جمہور کے بغیر جمہوریت کا دفاع – از عمار کاظمی
آجکل یہ دلیل بہت سننے کو مل رہی ہے کہ۔۔۔ اگر ریاست نے آج ایک گروہ کی بات مان کر وزیراعظم کو استعفی دینے پر مجبور کر دیا تو کل کوءی دوسرا ہجوم اکٹھا کر کے کسی دوسرے سے استعفی لینے آ جاءے گا۔ان حضرات سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ آپ لوگوں نے کچھ اسی طرح کی مثال قاءم کر کے جسٹس ڈوگر کو ذلیل کیا تھا۔ کیا افتخار چوہدری کے انتقامی انصاف کے بعد پیپلز پارٹی نے بھی اسے ہٹانے کے لیے کوءی لانگ مارچ کیا تھا؟ ہر وقت حالات ایسے نہیں ہوتے کہ عوام کی اتنی بڑی اکثریت کسی کے خلاف سڑکوں پر نکل آءے۔
میاں صاحبان کو جب مشرف نے دو بار اءیرپورٹ سے واپس بھیجا تھا تو کتنے لوگ سڑکوں پر نکلے تھے؟ عمران خان کی یہ ناسمجھی ہے کہ ان کے میاں صاحب کے استعفی کے مطالبہ میں انتخابی دھاندلی کے علاوہ کوءی معاشی ایجنڈا یا تنقید موجود نہیں۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ اتنے لوگ صرف انتخابی دھاندلی یا جمہوریت کے لیے سڑکوں پر نہیں نکلے ہیں۔ عوام انتخابی دھاندلی اور جمہوریت کے علاوہ بھی میاں صاحب کی بہت سی باتوں سے تنگ ان سے جان چھڑوانا چاہتے ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں پاکستان کے غریب بے روزگار عوام پر مہنگاءی کے پہاڑ گرا دیے گءے۔
بجلی گیس کی لوڈ شیڈنگ میں نہ صرف اضافہ ہوا ہے بلکہ وہ پہلے سے کہیں زیادہ مہنگی ہوچکی ہیں۔ غریب عادمی سبزی خریدنے کے قابل بھی نہیں رہا۔ فرقہ وایرت، اقلیتوں کی قتل و غارت اور ٹارگٹ کلنگ ہمیشہ کی طرح جاری و ساری ہے۔ منہاج القرآن کے لوگ دن دیہاڑے پنجاب حکومت اور پولیس کی دہشت گردی کا شکار ہوءے۔ ناکارہ نظام کی بے کار عدلیہ نے ان کا کیا بگاڑ لیا؟ اتنے لوگ ایسے ہی سڑکوں پر نہیں نکل آءے۔ اب اس طرح کی کارکردگی، سنگین اور جراءم کے بعد عوام اگر کسی طاہر القادری، عمران خان یا کسی بھی تیسری چوتھی قیادت کے پیچھے کھڑے ہو کر راہ نجات تلاش کرتی ہے تو اسے آپ غلط کیسے کہہ سکتے ہیں؟
دنیا کے تمام معاشروں میں اس طرح کی حکومتوں کے خلاف اسی طرح کا ردعمل سامنے آتا ہے۔ ہنسی آتی ہے جب مجیب الرحمن شامی، سراج الحق، نجم سیٹھی، امتیاز عالم وغیرہ کو میاں صاحبان کی بدترین کارکردگی، جعلی مینڈٹ اور اس کے نتیجے میں وجود میں آنے والی جمہوریت کا ایک ساتھ دفاع کرتے دیکھتا ہوں۔ یہ محض دو نمبر داءیں اور باءیں بازو کے دانشوروں کا بھوکا اور لالچی اتحاد ہے جو جمہوریت کی آڑ میں ایک ایسے نظام اور حکومت کی وکالت کر رہا ہے جو اپنی اہلیت کے تمام جواز کھو چکی ہے۔ جہاں میثاق جمہوریت ایک مثالی دستاویز تھی وہیں اس میں یہ خامی بھی سامنے آءی کہ اس نے “سجا کھبا، داءیان باءیاں” سب گڈ مڈ کر دیا۔ اب نہ کوءی نظریہ نظر آتا ہے اور نہ نظر۔
جمہوریت کا دفاع جمہور کے بغیر کیا جا رہا ہے۔ لاہور کے بے تاج بادشاہوں کے خلاف سب سے زیادہ لوگ لاہور میں سڑکوں پر نکلے۔ یہ نظام کا نہیں بد انتظامی اور نا اہلی کا دفاع ہے۔ کچھ لوگوں کا طاہرالقادری کے انقلاب مارچ پر یہ اعتراض بھی سامنے آیا ہے کہ وہ پاکستان مین مخصوس مکاتب فکر کی نماءیندگی کر رہے ہیں اس لیے اگر کل کو مولان فضل الرحمن یا حافظ سعید صاحب اپنے لوگوں کو میدان میں لا کر وزیر اعظم کے استعفی کا مطالبہ کریں تو ریاست کیا کرے گی؟ ان کے لیے عرض ہے کہ اگر ان لوگوں کے اتنے ہی بے گناہ لوگ مارے جاءیں اور انھیں مارنے والے کسی ایک دہشت گرد کو بھی اگر سزا نہیں ملتی تو انھیں بھی وزیراعظم سے استعفی مانگنے اور نظام کے خلاف کھڑا ہونے کا پورا حق حاصل ہونا چاہیے۔
اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے اور اپنی حاکمیت کی جنگ لڑنے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ یہ جو آج سنی بریلوی اکثریت، شیعہ، کرسچن اور دیگر اقلیتیں طاہرالقادری کے ساتھ کھڑی ہیں یہ پاکستان میں اپنی حاکمیت کا مطالبہ کرنے سڑکوں پر نہیں نکلیں۔ یہ دہشت گردی کا شکار وہ متاثرین ہیں جو اپنے لیے انصاف اور مساوی حقوق مانگ رہے ہیں۔ اگر کسی ملک کے ایک انسان کا بھی مساوی حقوق کا مطالبہ غلط سمجھا جاءے تو ایسی ریاست کو قاءم رہنے کا کوءی حق نہیں رہتا۔ تاہم بریلوی شیعہ عیساءی اور دیگر اقلیتوں سمیت اگر کوءی بھی مسلک یا مکتب فکر اپنے مساوی حقوق سے بڑھ کر دوسرے شہریوں کے حقوق سلب کرنے کی کوشش کرے تو اس پر گولی چلانے میں بھی کوءی حرج نہیں ہونا چاہیے۔
جہاں عمران خان اور طاہر القادری کے موجودہ مطالبات درست محسوس ہوتے ہیں وہیں ان سے ایک بڑے اور بنیادی اختلاف کا تزکرہ کرنا بھی ضروری ہے۔ یہ ثابت اور طے شدہ حقیقت ہے کہ ہماری پینسٹھ سالہ تاریخ کی بیشتر براءیوں اور کوتاہیوں میں کہیں نہ کہیں پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا دانستہ یا غیر دانستہ، بلواسطہ یا بلا واسطہ عمل دخل ضرور رہا ہے۔ اس لیے۔۔۔ “مجھے طاہرالقادری اور عمران خان پر اس کے علاوہ کوءی اعتراض نہیں کہ انھیں فوج پر کوءی اعتراض نہیں”۔ قادری صاحب نظام میں بہتری یا تبدیلی چاہتے ہیں مگر اس گلے سڑے بدبودار نظام میں فوج کا کردار بھی شامل ہے۔