سانحہ ماڈل ٹاؤن جوڈیشل انکوائری رپورٹ میرٹ پر مرتب کرنے والے جسٹس کے خلاف جوڈیشل ریفرنس تیار ہوگیا
روزنامہ خبریں ملتان نے 9 ستمبر 2014ء کی اشاعت میں صفحہ اول پر اخبار کی پیشانی کے نیچے یہ خـر شایع کی
وفاقی حکرمت نے ہائی کورٹ کے جسٹس باقر نجعفی کی سانحہ ماڈل ٹاؤن رپورٹ کے خلاف جوڈیشل کمیشن کو ریفرنس بھیجنے کا فیصلہ کرلیا
میں نے جب اخـار میں یہ خبر پڑھی تو مجھے فیض صاحب کے شعر کا مصرعہ یاد آیا کہ چلی ہے وہ رسم کہ کوئي نہ سر اٹھا کے چلے مسلم لیگ نواز کے کرتا دھرتا بڑے میاں صاحب ہوں کہ چھوٹے میاں صاحب اور ان کے بڑے مصاحب ہوں کہ چھوٹے مصاحب وہ دعوے تو بڑے بڑے کرتے ہیں اور ان کو اپنے آپ پر ہر وقت یہ گمان رہنے لگتا ہے کہ وہ اپنے وقت کے عمر فاروق ہیں لیکن افسوس صد افسوس کے ان کے اندر کا خون خوار بھیڑیا اور اپن روحانی باپ ضیاءالحق سے ورثے میں ملی خون آشامی بار بار عود کرآتی ہے اور وہ اپنی اصل دکھانے لگ جاتے ہیں
ماڈل ٹاؤن میں 17 جون کو سنّیوں کی چودہ لاشیں گرانے اور 90 سے زائد لوگوں کو سیدھی گولیاں مارنے کے بعد شہباز شریف اور ان کے حواری فوری طور پر بھیڑ کی کھال پہن کر سامنے آئے اور شہباز شریف نے تو پریس کانفرنس کے دوران اپنی آواز میں اسقدر عاجزی اور ترحم پیدا کرلیا کہ لکتا تھا کہ جیسے اس معصوم اور میسنے سے آدمی کو یہ بھی نہیں پتہ کہ روٹی کسے کہتے ہیں اور بڑا دعوی کیا کہ جو چاہے اس کا نام ایف آئی آر میں درج کرادے
شہباز شریف ہوں کہ نواز شریف اور ان کے جملہ حواری جانتے تھے کہ بھٹو پر 109 دفعہ لگي تھا جس میں مقدمے کا سرپیر نہ تھا پھر بھی جب ریاستی ڈنڈا برسا تھا تو بھٹو کو تختہ دار پر چڑھنا پڑا تھا ،یہاں تو چودہ لاشے تھے اور 90 زخمی کیسے ایف آئی آر درج کرنے دی جاتی ، مگر ایک سیشن جج اور پھر دوسرا ہاغي کورٹ کا جج اپنے ضمیر کی آواز کے آگے میاں صاحبان کی چمک کو ثھکرا کر ثابت قدم رہے اور ایف آغي آر درج کروانے کا حکم صادر کرڈالا
شہباز شریف نے لاہور ہائی کورٹ کا یک رکنی کمیشن بنایا اور اس کا سربراہ ایک شیعہ کمیونٹی کے جج کو لگآیا اور یہ اقدام اس لیے کیا گیا تھا کہ ایک تو اسے ڈرانا آسان ہوگا اور مرضی کی رپورٹ حاصل کرلی جائے گي اس مقصد کی خاطر لشکر جھنگوی سے دھمکی آمیز خط بھی لگھوایا گیا ، مگر شومئی قسمت وہ جج بھی اڈ گیا اور اس نے دباؤ میں آئے بغیر جو رپورٹ جاری کی وہ شہباز شریف ، رانا ثناءاللہ ، توقیر شاہ اور دیگر پولیس افسران کے خلاف ہے اور یہاں تک کہ شہباز شریف کو غلط بیانی کا مرتکب قرار دیا گیا
اس رپورٹ کو دبا کر بیٹھ گئے اور صلاح مشورے شروع ہوئے کہ کیسے اس رپورٹ پر مٹی ڈالی جائے اور بے ضمیر وکلاء کی مدد حاصل کی گئی ، ویسے رمدے ، خواجہ شریف اور دیگر پرانے نمک خوار بھی موجود تھے اور انھوں نے مشورہ دیا کہ اس جج کے خلاف ہی ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل بھیج دیا جائے
یہ بالکل ویسے ہی ہوا ہے جیسے الیکشن ٹربیونل کے ججز کے خلاف خوابہ سعد رفیق ، کھوکر ، سپیکر قومی اسمبلی نے عدم اعتماد کردیا ہے اور سٹے کے پیچھےچھپ گئے ہیں اور اب ایک طرح سے دوسرے ججز کو پیغام دیا گیا ہے اگر وہ نواز شریف بردران کے خلاف فیصلہ کریں گے تو پھر جوڈیشل ریفرنس کے لیے تیار رہیں عوام اہل سنت کو فیصلہ کرنا ہے کہ کیا وہ سنّی نسل کشی میں ملوث اور قاتلوں کے سرپرست اعلی کے جبر اور ظلم کے زیر سایہ زندگی بسر کریں گے یا ان کے اقتدار کا سورج ڈبو کر اپنی آزادی کا سامان کریں گے
Source: