تحفظ پاکستان بل- قوت اخوت افواج پاکستان، شامت اقوام سندھ و بلوچستان
پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت نے قومی اسمبلی میں 2اپریل 2014ء کو تحفظ پاکستان بل جو پیش کیا وہ اپنی اکثریت کے بل بوتے پر منظور کرالیا اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کے بقول حکومت نے متفقہ رائے کے ساتھ قانون سازی کرنے کی روائت ترک کردی اور حزب اختلاف کی جماعتوں کی غیرموجودگی میں اس متنازعہ بل کو پاس کرالیا
تحفظ پاکستان بل قومی اسمبلی کے بعد سینٹ جائے گا اور اس وقت حزب اختلاف کی جماعتوں اور جے یوآئی ایف و جماعت اسلامی کا اس بل پر جو مخالفانہ رویہ ہے اس سے لگتا ہے کہ سینٹ میں اس بل کے منظور ہونے کے امکانات بالکل ہی کم ہیں
پاکستان مسلم لیگ نواز جس کے سربراہ میاں نواز شریف ہیں کا یہ دعوی رہا ہے کہ وہ ایک جمہوریت پسند جماعت ہے جو پاکستان کے آئین کی بنیادی روح کو متاثر کرنے والے قوانین کا نفاز نہیں کرے گی اور یہ اپنے دوسرے دورے حکومت کی طرح چودھویں ترمیم جیسے آمرانہ قوانین پر مبنی قانون سازی نہیں کرے گی
مسلم لیگ نواز کا یہ دعوی بھی رہا کہ وہ ملٹری اسٹبلشمنٹ کو پارلیمنٹ کے تابع رکھے گی اور قانون سازی کے معاملے میں پارلیمنٹ کی بالادستی کا سودا نہیں کرے گی – یہ دونوں دعوے تحفظ پاکستان بل کے متن کو پڑھنے سے ہوا میں تحلیل ہوتے دکھائي دے رہے ہیں
مسلم لیگ نواز نے ملٹری اسٹبلشمنٹ اور خفیہ ایجنسیوں کے دباؤ میں آکر تحفظ پاکستان بل سے پہلے اس قانون کو صدارتی فرمان کے زریعے نافذ کیا اور پھر یہ مزید ترامیم کے ساتھ ایک بل کی شکل میں قومی اسمبلی کے اندر پیش کیا گیا اور جب یہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے پاس گیا تو وہآں بھی مسلم لیگ نواز نے اس بل پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش نہ کی اور اپنی سادہ اکثریت کی بنا پر قائمہ کمیٹی سے اسے پاس کرالیا اور قومی اسمبلی میں پش کرتے ہوئے اس بل پر بحث کی اجازت بھی نہیں دی اور انتہائی عجلت میں اس کو پاس کرایا
مسلم لیگ نواز کی جانب سے اس عجلت کو دیکھتے ہوئے سیاسی،صحافتی حلقوں میں یہ بات گردش کرنے لگی کہ اس بل کا منبع اور سرچشمہ پارلیمنٹ،مسلم لیگ نواز کے وزیر قانون یا خود میاں نواز شریف یا وزیر داخلہ چوہدری نثار نہیں بلکہ یا تو آبپارہ میں واقع ایک اہم سرخ عمارت ہے یا راولپنڈی میں ہیڈکوارٹر ہے اور یہ وہاں سے آنے والا دباؤ ہے جس کی وجہ سے حکومت یہ عجلت برت رہی ہے اور پی پی سی کو فوری طور پر ایک قانون کی شکل دینا چاہتی ہے
اس طرح کے قانون کی منظوری کے پیچھے پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ،خفیہ ایجنسیاں ،سول سیکورٹی فورسز کی اسٹبلشمنٹ بہت زیادہ سرگرم ہیں جن کا کہنا یہ ہے کہ دھشت گردی کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے جب وہ انتہائی کوشش کرکے خطرناک دھشت گردوں کے نیٹ ورکس کو پکڑتے ہیں تو ان دھشت گردوں کے خلاف پاکستان پینل کوڈ 1860ء اور انسداد دھشت گردی ایکٹ کے تحت کاروائی میں کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں چند کا وہ زکر بار بار کرتے ہیں
عدالتیں دھشت گردوں کے دباؤ،دھمکی ،دھونس میں آکر ضمانت لینے پر مجبور ہوجاتی ہیں – پولیس کا شعبہ تفتیش ناقص انوسٹی گیشن کرتا ہے اور سرکاری پراسیکیوشن کمزور کیس لڑتے ہيں جس سے عدالتیں دھشت گردوں کی ضمانت لینے پر مجبور ہوجاتی ہیں
ٹرائل سے قبل اپنی حراست میں رکھنے کا دورانیہ انتہائی مختصر ہوتا ہے جو کیس ٹھیک طرح سے لڑنے کے لیے کافی نہیں ہے-دھشت گردوں کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے والے،ان کے ہینڈلر اور ان کو رہائش فراہم کرنے والوں کے لیے صرف جرمانہ ہے قید نہیں ہے ،سرچ وارنٹ حاصل کرنے کی شرط دھشت گردوں کے خلاف کاروائی کرنے مین وقت بہت لیتی ہے
خفیہ ایجنسیوں کو اپنے فیلڈ آپریشن میں کوئی قانونی کور حاصل نہیں ہے تو اس وجہ سے ان کی فیلڈ کاروائیوں کو خاصی مخالفت کا سامنا ہے-دھشت گردوں کو اپنی بے گناہی کا ثبوت پیش کرنے اور جب تک وہ یہ پیش نہ کردیں ان کو رہا نہیں کیا جانا چاہئیے اور ثبوت کا بار سیکورٹی فورسز یا ایجنسیوں پر نہ ڈالا جائے،الیکٹرانک شواہد اور ثبوت کو لیگل ثبوت کا درجہ دیا جائے-یہ وہ جواز ہیں جن کو بنیاد بناکر پہلے ایک آرڈیننس لایا گیا اور اب قومی اسمبلی میں اسے مستقل قانون بنانے کے لیے پاس کرایا گیا ہے
اس بل میں وہ سارے جرائم جو دھشت گردی کی تعریف میں آتے ہیں جس میں پاکستان کے خلاف اعلان جنگ،سیکورٹی فورسز بشمول مسلح افواج کے خلاف بغاوت اور ان کے وقار اور احترام کو مجروع کرنے والے اقدامات جیسے مبہم اور مجمل فقرے بھی شامل ہیں کو ایسے جرائم قرار دیا گیا ہے جس کے مرتکب کے خلاف پی پی اے کے تحت مقدمہ درج ہوسکے گا اور اس مجرم کے خلاف مندرجہ ذیل اقدامات کئے جاسکیں گے
سول،ملٹری سیکورٹی فورسز اور خفیہ ایجنسیوں کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ اس بل میں جرائم کی مد میں بیان کئے گئے اقدامات کا مرتکب سمجھ کر کسی شخص یا گروہ کے خلاف تحفظ پاکستان ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرسکیں گے
جس کے خلاف اس ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہوگا اس کو بغیر سرچ وارنٹ کے گرفتار کیا جاسکے گا،اس کی پراپرٹی سیل کی جاسکے گی اور اسے نوے روز تک زیر حراست رکھا جاسکے گا اور نوے روز کے بعد ایک خصوصی فرسٹ کلاس مجسٹریٹ اس نظر بندی کی مدت میں توسیع کرسکے گا جس کے پاس سیشن جج کی طرح کے جوڈیشن اختیارات ہوں گے اور اس مدت کے دوران مذکورہ ملزم کی حراست کے خلاف کسی بھی عدالت میں درخواست دائر نہیں کی جاسکے گی
جبکہ ملزم کے خلاف کیس کی تفتیشش ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کرے گی جس میں فوج،ایف سی،لیویز ،پولیس ،ملٹری اور سول انٹیلی جنس کے نمائندے شامل ہوں گے اور کیس خصوصی عدالت میں چلے گا- پہلے مخصوص پولیس اسٹیشن کے اندر ہی پی پی اے کے تحت مقدمہ درج کرنے کی شق آرڈیننس میں تھی اب بل میں کہا گیا ہے کہ یہ مقدمہ کسی بھیپولیس اسٹیشن میں درج کیا جاسکے گا
اس بل کی ایک خاص بات مسلح افواج ،ملٹری انٹیلی جنس آئی ایس آئی،رینجرز،بلوچستان لیویز ،ایف سی ،سپیشل برانچ ،سیکورٹی برانچ کو پولیس پاورز کا مل جانا بھی ہے اور ان پولیس پاورز کے تحت کئے گئے اقدامات کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا-اس بل کے تحت ملٹری سیکورٹی فورسز ،سول سیکورٹی فورسز اور ایجنسیوں کو کسی بھی مشکوک دھشت گرد کو موقعہ پر بھی شوٹ کرنے کے اختیارات بھی حاصل ہوگئے ہیں
یہ بل ان تمام اقدامات کے لیے پاکستان پینل کوڈ 1865 ء کی شق ہائے چھے،سات،آٹھ اور نو میں ترمیم پیش کرتا ہے-اس بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دوران حراست ملزم جو بیانات دے گا ان کو حتمی تصور کیا جائے گا اور ای میل،ٹیلی فون کالز،موبائل میسجز سمیت الیکٹرانک شواہد کو قانونی ثبوت تصور کیا جائے گااس بل میں گرفتار ملزم کے زمہ اپنی بے گناہی ثابت کرنے کو لازمی قرار دیا گیا ہے-تحفظ پاکستان آرڈیننس سے بل تک میں اینیمی ایلین کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے جس پر یہ لفظ صادق آئے گا وہ تحفظ پاکستان ایکٹ کے تحت گرفتار ہوگا اور اس ایکٹ کے تحت اس پر مقدمہ چلے گا
یہ ایک بہت ہی مبہم سا لفظ ہے اور اس کی کوئی جامع و متعین تعریف نہیں کی گئی ہے اور اس ٹرم کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں کسی کے خلاف بھی اس ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا جاسکتا ہے اور اسے ہر طرح کے پاکستان پینل کوڈ مجریہ 1865ء میں حاصل قانونی سیفٹی والوز سے محروم کیا جاسکتا ہے
پاکستان میں ملٹری و سول آرمڈ فورسز اور خفیہ ایجنسیاں اب تک جو روش اختیار کئے ہوئے ہیں ان کو دیکھ کر ہی یہ کہا جارہا ہے کہ پی پی اے کے نفاز سے یہ ادارے اور زیادہ دلیر اور بے فکر ہوجآئیں گے اور پاکستان میں سیاسی مخالفین کے خلاف بہت آسانی سے خون خوار اقدامات روا رکھے جاسکیں گے
پاکستان کی ریاست،ملٹری اسٹبلشمنٹ،خفیہ ادارے،ایف سی ،لیویز اور رینجرز یہاں تک کہ پولیس بلوچ سیاسی کارکنوں ،انسانی حقوق کے رضاکاروں،بلوچ قوم پرست طلباء کے خلاف جو معاندانہ،ظالمانہ ،جارحانہ رویہ روا رکھے ہوئے ہیں تو جب ان کے پاس پی پی اے کے تخت بے تحاشا اختیارات ہوں گے تو یقینی بات ہے کہ بلوچ قوم کی نسل کشی،ان کی پراسیکوشن اور زیادہ ہوجائے گی اور جو جھوٹا موٹا عدالتی کور اسے میسر آتا ہے وہ بھی ختم ہوجائے گا
یہی خطرہ سندھی سیاسی کارکنوں،انسانی حقوق کے ورکرز اور ان حلقوں کے افراد کو لاحق ہوگا جو مبینہ طور پر سندھ کی آزادی و خودمختاری کا علم اٹھائے ہوئے ہیں جن کو اغواء کرکے مارنے اور پھینک دینے کا سلسلہ اگرچہ بلوچستان سے کم ہے مگر پھر بھی موجود ہے
یہ قانون اپنی مثال آپ اور اپنی نوعیت کا پاکستان کی قانون کی تاریخ میں پہلا جابرانہ،ظالمانہ قانون ہے جو 1973ء کے آئین میں بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دینے والی شقوں کے متصادم بھی ہےاسی لیے اس قانون کے نافذ ہونے سے ملک کو پولیس سٹیٹ بن جانے سے تعبیر کیا جارہا ہے
پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ جسے پہلے ہی شتر بے مہار،کنٹرول سے باہر ایک ظالم ،جابر مشینری کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو پاکستان کی مظلوم اقوام سندھی ،بلوچ،سرائیکی ،پشتون کا زبردست قومی استحصال کررہی ہے اور ان اقوام کے حقوق کی پامالی،وسائل کی لوٹ مار اور غلامی کے خلاف اٹھنے والی تحریک کو دبانے ،جبر کرنے اور ان کی نسل کشی کرنے میں کسی قانونی اور آئینی روکاوٹ کو خاطر میں نہیں لارہی وہ اور زیادہ بے قابو اور شتر بے مہار ہوجائے گی
ملٹری اسٹبلشمنٹ اور دیگر سیکورٹی اداروں نے بلوچستان کے خلاف جنگ شروع کررکھی ہے اور ان کی منظم نسل کشی کا سلسلہ جاری و ساری ہے ،ایک بے رحم قسم کا فوجی آپریشن بلوچستان میں کیا جارہا ہے اور سنگین قسم کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں جن کو روکنے کا کوئی میکنزم نہ تو سول وفاقی حکومت اور بلوچستان کی کٹھ پتلی حکومت کے پاس ہے اور نہ ہی پاکستان کی عدالتیں سوآئے سماعت پر سماعت کے اس کو روکنے میں کامیاب ہوئی ہیں بلکہ مسلم لیگ نواز کی حکومت اب اس سارے بے رحم کھیل کو قانونی کور دینے جارہی ہےاور یہ ریاستی دھشت گردی کی بدترین شکل ہے
مسلم لیگ نواز اور اس کے اتحادی جن کا بہت بڑا حصّہ دیوبندی مکتبہ فکر سے دھشت گردی کے حق میں اٹھنے والی سیاسی مذھبی تنظیموں پر مشتمل ہے ایک طرف تو مذھبی تکفیری دھشت گرد دیوبندی نیٹ ورکس کے ساتھ مذاکرات کررہی ہیں اور ان کو اپنے بھائی اور بیٹے قرار دے رہی ہیں اور ان کے قیدیوں کو رہا کردیا گیا ہے جس میں چلاس کے اندر لوگوں کو گاڑیوں سے اتار کر زبح کردینے کے الزام میں بند دو دھشت گرد بھی تھے کو رہا کردیا گیا ہے اور اس اتحاد خبیثہ نے پورے ملک میں اہل سنت بریلوی،شیعہ،ہندؤ،کرسچن ،احمدیوں کی پراسیکوشن کرنے والے انتہا پسندوں اور دھشت گردوں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے ،شیعہ ،بریلوی ،بلوچ نسل کشی کرنے والے آزاد ہی نہیں بلکہ ان کو ایف سی،فوج،لیویز ،آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس ایجنسی کی پشت پناہی بھی حاصل ہے
قلات اور خضدار میں جس بے رحمی کے ساتھ فضائی فورس اور زمینی فورس بلوچوں کے خلاف استعمال ہوئی اور جس طرح سے 100 سے زائد بلوچوں کا قتل ہوا اس سے ملٹری اسٹبلشمنٹ کی بے رحمی اور وفاقی و صوبائی حکومت کے اس عمل کا الہ کار بننے کا بحوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے
ادارہ تعمیر پاکستان تحفظ پاکستان بل کو کالا قانون،سول مارشل لاء اور پولیس و فوج گردی کو ممکن بنانے والا قانونی بل تصور کرتا ہے اور اس کی ٹیم اس بل کی شدید مذمت کرتی ہے اور اسے انسانی حقوق کو پامال کرنے والا بل قرار دیتا ہے
ہم سمجھتے ہیں کہ ریاست کےبلوچ ،سندھی ،پختون ،سرائیکی،گلگتی بلتی اقوام پر قومی ظلم اور قومی جبر جو ردعمل پیدا ہورہا ہے اس سے ملٹری اسٹبلشمنٹ کی کاروائیاں سوآئے جلتی پر تیل چھڑکنے کے اور کچھ بھی نہیں ہے اور نام نہاد تحفظ پاکستان بل اس آگ کو مزین بھڑکائے گا کم نہیں کرے گا ،اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ بلوچستان میں لگی آگ سرد نہیں ہوئی ہے اور سندھ کے اندر اس آگ کے پھیل جانے کے آثار ملنے لگے ہیں اور سندھ کے بعد یہ آگ سرائیکی خطے کے اندر پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکے گا اور سنٹرل پنجاب ،مرکز ،ملٹری اسٹبلشمنٹ اور نواز حکومت کو بہت قریب سے تحفے تحائف ملنے شروع ہوجائیں گے
ہم سمجھتے ہیں کہ نواز حکومت،ملٹری اسٹبلشمنٹ دیوبندی دھشت گرد ،انتہا پسند مشین اور طالبانی ڈریکولائی تکفیری شریعت کو نام نہاد آئینی سیاسی جدوجہد کے ساتھ نافذ کرنے کے دعوے دار مل کر تو بلوچ،سندھی،سرائیکی چیلنجز سے نمٹنا چاہتے ہیں اور صاف ظاہر ہے ملٹری اسٹبلشمنٹ اور نواز شریف اس کے لیے شیعہ،اہل سنت بریلوی ،کرسچن ،احمدی،ہندؤ اور حقیقی سیکولر لبرلز کی پراسیکوشن،شیعہ ،بریلوی کی تو نسل کشی تک سے آنکھیں بند کرنے پر راضی ہیں گویا
گلیاں ہوجاون سنجیاں وچ نازو،راحیل،ملّا عمر ،لشکری و طالبانی دیوبندی پھرے(اپنے محبوب و مکرم پنجابی شاعر کی شاعری کی جراحت کاری کرنے پر معذرت صد معذرت)
http://www.dawn.com/news/1098554/opposition-parties-to-challenge-ppo-in-court
http://www.dawn.com/news/1098565/use-of-force-to-be-last-option-in-balochistan-mamnoon