یہ تجربہ ناکام رہا تو نئی سنّی و شیعہ مڈل کلاس سیاست سامنے آئی
پاکستان کی سیاست میں تحریک انصاف کے آزادی مارچ اور پاکستان عوامی تحریک ، سنّی اتحاد کونسل ، مجلس وحدت المسلمین کے مشترکہ انقلاب مارچ اور اسلام آباد میں دھرنوں سے جو سیاسی بھونچال پیدا ہوا ہے ، اس میں پہلی مرتبہ بہت شدت کے ساتھ سنّی اور شیعہ کی سیاسی شراکت اور ان کی سیاست کے موجودہ خدوخال پر بحث شروع ہوچکی ہے اور اس حوالے سے بہت سے سازشی منصوبے بھی منکشف کئے جارہے ہیں
ہمیں اس وقت یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت شیعہ اور سنّی جن کو بریلوی کہا جارہا ہے کی کون سی جماعتیں ہیں جو سیاسی معرکہ آرائی میں شریک ہیں اور ان جماعتوں میں شیعہ اور سنّی مکتبہ فکر کے کون سے طبقات شامل ہیں اور ان تنظیموں کے اس قدر متحرک ہونے اور ان کو سنّی اور شیعہ حلقوں میں پذیرائی ملنے کا سبب کیا ہے؟
سنّی بریلوی مسلک کی اس وقت جو سیاسی جماعتیں موجودہ حکومت کے خلاف سرگرم ہیں ان میں ایک جماعت تو پاکستان عوامی تحریک ہے اور دوسری بہت سی سنّی مذھبی اور سیاسی تنظیموں کی نمائندہ اتحاد پر مشتمل تنظیم سنّی اتحاد کونسل ہے
پاکستان عوامی تحریک کی بنیاد ڈاکٹر طاہر القادری نے 90ء کی دھائی میں رکھی اور انھوں نے بجاطور پر اپنی اس تنظیم کی سیاست کی بنیاد کسی مسلکانہ ایجنڈے پر نہیں رکھی تھی بلکہ یہ کسی حد تک ریڈیکل سوشل جسٹس پر مبنی ایک ایسی سیاسی جماعت تھی جس نے اس وقت پاکستان کی مڈل کلاس خاص طور پر پنجابی مڈل کلاس کی امنگوں کا اظہار کیا تھا اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی یہ سیاسی جماعت اپنی اکثریت کے اعتبار سے سنّی بریلوی مڈل کلاس کی پڑھی لکھی ، پروفیشنل اور لوئر سطح کے پروفیشنل پرتوں میں حمائت کی حامل رہی اور اب تک اس تنظیم کی حامی پرتیں اسی طرح کی ہیں اور ان میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی
جبکہ ڈاکٹر طاہر القادری کی تحریک منھاج القرآن ، منھاج ایجوکیشنل سوسائٹی ، منھاج القرآن ویلفئیر سوسائٹی ، انٹر نیشنل منھاج القرآن سوسائٹی اور پاکستان عوامی تحریک نے پاکستان بھر میں بالعموم اور پنجاب ، خیبر پختون خوا کے ہزارہ ڈویژن اور جنوبی خیبرپختون خوا میں ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن میں اپنی حمائت بڑی حد تک پیدا کی جبکہ یورپ ، امریکہ ، افریقہ میں بھی اس کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے
ڈاکٹر طاہر القادری آغاز کار سے ہی اسلام کی ایک ماڈریٹ ، صوفی ،اعتدال پسند تعبیر کے علمبردار رہے اور ان کی یہ فکری جہت نائن الیون سے بہت پہلے 80ء کی دھائی سے ہی بہت واضح تھی جب خود امریکہ ،یورپ گلف عرب ریاستوں اور پاکستان کی حکومتوں کی مدد سے سوویت یونین اور کمیونسٹ بلاک کا مقابلہ کرنے کے لیے سلفی دیوبندی وہابی عسکریت پسند آئیڈیالوجی کو فروغ دینے میں مصروف تھیں
لیکن یہ بھی بہت واضح ہے کہ جب نائن الیون ہوا اور افغانستان و عراق پر امریکی حملہ ہوا اور اس عمل سے پہلے سے دیوبندی وہابی تکفیری جہادیوں اور مغربی مربیوں کے درمیان شکستہ تعلقات اور کشیدہ ہوئے تو دیوبندی اور وہابی عسکریت پسندوں اور دھشت گردوں اور ان کے نظریہ ساز مذھبی لوگوں نے ایک منظم آئیڈیالوجی کی تشکیل اور منظم انداز میں تشکیل کی جسے آج ہم تکفیری خارجی آئیڈیالوجی کہتے ہیں اور اس آئیڈیالوجی کی بنیاد پر مڈل ایسٹ ، جنوبی ایشیا ، نارتھ افریقہ کے اندر القائدہ ، تحریک طالبان پاکستان ، لشکر جھنگوی اور دیگر درجنوں تنظیمیں سامنے آئیں
پاکستان کے اندر دیوبندی جہادی تںطیمیں ، سپاہ صحابہ پاکستان ، لشکر جھنگوی سمیت جو تںظمیں موجود تھیں وہ تحریک طالبان پاکستان کے پلیٹ فارم پر جمع ہوگیں اور پاکستان کے اکثر دیوبندی مدارس تکفیری آئیڈیالوجی کے فروغ کے مراکز میں بدل گئے اور اس تکفیری آئیڈیالوجی نے مسلمانوں کے اندر دو بڑے روائتی مسالک کو اپنے سب سے بڑے دشمن گردانا اور اس میں ایک اہل سنت المعروف صوفی سنّی اور پاکستان میں بریلوی کہلانے والے تھے اور دوسرا دشمن شیعہ تھے
دنیا بھر میں بالعموم اور یورپ و امریکہ میں بالخصوص سعودی عرب سمیت گلف عرب ریاستوں کے وہابی حکمرانوں اور پرائیوٹ سرمایہ دار وہابی ٹولے کی مالی سرپرستی کے باعث نام نہاد اسلامک سنٹرز اور وہابی و دیوبندی مساجد اور دیوبندی وہابی مذھبی تنظیمیں اس صوفی سںّی و شیعہ مخالف بلکہ دشمن تکفیری آئیڈیالوجی کے پروپیگنڈے کا مرکز بنیں اور اس آئیڈیالوجی کے تحت غیر حارب عیسائیوں ، یہودیوں ، بہائیوں ، احمدیوں ، ہندؤں کے خلاف قتل اور جنگ کا فتوی بھی دے دیا گیا
دیوبندی وہابی سلفی تکفیری آئیڈیالوجی کے خلاف دنیا بھر کے صوفی سنّی علماء ، انٹلیکچوئل ، سکالرز اور سیاسی قیادت نے سخت ردعمل ظاہر کیا اور یہ واضح کیا کہ اس آئیڈیالوجی کا سنّی مسلک سے کوئی تعلق نہیں ہے
ڈاکٹر طاہر القادری کے بارے میں ہمیں یہ ماننا پڑے گا اللہ نے ان کو بہت علم اور اس علم کو بیان کرنے کا ڈھنگ کئی ایک زبانوں میں ادا کرنے کی صلاحیت بخشی ہے اور جب عالمی تکفیری خارجی آئیڈیالوجی سے مقابلہ درپیش ہوا تو یہ ڈاکٹر طاہر القادری تھے جنھوں نے اس فکر کا مبسوط رد کیا اور پورے یورپ ، امریکہ ، افریقہ ، مڈل ایسٹ اور جنوبی ایشیا میں اس حوالے سے زبردست کام کیا اور ان کا پاکستان کے اندر مضبوط تنظیمی نیٹ ورک اور ان کی تقریروں نے اہل سنت بریلوی کی پیٹی بورژوازی اور دیہی و نیم شہری غریب بریلوی پرتوں پر بہت اثر ڈالا اور یہ پرتیں تکفیری آئیڈیالوجی سے ابھرنے والے ریڈیکل ازم کا شکار ہونے سے بچ گئیں
اسی دوران پنجاب میں شہری پرتوں پر اپنی حمائت پر انحصار کرنے والی مسلم لیگ نواز کی قیادت میاں محمد نواز شریف سعودی عرب کی جلاوطنی کاٹ کر واپس آئے تو ان کا بہت زیادہ جھکاؤ سلفی اور دیوبندی حلقوں کی جانب ہوگیا اور پنجاب کے اندر انھوں نے دیوبندی تکفیری ، انتہا پسند نظریات کی حامل سپاہ صحابہ پاکستان اور اس کے دھشت گرد یونٹس کے ساتھ سٹریٹجک اتحاد بناڈالا اور اس دوران مسلم لیگ نواز کی حمائت کرنے والے کئی ایک مذھبی سیاسی سنّی رہنماؤں کو یہ محسوس ہونے لگا کہ نواز شریف اور شہباز شریف صوفی سنّیوں کو دیوار سے لگانے کی سازش کرنے والے دیوبندی سیاسی رجحان کی حمائت کررہے ہیں
یہ وہ دور تھا جب ایک طرف تو کراچی ، کوئٹہ ، پشاور ، پارہ چنار سمیت پورے ملک میں شیعہ کی نسل کشی شروع ہوچکی تھی ، ان کی مجالس پر حملے ہورہے تھے ، عاشور کے جلوس نشانہ بن رہے تھے تو دوسری طرف خیبر ایجنسی سے صوفی سنّی علماء اور مشائخ کا قتل شروع ہوا اور پورے خیبر پختون خوا اور قبائلی ایجنسیوں میں مزارات اور درگاہوں کو بموں سے اڑانے کا سلسلہ عام ہوگیا اور پھر یہ ہوا کہ کراچی میں نشتر پارک میں میلادالنبی کے دن خودکش بم دھماکہ کیا گیا جس میں درجن سے زائد سنّی بریلوی علماء شہید ہوگئے اور لاہور میں مفتی سرفراز نعیمی کو شہید کیا گیا اور داتا دربار لاہور ، بری امام اسلام آباد ، عبداللہ شاہ غازی کراچی سمیت درجنوں مزارات پر حملے کئے گئے اور ان کے پیچھے خود کش حملہ آور ، ماسٹر مائینڈ اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے والوں کے نشان دیوبندی مدارس تک گئے
پورا ملک اس وقت دیکھ رہا تھا کہ پاکستان کی سب سے بڑی سنٹر رائٹ سیاسی پارٹی مسلم لیگ نواز ، دیوبندی سنٹر رائٹ پارٹیاں جے یو آئی ایف ، ایس و این ، وفاق المدارس سب کے سب دیوبندی تکفیری دھشت گرد تنظیموں سے لاتعلقی کرنے کی بجائے ان کی پشتیبان تھیں اور پاکستان کی سب سے بڑی سیکولر پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی مصلحت پسندی کا شکار تھی اور اے این پی ، پی کے ایم کے پی کی پختون لیڈر شپ دیوبندی تکفیریوں کی صوفی نسل کشی اور شیعہ نسل کشی پر خاموش تھیں
یہ وہ وقت تھا جب پاکستان میں سنّی اور شیعہ کی پڑھی لکھی مڈل کلاس پرتوں میں شدید بے چینی اور اضطراب کی کیفیت موجود تھی اور ستم یہ تھا کہ پاکستان کا مین سٹریم انگریزی و اردو میڈیا کے اکثر لوگ شیعہ اور سنّی صوفی مسالک کی حالت زار اور اس حالت کے زمہ داروں کے خلاف کچھ بھی بولنے سے قاصر تھے اور دیوبندی وہابی تکفیری دھشت گردوں اور ان کے حامیوں کی شناحت کو ظاہر کرکے مین سٹریم میں کوئی بھی چیز نہیں آرہی تھی
اس ساری صورت حال کو دیکھتے ہوئے فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے سنّی صوفی عالم دین اور مرکزی جمعیت علمائے پاکستان کے مرکزی صدر ایم این اے صاحبزادہ فضل کریم نے سنّی علماء اور مشائخ سے رابطے کئے اور ان کی کوششوں کے نتیجے میں سنّی اتحاد کونسل وجود میں آئی جس کا بنیادی ایجنڈا پاکستان میں دیوبندی تکفیری دھشت گردی اور اس کی آئیڈیالوجی کے پھیلانے والوں کا سیاسی طور پر مقابلہ کرنا تھا اور اپنی شناخت و شعائر و عبادت گاہوں کا تحفظ کرنا تھا
جبکہ شیعہ مکتبہ فکر میں بھی اہل تشیع کی مڈل کلاس پرتوں کے ایک بڑے حصّے میں یہ سوچ موجود تھی کہ ان کے خلاف دیوبندی تکفیری دھشت گردی اور اس کے عذرخواہوں نے جو محاذ کھولا ہوا ہے اس کا مقابہ کرنے اور اس کے خلاف ایک سیاسی مہم چلانے کے لیے سیاسی پلیٹ فارم کی اشد ضروت ہے اور یہ بھی بہت واضح ہے کہ یہی وہ پس منظر تھا جس کے پہلو سے مجلس وحدت المسلمین کا ظہور ہوا
اہل سنت بریلوی میں پرانی سیاسی تنظیمیں جن میں جے یوپی کے دھڑے شامل ہين وہ تکفیری دیوبندی سلفی وہابیت کے عذرخواہوں جن میں جماعت اسلامی ، جے یوآئی ایف وغیرہ شامل ہیں کے ساتھ ملکر جو اتحادی سیاست کررہی تھیں اور شیعہ میں ساجد علی نقوی کی جماعت جس مذھبی اتحاد پر مبنی سیاست کرنے پر مصر تھے وہ تکفیری آئیڈیالوجی کے تناظر ميں ابھرنے والی دھشت گردی اور اس کے نیٹ ورک کو بالواسطہ تحفظ اور کور فراہم کرنے کا سبب بنی ہوئی تھی اور بہت ہی سرد قسم کی سیاست تھی جس سے دور ہوکر صوفی سنّی اور شیعہ کی مڈل کلاس پرتوں کی بڑی تعداد نے سنّی اتحاد کونسل ، پاکستان عوامی تحریک اور مجلس وحدت المسلمین کا رخ کیا
سنّی اتحاد کونسل ، پاکستان عوامی تحریک اور مجلس وحدت المسلمین نے نواز شریف کے خلاف سیاسی محاذ میں شرکت کرنے کا فیصلہ بھی اس لیے کیا ہے کہ نواز شریف اینڈ کمپنی دیوبندی وہابی شدت پسند رجحانات کا سیاسی چہرہ بن چکے ہیں اور دیوبندی سنٹر رائٹ اور فار رائٹ نواز شریف کے گرد اسی لیے جمع ہے
صوفی سنی اور شیعہ مسالک کی مڈل کلاس سیاست کی اس جہت کے خلاف نواز شریف کے خریدے ہوئے ، کمرشل لبرل صحافی ، تجزیہ نگار ، کالم نگار بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صوفی سنّی اور شیعہ مڈل کلاس سیاست کو کبھی امریکی ایجنڈا بتلاتے ہیں تو کبھی اس کے ڈانڈے ایران سے ملاتے ہیں لیکن یہ بنیادی طور پر پاکستان میں عالمی دیوبندی وہابی تکفیری دھشت گرد سیاست کے خلاف سیاسی فرنٹ ہے اور شیعہ اور صوفی سنّی برادری میں ڈاکٹر طاہر القادری ، حامد رضا اور راجہ ناصر و امین شہیدی جیسے لیڈروں کی مقبولیت کا سبب ہی یہ ہے کہ انھوں نے شیعہ اور سنّی عوام کے اندر سیاسی محرومی کا ازالہ کیا اور ان کے جذبات کی ترجمانی کی ہےیہ سنّی اور شیعہ کی مڈل کلاس سیاست کی ترجمان سیاسی جماعتیں جن کے طرز سیاست کی مقبولیت اس دھارے سے باہر سیاسی بریلوی جماعتوں اور تنظیموں کو بھی اپنی سیاست بدلنے پر مجبور کررہی ہیں
Source: