اداریہ تعمیر پاکستان: پاکستانی میڈیا کی سیلف سنسر شپ اور دیوبندی دھشت گردی پر عوام دشمن ڈسکورس بے نقاب ہوتا جارہا ہے

پاکستان سے تعلق رکھنے والے صحافی، دفاعی تجزیہ نگار عامر حسینی کا کہنا ہے کہ پاکستان کا ایک اور میڈیا گروپ طالبان کے آگے ڈھیر ہوگیا اور اس نے ایسی سنسر شپ ازخود اپنے اوپر نافذ کی ہے جس سے براہ راست طالبان کو فائدہ ہوررہا ہے

تعمیر پاکستان ویب سائٹ کے سابق ایڈیٹر انچیف عبدل نیشا پوری نے جب پاکستانی میڈیا کے دیوبندی دھشت گردی کے بارے میں نا معقول ڈسکورس کی دریافت کرتے ہوئے یہ کہنا شروع کیا تھا کہ پاکستانی میڈیا کا شیعہ نسل کشی کے زمہ دار دیوبندی تکفیری دھشت گرد تںطیموں ٹی ٹی پی ،اہل سنت والجماعت ،لشکر چھنگوی وغیرہ کے بارے میں ڈسکورس معروضی حقائق کی عکاسی کرنے کی بجائے اس کو مسخ کرنے والا ہے تو اسے اس وقت ایک مبالغہ اور پروپیگنڈا تک سے تعبیر کیا گیا تھا

لیکن آج جب مغربی پریس سے بھی اسی طرح کی آوازیں آنے لگی ہیں تو اس پر تنقید بے معنی ثابت ہونے لگی ہے اور پاکستانی میڈیا کا دیوبندی دھشت گردی کے بارے میں ڈسکورس بہت زیادہ ایکسپوز ہونے لگا ہے

پاکستان کا انگریزی پریس جس کے مالکان اور اس سے وابستہ بہت سے صحافی اپنے آپ کو لٹریری فیسٹولز اور آرٹ و پینٹنگ کی بورژوا نمائشوں میں بہت زیادہ لبرل،سیکولر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کسی بھی حقیقی چیلنج کے سامنے اپنے سیکولر ترقی پسند موقف سے کیسے دست بردار ہوتے ہیں ایکسپریس ٹرائیبون کی اپنے سٹاف کو طالبان کی جانب سے ڈی این ایس وین پر حملے کے بعد بھیجی جانے والی ای میل بخوبی عکاسی کرتی ہے  جس میں سیلف سنسر شپ کی حدوں کو ازسرنو قائم کیا گیا ہے

تعمیر پاکستان ویب سائٹ بہت عرصے سے یہ لکھتی آرہی ہے کہ پاکستان کی میڈیا کی آزادی اور اس کی جانب سے اینٹی اسٹبلشمنٹ اور اینٹی مافیاز سمبل ہونے کے دعوے خاصے مشکوک ہیں خاص طور پر جب اس کا سامنا پاکستان کی دیوبندی تکفیری کلنگ مشین یا عسکری اسٹبلشمنٹ اور سعودی سفارت خانے سے ہوتا ہے تو یہ فوری طور پر آزادی صحافت،اظہار رائے کی آزادی ،شیعہ،بریلوی،پشتون شیعہ،پشتون صوفی سنّیوں اور بلوچ قوم کی آزادی اور ان کے حقوق کی آواز اٹھانے سے دست بردار ہونے میں دیر نہیں لگاتا

پاکستان میں ایکسپریس میڈیا گروپ نے اپنے انگریزی روزنامے ایکسپریس ٹرائیبون کا آغاز اس دعوے سے کیا تها کہ یہ اخبار پاکستان کی انگریزی صحافت کے اندر سیلف سنسر شپ اور قدامت پرستی کے در آنے والے رجحان کا تدارک کرنے کی کوشش کرے گا

اس دعوے کو ثابت کرنے کے لئے ایکسپریس ٹرائیبون نےگے رائٹس ،شیعہ نسل کشی ،بلوچ نسل کشی جیسے ایشوز پر قدرے جرات مندی سے لکهنا شروع کیا اور پاکستانی سیکورٹی ایجنسیوں ،دیوبندی تکفیری دہشت گرد طالبان کے خلاف بہت بولڈ خبریں فیچرز رپورٹس اور تجزیے بهی آنے لگے

اس کارکردگی کو دیکھ کر عایشہ صدیقہ جیسے بہت سے صحافی جو پاکستانی میڈیا کی سیلف سنسر شپ اور فوج دیوبندی تکفیری طالبان اور مذهبی انتہا پسندوں کے خلاف کوئی چیز شائع نہ کرنے کی پالیسی سے تبگ تهے وہ ایکسپریس ٹرائیبون میں چلے آئے

لیکن پهر یوں ہوا کی ایکسپریس چینل کی ڈی این ایس وین پر حملہ ہوگیا اور اس کی زمہ داری طالبان نے قبول کرلی جس کے بعد ایکسپریس ٹرائیبون کے مدیر کمال صدیقی نے ایک پالیسی سٹاف کو ای میل کی جس کی رو سے ایک تو دهشت گرد تنظیموں کے ساته کالعدم لکهنے سے منع کیا گیا اور طالبان سمیت کسی دیوبندی دہشت گردتنظیمکے خلاف کوئی خبر رپورٹ تجزیہ فیچر شایع کرنے سے روک دیا گیا بلکہ یہ بهی کیا گیاکہ بلوچستان پر عسکری قیادت کو ناراض کرنے والے مواد کی آشاعت کو بهی روکنے کاحکم دیا گیا

قابل زکر بات یہ ہے کہ ایکسپریس جس کے اداریے ہر روز طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کا مطالبہ کرتے دکهائی دیتے تهے بات چیت ڈسکورس کے شیدائی ہوگئے

عایشہ صدیقہ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر لکها کہ

ایکسپریس ٹرائیبون نے بلوچستان پر ان کے آرٹیکل شایع کرنا  بند کردئے ہیں

ان کا کہنا تها کہ انہوں نے مدیر کو کہا اب فلم اور فوڈ رہ گیا ہے جس پر لکها جائے

ایکسپریس ٹرائیبون کے مدیر کہتے ہیں کہ وہ اپنے کارکنوں کی جان خطرے میں نہیںڈال سکتے

پاکستانی اردو پریس تو پہلے ہی عسکری اسٹبلشمنٹ اور دیوبندی تکفیری دہشت گردوں کے ترجمانکی شکل اختیار کرگیا ہے اب یہ انگریزی پریس بهی اسی لائن پر چلتا نظر آرہا ہے

پاکستانی انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹرائبون نیویارک ٹائمز کا انٹرنیشنل ایڈیشن بھی اسی کے ساتھ شایع کرتا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے نیویارک ٹائمز کا انٹرنیشنل ایڈیشن طالبان کے حوالے سے ابھی تک ایسی سٹوریز شایع کررہا ہے جن میں تحریک طالبان اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے شیعہ کی نسل کشی بارے ،ان کے سعودی رابطوں بارے زکر ہوتا ہے لیکن ایکسپریس ٹرائیبون کے پاکستانی حصّے میں ایسی کسی چیز کو شایع نہیں کیا جارہا

پاکستانی انگریزی پریس کے دوسرے اخبارات اور چینل جیسے روزنامہ ڈان، دی نیوز بھی طالبان کے حوالے سے اپنی پالیسی میں اہم شفٹ غیر محسوس طریقے سے لیکر آئے ہیں اور یہ بھی غیراعلانیہ طور پر ایکپریس ٹرائیبون کی لائن کی پیروی کررہے ہیں

پاکستانی انگریزی پریس میں ترقی پسند روشن خیال اور رجعت مخالف سمجھے جانے والے انگریزی پریس کی پالیسی شفٹ کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ہیرالڈ گروپ آف میڈیا کی ڈان اردو ویب سائٹ پر طالبان کے بارے میں چھپنے والے مضمامین،فیچرز اور رپورٹس میں حیران کن حد تک کمی دیکھنے کو ملی ہے

جبکہ برطانوی خبررساں ایجنسی کی بی بی سی اردو ویب سائٹ اور بی بی سی اردو سروس بھی طالبان کے خلاف رپورٹنگ میں خاصی کمی لاچکی ہے جبکہ اس کی انگلش سروس کی روش میں کافی مختلف رجحان دیکھنے کو مل رہا ہے

پاکستان کا انگریزی پریس بلوچستان، بلوچ اور اس حوالے سے سیکورٹی فورسز اور ایجنسیوں کے کردار بارے بھی خودساختہ سنسر پر عمل کررہا ہے

گذشتہ دنوں جب پاکستانی افواج نے دھشت گردوں کے مبینہ اڈوں پر سرجیکل سٹرائیک کا سلسلہ شروع کیا تو انگریزی پرس روزنامہ ڈان سمیت سب اخبارات نے قبائیلی علاقوں سے  کی بمباری اور آپریشن سے بلوچ آبادی کی نقل مکانی اور ان کی مشکلات کی خبریں پاکستان کے انگریزی پریس سے غائب ہونے لگیں ہیں

جبکہ اردو پریس تو پہلے ہی پاکستان کی سیکورٹی اسٹبلشمنٹ، انٹیلی جنس ایجنسیوں ،تحریک طالبان کے ماؤتھ آرگن کی شکل اختیار کرتا نظر آتا ہے اور اردو پریس میں سعودیہ عرب کے خلاف تنقید ایک حرام فعل کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے

پاکستانی میڈیا اور امریکی پریس کے اندر ایک شئے مشترک ہے کہ دونوں پاکستان کے اندر دھشت گردی کی دیوبندی تکفیری شناخت کو چھپاتے ہیں اور تحریک طالبان،اہل سنت والجماعت وغیرہ کی دیوبندی شناخت پر ان کے ہاں طویل عرصے سے خاموشی طاری ہے

بی بی سی جیسا ادارہ ان کو سنّی شدت پسند دکھاتا ہے اور آج تک پاکستانی اور مغربی پریس ک پاس اس بات کا جواب نہیں ہے کہ اگر یہ سنّی شدت پسندی ہے تو اس کا نشانہ صوفی سنّی کیوں بن رہے ہیں جوکہ پورے عالم اسلام کا اکثریتی مکتبہ فکر ہے اور سلفی دیوبندی تکفیری خارجیت کسے اپنا دشمن خیال کرتی ہے

تعمیر پاکستان کے سابق بانی ایڈیٹر انچیف نے ایکپریس ٹرائیبون کی اس پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ

طالبان نے ایک ماہ کے لیے پاکستان سے جنگ بندی کا اعلان کیا ہے ،کیا اب ایکسپریس ٹرائیبون طالبان کی حمائت کی عکاس سنسرشپ پالیسی کو کم از کم ایک ماہ تک کے لیے معطل کردیں ،ساتھ ہی انہوں نے لکھا ہے کہ ان کو ایسا ہوتا نظر نہیں آتا

جبکہ تعمیر پاکستان کے انگریزی سیکشن کے مدیر علی عباس تاج کی رائے یہ ہے کہ

پاکستانی میڈیا کے تمام آؤٹ لیٹس پہلے ہی طالبان کو فیور دینے والے سنسر شپ پر عمل پیرا ہیں بس ایکسپریس ٹرائیبون پکڑا گیا ہے

جبکہ ادھر برطانیہ کے ریڈیکل پروگریسو انگریزی معروف اخبار دی گاڑدین نے ایکسپریس ٹرآئیبون کی اس طرح سے پسپائی پر ایک رپورٹ شایع کی ہے اور پاکستانی انگریزی پریس کے روشن خیال ،ترقی پسند خیال کئے جانے والے انگریزی پریس سیکشن کی رجعت پرستی اور قدامت پرستی کا ماتم کیا ہے

انگریزی اخبار گارڈین اردو پریس کی قدامت پرستی ،رجعت پسندی ہاتھوں بیعت کا زکر بھی بین السطور میں کرجاتا ہے

برطانوی پریس کے ایک اہم اخبار کی جانب سے پاکستانی میڈیا کے بارے میں یہ رپورٹ تعمیر پاکستان ویب سائٹ کے دیرینہ موقف کی تائید ہے جس کے مطابق پاکستانی میڈیا کا دیوبندی دھشت گردی اور دیوبندی مکتبہ فکر کی تکفیری آئیڈیالوجی کے بارے میں ڈسکورس معروضی حقیقت کے منافی،اس کو مسخ کرنے ،دیوبندی دھشت گردی کی حمائت پر مبنی نظر آتا ہے اور یہاں آکر پاکستانی میڈیا کے انگریزی ترقی پسند ،روشن خیال پریس کی سانس اکھڑنے لگتی ہے

پاکستانی میڈیا سے وابستہ بہت سے صحافی، تجزیہ نگار ،اینکرز دیوبندی دھشت گردی کے بارے میں اپنے ڈسکورس کی وجہ سے جعلی،فیک لبرل،دانشور ثابت ہوئے ہیں جیسے نجم سیٹھی،اعجاز حیدر ،رضا رومی وغیرہ

جبکہ بہت سے اردو صحافت سے وابستہ صحافیوں کی جمہوریت پسندی ،لبرل ہونے کا پول بھی کھل کر سامنے آیا ہے جیسے حامد میر،عرفان صدیقی،سلیم اللہ صافی اینڈ کمپنی

پاکستانی اردو اور انگریزی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا گروپوں کی پالیسی کا ایک عمومی جائزہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ ان کی سنسر پالیسی اور مواد کو شایع کرنے یا نشر کرنے کی پالیسی عسکری اسٹبلشمنٹ،دیوبندی تکفیری دھشت گردوں،سعودی عرب کے سفارت خانے کی ہدایات کی روشنی میں طے پاتی ہیں اور اس کا زیادہ زور مسخ کرنے،خبر کو مخصوص مفادات کے تحت مینوفیکچر کرنے پر ہے اور اس پالیسی کے متاثرہ فریق شیعہ،اہل سنت بریلوی،ہندؤ،عیسائی،بلوچ ،پشتون شیعہ،پشتون صوفی ،پشتونسیکولر آبادی ہے

http://www.theguardian.com/world/2014/feb/28/liberal-newspaper-express-tribune-silenced-pakistani-taliban

محمد بن ابی بکر مدیر تعمیر پاکستان ویب سائٹ

Comments

comments

Latest Comments
  1. louis vuitton outlet
    -
  2. louis vuitton outlet
    -
  3. louis vuitton outlet
    -
  4. louis vuitton outlet
    -