سعودی عرب کی ایران اور شام پر حملے کی دھمکی: چور مچائے شور

saudi

سعودیہ عرب کے برطانیہ میں سفیر محمد بن نواف بن عبدالعزیز آل سعود کا ایک مراسلہ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں شایع ہوا-اس مراسلے کے مندرجات کو اگر غور سے پڑھا جائے تو اس کا لب لباب یہ بنتا ہے کہ یورپ اور امریکہ نے شام اور ایران کے بارے میں اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لاتے ہوئے جو اقدامات کئے ہیں ان سے مڈل ایسٹ میں امن اور سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں

 سعودی سفیر شہزادہ محمد بن نائف اپنے آرٹیکل میں لکھا ہے کہ ایران اور شام کے بارے میں مغرب کی پالیسیاں ’خطرناک جوا‘ ہیں، سعودی عرب خطے کو محفوظ بنانے کے لیے مغرب کی مدد کے بغیر بھی پر شام اور ایران کے خلاف کارروائی کے لیے تیار ہے۔

محمد بن نواف بن عبدالعزیز آل سعود امریکہ اور یورپ پر الزام عائد کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے اتحادیوں کو مڈل ایسٹ میں تنہا چھوڑ دیا ہے-اس الزام کے ثبوت میں محمد بن نواف کے پاس جی فائیو پلس کی ایران کے ساتھ ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ہونے والی ڈیل اور شام کو کیمیائی ہتھیاروں کو تلف کرنے کے بدلے شام کے خلاف فوجی کاروائی سے رک جانا ہے-

سعودی عرب کے برطانیہ میں قائم سفیر کے اس مراسلے کو غور سے پڑھا جائے تو اس کا صاف صاف مطلب یہ بنتا ہے کہ امریکہ اور یوروپی ممالک کو ایک طرف تو ایران کے خلاف معاشی پابندیوں اور اس کے خلاف فوجی کاروائی کے آپشن سے ہٹ کر کسی اور آپشن کی طرف دیکھنا ہی نہیں چاہئیے تھا چاہے ان اقدامات سے کتنی ہی جانیں چلی جاتیں اور خطے میں کس قدر عدم استحکام پیدا ہوتا-

ایران کے خلاف کاروائی کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کی یہ بھی خواہش تھی کہ شام  میں بشار الاسد اور شامی اپوزیشن میں کسی باوقار سمجھوتے کی تلاش کی بجائے شام میں بشار الاسد کے خلاف فوجی حل کو ہی ترجیح دی جاتی اس کے بدلے میں مڈل ایسٹ کے اندر نسلی اور مذھبی تضاد اور ان بنیادوں پر خانہ جنگی کتنی ہی تیز ہوجاتی-

سعودی عرب کے برطانیہ میں مذکورہ سفیر امریکہ اور یورپ کی جانب سے شام میں القائدہ اور دیگر سلفی وہابی تکفیری جہادیوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر تشویش کے اظہار کو بھی کوئی اہمیت نہیں دیتے جبکہ خود فرانسیسی اخبار لی مانڈ ،امریکی اخبار نیویارک ٹائمز ،واشنگٹن پوسٹ اور برطانوی اخبار و جرائد یہ رپورٹ کرچکے ہیں کہ شام کے اندر مڈل ایسٹ،پاکستان،یورپ کے ملکوں سے ہزاروں جنگجو بشارالاسد کے خلاف ہی نہیں لڑرہے بلکہ یہ آزاد شام فوج سے بھی لڑرہے ہیں اور ان کی جانب سے صوفی سنّیوں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے-دمشق کی معروف تاریخی سنّی مسجد جو جامع مسجد بنو امیہ کے نام سے معروف ہے کے خطیب وہابی-تکفیری دھشت گردوں کے حملے کا شکار ہوکر جاں بحق ہوئے-

سعودی سفیر مڈل ایسٹ،جنوبی ایشیا،جنوب مشرقی ایشیا ،وسط ایشیا ،چین،روس میں پھیلی دھشت گردی،قتل و غارت گردی اور خون ریزی میں اپنے کردار کو کمال مہارت سے چھپا جاتے ہیں-اور وہ اس بات کاعزم کرتے ہیں کہ وہ تنہا اس کام کو جاری رکھیں گے-

کیا یہ عجب بات نہیں ہے کہ مڈل ایسٹ کے حوالے سے امریکہ اور یورپ کے کردار پر سعودیہ عرب کی تنقید کے تمام پہلو وہی ہیں جو اسرائیل کی صہیونی حکومت کے ہیں-دونوں مڈل ایسٹ میں امریکہ اور یورپ کی جانب سے ایران اور شام پر فوجی حملوں اور پوری طاقت سے جنگ کرنے کی حمائت کرتے ہیں اور جب امریکہ اور یورپ اس سے روگردانی کرتے ہیں اور مڈل ایسٹ میں شام اور ایران سے پرامن طریقے سے تنازعات کا حل نکالنے پر سب و شتم کرتے ہیں-

سعودی عرب  پر حکومت کرنے والے آل سعود مڈل ایسٹ سمیت پوری دنیا میں حالات میں ہونے والی تبدیلیوں کا ساتھ دینے سے قاصر ہیں-اب وہ تنہا ہی پرواز کرنا چاہتے ہیں-

سعودی عرب کے برطانیہ میں سفیر کا یہ مراسلہ بتاتا ہے کہ آل سعود سعودیہ عرب کو ایک ایمپائر خیال کرتے ہیں جو اپنے مفادات کو مذھبی آئیڈیالوجی کی گولیوں میں کوٹڈ کرکے دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں-اور ماضی میں جب امریکہ کے سٹریٹجک مفادات سعودیہ عرب اور اس کے اتحادیوں کے مفادات سے سو فیصد ہم آہنگ تھے تو سعودیہ عرب کو امریکہ اور یورپ کی حکومتوں کے انسانی حقوق کے چمپئن ہونے کے بارے میں کوئی شک پیدا نہیں ہوا-آج جب امریکہ اور یورپ کی جانب سے مڈل ایسٹ میں غیر سلفی صوفی سنّی اور شیعہ برادریوں کے حقوق اور شناخت کو تسلیم کیا جارہا ہے اور امریکہ اور یورپ مڈل ایسٹ میں سلفی تکفیری دھشت گردوں کو مدد دینے والی پالیسیوں سے رجوع کررہے ہیں تو سعودیہ عرب اس بات کا عہد کررہا ہے کہ وہ مڈل ایسٹ ہی میں ہی نہیں بلکہ دیگر خطوں میں بھی غیر سلفی مذھبی برادریوں کے خلاف دھشت گردی کے نیٹ ورک بنانے اور دیگر علاقوں میں دھشت گردی کو برآمد کرنے کا سلسلہ جاری رکھے گا-

سعودی عرب کی جانب سے سلامتی کونسل کیطرف سے شام اور ایران کے حلاف فوجی کاروائی نہ کرنے اور عالمی پابندی نہ لگانے پر سلامتی کونسل کی عارضی نشست کو قبول نہ کرنے کا جواز یہ بتایا گیا کہ یہ ادارہ انسانی حقوق کی پامالی کرنے والے عناصر کو روکنے میں ناکام رہا ہے –

سعودی شہزادہ سلامتی کونسل کو ٹاکنگ شاپ سے تعبیر کرتا ہے-لیکن اپنے ٹریک ریکارڑ کو بھول جاتا ہے کہ کیسے وہ ایک لمبے عرصہ تک عراق ،مصر،کے آمروں کو سپورٹ کرتا رہا اور ان کو جمہوری اور انسانی حقوق دبانے میں مدد دیتا رہا-سلامتی کونسل تو اس وقت بھی مذمتی قراردادوں سے آگے نہیں بڑھ پائی تھی-

آج سعودیہ عرب بحرین،کویت،متحدہ عرب امارات ،قطر اور مصر میں آمر اور ملوکانہ حکومتوں کو سپورٹ کررہا ہے اوران حکومتوں کے جبر اور انسانی حقوق کی پامالی پر ان کو اپنے عوام کو گجلنے کے لیے مالی اور فوجی امداد دے رہا ہے-جبکہ وہ عراق میں شیعہ-سنّی اور کردوں کی مخلوط حکومت کو گرانے اور وہاں شیعہ ،صوفی سنّی گروہوں کی نسل کشی کا منظم پروجیکٹ کرارہا ہے

حود سعودیہ عرب میں شیعہ اور غیر سلفی سنّی مکاتب فکر کی حالت زار بہت خراب ہے اور آل سعود کی پولیس اور انٹیلی جنس کے مظالم کی داستان بہت طویل ہے-

سعودی انٹیلی جنس عراق،لبنان،شام،بحرین،ملائشیا ،افریقہ،جنوبی ایشیا،جنوب مشرقی ایشیا ،وسط ایشیا میں دھشت گرد نیٹ ورکس کی مائی باپ بنی ہوئی ہے-آج اس کی فرسٹریشن کا سبب یہ ہے کہ اس باب میں اب اس کو امریکہ اور یورپ کی چھتری سے محرومی کا سامنا ہے-سعودی عرب کی فرقہ وارانہ دھشت گردی کی ایکسپورٹ کا کاروبار امریکہ اور یورپ کے ہی نہيں بلکہ خطے میں ابھرتی ہوئی نئی طاقتوں روس،چین،برازیل کے مفادات کے بھی خلاف ہے-شام اور ایران کے بارے میں سعودیہ عرب کے نکتہ نظر کو امریکہ اور یورپتو کیا روس اور چين کی حمائت بھی حاصل نہیں ہے جبکہ فرانس سے بھاری اسلحے کی خریداری بھی اس کی تنہائی میں کمی نہیں کرسکی ہے

http://www.nytimes.com/2013/12/18/opinion/saudi-arabia-will-go-it-alone.html?_r=1&

Comments

comments

Latest Comments
  1. Sarah Khan
    -
  2. Patriot
    -
  3. Osama
    -
  4. Osama
    -