پہلو میں کھڑا ہوکر جماعت اسلامی کے ساتھ ساتھ اس کی قیادت کی بھی تعریف کرتے ہیں
آصف علی زرداری کی پالیسی اصل میں ضیاء الحق کے ورثہ سیاست کو قبول کرنا بلکہ “مل جل کر کھانے ” کی روائت کو ایک مشن کے طور پر اپنا لینا ہے اور جو اس سے اتفاق نہ کرے وہ آصف زرداری کے بقول شیطان کا ساتھی ہے ۔کیونکہ وہ مل بانٹ کرکھانے کی راہ میں روڑے اٹکانے والا ہے
آصف علی زرداری کے نزدیک پاکستان پیپلزپارٹی کی ترقی پسندی ، جمہوریت نوازی کا مطلب یہی ہے
NAWAZSHARIF ZARDARI LOOTED AND LOOTING PAKISTAN BECAREFUL DO NOT VOTE THEME AND THEIR FAMILY MEMBERS?