طالبان اور سپاہ صحابہ کےدیوبندی عسکریت پسند اب اسلام کی بجائے پشتون نسل پرستی کی دہائی دے رہے ہیں – سلیم صافی

safi
ایک خطرناک رجحان تحریک طالبان پاکستان کی صفوں میں لسانی جذبات کا فروغ ہے ۔ جب تک القاعدہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی تھی‘ تو تحریک طالبان کے لئے لسانی بنیادوں پر بات کرنا مشکل تھا اور تب تک اس پر عالمی اسلامی (سلفی و دیوبندی) رنگ غالب تھا اور امت مسلمہ کے تصور پر زیادہ زور دیا جارہا تھا لیکن اب جوں جوں القاعدہ افغانستان اورپاکستان کے قبائلی علاقے سے باہر منتقل ہورہی ہے ‘ توں توں یہاں قوم پرستی کے جذبات فروغ پارہے ہیں ۔ اب گاہے بگاہے پاکستانی طالبان اپنے خلاف کارروائیوں کو پختونوں کی نسل کشی کا نام دینے لگے ہیں ۔ اسی طرح چند ماہ قبل ٹی ٹی پی کے ترجمان کی طرف سے بلوچ عسکریت پسندوں کے نام ایک خط تحریر کیا گیا تھا جس میں ان سے کہا گیا تھا کہ وہ مشترکات کی بنیاد پر پاکستانی ریاست کے خلاف طالبان سے ہاتھ ملائیں۔ اس سے قبل بلوچ عسکریت پسندوں اور سپاہ صحابہ کے عسکریت پسندوں کے درمیان کسی حد تک اشتراک بلوچستان میں نظر آتا ہے

اب شمالی وزیرستان سے قبائلی بے گھر ہوکر افغانستان کے صوبہ خوست منتقل ہوئے ہیں‘ وہ تو یقینا پاکستانی ریاست سے بیزاری کا اظہار کریں گے لیکن بنوں اور دیگر شہروں میں آنے والے قبائلیوں کی صفوں میں بھی پہلی مرتبہ حکومت کے ساتھ ساتھ ریاست سے بھی بیزاری کے جذبات دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔ خوف کی وجہ سے کوئی بھی زبان نہیں کھول سکتا لیکن سرحد کے آرپار ان لوگوں کی کمی نہیں جو خطے میں جاری گندے کھیل کو پختونوں کی نسل کشی کے منظم منصوبے کا نام دے رہے ہیں ۔ اب اگر سرحد کے اس پار عوامی جذبات اور ٹی ٹی پی کی نئی حکمت عملی کو افغانستان میں نئے ابھرنے والے لسانی رجحانات کے تناظر میں دیکھاجائے تو بہت خطرناک نقشہ سامنے آتا ہے

خلاصہ اس بحث کا یہ ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی نوعیت بدل رہی ہے ۔افغانستان کی سیاست بدل رہی ہے اور پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات کی نوعیت بھی بدل رہی ہے ۔ افغانستان کے اندر طالبان کاکردار بدل رہا ہے اور پاکستان کے ساتھ ان کے تعلقات کی نوعیت بھی بدل رہی ہے ۔ القاعدہ بھی نئے ایجنڈے کے ساتھ نئی شکل میں نئے علاقوں کی طرف منتقل ہورہی ہے جبکہ ٹی ٹی پی کے افغان طالبان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کی تبدیلی کے ساتھ ان کے ایجنڈے اور کردار میں بھی تبدیلی کا امکان ہے ۔ اسی طرح ٹی ٹی پی‘ القاعدہ اور ازبکوں وغیرہ کا رخ افغانستان کے جنوب سے شمالی مشرق کی طرف ہورہا ہے ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنی ریاست اور ریاستی اداروں کے بارے میں بلوچوں کے بعد اب قبائلی عوام اور پختونوں کی سوچ بھی بدل رہی ہے ۔ بعض اوقات تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ قوم پرستی اور عسکریت پسندی اس خطے میں اب نئی شکل میں ‘ نئے طریقے سے ‘ نئے اہداف کے ساتھ ‘ نئی قیادت کے سائے تلے جنم لینے جارہی ہیں ۔

روزنامہ جنگ، ٥ جولائی ٢٠١٤

2

1

Comments

comments

Latest Comments
  1. ADNAN KHAN
    -
  2. youtube.com
    -