بلوچستان کی ڈرٹی وار – از ندیم سعید
ارجنٹائن میں انیس سو چھہتر اور تراسی کے فوجی دور آمریت کے دوران سینکڑوں سیاسی کارکنوں کو ریاستی اداروں کے ہاتھوں جبری گمشدگیوں، تشدد اور ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ سیاسی مخالفین کے خلاف بہیمانہ کارروائی کے اس دور کو ارجنٹائن کی سیاسی تاریخ میں ’ڈرٹی وار‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
پاکستان کے ریاستی ادارے بھی پچھلے کئی سالوں سے بلوچستان میں ڈرٹی وار طرز کے آپریشن میں مصروف ہیں۔ بلوچستان میں سیاسی کارکنوں، ادیب، شعراء اوردانشوروں کے لاپتہ ہوجانے کا سلسلہ فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے دور میں شروع ہوا جو ان کے بعد آنے والے جمہوری ادوار بھی جاری ہے۔
ارجنٹائن کی ڈرٹی وار کے دوران چند گمشدہ افراد کی ماؤں نے اپنے بیٹوں کی بازیابی کے لیے بیونس آئرس میں صدارتی محل کے سامنے ’پلازہ ڈی میو‘ پر اکٹھے ہوکر مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا جو رفتہ رفتہ ایک تحریک کی شکل اختیار کرگیا، جسے اب’مدرز آف پلازہ ڈی میو‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
جبری گمشدگیوں کے خلاف مسلسل سراپا احتجاج ماما قدیر نے بھی بیس بلوچ خواتین کی ہمراہی میں سات سو کلومیٹر سے زائدمسافت کا ’لانگ مارچ‘ کر کے ثابت کردیا ہے کہ دنیا میں ریاستی جبراگر نہیں رکا تو اس کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے حوصلے بھی پست نہیں ہوئے، اور اس حوالے سے زمان و مکاں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اس طویل پیدل مارچ کے شرکاء کے پیارے یا تو جبری گمشدگی کا شکار ہیں یا پھرماما قدیر کے بیٹے کی طرح گولیوں سے چھلنی ان کی مسخ لاشیں مختلف اوقات میں بلوچستان کے ویرانوں سے ملی ہیں۔
قیام پاکستان سے لیکر اب تک بلوچستان کو ایک مفتوحہ علاقے کے طور پر چلایا جا رہا ہے۔پاکستانی حکمراں طبقے اور ادارے اس وسیع و عریض صوبے میں بسنے والے لوگوں کی بجائے اس کے قدرتی و معدنی وسائل کو عزیز رکھتے ہیں۔بلوچ سیاست کے بظاہر بڑے بڑے نام اپنی قبائلیت اور اس سے جنم لینے والی دشمنیوں سے کبھی نکل نہیں پائے۔ ان کی اسی کمزوری نے انہیں اسلام آباد کے سامنے کٹھ پتلی بنائے رکھا۔
بلوچستان میں ترقی کا سفرجتنا سست رہا شعور نے ارتقائی منزلیں اتنی تیزی سے طے کیں۔بلوچ سٹوڈنٹ آرگنائزیشن اس کا ایک طاقتور اظہار تھا۔ لیکن بی ایس او اور پھر اس سے وجود میںآنے والی سیاسی جماعتوں اور تحریکوں کو ریاستی جبر کا سامنا رہا کیونکہ ان کی قیادت سردار یا نواب گھرانوں سے نہیں بلکہ متوسط طبقے سے ابھر ی تھی، جسے نہ سردار پسند کرتے تھے نہ ریاست کیونکہ سیاستدانوں کی یہ نئی پود عوامی حقوق مانگتی تھی۔
جبری لاپتہ ہونے والوں کی اکثریت بھی سیاسی شعور کی اسی لڑی سے جڑی ہوئی ہے جبکہ نوابوں اور سرداروں کی ’جنگجو‘ اولاد’عرب شیخ‘ بننے کے انتظار میں برطانیہ اور سوئیٹزرلینڈ کی مہمانداری سے لطف اندوز ہورہی ہے، جبکہ انہیں جنگجو شہزادوں کے بھائی پاکستان میں اقتدار کے کیک میں سے اپنا حصہ لینے کی تگ و دو میں بھی لگے ہوئے ہیں۔
ماما قدیر اور ان کی ساتھی خواتین کے عزم و حوصلے کے کیا کہنے لیکن ان کے تاریخی لانگ مارچ سے پاکستان کے ایوان اقتدار و عدل میں ایک پتا تک نہیں ہلا۔ماما قدیر جتنے لوگوں کے ساتھ لانگ مارچ کے لیے نکلے تھے اختتام پر صرف وہی ان کے ساتھ تھے، نہ کوئی کارواں بنا نہ ہی ’چوبیس سات کی میڈیا سرکس‘ میں انہیں کوئی قابل ذکراہمیت دی گئی۔
احتجاج کے اس پرامن مظاہرے کو اہمیت نہ دے کر اسلام آباد نے بلوچستان میں ان آوازوں کو اوربھی مضبوط کیا ہے جو بندوق سے تبدیلی لانے کے لیے آٹھ رہی ہیں۔
سیاسی کارکن اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے مسئلے پر بے بسی کا اظہار کر کے اپنی ذمہ داری پوری کر دی ۔لیکن ترقی اور سرکاری محکموں میں بدعنوانی پر توجہ دیتے ہوئے انہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جبری گمشدگیاں اور مسخ لاشیں انتہائی حساس انسانی معاملہ ہے جسے اگر وہ حل نہ کرسکے تو بلوچ عوام کی نظر میں اسٹیبلشمنٹ کے نئے مہرے کے طور پر دیکھے جائینگے۔
Source :
http://urdu.ruvr.ru/2013_11_28/125096840/