سپریم کورٹ کا پاکستان عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے مظاہرین سے شاہراہ دستور خالی کروانے کا حکم : ایک تبصرہ – خرم زکی
سپریم کورٹ آف پاکستان نے نواز شریف حکومت کو حکم دیا ہے کہ اسلام آباد میں شاہراہ دستور کو عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کی قیادت میں نواز حکومت کے خلاف دھرنا دینے والے ہزاروں لوگوں سے خالی کرا لیا جائے – اس سیاسی اور جانبدارانہ فیصلے سے ایک بات پھر واضح ہو گیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ، اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سمیت پاکستانی عدلیہ اب محض نواز شریف اور نون لیگ کی زر خرید باندی بن کر رہ گئی ہے اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے اس الزام کی صداقت ایک بار پھر واضح ہو گئی ہے کہ نواز شریف چمک اور بریف کیسوں کی بدولت عدلیہ کے ججوں پر اثر انداز ہوتے ہیں
سپریم کورٹ کے نواز یافتہ ججز کو شاہراہ دستور پر کپڑے مظلوم پاکستنیوں کے ٹنگے کپڑے تو نظر آ رہے ہیں اور پورے اسلام آباد کو جو نواز انتظامیہ نے کنٹینر لگا کر بند کیا ہوا ہے وہ نظر نہیں آ رہا ؟ گویا آزادانہ نقل و حرکت صرف ججز کا حق ہے ؟ باقی سارے پاکستانی کیا غلام ہیں ان کے ؟ ججز کو شارہ دستور سے گزرنے کی جگہ نہ ملے تو ان کا بنیادی حق متاثر ہو رہا ہے اور لاہور میں پاکستان عوامی تحریک کے چودہ بے گناہ افراد کو شہباز شریف انتظامیہ نے قتل کر دیا، ہفتوں گزرنے کے باوجود ایف آئ آر نہیں کاٹی جا رہی اس سے کسی کا بنیادی حق متاثر نہیں ہوتا ؟
کیا ان ججوں کو آج سے دو روز قبل اسلام آباد کی سڑکوں پر عمران کتا، قادری مشرک، اور شیعہ کافر کے نعرے سنائی نہیں دیے؟ کیا انہیں نظر نہیں آیا کہ ایک کالعدم تکفیری دہشت گرد تنظیم سپاہ صحابہ (نام نہاد اہلسنت والجماعت) کھلم کھلا اسلام آباد کی سڑکوں پر برادر اسلامی ملک ایران، اس ملک کی سنی صوفی بریلوی اکثریت اور شیعہ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز نعرے لگا رہی ہے، تقریریں کر رہی ہے، کیا دس ہزار سنی بریلوی اور بائیس ہزار سے زائد شیعہ مسلمانوں اور ہزاروں فوجیوں، پولیس والوں اور شہروں کو قتل کرنے والے تکفیری گروہ سپاہ صحابہ (اے ایس ڈبلیو جے) جو کہ طالبان کا ہی ایک دوسرا نام ہے پر کسی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا؟ کیا ان کے ساتھ نواز لیگ کے گٹھ جوڑ پر بھی عدالت کبھی کوئی فیصلہ سنائے گی؟
کیا یہ عدلیہ نواز شریف کو دوسرا “ریمنڈ ڈیوس” بننے کا موقع دے رہی ہے؟ لیکن چودہ افراد کا قتل عام دہشتگردی کی دفعات کے تحت آتا ہے جس میں “راضی نامہ” ممکن نہیں. یہ ججز جا کر نواز شریف کی اتفاق فاؤنڈری میں ملازمت کر لیں تو بہتر ہے، اس طرح عدالتوں میں بیٹھ کر عدالتوں کا مذاق نہ اڑائیں. اور یہ بار بار دہری شہریت پر لا یعنی تنقید کے بہانے لوگوں کے بنیادی حقوق نظر انداز کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ دنیا بھر میں احتجاج کی وجہ سے ٹریفک متاثر ہوتا ہے اور اس صورت میں حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے متبادل راستہ فراہم کرنا، یہاں ججز کے پاس متبادل راستہ موجود ہے، اس معاملے کا قادری صاحب کی دہری شہریت سے کیا تعلق ؟ کیا آئین دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کو سیاست کا حق نہیں دیتا ؟ کیا دہری شہریت کے حوالے سے عدلیہ کے ججز پر بھی کوئی پابندی ہے؟ باقی قائد اعظم کا بطور پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کا حلف پڑھا ہے ان ججز نے؟ تو کیا قائد اعظم کو بھی پاکستانی مانے سے انکار کر دیں گے ؟ یا یہ ججز اس وقت موجود ہوتے تو ان سے بھی سیاست کا حق چھین لیتے. صاف نظر آ رہا ہے کہ عدلیہ خود ایک پارٹی بن گئی ہے اور کھل کر نواز شریف کی سعودی حمایت یافتہ تکفیری نواز “مغلیہ سلطنت” کی حامی ہے اور ان عدالتوں سے نواز شریف کے مظالم کے خلاف کسی فیصلہ کی توقع نہیں کی جا سکتی.
سپریم کورٹ کا شاہراہِ دستور خالی کروانے کا حکم
شہزاد ملک
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
آخری وقت اشاعت: پير 25 اگست 2014
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کو شاہراہ دستور خالی کرنے کا حکم دیا ہے کہا ہے کہ منگل چھبیس اگست کو سپریم کورٹ کے جج شاہراہ دستور سے عدالت آنا چاہیں گے۔ یاد رہے کہ تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کے کارکن اسلام آباد کے ریڈ زون میں تقریباً ایک ہفتے سے پارلیمان کے سامنے دھرنا دیے بیٹھے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ وزیرِ اعظم نواز شریف کا استعفیٰ لیے بغیر یہاں سے نہیں جائیں گے۔
چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے ممکنہ ماورائے آئین اقدام اور شہریوں کے حقوق سے متعلق دائر سات درخواستوں کی سماعت کی۔ یاد رہاہے کہ نواز لیگ، سپاہ صحابہ، جمیعت علما اسلام اور اے این پی کے کچھ ٹاوٹس نے عدالت میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے احتجاجی دھرنوں کے خلاف درخواستیں دائر کی ہوئی ہیں
چیف جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ شاہراہ دستور پر احتجاجیوں کا قبضہ ہے اور وہ گاڑیوں کو چیک کر رہے ہیں جبکہ یہ ذمہ داری پولیس کی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ شاہراہ دستور بند ہونے کی وجہ سے سپریم کورٹ کے جج دوسرے راستے سے آ رہے ہیں اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے عملے کی حاضری بھی گذشتہ ایک ہفتے سے بہت کم رہی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے سٹاف نے شکایت کی ہے کہ مظاہرین اُنھیں ہراساں کر رہے ہیں۔
عدالت میں ایک تصویر بھی پیش کی گئی جس میں مظاہرین نے سپریم کورٹ کے بورڈ پر کپڑے ڈالے ہوئے تھے اس پر بیچ میں موجود جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ’جہاں سے انصاف ملتا ہے وہاں پر کپڑے سُکھائے جارہے ہیں۔
بینچ میں موجود جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ طاہرالقادری کینیڈین شہری ہیں اور وہاں پر وفاداری آئین سے نہیں بلکہ برطانیہ سے ہوتی ہے۔
اس سے پہلے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری کی طرف سے سپریم کورٹ میں جواب جمع کروایا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ احتجاج ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اس میں عدالت کو مداخلت کا اختیار نہیں ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اُن کی جماعت کے کارکن پرامن ہیں اور کسی صورت کسی بھی سرکاری یا ریاستی عمارت میں داخل نہیں ہوں گے۔
جسٹس انور ظہیر جمالی کا کہنا تھا کہ ان سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ اُن کے کارکن پرامن ہیں’تو پھر ان احتجاجی مظاہروں میں ڈنڈے کسی شادی میں ڈانڈیا کھیلنے کے لیے لائے گئے ہیں؟‘
سماعت کے دوران ایک اور درخواست گزار اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ اگر وزیر اعظم مستعفی نہ ہوئے تو پھر تھرڈ امپائر آجائے گا جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ درخواست گزار کے مطابق عمران خان تھرڈ امپائر شاید فوج کو سمجھ رہے ہیں۔ اس پر تحریک انصاف کے وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ تھرڈ امپائر سے مراد ’اللہ میاں‘ ہیں۔ یاد رہے کہ مسلم لیگ نواز اور اس کے ٹاوٹس اس پراپیگنڈے میں مصروف ہیں کہ طاہر القادری اور عمران خان کے احتجاجی دھرنوں کے پیچھے آئی ایس آئی کا ہاتھ ہے – یہ لوگ اس حقیقت کو فراموش کر رہے ہیں کہ عمران خان الیکشن ٢٠١٣ میں دھاندلی کی پڑتال کروانا چاہتے ہیں جبکہ ڈاکٹر قادری کے حامی اپنے چودہ کارکنوں کی شہادت پر انصاف چاہتے ہیں – انصاف ملنا نورا ججوں کی موجودگی میں محا ل نذر آتا ہے
الیکشن ٢٠١٣ میں سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کے انتہائی جانبدارانہ اور متنازع کردار اور شریف خاندان کے حق میں مسلسل فیصلوں، ان کے خلاف کیسز کی عدم سماعت، سپاہ صحابہ اور طالبان کے تکفیری خوارج کے حق میں فیصلوں اور بیانات سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ملک کی اعلی عدالتیں اپنے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ کردار کو نبھانے کے قابل نہیں – ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن کے ساتھ ساتھ عدالتوں کی بھی تنظیم نو کی جائے، نئے غیر جانبدار جج بھرتی کیے جائیں جبکہ پی سی او زدہ اور دیگر تمام متنازع ججوں کو خواہ وہ ریٹائرڈ ہی کیوں نہ ہوں کسی بھی قسم کی عدالت یا کمیشن کے لیے نا اہل قرار دیا جائے ایسا کیے بغیر نہ انصاف کی فراہمی ممکن ہے اور نہ ہی غیر جانبدارانہ الیکشن اور امن و استحکام
Khurram Zaki said:
سرکاری ٹی وی نیٹ ورک جیو نیوز کی سابقہ صدر پرویز مشرف کے خلاف تحریک کسی اصول کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک سرمایہ کاری تھی. جس کو نواز شریف کے حالیہ دور حکومت میں وہ سود سمیت وصول کرنا چاہتے تھے. یہی حال آج بھی ہے. ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کی مخالفت کسی اصول کی وجہ سے نہیں بلکہ نواز شریف کی موجودہ حکومت پر کی گئی سرمایہ کاری کو تحفظ دینے کے لیۓ ہے کیوں کہ اگر ایک سال ہی میں حکومت کا دھڑن تختہ ہو جاتا ہے تو سارا سرمایہ ڈوب جاۓ گا. دیگر چینلز کا حال بھی اس سے مختلف نہیں. یہ کہنا کہ کوئی بھی چینل کسی اخلاقی اور صحافتی اصولوں اور قدروں کی وجہ سے کسی ایک نظریہ کا ساتھ دے رہا ہے، یہ محض اپنے آپ کو ضرورت سے زیادہ خوش فہمی میں مبتلا کرنے والی بات ہو گی. یہ چینلز کسی صحافتی اقدار کے نمائندے نہیں بلکہ اپنے مالکان کے کاروباری اور کارپوریٹ مفادات کے نگران ہیں. یہاں اتنا ہی سچ بولنے کی اجازت ہے جتنا مالکان کے کاروباری مفادات کے لیۓ نقصاندہ نہ ہو، اس سے زیادہ سچ نہ ان چینلز میں بولا جاتا ہے اور نہ ہی سنا جاتا ہے. آج کوئی ایک چینل سرکاری ہے تو کل کے حالات و واقعات میں کوئی دوسرا سرکاری ہو گا. تکفیری خارجی دہشتگردوں، ان کے حمایتی و حواریوں کا مقابلہ کرنے کی اصولی سکت و ہمت ان میں سے کسی کے پاس نہیں، اس بات کو ذہن نشین کر لیں.
فیصل رضا عابدی تمھے سلام، تم نے اس “چیپ جسٹس” یزید وقت، فرعون وقت، کے خلاف اس وقت زبان کھولی، اس وقت آواز اٹھائی جب یہی لوگ جو آج اس کے خلاف بول رہے ہیں اس کے گن گاتے نہیں تھکتے تھے، سواۓ تمھارے کسی کی ہمت نہیں ہوئی کہ افتخار چودھری کو اس کے دور اقتدار میں چیلنج کرتا. مجھے تمہاری سیاسی وابستگی سے سرو کار نہیں لیکن تمھاری جرات کو سلام. اس “چیپ جسٹس” کو سب سے پہلے عوام کے سامنے تم ہی نے برہنہ کیا تھا ورنہ دیگر تو توہین عدالت کے ایک نوٹس پر ہی معافیاں مانگنے لگے تھے
سرکاری ٹی وی نیٹ ورک جیو کے صحافیوں نے سابق ایڈیشنل الیکشن کمشنر محمد افضل خان کے اس انکشاف کے بعد، کہ سابقہ الیکشن ٢٠١٣ میں افتخار چودھری کی بدولت بے پناہ دھاندلی ہوئی، اپنے آقا نواز شریف کے دفاع کے لیۓ ایک نئی کہانی گڑھنا شروع کر دی ہے اور وہ یہ ہے کہ جناب ان کے پاس اس الزام کا کوئی ثبوت نہیں. میرے بھائی، نواز شریف کی غلامی میں اتنا اندھا ہونے کی ضرورت نہیں. سب سے پہلے تو یہ بات کہ سابقہ چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم کا خود اپنا بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ ان کو “افتخار چودھری کی بار بار مخالفت کی وجہ سے استعفیٰ دینا پڑا، سابق چیف جسٹس یہ چاہتے تھے کہ صرف ان کے احکامات پر عمل کیا جاۓ، ان کی بار بار مداخلت کی وجہ سے الیکشن کا کام متاثر ہوا”. گویا یہاں تک تو خود سابقہ چیف الیکشن کمشنر قبول کر رہے ہیں کہ “چیپ جسٹس” صاحب الیکشن عمل میں غیر ضروری اور غیر قانونی مداخلت کر رہے تھے اور اپنی مرضی چلا رہے تھے، اب آ جائیں دوبارہ اس “ثبوت” والی کہانی پر. جناب والا، کسی بھی عدالت میں کسی الزام کو ثابت کرنے کے دو طریقے ہوتے ہیں، ایک جرم کے شواہد اور دوسرا جرم کے عینی گواہ جو جرم کے ارتکاب کی عینی شہادت دے سکیں. یہ کس عقلمند نے کہ دیا کہ صرف ثبوت ہی لازم ہے ؟ محمد افضل خان نہ صرف یہ کہ جرم کے ارتکاب کے عینی گواہ ہیں بلکہ خود اس جرم میں شریک رہے ہیں اور اب اس کا اعتراف کر رہے ہیں، کیا مجرم کا اعتراف، ارتکاب جرم کے اعتراف کے لیۓ کافی نہیں ہوتا عدالت میں ؟ وہ اس تمام دھاندلی کے چشم دید گواہ ہیں، اس لیۓ ان کے بیان کو رد کرنے کے لیۓ گویا مجرم کے اعتراف جرم کو قبول نہ کرنے کے لیۓ آپ کے پاس ٹھوس شواہد ہونے چاہیۓ کہ جرم وقوع پذیر نہیں ہوا ہے، ورنہ عینی شہادت کو اس طرح سے رد نہیں کیا جا سکتا. دوسری بات یہ کہ خود وزیر داخلہ کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ ہر حلقے میں ایک دو ہزار نہیں ٧٠ سے ٨٠ ہزار ووٹ نا قابل تصدیق ہیں اور پھر کتنے پولنگ اسٹیشنز میں رجسٹرڈ ووٹوں سے زیادہ تعداد میں ووٹ بھگتاۓ گئے ہیں. کیا یہ شواہد کافی نہیں اس اعتراف جرم کے ساتھ کہ صرف “٣٥ پنکچر” نہیں لگے بلکہ سینکڑوں پنکچر لگاۓ گئے ہیں. کیا محمد افضل خان ہماری تاریخ کے پہلے وعدہ معاف گواہ ہوں گے ؟
Abdul Qadir said:
سپریم کورٹ سے حکم جاری ہوا ہے کہ تحریک انصآف اور پاکستان عوامی تحریک فوری طور پر شاہرائے دستور خالی کر دیں۔ یوں سپریم کورٹ بھی سیاست میں ملوث ہو گئی ہے۔ نواز بیوپاری کو ریلیف پہنچانے کے لئے یہ قاضی کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔
Supreme Kangroo Court of Al-Bakistan.
Abdul Qadir
سپریم کینگرو کورٹ کے حکم کو ردی کی ٹوکری میں پھیکنا چاہئے۔ — اس بکاؤ مال کو لاہور میں 14 افراد کا قتل تو دکھائی نہیں دیا لیکن شاہرائے دستور خالی کروانے میں پیش پیش ہیں۔ Dark Justice
Ch Mohsin Ali
لعنت ہے ایسی عدلیہ پر
Saboor Soomro how can trust in judicial commission under this partisan supreme court
Zandeek Shah easii supereme court per bhi lanat , aur inn sab k sab judges per bhi lanat … .. harami justice kehta hai k , “danday kyon layay hain , kya shaadi per dandiya kheilny k liyay?” woh log apni 14 girayi gayi laashon ka hisaab pooch rhay hain , aur judge unn ko dandiya khelny wala samjh rha hai ..
ماشا اللہ سے عوام کا خون پسینے کا ٹیکس کا پیسا اس طرح سے ملک و قوم کی خدمت میں لگایا جا رہا ہے۔
https://www.facebook.com/wakeuppakistan/photos/a.258130022962.143706.258060742962/10152331830032963/?type=1
Moeed Pirzada
Why Court Decisions create a bigger deadlock? – Supreme Court decision asking PTI & PAT leaders to clear the Const. Ave has wider implications.
First, Courts are seen to be intervening very selectively in a political situation that favors one side – PMLN & its allies – against the other ie PTI and its allies in a charged atmosphere in which protesting opposition had been accusing courts to be partisan and referred to them repeatedly as “Sharif Courts”. In the past several weeks Courts have failed to take any meaningful notice of Executive blocking the “right of movement” across a large part of Pakistan from Lahore to Islamabad; Courts have also failed to provide relief to the continuous blocking of entry points into Islamabad from Pindi and all other adjacent areas which Police does to prevent protestors reaching Islamabad.
Second, Courts have failed to take notice of thousands of Arrests – preventive detentions – which Punjab Police has been doing intermittently all across Punjab since June to erode PAT & PTI’s ability to collect crowds.
Third, Courts including Supreme Court failed to react to the “Massacres in Model Town in June” and have not taken any meaningful action to force Punjab govt to register FIR’s of Murder as per the law and convention of the country.
Within this context of law & politics Supreme Court demanding protesters to clear the Const. Ave in the interest of “Right of Passage” of Hon. Judges and their staff looks very insensitive and unconvincing. It is being understood by the Opposition as Courts appearing clearly on the side of the PMLN govt. both in Lahore and in Islamabad. Because they perceive that Courts have failed to put pressure on govt. in all instances to act by law and constitution but at the same time they are acting to relieve govt. from political pressure which otherwise compels govt to seek political compromises.
What has changed today? – Courts unlike the medieval papal authorities have no physical powers of their own; they have merely provided a legitimacy to the use of force against the protestors, which is important because Islamabad Police had deemed it unprofessional and had been asking for written instructions from their political bosses. Also courts have threatened Imran Khan and Dr. Qadri with contempt of court- further tipping the scales against an angry and restive opposition.
All this would have made sense in a situation where both sides would have trust in the courts. But in an extremely polarized situation developing since Elections 2013 where opposition parties have been openly accusing courts to be partisan towards PMLN and where partisan judiciary has been cited as a major part of the political problem these recent statements and decisions emanating from the courts further reduce their ability to resolve the political deadlock. Example: All sides have been continuously demanding Supreme Court Judicial Commissions to inquire into Election Riggings, Vote Recounts and Murders in Model Town. With these new decisions courts have deprived the country of the kind of “Middle Ground” or “Intervening Forums” which both sides can trust and desperately need to resolve their conflict. This is a major loss to the political system – and has grave risks. And one hopes that Hon. Justices get to reflect on the emerging deadlock.
With Hopes & honest prayers!