سابق چیف جسٹس افتخار چودھری 11 دسمبر،2013 بروز بدھ اپنے عہدے سے سبکدوش ہوگئے-اسی دن ان کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس کا اہتمام تھا-اس ریفرنس کی کاروائی کی میڈیا کوریج کے لیے باضابطہ دعوت نامہ کسی صحافی کو جاری نہیں کیا گیا-اس فل ریفرنس کورٹ کی کوریج کی بظاہر کسی کو اجازت بھی نہیں دی گئی-سابق سی جے کے پروٹوکول آفیسر عبدالحمید کے بقول ایک پرائیوٹ کیمرہ مین کو استقبالیہ کی ریکارڑنگ کے لیے بلایا گیا تھا-لیکن یہ فوٹیج جنگ گروپ کے سپریم کورٹ کے رپورٹر عبدالقیوم صدیقی کو حاصل ہوگئی اور جیو نے اسے خصوصی کارنامہ قرار دیا-جبکہ پاکستان کے دوسرے میڈیا گروپ اس معاملے کو جیو کے رپورٹر کے کارنامے کے طور پر لینے کی بجائے اسے سابق سی جے کی ہدائت کا نتیجہ بتلاتے ہیں-اور دوسرے میڈیا گروپس سے وابستہ صحافی اس عمل کو اپنی حق تلفی سے تعبیر کرہے ہیں-
جنگ گروپ کو سی جے کی جانب سے غیر معمولی سہولتیں فراہم کرنے اور اس گروپ کی جانب سے شایع ہونے والی خبروں پر ازخود نوٹس لیے جانے کی عدالتی روائت کی داغ بیل ڈالے جانے پر پاکستان کے اندر اور باہر تنقید کا سلسلہ جاری ہے-لیکن جنگ گروپ نے ایسی کسی بھی تنقید کے جواب میں جو رویہ اپنا رکھا ہے اس سے اس گروپ کی آزاد صحافت اور تحقیقی صحافت کے عزائم اور مقاصد پر انگلیاں اٹھانے کا جواز پیدا ہوتا ہے-
جنگ گروپ کے روزنامہ جنگ نے جمعرات 12 دسمبر،2013ء کو اس حوالے سے جو خبر پانچ کالمی سرخی اور دو ذیلیوں کے ساتھ نکالی اس کا ایک جائزہ لیا جانا بہت سی باتیں سامنے لیکر آئے گا-


اس خبر میں “بعض مخصوص قوتوں،چند وکلاء،اینکر/صحافی،میڈیا کے اداروں اور چند محضوص عناصر” جیسے الفاظ استعمال کرکے ایک سازش کا زکر کیا گیا ہے جو سابق سی جے کے خلاف بنائی گئی-جنگ گروپ کے صحافی عثمان منظور کا کہنا ہے کہ یہ سازش چیف جسٹس کے خلاف پہلے سے تیار کرلی گئی تھی-اس سازش کا بنیادی تھیم چیف جسٹس کی رخصتی کے موقعہ پر چیف جسٹس کی زات پر کیچڑ اچھالنا تھا-جنگ گروپ نے اس سازش کی تیاری کے مقام،مخصوص قوتوں کی شناخت اور بعض عناصر کا حدود دربعہ اور بعض میڈیا گروپس کے نام بتانے کی زحمت گوارا نہیں کی-نہ ہی یہ بتایا کہ ”جنگ گروپ کو یہ کہاں سے پتہ چلا کہ یہ بعض مخصوص قوتیں پہلے سے ہی چیف جسٹس کے خلاف کیچڑ اچھالنے کا ارادہ کرچکی تھیں”جنگ گروپ نے اپنے پڑھنے ،سننے اور دیکھنے والے حضرات و خواتین کو بس یہ بتایا کہ “سازش ہورہی تھی” اور یہ سازشی وہی ہیں جو سابق سی جے کے اعزاز میں دئے جانے والے استقبالیے کی فوٹیج حاصل کرنے والے قیوم صدیقی کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں-جنگ گروپ فوٹیج کو اپنے رپورٹر کا کارنامہ اور تحقیقی صحافت کی روشن مثال قرار دینے پر مصر ہے-
جنگ گروپ کی جانب سے آزاد صحافت اور تحقیقی صحافت کے سورماء ہونے کے اس دعوے کو پاکستان کے اکثر صحافی اور تجزیہ نگار شک کی نظر سے دیکھتے ہیں-خاص طور پر وہ جنگ گروپ کی عدلیہ کے جوڈیشل ایکٹوآزم اور عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے تحقیقی صحافت کے دعوے پر سوال اٹھاتے ہیں-کیونکہ جنگ گروپ جب اپنی تحقیقی صحافت کے دعوے کررہا تھا اور افتخار محمد چوہدری کے دور کے قصیدے لکھنے میں مصروف تھا تو اسی دوران سوشل میڈیا پر ایک خبر گردش کررہی تھی-خبر یہ تھی کہ
سی جے افتخار محمد چوہدری نے اپنے پی ایس او کو قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 17 ویں گریڈ میں ترقی دے ڈالی
لیکن جنگ گروپ کی تحقیقاتی ٹیم نے اس خبر کو بالکل بھی نہ چھیڑا نہ تو اس کی تصدیق اور نہ ہی اس کی تردید بارے غور و خوض کیا-ایک طرح سے خبر کا بلیک آؤٹ کیا-
سی جے کی مدت ملازمت کے آخری دو ہفتوں میں ان کی مدت ملازمت کے دوران عدلیہ کی کارکردگی کا جائزہ پیش کرنے دوران جنگ گروپ کے انگریزی اور اردو اخبار نے اور اس کے تیز و سست ٹی وی چینلز نے اور یہاں تک کے جمعرات کے دن سابق سی جے کے لیے شایع کئے جانے والے خصوصی ایڈیشن میں سی جے کی قیادت میں جوڈیشل ایکٹوازم پر پاکستان کے سرکردہ قانون دانوں اور انٹرنیشنل کورٹ آف جیورسٹس کی جانب سے ہونے والی انتہائی سنجیدہ اور ماہرانہ تنقید کا بھی کوئی زکر نہ کیا بلکہ ہمیشہ کی طرح اس کو بلیک آؤٹ کیا-
جنگ گروپ نے سابق سی جے کی جانب جو رویہ رکھا اس سے تو یوں محسوس ہونے لگا کہ جنگ گروپ کی نظر میں سی جے ایک ایسا آدمی ہے جس سےخطا سرزد نہیں ہوسکتی-سابق سی جے کی جانب جنگ گروپ کے اس مبالغہ آمیز طریقے نے لوگوں کو یہ کہنے کا جواز فراہم کیا کہ جنگ گروپ اس لیے سابق سی جے کے بارے میں غیر متوازن مدح سرائی کررہا ہے سابق سی جے نے جنگ گروپ کی سیلز ٹیکس ،فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور واجب الادا ٹیکسز کی وصولی کے لیے سابق حکومت کی کوششوں کو سٹے دیکر اور اس کے خلاف دائر ہونے والے مقدمات کو زیر التواء رکھا-بلکہ جو حکومتی وزراء اور افسر اس کے خلاف کاروائی کے لیے سرگرم ہوئے ان کے خلاف خبریں لگنے کے بعد سابق سی جے نے جو ازخود نوٹس لیے اس سے اس گروپ کی قانون شکنی کے خلاف حکومتی مشینری کا کاروائی کرنے کا حوصلہ پست ہوگیا-
اس طرح کی حمائت سابق سی جے نے جب جنگ گروپ کو دی تو جنگ گروپ نے بھی سابق سی جے کی جانب سے اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے پر جس مزاحمت کا سامنا سی جے کو ہوا اس مزاحمت کرنے والوں کے خلاف پروپیگنڈے کا محاذکھول دیا-اب یہ بات کوئی راز نہیں رہی کہ سابق سی جے نے وکلآء کے نمآئندہ اداروں کے انتخابات میں اپنی ایک لابی بنائی اور اس لابی کو جتوانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا-اس دوران جنگ گروپ کے اخبارات اور چینلز سابق سی جے کی لابی کے خلاف الیکشن لڑنے والوں کے خلاف بے جا پروپیگنڈے میں اپنی توانائی صرف کرتا رہا-عاصمہ جہانگیر نے جب سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدارت کا الیکشن لڑا تو جنگ گروپ نے ان کو ہرانے کے لیے ایک باقاعدہ پروپیگنڈا مہم چلائی-اور اس مہم کے سرخیل عبدالقیوم صدیقی،احمد نورانی ،انصار عباسی تھے-احمد نورانی کی کریڈٹ لائن سے اس مرتبہ بھی ایک خبر چلی ہے جس میں پھر سابق سی جے کی جانب سے ریفرنس کی کوریج کے لیے امتیازی سلوک پر تنقید کرنے والوں پر سخت عتاب کیا گیا ہے-یہ احمد نورانی چند دن قبل دنیا ٹی وی کے صحافی رؤف کلاسرا کے ٹیوٹر اکاؤنٹ پر لکھ رہے تھے کہ
“جنگ کروپ ان کی حکومت مخالف تحقیقی خبریں شایع نہیں کرتا-اگر شایع کرے تو نام حذف کردیتا ہے”
احمد نورانی کے اس ٹیوٹ سے بھی جنگ گروپ کی آزاد اور تحقیقی صحافت کے دعوے کا پول کھل جاتا ہے-
عبدالقیوم صدیقی کی تحقیقی صحافت کا احوال جاننے کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ اس نے ایک ٹیبل سٹوری فائل کی تھی جس میں یہ جھوٹ گھڑا گیا کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ججزبحالی کا نوٹیفیکشن واپس لے رہے ہیں-اس خبر پر سابق سی جے نے فوری نوٹس لیا-اگلے دن جب سماعت تھی تو صدیقی صاحب کورٹ کے احاطہ سے فرار ہوگئے-جبکہ حکومت نے کہا کہ ایسی کوئی تجویز حکومت کے ہاں زیر غور نہیں پھر بھی سابق سی جے نے وزیر آعظم سے مستقبل میں ایسا نہ کرنے کی تحریری یقین دھاںی کرانے کا حکم دیا-جبکہ سابق سی جے نے صدیقی صاحب سے ان کی خبر کا ثبوت طلب کرنے کی زحمت گوارا نہ کی-جبکہ سب کو پتہ تھا کہ وہ پیدل خبر تھی-
جنگ گروپ اپنی طریقہ صحافت بلکہ طریقہ واردات پر معترض ہونے والے میڈیا گروپس پر یہ تنقید کی ہے کہ ان کے مالکان پہلے اور بزنس کرتے تھے-یہ بہت بودا اعتراض ہے-جنگ گروپکے مالکان کل تک میڈیا پروڈکٹس بیچتے تھے آج وہ تیل،کھل،بنولہ،کاٹن اور شپنگ کے کاروبار میں ہیں تو ایسے ہی دوسرے بزنس کرنے والوں نے میڈیا کاروبار کو ویادا بااثر اور منافع بخش خیال کیا تو اس میں بھی قدم رکھ دیا-
جنگ گروپ پر یہ الزام ہے کہ وہ اپنے میڈیا بزنس میں اجارہ داری کی زبردست خواہش رکھتا ہے اور اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے اس نے سابق چیف جسٹس سے سودے بازی کی-یہ مفادات اور کچھ لو ،کچھ دو کی سودا کاری تھی-جنگ گروپ سابق سی جے کے ساتھ اس ڈیل کو آزاد صحافت اور تحقیقاتی صحافت کے خوش نما عنوان دیتا ہے-وہ اس کو برآئی بھلائی جنگ قرار دیتا ہے

اے آر وائے،کیپٹل ٹی وی،بول چینل کے مالکان سے اس کا تنازعہ تحقیقاتی صحافت یا آزاد عدلیہ کے تحفظ کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ بہت واضح کاروباری چشمک اور کیک کے شئیر کی لڑائی ہے-سابق سی جے اس چشمک میں اس لیے پھنسے ہیں کہ ان کی عدالت میں یہ معاملات جب گئے تو جنگ گروپ کے حریفوں کی نظر میں سابق سی جے اس معاملے میں غیرجانبدار رہنے کی بجائے اپنا وزن جنگ گروپ کے پلڑے میں ڈال گئے-
جنگ گروپ پاکستان میں ميڈیا بزنس میں اپنی مناپلی قائم رکھنے کے لیے سابق سی جے کے ساتھ گٹھ جوڑ کا مرتکب ہوا-اس نے کیبل آپریٹرز پر اثرانداز ہوکر ان کی ایسوسی ایشن کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی-اس نے سرکاری ٹیلی ويژن کو پیچھے کرنے کے لیے میچز دکھانے کے رائٹس وغیرہ کے معاملے میں سابق سی جے کو ہی اپنا وسیلہ بنایا-
جنگ گروپ اور سابق سی جے دونوں کے بارے میں یہ بات بھی مشترک ہے کہ دونوں مسلم ليگ نواز کو سہارا دینے اور ان کے معاملے میں نرمی کے مرتکب پائے گئے-ابھی چیئرمین نادرا کی برطرفی کے معاملے حکومتی بلنڈر کا دفاع جس طرح سے جنگ گروپ نے کیا اس سے تو بہت سے معاملات بے نقاب ہوگئے-
جنگ گروپ نے سابق چیف جسٹس کی مدت ملازمت کے آخری دو ہفتوں میں جس طرح سے اپنےاخبارات اور ٹی وی چینل کو “افتخارنامہ”میں بدل ڈالا اس کو دیکھتے ہوئے عمر قریشی جوکہ معروف صحافی ہیں نے ٹیوٹر پر لکھا
“بس اب جیو کی طرف سے سی جے کو پاکستان کہ بادشاہ قرار دینا باقی رہ گیا ہے”
جنگ گروپ کا میڈیا ایکٹوآزم اور چیف جسٹس کا جوڈیشل ایکٹوآزم دونوں میں کسی حد تک گٹھ جوڑ تھا جس کی ایک گواہی فل کورٹ ریفرنس کی فوٹیج کی جیو کے کورٹ رپورٹر کو فراہمی ہے-
سابق سی جے اور جنگ گروپ کے اس مبینہ گٹھ جوڑ نے دونوں کی غیرجانبداری کے دعوؤں پر سخت ضرب لگائی ہے-

سابق چیف جسٹس کے اعزاز میں ہونے والے فل کورٹ ریفرنس میں موجودہ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے بہت ہی دھیمے اور نرم انداز میں بین السطور چیف جسٹس کے جوڈیشل ایکٹوازم کی نوعیت واضح کردی ان کا کہنا تھا کہ از خود نوٹس کے معاملے پر نظرثانی کی ضرورت ہے –یہ اختیار آئین کی حدود میں رہ کر استعمال کیا جائے گا-انہوں نے ایک طرح سے ان تمام ناقد وکلاء کی تائید کی جن کے مطابق ازخود نوٹس کے اختیار کو آئین سے ماوراہوکر استعمال کیا جاتا رہا ہے-اس اختیار کے بے محابا استعمال نے چوہدری اعتزاز احسن کو یہ کہنے پر مجبور کردیا تھا کہ
“آزاد عدلیہ اتنی آزاد ہوئی کہ آئین سے بھی آزاد ہوگئی”

چیف جسٹس میں کہیں کہیں ضیاء الحق کی روح بھی درآتی تھی خاص طور پر جب وہ اراکین پارلیمنٹ کی اہلیت بارے یا صدر کی اہلیت بارے آئین کی شق 62،63 کے حوالے دینے لگتے تھے-
Comments
comments