معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سچ مت بولیں وگرنہ دھر لئے جاؤ گے -از قلم نازک سقراطی

Embedded image permalink

روزنامہ اسلام نے 31 مئی 2014ء بروز ہفتہ اپنی اشاعت میں فرنٹ پیچ پر یہ خبر شایع کی ہے کہ معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں فیس بک پر تبصرہ کرنے پر شاہد نامی ایک شخص کے حلاف تحصیل جلالپور پیروالہ میں مقدمہ درج کرلیا گیا ہے جبکہ دوسرا مقدمہ جنوبی پنجاب کے ضلع خانیوال کی تحصیل کبیروالہ کی یونین کونسل سرائے سدھو میں ایک ملنگ رمضان ولد شیر محمد تھراج کے خلاف درج کیا گیا ہے اسی اخبار میں چھپے اشتہارات اور دیگر خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ دیوبندی تکفیری جماعت اہل سنت والجماعت پورے پاکستان کے اندر معاویہ ابن ابی سفیان کی موت کے یوم کی نسبت سے رجب کے آخری ہفتے سے لیکر شعبان کے دو ہفتوں تک معاویہ ابن ابی سفیان کانفرنسز کا اہتمام کررہی ہے ان تمام کانفرنسوں میں معاویہ ابن ابی سفیان کو پانچویں یا چھٹے خلیفہ کے طور پر پیش کیا گیا اور اس حوالے سے معاویہ ابن ابی سفیان کو بھی خلیفہ راشد کے طور پر سامنے لایا جارہا ہے اور معاویہ ابن ابی سفیان کو حضرت ابو بکر ،عمر ،عثمان و علی کے بعد سب سے افضل شخصیت قرار دیا جارہا ہے اور تاریخ اسلام میں معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں جو مسلمہ حقائق درج ہیں ان سے صریحا انحراف کیا جارہا ہے

جبکہ اگر کوئی بھی شخص معاویہ ابن ابی سفیان کے حوالے سے تاریخ میں زکر درست حقائق کو بیان کرے تو اس پر فوری طور پر توھین صحابہ کا الزام عائد کردیا جاتا ہے اور اس حوالے سے روز بروز شیعہ پر مقدمات کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے پنجاب اور سندھ کے تھانوں میں ایسے مقدمات کی مدعی دیوبندی تنظیميں اور دیوبندی مولوی بن رہے ہیں جبکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ ایسے مقدمات کے اندراج کے ساتھ ساتھ دیوبندی تنظیمیں ملزم کے خلاف زبردست پروپیگنڈا مہم چلاتی ہیں اور اسے ملعون ،کذاب اور شاتم جیسے القاب سے پکارتی اور لکھتی ہیں اور اس قدر اشتعال پھیلایا جاتا ہے کہ مذکورہ شخص کے بارے میں آزادانہ تفتشیش ناممکن ہوجاتی ہے جبکہ سول عدالتیں معاویہ ابن ابی سفیان کے حوالے کتب تاریخ،حکتب احادیث صحاح اور تفاسیر قران کے حوالوں کو بھی درخور اعتنا نہیں گردانتیں اور اس حوالے سے دیوبندی مولویوں کے بیانات کو ہی حرف آخر سمجھا جاتا ہے اگر کسی عدالت میں شیعہ نہج البلاغہ کا حوالہ دیں اور اس میں درج کسی بات کا ماخذ صحیح بخاری و مسلم و نسائی وغیرھم یا طبقات ابن سعد ،تاریخ طبری سے لیکر آئیں تو بھی اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا جاتا ہے گویا عملی طور پر مسلم تاریخ کے کسی بھی قضیے کے بارے میں فیصلے کا اختیار دیوبندی مولوی ہی کو حاصل ہوگیا ہے جبکہ اس سلسلے میں قدیم علمائے اہل سنت اور قدیم علمائے اہل تشیع کی رائے کا کوئی اعتبار نہیں رہا خود اہل سنت کے عقیدے کے مطابق خلافت راشدہ کی مدت 30 سال تھی جو حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی چھے ماہ کی مدت خلافت پر ختم ہوگئی اور اہل سنت نے معاویہ ابن ابی سفیان کو کبھی خلیفہ راشد نہیں لکھا اور دیوبندی مولویوں کے اساتذہ بھی پہلے یہی کہتے تھے لیکن آج کے دیوبندی اہل سنت والجماعت سپاہ صحابہ کی ہاں میں ہاں ملاتے نظر آتے ہیں ساری دنیا پر یہ بات واضح ہے کہ مسلمانوں کے درمیان سیاست اور نیابت کا اختلاف بعد از وفات رسول نمودار ہوا اور اس کی بنیاد پر ہی سنّی اور شیعہ مسالک ظہور پذیر ہوئے اور پھر تیسرا فرقہ خوارج کا ظاہر ہوا اور اسی زمانے میں باغی فرقہ معاویہ ابن ابی سفیان اور ان کے حامیوں کی شکل میں رونما ہوا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی وفات کے چھے ماہ بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے معاویہ ابن ابی سفیان سے معاہدہ صلح کیا جس کی ایک بنیادی شرط یہ تھی کہ وہ اپنی موت سے قبل اقتدار واپس مہاجرین و انصار اور ان کی اولاد کی شوری کو دیں گے جو ائیندہ خلیفہ کا فیصلہ کرے گی لیکن یہ معاہدہ پورا نہ کیا گیا تو اس معاہدے سے جو چند روزہ اقتدار معاویہ ابن ابی سفیان کو ملا تھا بس کا جواز بھی فسخ ہوگیا جبکہ اسی دوران معاویہ ابن ابی سفیان نے صحابی رسول حجر ابن عدی اور ان کے ساتھیوں کا قتل کیا اور کوفہ کے پیروان حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو بھی کوئی امان نہ دی غرض کہ معاویہ ابن ابی سفیان نے تلوار کی نوک پر دھونس سے یزید کو خلیفہ بنانے کی کوشش کی یہ ایسے حقائق ہیں جن کو جھٹلایا نہیں جاسکتا اور ان کے بارے میں مسلم تاریخ کی سب ہی تاریخی اور اخادیث کی کتب ميں کہيں تھوڑی اور کہیں تفصیل سے گفتگو موجود ہے لیکن ان حقائق کے برعکس معاویہ ابن ابی سفیان کو خلیفہ راشد لکھا جارہا ہے اور ان کے اقدامات کو درست قرار دیا جارہا ہے جبکہ سیاست معاویہ کی تعریف اور مدح میں غلو سے کام لیا جارہا ہے جس کا مطلب سیدھی سیدھی سیاست علی و حسن و حسین و آئمہ اہل بیت و اطہار کا رد کرنا ہے یہ پاکستان میں آزادی اظہار اور عقیدے کی آزادی کے سوال سے بھی براہ راست جڑنے والی بات ہے اور دیوبندی مکتبہ فکر کے انتہا پسند اور دھشت گرد معاویہ ابن ابی سفیان کے کردار کے حوالے سے تاریخ میں موجود باتوں کی بنیاد پر کوئی رائے بنانے کو ہی توھین اور گستاخی قرار دینے پر تل گئے ہيں پاکستان میں عملی طور پر آزادانہ بحث و مباحثے کی فضا کو خراب کردیا گیا ہے اور اس وقت فکری جبر اور حبس ضیاءالحق کے دور سے کہیں ہزار گنا زیادہ شدید اور خوفناک ہوچلا ہے اس ملک میں مذھبی آزادی کا حق صرف دیوبندی اور وہابی مکاتب فکر کے پاس رہ گیا ہے جبکہ اور کسی مکتبہ فکر کے پاس یہ آزادی ختم ہوگئی ہے اور جو اس آزادی کو استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے اس کے خلاف ایک طرف تو تھانوں میں مقدمات کی بھرمار ہوتی ہے تو دوسری طرف دیوبندی دھشت گرد جتھے اس سے جینے کا حق چھیننے کے لیے دندناتے پھرتے ہیں

7.png

زیر نظر سید مودودی کی کتاب خلافت و ملوکیت سے اقتباس اور دیوبندی مولوی یوسف لدھیانوی کی اس پر کی گئی تنقید کا ہے ،سوال یہ جنم لیتا ہے کہ اگر ڈاکٹر فرحان علی ندوی دیوبندی ،سید مودودی معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں یہ سب لکھکر اور چھاپ کر کسی ضابطہ فوجداری کے سزاوار نہیں ٹھہرے تو پھر یہ غریب ملنگ رمضان تھراج سکنّہ چوپڑ ہٹہ اور شاہد سکنہ جلالپور کیسے ملعون ،گستاخ اور توھین مذھب کے مرتکب ٹھہرے اور سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر رضوان ندوی اور سید مودودی نے جن ماخذوں سے یہ روایات لیں ان ماخذات کے مصنفین تو بڑے بڑے سنّی علماء ہیں پھر یہ الزام ان سنّی علماء پر کیوں نہیں لگتا  اور آج معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں اس قدر جو تزک و احتشام ہورہا ہے وہ تزک احتشام ان جید تابیعین و تبع تابعین نے کیوں نہ کیا

Comments

comments

Latest Comments
  1. Sabir Hameed
    -
  2. آفتاب عمر
    -
  3. Sabir Hameed
    -
  4. Abu Rayyan
    -
  5. imtiaz ALI baqri
    -
    • Bilal
      -
      • majid bandah
        -
    • Rahman ali
      -
  6. Sabir Hameed
    -
  7. Ahmad Adnan
    -
  8. Aslam
    -
  9. Ahsan
    -
  10. Mohammad abu bakar ghazali
    -
  11. shahid
    -
  12. ajaz hussain
    -
  13. Zahra Yufi
    -
  14. xtyqtlyryv
    -