مجید نظامی اور کچھ تلخ حقائق – از عامر حسینی
سانگلہ ہل سے مہاجر ہوکر آنے والا نظریاتی صحافی پچهلے دنوں انتقال کرگیا تو ظاہر ہے اس بات کا ایک مرتبہ پهر اظہار ہوا کہ
ہر شے ہلاک ہونے والی ہے اور باقی رہنے والی زات تو رب زوالجلال کی ہے لیکن اس خود ساختہ مہاجر کی زات اور صحافت کے بارے میں لکهنے والوں نے جہاں اس کی شان میں زمین و آسمان کے قلابےملائے تو وہیں پر بار بار اسے ضیاء الحق کی آمریت کا سب سے بڑا مخالف اور جنرل ضیاء الحق کے سامنے واحد کلمہ حق بیان کرنے والا صحافی ،اخباری مالک بناکر بهی مسلسل پیش کیا گیا
مجهے انتظار تها کہ کوئی تو اس اخبار کے اس مرحوم ہوجانے والے چیف ایڈیٹر اور اس اخبار کے ماضی کے بارے میں نئی نسل کے سامنے سچ بولنے کی ہمت کرے گا لیکن شاید اب کوئی شورش کاشمیری ،صفدر میر ،سردار مظہر علی ،ضمیر نیازی ہم میں نہیں بچا جو سچ بولنے کی ہمت کرے
نوائے وقت کی پرانی عمارت ٹمپل روڈ پر واقع ہے اور یہ متروکہ املاک میں سے تهی اور اسے حمید نظامی مرحوم نے اس بنیاد پر الاٹ کرایا کہ وہ مہاجر ہیں جبکہ ان کا آبائی شهر سانگلہ ہل میں تها جوکہ فیصل آباد سے کچه فاصلے پر واقع ہے اب یہ معمہ آج تک حل نہیں ہوسکا کہ سانگلہ ہل سے لاہور آنا کون سی ہجرت تهی جو نظامی خاندان نے کی اور بدلے میں یہ عمارت ان کو الاٹ ہوگئی
مجید نظامی بار بار نظریاتی اور ایماندار صحافت کی بات کرتے تهے اور ان کے چیلے بهی اپنے گرو کے ان جملوں کی بار بار جگالی کرتے ہیں لیکن اگر اس اخبار کی موقعہ پرستی اور مفادات کی خاطر قلابازیاں کهانے کی تفصیلی روداد پڑهنی ہو تو زاہد چوہدری جوکہ نوائے وقت کے چیف رپورٹر بهی رہے کی مرتب “پاکستان کی سیاسی تاریخ ” میں پنجاب ،بلوچستان ،بنگال ،خیبرپختون خوااور اس کی 12 ویں جلد پڑهنا ہی کافی ہوگی
جبکہ انعام کی سٹاپ دی پریس ،ضمیر نیازی کی صحافت پابند سلاسل ،حکایات خون چکاں ،انگلیاں فگار اپنی ، پڑه لیں صاف پتہ چل جائے گا کہ اس دعوے نظریاتی صحافت کے پیچهے کے کیا کیا چهپا ہوا تها اس اخبار نے بنگالی،پختون ،بلوچ ،سندهی اور آخر میں سرائیکیوں کی شناخت ،ان کے آئینی جمہوری حقوق کو منافی اسلام قرار دیا اور ساری عمر مجید نظامی صوبائی خود مختاری کو پاکستانی نیشنلزم کے خلاف قرار دیتے رہے
یہ اخبار احمدیوں کے خلاف چلنے والی دہشت گرد انتہا پسند تحریک کا حامی بنا رہا دلچسپ بات یہ ہے کہ جنرل ضیاء کے خلاف سب سے زیادہ کلمہ حق بولنے کا دعوے دار مجید نظامی کا اخبار جنرل ضیاء کا پسندیدہ اخبار تها ،جنرل مجیب وزیر اطلاعات کا یہ اخبار چہیتا اخبار تها سب سے زیادہ سرکاری اشتہارات اسے ملتے تهے ،کئی وزراتوں کی اید کمپئن اسے ملتی رہی ،نیوز پرنٹ کوٹے میں اس پر سب سے زیادہ عنایات ہوا کرتی تهی اور نوائے وقت نے ضیاء دور میں کئی ایک نئے اسٹیشنوں سے اپنی اشاعت کا آغاز کیا اور جنرل ضیاء اس کو فروغ صحافت میں حکومت کے تعاون کا نتیجہ کہتا تها
یہی مجید نظامی تهے جنهوں نے لشکر طیبہ اور ضرب مومن جیسی کالعدم تنظیموں کے لوگوں کو اسلامی و جہادی صحافت سکهانے کے لئے کمربستہ ہوئے اور ان کی معیت میں مجیب الرحمان شامی ،اوریا مقبول جان ،انصار عباسی چوبرجی مسجد قادسیہ جاکر حافظ سعید کے چیلوں کو جہادی صحافت سکهاتے رہے
مجید نظامی اور ان کے بڑے بهائی حمید نظامی دونوں کے دونوں اسلام ،دو قومی نظریہ اور پاکستانی نیشنل ازم کی آڑ میں پنجابی شاونزم کو بهی بہت مہارت سے پهیلاتے تهے اور پنجابی شاونزم کا سب سے بڑا هتیار ہمیشہ دو قومی نظریہ ،اسلام اور اردو رہا ہے اور نوائے وقت اس کا استعمال کرنے میں طاق رہا
مجید نظامی اور ان کے اخبار نے اپنے مربی جنرل ضیاء الحق کے طیارے میں پهٹ جانے کے بعد بهی فوج اور دائیں بازو کے گهوڑے نواز شریف سے عهد وفا استوار کرلیا اور وہ مجید نظامی نے آخری سانس تک استوار رکها لیکن یہ بهی حقیقت ہے جب نوائے وقت کا ٹائی ٹینک ڈوبنے والا تها تو یہ نواز و شهباز تهے جنهوں نے اس ٹائی ٹینک کو ڈوبنے سے بچایا
ضیاء دور میں ہی فیض نوائے وقت میں غیر اعلانیہ طور بین کردئیے گئے ان کا نام تک چهاپنا نوائے وقت کو گوارا نہیں تها
نظریہ پاکستان ٹرسٹ بناکر پاکستان کی نوجوان نسل کو تاریخ کے نام ہر جہالت ،بنیاد ہرستی ،نسلی و مذهبی شاونزم کے رستے پر ڈالنے کا مجید نظامی کوجنون تهااور اس دوران سرکاری مراعات اور انتہائی قیمتی اراضی پر عمارت بهی تو مفت میں هاته آگئی تهی اس لئے کہتا ہوں کہ مجید نظامی تاریخ کے آئینے میں جیسا نظر آتا تها ویسے ہی بیان کردیں یہ اس قوم پر احسان ہوگا
لفظ زات نہیں ذات ہوتا ہے۔ براہ کرم اصلاح کرلیں۔ اس پیج کے تقریباً تمام مضامیں میں اغلاط کی بھرمار پائی جاتی ہے۔ اس پیج پہ پیش کیے جانے والے خیالات کی نسبت ان اغلاط سے زیادہ کوفت ہوتی ہے۔
والسلام