عراق میں ابو بکر البغدادی السلفی کی خلافت کا اعلان اور مزارات کا انہدام، اسلامی تاریخ کی روشنی میں – علامہ ڈاکٹر راجہ مظہر علی خان الازہری
عراق، شام اور مشرق وسطی کے دیگر ممالک اور افریقہ میں نائجیریا ، ٹمبکٹو ، صومالیہ ، لیبیا اور جنوبی ایشیا میں پاکستان ، افغانستان ، بهارت ، بنگلہ دیش وہ ملک ہیں جہاں پر عالمی وہابی دیوبندی تکفیری خارجی دہشت گرد تنظیموں نے انبیائے کرام ، اہل بیت اطہار ، اصحاب رسول ، تابعین و تنبع تابعین اور دیگر صالحین امت اسلامیہ کے مزارات پر حملے اپنا شعار بنالیا ہے اور وہ وہاں پر مزارات کے گنبدوں کو بموں سے اڑاتے ہیں اور قبور کو ہتهوڑوں سے توڑ کر زمین بوس کرتے ہیں اور اس پر نعرہ تکبیر بهی بلند کرتے ہیں اور ان کا کہنا یہ ہے کہ وہ ایسا کرتے ہوئے سنت رسول پر عمل کررہے ہیں اور وہ خود کو ناموس صحابہ کرام رضی الله عنہم کا پاسبان بتلاتے ہیں اور احادیث رسول صلی الله علیہ والہ وسلم کا سب سے بڑا شناسا بهی کہتے ہیں
ابهی حال ہی میں آئی ایس جوکہ داعش کے نام سے معروف ہے نے اپنے خارجی العقیدہ ابوالبکر البغدادی السلفی کو مسلمانوں کا خلیفہ قرار دیا اور سب مسلمانوں کو کہا کہ وہ اس کی بعیت کریں اور اسے اپنا خلیفہ مان لیں تو اس حوالے سے آئی ایس نے ابوالبکر البغدادی کی خلافت کے جواز کے حوالے سے جو فتوی جاری کیا اس میں آئی ایس کے جاهل مفتیان نے یہ کہا کہ وہ اس وقت کرہ ارض میں واحد گروہ ہیں جن کا عمل اس عقیدہ کے عین مطابق ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ،محمد اللہ کے رسول ہیں
ان کا کہنا ہے کہ وہ ایسا گروہ ہے جو نہ تو دعائے غیر اللہ کا قائل ہے ،نہ ہی توسل بالرسول و باهل بیت و بالصالحین و زوار القبور الصدیقین و الشهداء والصالحین امہ کا قائل ہے بلکہ اسے شرک خیال کرتا ہے اور اسی لئے وہ مشرکین سے جنگ کرتا ہے ،ان کے طاغوت کی قبور کو منهدم کرتا ہے اور شرک کے مرتکبین کو قتل کرتا ہے
آئی ایس کا کہنا ہے کہ اس کا عقیدہ توحید بالکل درست ہے اسی لئے اللہ ان کے ساته ہے اور ان کو فتح و نصرت دے رہا ہے اور فرشتے ان کی نصرت کے لئے زمین پر اتررہے ہیں
آئی ایس کی طرح تحریک طالبان پاکستان و افغانستان کا ایک آفیشل پیج الامارہ الاسلامیہ کے نام سے موجود ہے جو افغان نیشنل آرمی ، پاکستان آرمی اور کئی ایک مسلم مسالک کو مرتدین میں شمار کرتا ہے اور ان کو مشرک و بدعتی قرار دیکر ان کے خلاف اعلان جنگ کئے ہوئے ہے حالنکہ افغان نیشنل آرمی ہو یا پاکستان آرمی دونوں کے افسران و سپاہی کلمہ طیبہ پڑهتے ہیں اور شعائر اسلام ہر کاربند ہیں
مسلم آبادی جہاں بهی موجود ہے وہاں پر عالمی وهابی دیوبندی دہشت گردی اور انتہا پسند فاشزم موجود ہے جو وہاں کی اکثر مسلمان آبادی کے اسلام کو شرک اور بدعت سے تعبیر کرتا ہے اور ان سے آمادہ جنگ ہے اور خون ریزی کا بازار گرم کئے ہوئے ہے
یہ گروہ اپنے باطل اور فاشسٹ نظریات کو جب قرآن اور حدیث کا نام دیتا ہے اور اپنے ٹهیک ہونے کا دعوی کرتا ہے تو اس کے جواب میں دنیا بهر میں اہل سنت اور اہل تشیع جو اسلامی تاریخ کے دو قدیم ترین مسالک ہیں کے علمائے اسلام اور ماہرین تاریخ بهی جواب میں اس گروہ کی مماثلت قدیم کتب ہائے رتواریخ اسلام میں تلاش کرتے ہیں اور شواہد پیش کرتے ہیں کہ کیسے یہ گروہ هائے نام نہاد پاسبان خلافت و الاسلام اصل میں اس گروہ سے مماثل ہیں جسے خود پیغمبر اسلام نے دین سے ایسے خارج قرار دیا تها جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے اور ان کو قرن الشیطان قرار دیا تها
ایسا ایک واقعہ کتب هائے احادیث میں درج ہے کہ ایک شخص قبر رسول صلی الله علیہ والہ وسلم سے لپٹ کر فریاد کررہا تها تو مروان بن حکم قاتل صحابی رسول و صاحب من عشرہ مبشرہ حضرت طلحہ و قاتل سبط رسول امام المشرقین و المغارب امام حسن بن علی بن ابن ابی طالب نور اللہ مرقدهم وقاتل ام المومنین و زوجہ الرسول فداک ابی و امی عائشہ بنت ابی ابکر صدیق خلیفہ اول فی الاسلام رضی الله آیا اور اس نے غضب ناک ہوکر اس شخص کو کہا کہ تمہیں پتہ ہے تم کیا کررہے ہو ؟ اس شخص نے سر اٹهایا تو وہ شخص صحابی رسول من السابقون والاولون من المهاجرین والانصار حضرت ایوب انصاری تهے جو صاحب بیعت تحت شجرہ بهی تهے اور انصار کے اس گروہ اول سے تعلق رکهتے تهے جنهوں نے سب سے پہلے اہل مدینہ میں سے رسول اللہ کی بیعت کی تهی جو بیعت عقبہ اولی کے نام سے مشہور ہے گویا یہ مروان بن حکم جیسے قاتل اصحاب رسول تها جس کے نزدیک قبر رسول سے تمسک کرنا شرک تها اور گناہ تها جبکہ یہ صحابی رسول تهے جن کے نزدیک یہ بالکل ٹهیک کام تها
یہ مروان کون ہے؟ یہ وہ ہے جس کو اس کے باپ سمیت رسول اللہ نے خلیفہ ثالث و صاحب من عشرہ مبشرہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے کہنے ہر قتل کے احکام واپس لئے تهے ورنہ رسول اکرم نے چند ایسے لوگوں کا فتح مکہ کے موقعے پر قتل کا حکم دیا تها جو قابل معافی نہیں تهے چاہے وہ غلاف کعبہ کے پیچهے ہی کیوں نہ چهپ جائیں ان میں مروان اور اس کا باپ بهی شامل تها اور جب یہ خلیفہ ثالث کے دور میں واپس مدینہ آئے تو ان کی سازشوں اور فتنہ گری سے خلیفہ ثالث کا قتل ہوا اور پهر جنگ ج ک و صفین سے لیکر قتل طلحہ و زبیر بن عوام ،امام حسن ،عائشہ صدیقہ ،عمار یاسر رضی الله عنہم سمیت درجنوں جید اصحاب رسول کا قتل مروان کی سازشوں کا نتیجہ تها
رسول کریم نے حکم اور اس کی اولاد کے لعنتی ہونے کا فرمان بهی جاری کیا تها یہ فرمان امام حسین نے مروان کے سامنے اس وقت دوهرایا تها جب اس نے دوران مکالمہ امام حسین کو معاز اللہ لعنتی کہا تو امام حسین نے فرمایا کہ ہم وہ ہیں جن کو پیغمبر نے اپنی چادر میں چهپایا اور قرآن نے ہمارے حق میں آیت مودت القربا و آیت تطهیر نازل فرمائی اور تمہارے بارے میں میرے نانا نے کہا تها کہ یہ لعنتی ہیں تو تاریخ سے انتہائی مستند زریعہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مروان تها جو تمسک بالقبر رسول کو برا فعل خیال کرتا تها
احادیث بخاری و مسلم و دیگر کتب هائے حدیث میں درج ہے کہ رسول کریم ہر سال شهدائے احد کی قبروں کے پاس اجتماع عام منعقد کرتے تهے اور باقاعدہ منبر لگا کرتا تها اور اس موقعہ پر آپ خطاب کرتے فضائل شہدائے بنو هاشم و دیگر کا زکر ہوتا اور یہ معمول وفات رسول تک برقرار رہا اور تفصیل سے آخری اجتماع ماقبل وفات رسول کا زکر بخاری و مسلم میں موجود ہے
اصحاب رسول کا معمول تها کہ جب کبهی وہ مدینہ سے باہر تشریف لیجاتے تو جانے سے پہلے قبر رسول پر حاضری دیتے اور ازن سفر طلب کیا کرتے تهے
تاریخ میں پہلا شخص جس نے زیارت قبر رسول کے قصد کو حرام اور بدعت قرار دیا وہ شیخ ابن تیمیہ تها جس کی کتب کی بنیاد پر امام الاوهابیہ محمد بن عبدالوهاب نجدی نے اپنے تکفیری اور خوارجی نظریات پهر سے ترتیب دئے اور عجیب و غریب عقائد توحید و رسالت ایجاد کئے جن کی نظیر نہ تو محمد رسول اللہ کے ہاں ملتی ہے نہ ہی اہل بیت اطهار ،نہ ہی اصحاب رسول کے ہاں ملتی ہے
شیخ ابن تیمیہ ، محمد بن عبدالوهاب نجدی ، شیخ اسماعیل دہلوی کے عقائد اور جملہ امت مسلمہ کو مشرک و بدعتی قرار دینے والے نظریات کے خلاف علمائے اہل سنت و اہل تشیع نے ہزاروں کتب تحریر کیں اور خلافت عثمانیہ کے زمانے تک اور ہندوستان میں مغلیہ دور تک ان کے گمراہ نظریات کی پیروی کرنے والوں کا قلع قمع کردیا گیا تها یہ بہت تهوڑی تعداد میں رہ گئے تهے
لیکن پہلی جنگ عظیم میں جب سلطنت عثمانیہ نے جرمنی کا ساته دیا اور جرمنی شکست کها گیا تو برطانیہ اور فرانس کے درمیان سلطنے عثمانیہ کی تقسیم کا ایک معاہدہ طے پاگیا جس کی رو سے حجاز ،میسیپوٹیمیا ،مصر برطانیہ کے حصے میں آگیا جبکہ اردن ،شام ،لبننان فرانس کے قبضے میں گئے اور اسرائیل کے نام سے نئی ریاست تخلیق کی گئی
برطانوی سامراج نے حجاز کو ابن سعود کو دینےکا فیصلہ کیا اور ابن سعود کی وہابی فورسز کو مدد فراہم کی جس نے پورے حجاز پر 1925ء کو قبضہ کرلیا اور وهابی ازم کو حجاز پر زبردستی مسلط کردیا
یہ وہی دور ہے جب ہندوستان میں تحریک خلافت کو چلے پانچ سال ہوچلے تهے اور جب حجاز پر ویابیہ کے قبضے کی خبر ہندوستان آئی اور اس دوران وهابی تحریک کی شعائر اسلام سے دشمنی کا خود مفتی ہند دارالعلوم دیوبند کے مہتمم محمود حسن بانی جمعیت العلمائے ہند کو بهی بخوبی علم تها جو جب حجاز میں تهے اور وهابی تحریک کا پہلا حملہ ہوا تو ان سے کہا گیا کہ وہ عثمانیوں کے خلاف وہابی تحریک کے حق میں فتوی دیں تو انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا اور اس تحریک کو سامراج کی پٹهو قرار دیا اور اسلام دشمن بهی
تحریک خلافت حجاز میں وهابیت کت قبضے کے بعد تحریک تحفظ مقامات مقدسہ حجاز میں بدل گئی کیونکہ وہابی فوجوں نے پعرے حجاز میں اور مکہ میں جنت معلی میں قبور کو زمین بوس کیا ،کئی اصحاب رسول ،امهات المومنین کے مکانات گرادئے گئے ،قصیدہ بردہ شریف نذر آتش کردیا گیا
پهر 1926ء میں ایک وفد سعودیہ عرب مولانا محمد علی جوہر کی قیادت میں حجاز گیا اور ابن سعود سے ملاقات کی ابن سعود سے وہاں پر پوری دنیا کے نمائندہ مسلم علماء کے وفود سے ایک معاہدہ ہوا کہ مکہ میں جنت معلی میں وبور کو ہهر سے تعمیر کیا جائے گا ،جنت البقیع کے مزارات گرائے نہیں جائیں گے اور دیگر ثقافتی اہمیت کی حامل عمارتوں کو بهی برقرار رکها جائے گا اور مکہ و مدینہ کا انتظام و انصرام مسلمانوں کی ایک نمائیندہ کونسل چلائے گی جس مین تمام مکاتب فکر کی نمائیندگی ہوگی لیکن ابن سعود نے ایک وعدہ بهی ایفاء نہ کیا اور خود 1960ء میں جب شبیر عثمانی نے دیوبندی مولویوں کے ایک وفد کے ساته سعودی عرب کا دورہ کیا تو واپسی پر ہی دیوبندی مولویوں کا سعودی عرب کی حکومت کے بارے میں موقف بدل گیا اور 80ء میں یہ تعلق سٹریٹجک تعلق میں بدل گیا
ہندوستان میں وہابی ازم کی پرورش ایسٹ انڈیا کمپنی نے پنجاب ،اس سے ملحقہ سرحدی پٹهانوں اور افغانستان کو کالونی بنانے کے لئے کی اور اس نقصد کے لئے شاہ اسماعیل دہلوی اور سید احمد بریلوی اس کے لئے بہت کاآمد ہوئے جن کی وہابی نظریات پر مبنی تحریک جہاد کا رخ انگریزوں نے پنجاب اور سرحد کی طرف کیا لیکن پنجاب و سنده و سرحد پر برطانوی قبضے کے بعد وہابی عقائد و نظریات تحریک جہاد سے غائب یوگئے اور اس روایت کو مفتی محمود حسن ،ان کے شاگرد عبیداللہ سندهی ،شیخ الاسلام حسین احمد مدنی نے جدید بنیادوں پر سامراج مخالف ،سوشلسٹ و ہندوستانی قوم پرستی کی شکل دے ڈالی لیکن دیوبندی تحریک میں تکفیری خارجی وہابی جراثیم موجود رہے اس کی وجہ یہ تهی کہ شاہ اسماعیل اور سید احمد کی پرستش جاری رہی تو یہی جراثیم 80ء کی تاریخ میں بہت وسعت کے ساته پهیلے اور آج کی دیوبندیت اوروہابیت میں عقائد کے باب میں تکفیری و خارجی سوچ کا غلبہ اور پهیلاو بہت زیادہ ہے اور اس میں سعودی امداد کا فنڈنگ کا هاته بہت زیادہ ہے
اور آج اس کے سب سے زیادہ تباہ کن ماڈل آئی ایس ، طالبان ، لشکر جهنگوی، القائدہ و نصرہ وغیرہ ہیں اور ان سے خود ان کے مربیوں کے اقتدار خطرے میں پڑگئے ہیں – میں کہتا ہوں کہ دیوبندی مکتبہ فکر میں جن جید علماء سے یہ توقع کی جاسکتی تهی کہ وہ اپنے نوجوانوں کو ایک بے مقصد خونین جنگ کا ایندهن بنانے کی بجائے ان کو اس آگ سے بچائیں گے وہ بهی سعودی عرب کی پراکسی وار کے پروموٹر بن گئے اور اس کے پیچهے معاشی فوائد اور مراعات کارفرما ہیں اور وہ اس آگ کو سرد کرنے کی بجائے اس پر مزید تیل ڈال رہے ہیں اور ان کی اس کوشش سے ہزاروں دیوبندی نوجوانوں کا مستقبل تاریک ہوگیا ہے جس پر تاریخ ان کو معاف نہیں کرے گی ان کو مصلحت ،خوف اور مفاد پرستی کے دائرے کو توڑ کر باہر آنا چاہئیے اور سچے دل سے واعتصموا بحبل اللہ ولاتفرقوا پر عمل کرتے ہوئے تکفیر و خارجیت کے خلاف سچ بولنا چاہئیے اور ہر ایک سپاہ کو اپنی صف سے باہر نکال دینا چاہئیے
آئی ایس ، طالبان ، سپاہ صحابہ ، لشکر جهنگوی ان سب پر دیوبندی مدارس اور مساجد میں پابندی ہونا چاہئیے اور ان کے خلاف بهرپور تحریک علمائے دیوبند کو چلانی چاہئیے تاکہ فساد کا خاتمہ ہوسکے
نوٹ: یہ خیالات تاریخ تقابل ادیان کے سکالر علامہ راجہ مظہر علی خان کے ہیں جو آج کل راولپنڈی میں مقیم ہیں اور ان کا آبائی تعلق جہلم سے ہے اور جامعہ ازهر مصر سے انہوں نےتاریخ تقابل ادیان میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے اور وہ مڈل ایسٹ ،جنوبی ایشیاء میں کئی ایک بین الاقوامی جامعات کا دورہ اور خطاب کرچکے ہیں، بہت درویش صفت انسان ہیں سلسلہ قادریہ و چشتیہ سے وابستہ ہیں – تدوین عامر حسینی
اچهی بقواص کی ہے …..داعش زندہ باد