شام میں تکفیری سلفی دیوبندی کامیاب ہوگئے تو لبنان میں مزاحمت ہی ختم نہیں ہوگی بلکہ ہم سرے سے مٹ جائيں گے-حسن نصراللہ
حزب اللہ کے سپریم کمانڈر حسن نصراللہ نے ایک ٹی وی چینل پر تقریر کرتے ہوئے شام میں حزب اللہ کی مداخلت اور لبنان میں مزاحمتی تحریک پر ہونے والی تنقید کا جواب دیا
انہوں نے کہ
اگر شام میں تکفیری سلفی-دیوبندی دھشت گرد کامیاب ہوگئے تو صرف لبنان میں مزاحمت ہی ختم نہیں ہوگی بلکہ ہم بھی صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے
انہوں نے یہ تقریر جنوبی لبنان میں ایک کلچر سنٹر کے افتتاح کے موقعہ پر جمع ہونے والے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہی
ان کا کہنا تھا کہ حزب اللہ نے شام میں تنازعہ پیدا ہونے کے وقت اس تنازعے کے سیاسی حل کی حمائت کی تھی اور یہ وہی موقف تھا جو شامی حزب اختلاف کے حامی مماک کا شروع میں موقف تھا
ہم نے آغاز میںہی کہا تھا کہ ہم سیاسی حل چاہتے ہیں جبکہ عرب لیگ اسد حکومت گرانا چاہتی تھی اور عرب لیگ تین سال تک تباہی ہوتی دیکھتی رہی اور پھر اسے تنازعے کا سیاسی حل تلاش کرنے کا خیال آیا
تین سال تک مسلح کرنے،اکسانے اور سبوتاز کرنے کے بعد اب یہ اسلامی سٹیٹ آف عراق و الشام اور دوسرے تکفیری گروپوں کے نام دھشت گرد لسٹ میں ڈال رہے ہیں
شامی تنازعہ جو اس سال پورے تین سال پرانا ہوچلا ہے میں ایک لاکھ شامی ہلاک اور دسیوں لاکھ داخلی و بیرونی مہاجرت کا شکار ہوئے ہیں اور اقوام متحدہ نے گزشتہ سال جولائی میں ہلاکتوں کا شمار کرنا بند کردیا تھا اور اب قابل اعتماد زرایع موجود نہیں ہیں
نصراللہ کا کہنا تھا کہ اج جو کچھ شام میں ہورہا ہے وہ اصلاح اور جمہوریت نہیں ہے-مسلح تکفیری ایک دوسرے سے لڑرہےس ہیں اور دسیوں ہزار عام لوگ ان کی لڑائی کی قیمت ادا کررہے ہیں
حزب اللہ کی شام کے ساتھ فوجی تعاون پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ محور بدلے کا نہیں بلکہ امن کا ہے اور یہ تعاون شام میں فساد کو ختم اور امن کو بحال کرنے کے لیے ہے
حزب اللہ کو پہلی مرتبہ شام میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی صاحبزادی کے ژوار کی حفاظت کے لیے مداخلت کرنا پڑی تھی
حسن نصراللہ نے حزب اللہ کی جانب سے بی بی زینب سلام اللہ علیھا کے مزار کی حفاظت کے عمل کا ترکی کے اقدام سے کیا جس نے حال ہی میں شام کے اندر ترکی کے پاس عثمان سلطنت کے ایک بانی کے مزار کی حفاظت کے لیے مداخلت کی
ترکی کہتا ہے کہ یہ اس کا حق ہے کہ وہ ایک مزار کو اسلامی سٹیٹ آف عراق والشام سے بچائے تو ترکی کو اس کی اجازت کیوں اور ہمیں ممانعت کیوں ہے؟
شام پر ہمارا موقف سیاسی ہے نہ کہ فوجی ہم نے بہت بعد میں مداخلت کی ،انہوں نے کہا
حسن نصراللہ نے لبنان کے اندر سے حزب اللہ کی شام میں مداخلت پر اعتراض کرنے والوں کو اپنے موقف میں تبدیلی لانے کو کہا
حسن نصراللہ نے کہا کہ وہ اپنے لبنانی ناقدوں کو شام آکر لڑنے کا نہیں کہہ رہے بلکہ وہ ان کو اپنے موقف کا دوبارہ جائزہ لینے کا مشورہ دیتے ہیں
انہوں نے انکشاف کیا کہ لبنان میں کچھ اور گروپوں نے بھی شام میں لڑائی میں ان کے ساتھ شریک ہونے کا کہا لیکن حزب اللہ نے ان کی بات رد کردی کیونکہ وہاں مذید جنگجوؤں کی ضرورت نہیں ہے
حسن نصراللہ کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم شام کے ساتھ ملکر لرۃی رہے گی
ان کا کہنا تھا کہ وہ حزب اختلاف کی کمپئن کے آگے سرنڈر نہیں کریں گے کیونکہ سرنڈر کا مطلب شام،لبنان اور فسلطین کے وجود کے لیے خطرے کا باعث ہوگی
حسن نصراللہ نے مارچ 14 کے سیاست دانوں کی جانب سے ژواحمتی تحریک کے کردار کو رد کردیا
ان کا کہنا تھا کہ سہ طرفہ مساوات نے لبنان کو خطے میں اہم کردار بخشا ہے ،وہ لبنان میں فوج،عوام اور مزاحمت کے اشتراک کی طرف اشارہ کررہے تھے
حسن نصراللہ کا کہنا تھا حزب اللہ کی مخالفت لبنان میں مزاحمت کی مخالفت کا اہم جزو ہے
بعض کو تحریک مزاحمت کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اس کے لڑاکے شعیہ ہیں لیکن کیا تم نے اس مزاحمتی تحریک کی اس وقت حمائت کی تھی جب لڑنے والے سیکولر تھے؟ان کا کہنا تھا کہ جب اسرائیل کے خلاف 1948 ء میں لبنانی مزاحمت کا آغاز ہوا تو اس مزاحمت کے زیادہ تر عناصر نیشنلسٹ سیکولر پارٹیز تھے
صہیونیت کے معرض وجود میں آنے سے لیکر اب تک مزاحمت پر بحث ہورہی ہے
مزاحمت کی تحریک ٹھوس ہی رہے گی جب تک اس کا سراٹھا ہوا ہے اور یہ عوام اور قوم کی حفاظت کرتی رہے گی
http://english.al-akhbar.com/content/nasrallah-if-takfiris-succeed-syria-all-lebanon-will-be-eliminated