تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں میں شریک خواتین پر شرمناک تنقید: جعلی لبرلز، اعتدال پسند مولوی اور ترقی پسند پختون قوم پرست بے نقاب ہوگئے – عامر حسینی
posted by SK | August 24, 2014 | In Featured, Original Articles, Urdu Articlesآج چوبیس اگست ہے اور پچھلے چند روز میں مسلم لیگ نواز نے اپنے تقریبا تمام پتے شو کرڈالے ہیں اور مسلم لیگ نواز کے بارے میں عبدل نیشا پوری، علی عباس تاج، نسیم چوہدری، عباس ناصر، ہارون رشید، ایاز امیر،فواد چودھری، نذیر ناجی، حامد رضا اور اس ملک کے درجنوں تجزیہ نگاروں کا یہ کہنا بالکل درست ثابت ہوگیا کہ مسلم لیگ نواز اصل میں دیوبندی مکتبہ فکر سے ابهرنے والی تکفیری دہشت گرد، انتہا پسند فرقہ پرست تنظیموں سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی و طالبان کا سیاسی چہرہ ہے اور حالیہ چند دنوں میں مسلم لیگ نواز اور اس کےبادشاہ نواز شریف پر اسقدر افتاد ٹوٹ پڑی کہ اس نے اپنا سیاسی ماسک اتار پهینکا ہے اور اپنے تمام بالشتیے جن کی سیاست سوائے دہشت گردی اور انتہا پسندی، فرقہ پرستانہ منافرت اور فساد فی الارض پهیلانے کے سوا کچه بهی نہیں ہے کو میدان میں اتار دیا ہے اور وہ سب بہت ننگے ہوکر بے نقاب ہوکر سامنے آگئے ہیں
نواز شریف اور اس کے حواریوں نے جب جمہوریت اور پارلیمنٹ و آئین کی بالادستی کے جعلی نعروں سے اقتدار بچتا دکهائی نہیں دیا تو انہوں نے فرقہ پرستانہ، دہشت گرد سیاست کا سہارا لے لیا اور اب میدان میں کالعدم دیوبندی دہشت گرد تنظیم سپاہ صحابہ نام نہاد اہل سنت والجماعت کو تو اتارا ہی تها ساتھ ساتھ یہ اپنے ایک اور جعلی اعتدال پسند، جعلی امن پسند اور ملی یکجہتی کے جعلی علمبردار سیاسی مداری مولوی کو بهی بےنقاب ہونے پر مجبور کردیا اور یہ وہ دیوبندی مولوی ہے جو ملا ڈیزل کے نام سے جانا جاتا ہے اور دنیا اسے مولانا فضل الرحمان کے نام سے جانتی ہے ، یہ ملا اپنے ہوش حواس کهو بیٹها ہے اور اس کی عقل نواز شریف کے پیسے اور حکومتی عہدوں سے اسقدر اندهی ہوگئی ہے کہ اس نے عمران خان کی تحریک انصاف اور ڈاکٹر قادری کی پاکستان عوامی تحریک کے دهرنوں میں شریک عورتوں کو زانیہ اور طوائف تک کہنے سے گریز نہیں کیا اور اس کو یہ شرمناک لفظ کہے ہوئے تین دن گزرگئے ہیں لیکن سلیم صافی، حامد میر، نجم سیٹھی، عمر چیمہ سمیت نواز شریف کے بہت سارے نمک خوار قلم فروش ملا فضل الرحمان کو جمہوریت کا چمپئین ثابت کرنے پر تلے ہیں
ملا فضل الرحمان کی دیوبندی مذہبی جماعت جمعیت علمائے اسلام اور دیوبندی دہشت گرد تنظیم اہل سنت والجماعت میں موجود فرق کی هلکی سی لکیر جو عوام اور عدالت کو دهوکہ دینے کے لئے باقی رکهی گئی تهی کب کی ختم ہوگئی اب فضل الرحمن اور لدھیانوی کے کارکنان جو تمام کے تمام دیوبندی مدرسوں کے برین واشڈ طلبہ پر مشتمل ہیں مل کر عمران خان، طاہر القادری، سنی بریلوی اور شیعہ کے خلاف نفرت انگیز ریلیاں نکال رہے ہیں
میں ابهی ایک ہفتہ سندھ گزار کر آیا ہوں اور وہاں کراچی کے سب ہی اہم صحافیوں نے یہ اعتراف کیا کہ وہی جے یو آئی ایف ہے اور وہی دیوبندی دہشت گرد اہل سنت والجماعت ہے اور جب فرقہ پرستی، دہشت گردی، انتہا پسندی کی زبان بولنا ہوتی ہے تو محمد احمد لدهیانوی، اورنگ زیب فاروقی، مسعود عثمانی سامنے آتے ہیں اور جب منافقت کرتے ہوئے دیوبندی مکتبہ فکر کے دہشت گردوں کا سافٹ امیج دینا ہوتا تو مولانا فضل الرحمان سامنے آجاتےہیں اور یہ منافقت اور دھوکہ دہی چلتی رہتی لیکن بهلا ہو طاہر القادری کا، عمران خان کا، حامد رضا کا کہ ان کی بے مثال مزاحمت اور امن پسند سیاست نے اس دهوکہ اور نقاب کی قلعی کهول دی
آج وہی لوگ جو دیوبندی دہشتگرد اہل سنت والجماعت کے جهنڈے اٹهاکر فرقہ پرست نعروں کے ساتھ ریلیاں نکالتے ہیں وہی اگلے دن جے یو آئی ایف کے جهنڈے اٹها کر جمہوریت کے نام پر ظالم حکومت جس کے ماتهے پر اس ملک کے بائیس ہزار اہل تشیع ، دس ہزار اہل سنت صوفی بریلوی ، سینکڑوں مسیحیوں، احمدیوں اور ہندوؤں کا خون لگا ہوا ہے اور جو لاکهوں مزدروں کو بے روزگار کرنے جارہی ہے، جس کے نام نہاد میگا پروجیکٹس کی آڑ میں لاکهوں شہریوں کو بےدخل اور داخلی مہاجرت کا سامنا ہے کی حمایت میں نکلے اور صرف نواز شریف کے حق میں نعرے نہیں لگائے بلکہ اس ملک کی پچھتر فیصد آبادی اہلسنت بریلوی اور بیس فیصد اہل تشیع کے خلاف نعرے لگائے اور ان کی پاکستان سے وابستگی کے خلاف بےسروپا باتیں کیں – پانچ سے دس فیصد تکفیری دیوبندی اقلیت نوے فیصد امن پسند پاکستانیوں پر اپنا ایجنڈہ مسلط کرنے کی کوشش کر رہی ہے – اور محمد احمد لدهیانوی، مولوی فضل الرحمان، طاہر آشرفی سمیت دیوبندی مولویوں نے یہیں پر بس نہیں کیا بلکہ انہوں نے یہ عندیہ دیا کہ وہ اسلام آباد میں موجود پرامن مظاہرین اور دهرنا دینے والوں پر دهاوا بول دیں گے
یہ مولوی فضل الرحمان وہ منافق ہے جو بقول اجمل نیازی پیسوں کی خاطر اپنے باپ مفتی محمود کی مخبری کرتا تها اور یہ وہ منافق ہے جو قائد اہلسنت علامہ شاہ احمد نورانی کو اپنا باپ قرار دیتا تھا اور پهران سے دهوکہ کیا اور ان کو سرحد سے سینٹ کا ممبر بنانے سے انکار کرڈالا اور اگر پی پی پی قربانی نہ دیتی تو شاہ احمد نورانی آخری عمر میں سینٹ کے ممبر نہ منتخب ہوسکتے – اور یہ وہ منافق ملا فضل الرحمان ہے جو مولانا شاہ احمد نورانی اور قاضی حسین احمد کو یہ یقین دلاتا رہا کہ اگر وہ ملی یکجہتی کونسل کے صدر بن جائیں تو وہ دیوبندی انتہاپسند نوجوانوں کو اعتدال پسندی کی راہ پر لے آئے گا لیکن شاہ احمد نورانی کی آنکهیں بند ہوئیں تو ملا فضل الرحمان نے آنکهیں بدل لیں اوراس کو یہ غلط فہمی ہوگئی کہ وزیرستان اور قبائلی ایجنسیوں میں جے یو آئی اور سپاہ صحابہ نے جو مسلح جتهے تیار کئے ہیں اور پنجاب، سندھ، بلوچستان میں ان کے جو سلیپنگ سیلز اور ٹارگٹ کلرز ہیں ان کے بل بوتے پر دیوبندی تکفیری اقلیت کی حکومت قائم کرلیں گے اور پاکستان کو سنی بریلوی ،شیعہ ، کرسچن ،هندو اور احمدیوں کا قبرستان بنادیں گے اور نواز شریف کی آڑ میں سعودی استعماری ایجنڈا پاکستان پر نافذ کر دیں گے
لیکن میں برملا کہتا ہوں کہ دیوبندی مولویوں کے ناپاک عزائم کو ڈاکٹر طاہر القادری ، صاحبزادہ حامد رضا، راجہ ناصر عباس ، چوہدری شجاعت اور عمران خان کی سیاست نے خاک میں ملادیا ہے اور آج ان کے منہ سے طاہر القادری، حامد رضا اور عمران خان سمیت اعتدال پسند سنی اور شیعہ کے خلاف جو زبان استعمال کی جارہی ہے اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ اپنے عزائم کی ناکامی کے خوف کی وجہ سے کس قدر غصے میں ہیں
لدھیانوی، فضل الرحمن، اکرم درانی کے علاوہ مسلم لیگ نواز کے لوگوں خواجہ سعد رفیق اور عابد شیر علی نے بھی عمران خان اور ڈاکٹر قادری کے جلسوں میں شامل خواتین کے خلاف انتہائی نا زیبا اور شرمناک زبان استعمال کی – سوشل میڈیا پر کچھ نواز یافتہ کمرشل لبرلز جیسا کہ مرتضیٰ سولنگی، عمر چیمہ، طلعت حسین وغیرہ نے بھی عورتوں کے ناچ گانا اور مخلوط سیاسی جلسوں کے خلاف غلیظ باتیں کیں
اس دوران ایک اور نام نہاد ترقی پسند پختون قوم پرست اور نام نہاد انقلابی کا چہرہ بهی عوام کے سامنے بےنقاب ہوا ہے اور یہ اپنے خاندان کے افراد کے لئے اہم ترین مناصب کی رشوت سے بکنے والے محمود خان اچکزئی ہیں جو ایک سعودی دیوبندی پنجابی حکمران نواز شریف کی چمک کے آگے ڈهیر ہوئے ہیں اور ان کا نمک حلال کرنے کے لئے پاکستان کےفیڈرل آئین اور پاکستانی نیشنلزم کے ماما اور چاچا دونوں ہی بن گئے ہیں اور بات یہیں نہیں رکی ان کے اندر کا دیوبندی بهی باہر آگیا ہے، اچکزئی صاحب کرپٹ اور دہشت گرد ملا فضلو ڈیزل کو محترم فضل الرحمان، ملا شیرانی کو میرے محترم و مکرم مولانا شیرانی اور دوسری طرف طاہر القادری کو جمعراتی، خیراتی، کینیڈین مولوی کہتے ہیں اور ان کو جیل کی سلاخوں کے پیچهے ڈالنے کا بیان دیتے ہیں اور ان کے حامیوں کے خلاف اپنے حامی لاکر سبق سکهانے کی دهمکی دیتے ہیں اور تو اور ایک ترقی پسند، سیکولر، روشن خیال جماعت کے داعی کو سیاسی ترانے، قوالی، سماع، میوزک خرافات لگنے لگے ہیں اور عورتوں کو بےحیا کہنے کی بات بهی ان کے منہ سے سنی گئی ہے – ترقی پسند پشتونوں کی دیوبندی فرقہ واریت کا سب سے بڑا ثبوت ان کی طرف سے رویت ہلال کے موقع پر پشاور کے دیوبندی مولوی پوپلزئی کی حمایت جبکہ سیاسی معاملات میں دیوبندی مولوی فضل الرحمن اور لدھیانوی کے ہم آواز ہو کر سنی بریلوی عالم ڈاکٹر قادری پر تنقید ہے
اور زیادہ شرمناک کردار ان جعلی کمرشل لبرلز کا ہے جن میں نجم سیٹھی، شیری رحمان، بینا سرور، بشریٰ گوہر وغیرہ شامل ہیں جو اچکزئی، لدھیانوی، مفتی نعیم، حنیف جالندھری، فضل الرحمن، عمر چیمہ اور طلعت حسین کی جانب سے سیاسی طور پر بیدار اور متحرک خواتین کے خلاف اس زبان درازی پر خاموش ہیں
نواز شریف کی نمک حلالی میں سرگرم کمرشل لبرلز کا صحافتی بریگیڈ جس کی قیادت نجم سیٹهی کررہے ہیں اور مقتدیوں میں سلیم صافی، حامد میر، انصار عباسی، طلعت حسین، عمر قریشی، ضرار کھوڑو، نصرت جاوید سمیت بہت سارے لوگ شامل ہیں بے نقاب ہوچکا ہے- ایک اور سیکورٹی افئیرز کا نام نہاد ماہر عامر رانا آج ڈان اخبار میں اپنے اینٹی سنی بریلوی کالم سے ایکسپوز ہوا ہے، باقی فصلی بٹیرے بهی جلد ہی سامنے آجائیں گے پاکستانی قوم کو کمرشل لبرلز اور دیوبندی تکفیریوں کے اتحاد کی نقاب کشائی مبارک ہو
PTI’s musical concerts giving Achakzai sleepless nights
August 22, 2014, 3:05 pm INP 3
PTI\’s musical concerts giving Achakzai sleepless nights
ISLAMABAD- Mehmood Khan Achakzai, a senior National Assembly member, is restless and having sleepless nights.
Not because he is ill or suffering from insomnia but his sleepless nights are due to loud music being played every night just across the Parliament Lodges and in front of the Parliament House by Pakistan Tehreek-e-Insaf at its dharna. Being tired of his restlessness, today he made a public complaint via media. Achakzai said that parliamentarians were really disturbed because of the loud music played every night. I can’t sleep whole night,” he complained. He urged the government to get rid of these protestors by Monday.
http://www.nation.com.pk/national/22-Aug-2014/pti-s-musical-concerts-giving-achakzai-sleepless-nights?utm_source=twitterfeed&utm_medium=twitter&utm_campaign=Feed%3A+pakistan-news-newspaper-daily-english-online%2F24hours-news+%28The+Nation+%3A+Latest+News%29
This is why Mehmood khan achakzai want to save his and Nawaz Badshahat
https://twitter.com/AatifAzio/status/502790918412304384/photo/1
بے شرمی کی انتہا ہے کہ اس ملک میں سب سے زیادہ اکثریت رکهنے والے مکتبہ فکر صوفی سنی بریلوی لوگوں پر ایک دہشت گرد دیوبندی تنظیم بکواس کرتی ہے اور اس کی تائید ملا ڈیزل منافق دهڑلے سے کرتا ہے لیکن یہ لائن ان دونوں تنظیموں نے مسلم لیگ نواز سے لی کیونکہ میں نے قومی اسمبلی کے اجلاس کی جو کاروائی پی ٹی وی پر دیکهی تو وہاں مسلم لیگ نواز کے اراکین نے پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کی عورتوں کے بارے میں وہی ریمارکس استعمال کئے جو اے ایس ڈبلیو جے اور جے یو آئی ایف نے استعمال کئے
بلکہ ترقی پسند پشتون رہنما محمود اچکزئی جن کو آئین پسند بننے کے لئے آٹھ بڑے سرکاری عہدوں کی رشوت دینا پڑی ہے اب ایک قدم آگے بڑه کر وہ ملا ڈیزل کے ہم زبان ہوکر ملا محمود اچکزئی دیوبندی بن گئے اور وہ طاہر القادری پر تو برسے ہی ساتھ ہی قوالی و سماع و مل نغموں و پارٹی ترانوں کو انہوں نے مجرا قرار دے ڈالا ،شرم سے عاری محمود اچکزئی کی گندی فرقہ وارانہ زهنیت سامنے آگئی
اور وہ سب ترقی پسند بهی خاموش ہیں جنہوں نے مجهے اس وقت هدف تنقیص بنایا جب میں نے دہشت گردی میں ملوث تنظیموں کی دیوبندی فرقہ وارانہ شناخت ظاہر کی تو مجهے فرقہ وارانہ سوچ رکهنے کا حامی قرار دیا گیا ،ان میں کوئی ایک بهی اہل سنت والجماعت اور جے یو آئی ایف کی اس کهلی فرقہ وارانہ اور گندی عورت دشمن سیاست پر مذمت کرنے کو تیار نہیں ہے جس سے ان کے اپنے دوهرےپن اور منافقت کا پردہ چاک ہوا ہے
– See more at: https://lubp.net/archives/321036#sthash.tAPkiD61.dpuf
تحریک انصاف کی سیاسی خواتین کارکنوں پر تنقید اور شیر مارکہ لبرلز – عمار کاظمی
ان شیر مارکہ روشن خیالوں کو آجکل سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ اپنی کہی کس بات کا دفاع کریں اور کس بات کو چھوڑ دیں۔ ان کے ایک طرف مولوی قادری کے سٹیج پر کھڑا جے سالک ہے اور دوسری طرف گلے کاٹنے والی لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ کی جمہوریت پسند تنظیمیں۔ ایک طرف طالبان خان کے برانڈ نیم کے نیچے ناچتی گاتی یوتھ ہے اور دوسری طرف ناچ گانے کو زنا تعبیر کرنے والا ملا فضل الرحمن۔ ایسی دانش کے دیوالیہ پن کی شکار روشن خیال دانش کی مثال شاید ہی دنیا کے کسی اور خطے میں دیکھنے کو متلی ہوگی۔ مولوی قادری اپنی تقریروں میں پاکستان کی تمام اقلیتوں کے حقوق کی بات کرتا ہے مگر انھیں ہر حال میں اس کی مخالفت کرنی ہے۔ کیونکہ ان کے نزدیک وہ سکیورٹ اسٹیبلشمنٹ کا آدمی ہے اور جمہوریت کا تسلسل خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دوسری طرف ان کی پیاری کالعدم تنظیموں کی تحفظ جمہریت ریلیاں ہیں جو کہتے ہیں کہ اگر ناچ گانوں والا دھرنا ختم نہیں ہوا تو ان پر حملہ کیا جاءے گا۔ گلے کاٹنے والے جمہوریت پسند بن چکے ہیں لہذا ان کا ذکر اور ان پر تنقید ان کے لیے گناہ بن چکی ہے۔ اس دو نمبری سے بہتر ہے کہ یہ مولانا فضل الرحمن کے ہاتھ پر بعیت کر لیں۔ کیونکہ اس کا ساتھ دینے کے بعد انھیں دہشت گردی کے تربیتی مراکز کی دیواروں پر بنی حوروں کی تصویریں تو مل سکتی ہیں مگر دیکھنے کو ناچ گانا نہیں
کیا عمران خان طالبان کا حامی نہی???
کیا PTI کے دھرنے مکں لڑکیاں نہی ناچ کرتیں.???
کیا عمران خان کا یہ بیان ریکارڈ پر نہی موجود کہ میں معاویہ کی طرزِ حکومت قائم کروںگا…???
کیا عمران خان نے یہ دھمکی نہی دی تھی کہ اگر طالبان کے خلاف آپریشن کیا گیا تو ملک میں خانہ جنگی شروع ہو جائے گی…
نواز شریف کی طرح 48 گھنٹے کے بعد آپریشن ضربِ عضب کو عمران خان نے کب قبول کیا تھا…???
کیا محترم ڈاکٹر قادری اور عمران خان کی سوچ فکر اور سیاست کو ایک برابر قرار دیا جا سکتا ہے…???
امید ہے کہ ایک بلاگ میرے سوالوں پر بھی لکھا جائے گا…
On misogny and puritanism against women, music and dance in PAT and PTI’s sit-ins in Islamabad
Ayaz Amir
Boys and girls dance in the PTI rallies in Constitution Avenue, fume the clerics of the Jamiat Ulema-e-Islam led by Pakistan’s leading political acrobat, Maulana Fazlur Rehman, with his uncanny ability to be part of every power setup no matter what its colour or stripes. What should the boys and girls do instead? Attend tutorials in suicide bombing? Study how to make the most of diesel permits, the word diesel forever associated with the Maulana’s name?
What hypocrites are we dealing with here? On a TV talk show I had the misfortune to be part of, Senator Hafiz Hamdullah of the same party described the PTI ongoing rallies as a nightclub show. I looked up in surprise and asked the maulana that as a man of the cloth how did he know what a nightclub was? Had he ever been in one? Smirking, he gave no answer.
Maulana Fazlur Rehman has described the dharnas as an onslaught of ‘western culture’. At least he is being original, no one taking this line before. His problem is simple. Imran Khan’s PTI is now a power in Khyber Pakhtunkhwa where in happier times the Maulana stood tall and imposing. He doesn’t like this one bit. Hence his anger.
Mufti Muneeb-ur-Rehman who as head of the Ruet-e-Hilal Committee never fails to send the entire nation into fits of laughter as he squints into the telescope to see whether the Eid moon has arisen, has also denounced the PTI rallies. If he had come out in the PTI’s support, that would have been something to worry about.
We should understand this phenomenon. No self-respecting maulvi true to his calling can abide the spectacle of men and women enjoying themselves. Their stuff is hellfire and denunciation, not singing and dancing. And they have a problem with women. For some reason rooted deep in their understanding of theology, they want to keep them under lock and key. Venus has never been more triumphant than in the morbid nightmares of the ulema.
And it is not just the PTI rallies which they find so galling. Close by on the same Constitution Avenue is the massive sit-in of the Pakistan Awami Tehreek led by Allama Tahirul Qadri in which women, matrons and young girls, are to be found in great numbers. The PTI folk come and go, the PTI amphitheatre, for it looks like that, looking empty in the mornings but filling up in the evening. The thousands who are in the PAT sit-in have been camped there, facing great hardships, ever since the march from Lahore. Their discipline and dedication to their cause are something to be seen.
And Allama Qadri in speech after speech talks of gender equality and equal opportunities for women and even for minorities. For the typical maulvi subscribing to, say, Maulana Fazlur Rehman’s Takfiri Deobandi brand of Islam, this is subversive stuff, alien to all that in his narrow understanding of the faith he has believed in. No wonder hardline maulvis can barely contain their anger against both Imran Khan and the Allama.
– See more at: https://lubp.net/archives/321499?
———-
Dance, dance revolution
Sarwat Ali August 31, 2014 Leave a comment
How politics is being tarred by the brush of deep seated prejudice against certain artistic devices
There have been multiple reactions to the political rallies, demonstrations and the sit-ins held both by the Pakistan Tehreek-e-Insaaf (PTI) and the Pakistan Awami Tehreek (PAT). But the one constant pointed out and condemned by most from all sides of the political spectrum has been about the style adopted by the Pakistan Tehreek-e-Insaf in particular.
They have all focused on dance and so have cast the entire politic protest as being very frivolous. Thus, it can be argued that the political protest or the dharna became non-serious affairs because physical bodily movement was used. Similarly the presence of a large number of women, young women and those not from the slums, too initially evoked surprise, and then gradually the pleasant reaction turned into banter before it started to get nastier.
As if not to be kept out the Pakistan Awami Tehreek also organised a qawwali in the dharna; those media men monopolising the talk shows were initially baffled by this form included in the protest before they started to ridicule it on the basis that no serious political movement could make music its vehicle of dissent.
It may be said at the very outset that the writer has no sympathy with the political stand taken by the Pakistan Tekreek-e-Insaaf and the politics of the Pakistan Awami Tehreek in substance. But it is only surprising that the criticism from the other parties instead of being on substance — and there is plenty of meat in it to feed on — has unfortunately spilt over to mannerism and style. Politics at hand is being tarred by the brush of deep seated prejudice against certain artistic devices.
The reaction to music, dance and women is a reflection of the deep seated bias that this society at least the middle classes in this society have about the performing arts. Within no time people jump in their assumption from the practice to the practitioner and then feel great upliftment in slotting them. If they happen to be women then the slotting is easier done, and the case is rested through a said condemnation or an unsaid castigation through leery expressions and all knowing smiles.
Some of the most vibrant or intensely political movements have made dance their mode of expression, a protest or a style of defiance.
People find it difficult to come out or break the stereotype or a stock impression but find great solace in reaffirming a stated position. Some of the women politicians and commentators unfortunately were the most vocal, seeing their gender on the streets shunning inhibition to enjoy the street party. If nothing else their envy may have turned into a grouse.
In the psyche is embedded the image, the oft drummed view or an estimation that this society has nourished its norms with. Whenever any physical movement is seen, it is considered as an expression of leh o lab and hence enticing, — alluring and so frivolous as not to be worthy of adequate attention. Not meant to be taken seriously, it is merely light heartedness and a means of unwinding.
Some of the most vibrant or intensely political movements have made dance their mode of expression, a protest or a style of defiance. The most notable being the African National Congress. Dance accompanies it even now in both formal and informal occasions. One of the first gestures to be made by Nelson Mandela after he was released was the raised fist and then steps of the dance which had become the signature tune of movement/emblem of the African National Movement.
But people will say that all that may be integral to the African culture or acceptable in their daily lives but that does not mean it is universally applicable. People will say that what is right in Africa is not right in Pakistan, and the protest or the expression has to be culturally specific and acceptable.
Such narrow reading and acceptance of culture has been the bane of our society. The prejudice was rampant in alienating the Bengalis from the mainstream cultural expression of a united Pakistan. People came back from East Pakistan vexed to take a stated position of the Bengali society being too influenced by Hindu Culture. The acceptance of music and dance as part of everyday culture could not be digested by the Punjabi Pathan Inc and had to be denounced as the other.
The artistic devices are being used or employed in society all the time. It is music as in recitation of a text, the national anthem, a taranna or a slogan that is repeated, chanted or uttered in a charged fashion facilitated by versification.
The usual method of livening up a political rally or to make it an embedded memory, the slogan or the narra is endemic.
http://tns.thenews.com.pk/dance-dance-revolution-of-pti/#.VAwfFvldWSo
————-
Dharna dances — a parliamentary debate?
By Abdul Majeed Abid
In my opinion, one can disagree with the ‘dharnistas’ on dozens of accounts, without any mention of the term ‘vulgarity’. In Maulana Fazlur Rehman’s opinion, not so.
Yesterday, the JUI-F chief again invoked the ‘fahashi’ argument against men and women dancing at the Azadi march. And it wasn’t even a talk show this time; he was standing inside the Parliament House.
Some people went to the extent of filing a petition against the dharna’s ‘vulgarity’, which the Islamabad High Court thankfully rejected.
Who is to decide what does or does not constitute ‘vulgarity’ anyway? It’s a subjective notion, one lying ‘in the eyes of the beholder’.
The concept of ‘vulgarity’ is important only in bigoted, misogynist societies such as Pakistan.
People suffering from this mental state are shocked at the very sight of anything that’s not conforming to traditional norms.
For them, just seeing a woman outside her home is shocking enough; and any dress or activity which falls outside the purview of their self-styled moral values, is thought to be invoking the devil itself.
Such incidents, unfortunately, are hardly rare in Pakistan. Women are regularly harassed and punished by men for so much as talking to a man outside the house. It is these baser tendencies which lead to bigger evils like honour-killings and acid crimes.
Unlike most civilised societies, the concept of personal space is non-existent in our society. One can find people decrying vulgarity for a-dime-a-dozen in our alleys (and parliaments, as it appears).
I’m sure a major reason for that is the absence of entertainment places and the reluctance to travel abroad. Parks, waterways, cinemas, clubs, theatres, quality book-shops or similar places for public assembly are few and far between in even our major cities.
Instead, what we have is a multitude of gaudy shopping malls, ever increasing in number. The absence of genuine entertainment has resulted in stagnation and negative thinking.
In that, it is nigh impossible to broaden one’s horizons and explore the sheer diversity of values and ethics, which other people live with. Already no one from other countries is willing to come to our country and we no longer see any tourists on our roads.
The party-like environment in these dharnas proves that there is a desperate need for the government to increase entertainment opportunities for the masses. Based on anecdotal evidence, most of the dharnistas come to the late-night ‘festivals’ to enjoy and have some fun.
Read on: ‘Azadi’ March brings entertainment
If the youth, tired and sick of political theatrics, wants to dance to some music, why does that twist the knickers of our ‘moral guardians’? If women, who form half the population of this country, want to be a part of the political process, why does that fire up the mullahs?
Whatever the female workers of PTI do in their spare time should be of any concern to anyone; not to mention it is outright disgusting for anyone to allege them of obscenity.
In my humble opinion, this country needs more of social change than a political one.
This change should be against narrow mindsets. Right now, no political party seems interested at all in that cause.
I hope that Imran Khan will not remain silent on this moral and mental decline and will start a practical movement to eradicate this hypocritical mindset because the first requirement to ‘change the system’ is to ‘change the national mindset’.
http://www.dawn.com/news/1128777
ڈاکٹر قادری اور عمران خان کے دھرنوں سے گھبرا کر صحافی طلعت حسین محفل سماع اور قوالی کے خلاف خودکش حملوں کی دھمکیاں دینے لگے – خرم زکی https://lubp.net/archives/320903
تحریک انصاف کی سیاسی خواتین کارکنوں پر تنقید اور شیر مارکہ لبرلز – از عمار کاظمی https://lubp.net/archives/321314
تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں میں شریک خواتین پر شرمناک تنقید: جعلی لبرلز، اعتدال پسند مولوی اور ترقی پسند پختون قوم پرست بے نقاب ہوگئے – عامر حسینی https://lubp.net/archives/321182
A comment on Imran Khan and Tahir-ul-Qadri’s sit-ins in Islamabad – by Pejamistri https://lubp.net/archives/320490
تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنوں میں شامل خواتین کے بارے میں دیوبندی مولویوں اور کمرشل لبرلز کی بد زبانی – خرم زکی https://lubp.net/archives/321158
دیوبندی نواز حکومت کے ہاتھوں شہید ہونے والی ایک سنی صوفی کارکن عورت کے نام ایک نظم – از عامر حسینی https://lubp.net/archives/319857
Is it fair to criticize CM Pervez Khattak’s dance in the Islamabad sit-in? https://lubp.net/archives/320341
Activate all cadres to save democracy from Imran Khan and Tahir ul Qadri – by Samad Khurram https://lubp.net/archives/320510