WikiLeaks in my prospective – by Ahsan Abbas Shah
وکی لیکس کی حقیقت اور نظریہ حق و باطل
یہ دنیا اس وقت ایک گلوبل ولیج کا منظر پیش کر رہی ہے ایک ایسا ولیج جس کے لوگ ایک ساتھ سوچتے ہیں ایک ساتھ چلتے ہیں ایک ساتھ محسوس کرتے ہیں اختلافات ایک الگ بات ہیں لیکن جس طرح آج ہو رہا ہے کہ پوری دنیا میں کسی ایک مسئلے کسی ایک بات کا چرچا ہو جاتا ہے اور وہ بات وہ مسئلہ پوری دنیا میں گردش کرنے لگتا ہے ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا نہ ہوتا تھا آخر کیوں ؟ آخر ایسا کیوں ہے کیا پہلے دنیا کچھ اور تھی اب کچھ اور ہے ؟ کیا پہلے انسان کچھ اور تھے اب کچھ الگ ہیں ؟
قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ موضوع وکی لیکس کا ہے اور میں کیا لیکر بیٹھ گیا ہوں لیکن بات یہ ہے کہ وکی لیکس کو سمجھنے سے پہلے کچھ اور سمجھنا ضروری ہے کیوں کہ ابھی تو آپ نے ایک وکی لیکس دیکھا ہے آگے اس طلسم ہوشربا میں اور بہت کچھ ایسا ہونے والا ہے جس سے عقلیں حیران ہو جائیں گی نظریات بدل جائیں گے افکار اپنی جگہ سے ہلا دیے جائیں گے پورے عالم کی سوچ و فکر پر غاصبانہ قبضہ کیا جائے گا اور قبضہ بھی ایسا جسے راضی خوشی دنیا قبول کرے گی آئیں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ دنیا گلوبل ولیج کیوں ہے اور اس کے فوائد اور نقصانات کیا ہیں ہم جب تک اس بات کو نہیں سمجھیں گے نہ حقائق کا ادراک ہوگا نہ پروپیگنڈے کے مکر و فریب پہچان پائیں گے۔
آج کل میڈیا کا دور ہے اطلاعات کا طوفان ہے معلومات اور خبروں کا سیلاب ہے دجل و فریب عام ہے جس کے پاس کھڑے کھوٹے کو پرکھنے کا کوئی پیمانہ نہ ہوگا اسے یہ طوفان برباد بھی کر سکتا ہے۔ یہ سیلاب اسے بہا لے جا سکتا ہے اور یہ تباہی و بربادی جسم کی تباہی سے زیادہ خطرناک ہے انجام کار اس کا بھی پورے جسم کی تباہی ہے کیوں کہ اگر ذہن کو تباہ کر دیا جائے تو نتیجہ یہی نکلے گا اور ذہن و جسم فرد واحد کا نہیں پوری کی پوری قوم کا جس کا خمیازہ خدا نہ خواستہ نسلیں بھگتیں گی.
آپ نے اکثر سنا ہوگا کسی نہ کسی سے یہ جملہ کہ میڈیا جھوٹ ہے پھر آپ سوچتے ہوں گے کہ ہم اکثر سچی خبریں بھی سنتے ہیں درست معلومات بھی ملتی ہیں تو یہ بات سچ کیسے ہو سکتی ہے کہ میڈیا پورے کا پورا جھوٹا ہو۔ اس پر سچ آتا ہی نہ ہو ؟
بلکل ٹھیک آپ نے جو سوچا صحیح سوچا لیکن آپ نے نتیجہ صحیح نہ نکالا کیوں کہ یہ بات درست ہے کہ میڈیا پر سب کچھ جھوٹ نہیں ہوتا۔ لیکن یہ بات غلط ہے کہ آپ وہ سچ سن کے درست نتیجہ اخذ کریں گے یعنی درست تجزیہ کرنا درست نتیجہ نکالنا اور کسی چیز کو حقیقی اور درست تناظر میں لینا ایک الگ بات ہے دراصل معلومات اور اطلاعات کے طوفان میں سچ اور جھوٹ کی ایسی کھچڑی پکائی جاتی ہے ترتیب اس طرح رکھی جاتی ہے کہ دیکھنے اور سننے والے نتیجہ وہی نکالتے ہیں جو نتیجہ یا جو منظر کشی کرنا میڈیا کا مقصود ہوتا ہے بس میڈیا یہ کرتا ہے کہ ایسی اطلاعات اور خبریں جن کا تعلق حق و باطل کے ٹکراؤ سے نہیں ہوتا وہ پوری کی پوری آپ کے سامنے سچائی سے لاتا ہے اور ان کے درمیان ہی حق و باطل سے متعلق معلومات و خبریں اس طرز پر پیش کرتا ہے اور سچ و جھوٹ کا ایسا ملاپ کرتا ہے کہ اپنا مقصد پا لیتا ہے وہ جیسا آپ کو دکھانا چاہتا ہے آپ ویسا ہی دیکھتے ہیں جسے آپ کو سمجھانا چاہتا ہے ویسے ہی آپ سمجھتے ہیں اور جس طرح آپ کو محسوس کروانا چاہتا ہے اسی طرح آپ محسوس کرتے ہیں، بعض نکتوں پر بعض معاملات پر چاہے آپ ان سے اختلاف بھی کر لیں لیکن جو غرض و غایت انکی ہوتی ہے وہ غیر محسوس طور پر پوری ہو جاتی ہے۔
یہ بہت ہی خطرناک تکنیک ہے اور صہیونیوں کے شیطانی دماغوں نے برسوں میں یہ منصوبے یہ سازشیں اور یہ طریقہ کار تشکیل دیے ہیں، آپ فرض کریں کہ اگر وہ ہر بات مکمل جھوٹی ہی کریں عوام کے رحجانات سے بالکل ہٹ کر چلیں معاشرے کی سوچ و فکر پر ذرا سی بھی نظر نہ رکھیں تو ان کی مقبولیت کیا خاک کسی جگہ ہو پائے گی جب مقبولیت ہی نہ ہوگی تو وہ اپنا کام کیسے کر پائیں گے آپ کے ذہنوں میں اپنی فکر کیسے داخل کریں گے یا جو ان کا ٹارگٹ ہے اسے وہ کیسے پورا کر پائیں گے ان کا تو انداز ہی ایسا ہے کہ آپ انہیں سننا چاہیں دیکھنا چاہیں سوچنا چاہیں سمجھنا چاہیں وہ دلنشیں دلچسپ انداز لے کر آپ کے پاس آئیں گے آپ بیشک اپنے پیروں پر کبھی کلہاڑی مارنا نہیں چاہیں گے لیکن آپ پھر بھی ماریں گے آپ کو پتا تک نہ ہوگا نتیجہ ان کے حسب منشا ہو گا۔
کسی جنگی ماہر کا قول ہے کہ جنگ میں فتح اس کی یقینی ہے جو دشمن کے دماغ میں گھس جائے دشمن کو وہی سوچنے پر مجبور کر دے جیسا وہ سوچتا ہے دشمن کو وہی چاہنے پر مجبور کر دے جیسا وہ چاہتا ہے.دنیا پر جس کا غلبہ ہوگا وہ دنیا کو اپنے انداز میں چلائے گا بات یہ نہیں ہے کہ ذرائع اطلاعات و معلومات بذات خود ایک غلط چیز ہیں دنیوی فنون سکھانے کے ادارے اسکول و کالج بذات خود غلط ہیں بلکہ ان پر دسترس کس کی قائم ہے یہی چیز پرکھنے کی ہے۔
کیا اسکول اور کالجوں کا نصاب نیک دیندار لوگ تشکیل دیتے ہیں یا لارڈ میکالے کا تشکیل دیا ہوا ہے ؟
کیا نیوز چینل الله والوں کے ہاتھ میں ہیں یا کفار اور فاسقین انہیں کنٹرول کرتے ہیں ؟
آپ کہاں اپنے بچوں کو تعلیم دلوا رہے ہیں ؟ آپ کیا پڑھ رہے ہیں ؟ آپ جو کچھ پڑھتے ہیں اسے پڑھنے کے بعد کیا سوچ رہے ہیں ؟ آپ کیا دیکھ رہے ہیں اور وہ دیکھنے کے بعد کیسے نظریات اپنا رہے ہیں ؟ آپ کے زیر مطالعہ کس قسم کی کتابیں ہیں کونسے ناول ڈائجسٹ آپ پڑھتے ہیں کس قسم کے میگزین آپ لاتے ہیں ؟ کونسے لوگوں کے اخبار آپ کے گھر آتے ہیں؟ کس طرح کے ریڈیو چینل آپ سنتے ہیں ؟ انٹرنیٹ کی کونسی سائٹس پر آپ جاتے ہیں ؟ کس طرح کے جلسے جلوسوں میں آپ کی شرکت ہوتی ہے ؟ کس طرح کے نعرے آپ سنتے ہیں کس طرح کے لگاتے ہیں ؟ آپ سائنس پر کس طرح نظر رکھتے ہیں اسے دین کے ماتحت رکھتے ہیں یا دین کو اس کے ماتحت ؟ یہ سب بنیادی باتیں ہیں۔
یہ تو ہو نہیں سکتا کہ کفار اور فاسقین کہ قبضے میں جو اسباب ہوں وہ انھیں حق اور مظلوم کی امداد کے لیے استعمال کریں اگر آپ نے ایسے اسباب اختیار کیے ہوئے ہیں جو کفار و فاسقین کے قبضے میں ہیں تو آپ ذہنی غلام ہی ہیں ایسے ذہنی غلام ایسے نظریاتی غلام جو خود اپنی غلامی سے بے خبر ہیں۔
جو بھی مسلمان حق و باطل کے نظریے سے ہر چیز پر نگاہ رکھتا ہے اُس کے لیے میری باتیں سہل ہوں گی۔ ہاں جس کے نزدیک نظریہ حق و باطل کی کوئی بنیادی حثیت ہے ہی نہیں جس کا بنیادی نظریہ صرف معیشت ہے یا بدبودار دنیوی حرص و ہوس کی ماری سیاست یا دیوی دیوتا قسم کے لیڈر یا قومیت یا وطنیت کے بت اسے میں سمجھانا بھی نہیں چاہتا اسے الله ہی سمجھائے میرے نزدیک تو اصل معیار صرف ایک ہی ہے عشق و عداوت کہ جس کے یہ دو جذبے درست سمت میں ہوں گے وہ انسان خود بھی پورا درست سمت میں ہوگا ۔ جس کا کسی سے عشق ہو تو وہ بھی صرف الله کے لیے اور بغض ہو تو وہ بھی صرف الله کے لیے میں نے یہ بات یہاں اس لیے کہی کیوں کہ میرے یقین کے مطابق اگر کسی مسلمان کا معیار یہ نہ ہوگا تو وہ باطل کے کسی بھی ہتھکنڈے سے جال سے ہرگز بچ نہ پائے گا عشق خالص اور عداوت خالص نجات کے لیے شرط ہے دونوں لازم و ملزوم ہیں صحیح طریق پر، کسوٹی صرف ایک ہے نظریہ حق و باطل، حق سے عشق اور باطل سے بغض و عداوت، حق کے لیے تڑپنا اور باطل کا سر کچلنے کو مچلنا، کوئی کتنی بہترین تحریر و تقریر آپ کے سامنے کر دے اگر یہ صفات آپ کو حاصل نہیں ہیں تو آپ کو سمجھانا امرمحال ہے.
کہتے ہیں جرم کی تفتیش کا سب سے مضبوط پہلو یہ دیکھنا ہے کہ اس جرم سے سب سے زیادہ فائدہ کسے حاصل ہو رہا ہے یعنی اگر کوئی قتل ہو گیا قتل کا کوئی سراغ بھی نہیں مل رہا تو یہ دیکھا جائے گا کے مقتول کی موت سے سب سے زیادہ فائدے میں کون رہا ؟ مقتول کی موت سے جو سب سے زیادہ فائدے میں ہوگا اسی پر سب سے زیادہ شک کیا جائے گا اسی طرح ہر معاملے کے حقائق الگ الگ ہوتے ہیں تناظر جدا ہوتے ہیں لیکن اگر انھیں صحیح سے پرکھ لیا جائے مرکز نگاہ حقائق پر ہو تو حقیقت کھل کر واشگاف ہوتی ہے کیوں کہ حقیقت حقائق کے طفیل ہے اور حقائق حقیقت سے ہیں۔
پاکستانی میڈیا بھی کئی دِنوں سے وکی لیکس کی لیکج پر ٹاک شوز میں اُچھل اُچھل کر اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔
پاکستانی قوم ، دہشت گردی کیخلاف سب سے زیادہ قُربانیاں دی رہی ہے۔ہماری پاک افواج کے جوان، پولیس افسران، بوڑھے ، بچے ، خواتین حتیٰ کے ہمارے بُزرگوں کے مزارات تک ظلم اور درندگی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ ہمارے سیاستدان ، سائنسدان، عالم،اساتذہ کو ظالمان چُن چُن کے نشانہ بناتے ہیں۔مگر ہمارے میڈیا کی آنکھوں پر ایسی پٹی بندھی ہوئی ہے کہ انہیں کوئی دستاویز ملے صحیح، پھر دیکھیے اُسے کیسے رٹا دیا جائے گا ۔یہ نہیں سوچا جائے گا کہ اآئینِ پاکستان میں وضع کی گئی میڈیا کی ذمہ داریوں کے پیمانے پر یہ رپورٹس مصدقہ ہیں بھی یا نہیں؟
افواہ پر تجزیہ کئے جانے سے پہلے پاکستانی میڈیا اینکرز ، دہشت گردی کیخلاف لڑی جانے والی جنگ میں شہید ہونے والوں کا خیال دِل میں ضرور لایا کریں تاکہ اُنھیں احساس ہو سکے کہ کہیں ہم خبر کی تلاش میں آوارہ پھرتے ہوئے کسی شہید کی قبر پر تو کھڑے نہیں ہیں۔جن سیاستدانوں اور اداروں کو کمزور ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ، حیرت انگیز طور پر دہشت گردی کا نشانہ بھی اُنہی سیاستدانوں کی جماعتیں اور اُنہی اِداروں کے اہلکاروں کو بنایا جاتا ہے۔ظالمان کیخلاف جنگ میں جو سب سے زیادہ طاقتور سپہ سالار ہے ، اُسے ہی امریکہ کا سب سے بڑا پٹھو گنوایا جاتا ہے۔
وکی لیکس کے معاملے کی حقیقت سمجھانے کے لیے ہی یہ ساری تمہید باندھی گئ اور اس لیے بھی کہ آئندہ ہونے والے حالات و واقعات سے آپ دھوکا نہ کھا بیٹھیں ہمیں اپنے آپ کو اس قابل بنانا ہوگا کہ ہم حالات و واقعیات کا صحیح تناظر میں تجزیہ کر سکیں انھیں حقائق کی کسوٹی پر پرکھ سکیں آپ اس واردات میں یہ دیکھیں کہ فائدہ کسے ہو رہا ہے اور نقصان کسے ہو رہا ہے میں یہ نہیں کہ رہا کہ وکی لیکس کی ساری باتیں سارے انکشافات جھوٹ کا پلندہ ہیں لیکن یہ ضرور ہے کہ سب سچ نہیں ہے اور اس میں سب کچھ نہیں ہے دیکھیں جو حقائق ہیں وہ ہمیں پہلے سے معلوم ہیں ہم ان کے لیے وکی لیکس کے محتاج نہیں ہیں وکی لیکس اگر اسلامی ممالک کی بعض خفیہ ڈیلنگز بعض خفیہ معاملات کا انکشاف کرتی ہے تو وہ زمینی حقائق سے پہلے ہی ثابت ہوتے ہیں اس میں وکی لیکس نے کیا کمال کیا ہے؟
اگر آپ بنیادی طور پر نظریہ حق و باطل رکھتے ہوں گے تو انشا اللہ آپ پروپیگنڈے کا شکار کبھی بھی نہ ہوں گے کیوں کہ حقائق ہمیشہ حق کے ساتھ ہوتے ہیں۔
سید احسن عباس رضوی
Comments
Tags: Wikileaks
Latest Comments
Excellent a very nice piece
Well done very Good style of express your point of View !
WikiLeaks offer amazing disclosures but there are a couple of things to bear in mind. First, these are subjective assessments by American diplomats. And second, while reading the media reports, beware of spin. For instance, the Pakistani media is quick to point out that our government colluded with the US government on drones. It also readily notes that our civilian and military leadership cosies up to American diplomats. This is all true, worrisome and must be brought to the attention of our citizens. But so should the cable that does not validate previous media suspicions, such as the fact that Aafia Siddiqui may not have been held in Bagram or the fact that there are cables to suggest that Gilani, Kayani and Musharraf have, at times, spoken their minds and challenged the American worldview. Nawaz Sharif, moreover, firmly held his ground and refused to be coerced in the case of the restoration of the chief justice. To use the cables only to reinforce the oft-prevailing view that Pakistan is a ‘client state’ is not doing justice to the revelations.