گوجرانوالہ میں چار معصوم احمدیوں کا قتل اور پاکستانی معاشرے کے سنی و شیعہ مسلمانوں کی بے حسی – عامر حسینی

guj

ابهی ابهی مغربی میڈیا کے اہم اہم آن لائن اخبارات اور پاکستانی اخبارات کا مطالعہ کرکے فارغ ہوا ہوں پاکستان کے تمام اردو اخبارات نے فرنٹ پیج میں پیشانی کے قریب اور بعض نے اوپر کے کوارٹر پیج پر ایک طرف فلسطینیوں کے بارے میں یہ سرخی لگائی ہے کہ فلسطینی عیدالفطر کے دن بهی جنازے اٹهاتے رہے جبکہ روزنامہ ایکسپریس کے آن لائن ایڈیشن میں فرنٹ پیج پر پیشانی کے پاس بھی فلسطین کی خبر موجود ہے

لیکن کسی بهی اخبار نے گوجرانوالہ میں دو روز قبل دیوبندی جماعتوں کی قیادت میں احمدی کمیونٹی پر بلوے، گهروں کو نذر آتش کرنے ، لوٹ مار کرنے اور پچاس سالہ خاتون ،دو نوعمر بچیوں کے دم گهونٹنے سے موت واقع ہونے اور ایک خاتون کا حمل ضایع ہونے والے واقعہ کی خبر کو یا تو فرنٹ پیج پر جگہ ہی نہیں دی یا پهر ایک کالمی بہت ہی دبی ہوئی خبر شایع کی

اخبارات میں نمایاں ترین بیان عمران خان کا ہے لیکن وہ گوجرانوالہ میں احمدی کمیونٹی پر حملے کے حوالے سے نہیں بلکہ لانگ مارچ کے حوالے سے ہے

پی پی پی کے خورشید شاہ کا بیان بهی 245 آرٹیکل پر ہے اور احمدیوں پر ظلم کا قصہ گول ہے

پرویز رشید صاحب وفاقی وزیر اطلاعات کا بیان فرنٹ پیج پر ہے اور وہ عمران خان پر برسے ہیں، گوجرانوالہ کے مظلوم جاں بحق ہونے والوں اور لٹ جانے والوں کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی

پاکستانی میڈیا کے جن رپورٹرز نے اس خبر کو فائل کیا پتہ نہیں انہوں نے اپنی خبر میں احمدی کمیونٹی کی مذهبی پراسیکیوشن ،ان پر دہشت گرد حملوں کا تاریخی پس منظر کو درج کیا تها کہ نہیں لیکن کسی اخبار نے یہ نہیں لکها ہے کہ احمدیوں کے خلاف مذهبی پراسیکیوشن ،ان کو دہشت گردی کا نشانہ بنائے جانے کا سلسلہ نیا نہیں ہے بلکہ وہ پاکستان میں اسی طرح کی مارجنلائزیشن کا شکار ہیں جس طرح کی مارجنلائزیشن کا سامنا فلسطینی عرب اور برما میں روهینگا مسلمان کررہے ہیں یا ایک زمانے میں سیاہ فام اقوام کرتی رہی ہیں

پاکستان میں مذهبی فسطائیت کے بڑهتے ہوئے سلسلے اور بلوائی دهاوں کا زکر امریکی اخبار نیویارک ٹائمز ، واشنگٹن پوسٹ ، برطانوی اخبار ڈیلی انڈی پینڈنٹ ، ڈیلی ٹیلی گراف ،فرانسیسی اخبار لی ماند نے کیا ہے اور اعداد و شمار بهی دئے ہیں

نیویارک ٹائمز میں لاہور سے تعلق رکهنے والے وقار گیلانی کی رپورٹ شایع ہوئی ہے جنهوں نے لکها ہے کہ اس سال 86 احمدی قتل ہوچکے ہیں جبکہ یہی وقار گیلانی جو دی نیوز انٹرنیشنل اخبار سے بهی وابستہ ہیں وہاں یہ خبر اس طرح سے نہیں ہے

روزنامہ ڈان کی ویب سایٹ پر آج مین پیج پر اس خبر کا تذکرہ نہیں ہے جبکہ کل جب اس نے گوجرانوالہ میں احمدیوں کے گهروں پر ہوئے بلوے کا زکر کیا تها تو خود اپنے حوالے سے خبر دینے کی بجائے بی بی سی اردو کو اپنے سورس کے طور پر زکر کیا تها اس سے بین السطور اس اخبار نے اس خوف اور اندیشے کا اظہار بهی کیا جو اس معاملے پر زیادہ سٹینڈ لینے سے پیدا ہونے والے تشدد اور بلووں کا رخ اس کی طرف ہوجانے کی طرف اشارہ کرتا ہے

پاکستا ن کے تمام اردو و انگریزی اخبارات نے غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو عید کے روز بهی جاری رہنے کو نمایاں جگہ دی اس کے برعکس چاند رات کو احمدی کمیونٹی پر ٹوٹ پڑنے والی قیامت بارے سب نے یا تو خبر کو دبایا ہے یا اس کو بلیک آوٹ کردیا ہے

مذهبی اقلیتوں پر اب تک ہونے والے بلوائی حملوں میں خاص طور پر جو پنجاب میں ہوئے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے خاموش تماشائی بنے دیکهتے رہے اور ان میں مذهبی اقلیتوں کو بلوائی دهاوے سے بچانے کا جذبے کا فقدان دیکها گیا

دوسرا یہ کہ پنجاب حکومت نے اس سے پہلے ہونے والے بلوائی حملے کے ماسٹر مائینڈ اور دیگر ملوث افراد کو سزائیں دلوانے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا جبکہ ہماری عدالتوں کے اکثر جج صاحبان بهی مذهبی اقلیتوں کے بارے میں مذهبی تعصب اور شاونزم میں مبتلا رہے

احمدی کمیونٹی کو بہت زیادہ مارجنلائزیشن کا سامنا ہے اور اس کے خلاف تو ان کمیونٹیز کی جانب سے بهی اکثر و بیشتر منفی ردعمل سامنے آتا ہے جو خود مذهبی فسطائیت کے هاتهوں ذخم کهارہے ہیں

شیعہ کمیونٹی جس کے 22 ہزار افراد کو دیوبندی تکفیری دہشت گرد هلاک کرچکے ہیں کے اندر ایسے متعصب لوگ موجود ہیں جو احمدی کمیونٹی کے خلاف تکفیریوں سے مختلف خیالات کا اظہار نہیں کرتے بلکہ اپنے کسی ناقد کو زچ کرنا ہو تو اسے قادیانی اور صیہونی کہہ دیتے ہیں جبکہ صوفی اہل سنت بریلوی کے اندر بهی احمدی کمیونٹی کے بارے میں انتہائی منفی خیالات پائے جاتے ہیں اور ان کے اندر بهی لوگ احمدیوں کی مذهبی پراسیکیوشن کو جائز خیال کرتے ہیں

یہی وجہ ہے کہ جب بهی احمدیوں کے خلاف کوئی بهی بلوہ منظم ہوتا ہے تو شیعہ ، سنی ، دیوبندی ، وهابی سب ہی اس بلوہ کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرتے اور نہ اسے روکنے کی کوشش کی جاتی ہے

احمدی کمیونٹیز کا پاکستانی اردو میڈیا میں سخت بلیک آوٹ ہے اور ان کے حوالے سے کوئی مثبت خبر کبهی نہیں آتی

احمدی ریاستی اور معاشرتی طور پر مذهبی پراسیکوشن کا شکار ہیں یہ ایک ایسا بیان ہے جس کا جواب اگر پاکستانی رائے عامہ سے مانگا جائے تو کل آبادی میں چند درجن افراد ہی اس بیان کے نیچے دستخط کریں گے

جبکہ اگر سوال بدل دیا جائے اور احمدی کی بجائے لفظ فلسطینی ، کشمیری ، بهارتی مسلمان ، روهینگا مسلمان کردیا جائے تو دستخط لاکهوں میں ہونگے

میں حماس کی انتہا پسند آئیڈیالوجی پر میری تنقید پر لال پیلے ہونے والے لوگوں سے سوال کرتا ہوں کہ اگر صرف مظلوم کی حمایت مقصود ہے تو پهر گوجرانوالہ والے واقعے کے خلاف ایم ڈبلیو ایم ،سنی اتحاد کونسل ، شیعہ علماء کونسل ، جعفریہ الائنس کی جانب سے احمدی کمیونٹی کے ساته اظہار یک جہتی کے لیے کوئی ریلی یا کوئی پریس ریلیز ہی کیوں جاری نہ ہوئی ؟ چند سال قبل ایم ڈبلیو ایم کے امین شہیدی نے ایک ٹی وی پروگرام میں احمدیوں کے خلاف بہت نفرت انگیز باتیں کیں اسی طرح کی باتیں مولانا شہنشاہ نقوی اور فیصل رضا عابدی نے بھی کی ہیں – ایرانی آیت الله، شیعوں کو قتل کرنے والے دیوبندیوں سے تو گلے ملتے ہیں جبکہ پاکستان میں ان کے پیروکار احمدیوں کے خلاف نفرت انگیز باتیں کیوں کرتے ہیں

یہ سوال واقعی بہت چهبنے والے اور تکلیف دینے والے ہیں لیکن حق بات کہنے میں کوئی رشتہ کوئی ناطہ پاوں کی زنجیر نہیں بننا چاہئیے

ابهی چند دن پہلے جب کراچی میں مبارک حیدر کاظمی سمیت چار شیعہ قتل ہوئے تو فیس بک ، ٹوئٹر اور دیگر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بنے شیعہ آفیشل پیجز دهڑا دهڑا احتجاجی پیغامات اور لعن طعن شروع ہوگئی تهی اور میں نے بهی اس حوالے سے کافی مذمت کی تهی

لیکن کل جب احمدی کمیونٹی سے یہ کهلواڑ ہورہا تها تو کسی معروف شیعہ آفیشل پیج نے اس پر شور نہیں ڈالا اور کسی ایک جگہ بهی نہ تو روڈ بلاک کرکے ٹائر جلائے گئے اور اس بلوے کے خلاف احتجاج منظم کیا گیا

یہ رویہ ہرگز ٹهیک نہیں ہے اور اسے درست کرنے کی ضرورت ہے ،ہمارے شیعہ بهائیوں کو عراقی شیعہ سے سبق لینا چاہئیے جنهوں نے موصل سے بے دخل ہونے والے کرسچن بهائیوں کے لئے نجف اشرف میں روضہ امام علی کے دروازے کهول دئےہیں جبکہ گوجرانوالہ میں تو ان احمدیوں کے 7 سے 8 گهروں کو اہل محلہ نے بهی جلنے سے نہ بچایا اور کوئی ایک بهی شیعہ تنظیم ان کو بچانے کے لئے آگے نہ آئی

اہل سنت بریلوی جن کی اکثریت گوجرانوالہ میں ہے ان کے علماء اور بااثر لوگ بهی اس بربریت کو روکنے کے لئے نہیں آگے آئے

گوجرانوالہ میں اہل حدیث بهی کافی تعداد میں اور طاقت ور ہیں لیکن ان کی جانب سے بهی خاموشی رہی

میں یہاں زاہد الراشدی مہتمم نصرہ العلوم سمیت کئی ایک باثر دیوبندی مولویوں کا نام جان بوجه کر نہیں لے رہا ہوں کیونکہ یہ تو شیعہ نسل کشی کے زمہ دار خلیفہ قیوم آف ڈیرہ اسماعیل خان سے ملتے اور ان کی کمر ٹهونکتے ہیں ان کو بهلا کسی مذهبی اقلیت کے ظلم کا نشانہ بننے کی کیا پرواہ ہوگی

آج پاکستان میں مظلوموں کی بلارنگ و نسل مذهب جنس فرقہ زات پات حمایت کرنے کا ایک صلہ آپ کو یہ ملتا ہے کہ اگر مظلوم شیعہ ہوا تو پهر آپ رافضی و ایرانی ایجنٹ ٹهہرے اور اگر احمدی مطلوم ہوا تو پهر آپ ایجنٹ قادیان ہوئے اور اگر آپ نے کسی یہودی یا کسی کرسچن کی مظلومیت پر بات کی تو پهر آپ یہود و نصاری کے ایجنٹ اور اگر کسی ہندو کے حق میں اواز اٹهائی تو پهر آپ را کے ایجنٹ اور اگر آپ نے کسی بلوچ کے حق میں بات کی تو پهر افغان راما یا را و سی ائی اے کے تنخواہ دار ٹهہرجاتے ہیں

یہاں سب اپنے اپنے فرقوں کی علامتوں سے مزین لاشے اٹهائے پهرتے ہیں اور ہر ایک دوسرے کے دکھ اور غم کو نسیا منسیا کرنے کے درپے ہے اور مظلوموں کے درمیان بهی ستم تو دیکهیں تکفیر ایک دیوار کهڑے کئے ہوئے ہے

میں کہتا ہوں کہ اگر شیعہ اور سنی مسلمان، دیوبندی وهابی تکفیریت کے خلاف اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال کر ایک پلیٹ فارم پر آسکتے ہیں تو یہ دونون احمدی برادری کی نسل کشی اور مذهبی پراسیکوشن پر کیوں ایسا ہی موقف اختیار نہیں کرتے

یقینی طور پر جو تنگ نظر سنی صوفی اور شیعہ، احمدیوں کے خلاف نفرت انگیز باتیں کرتے ہیں اس کے نتیجے میں کچھ بریلوی اور شیعہ بھی دیوبندیوں کے جلوس میں شامل ہو کر احمدیوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں جس کی ذمہ داری تکفیری متعصب بریلوی اور شیعہ مولویوں کے کاندھے پر ہے

مسلمان کہتے ہیں کہ اسلام اپنے اپنے عقیدے کے ساته لوگوں کو جینے کی اجازت دیتا ہے تو پهر یہ مزهبی آزادی ان کے ملکوں میں مذهبی اقلیتوں کے پاس کیوں نہیں ہے
اور اسلام کہتا ہے کہ جو کسی کو جان بوجھ کر بغیر حد شرعی کے قتل کرتا ہے وہ ہمیشہ جهنم میں رہے گا

یہ وعید مسلم ممالک کے اندر مذهبی بلوہ گیری کو روکنے میں کارگر کیوں نہیں ہورہی ؟

90911

 

Comments

comments

Latest Comments
  1. gowalmandia
    -
  2. Vision of Iqbal aka Imam Allama Jawad Naqvi
    -
  3. Sarah Khan
    -
  4. GOWALMANDIA
    -
  5. Bhangvi
    -
  6. Rafique Farooqi
    -