اداریہ

lej

اداریہ:تحفظ کے نام پر مذھبی آزادی ختم کرنے کا منصوبہ

پنجاب حکومت کے وزیر ماحولیات  شجاع خانزادہ جوکہ شہباز شریف کے معتمد خاص خیال کئے جاتے ہیں نے جمعہ 25،اکتوبر 2013 کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس مرتبہ محرم الحرام کے آغاز کے ساتھ ہی پنجاب حکومت جلوس اور مجالس کو ریگولیٹ کرے گی-اور اس ریگولیشن کے تحت مندرجہ ذیل اقدامات اٹھائے جائیں گے-

غیر مندرج مجالس اور جلوسوں پر پابندی ہوگی

کوئی شعیہ زاکر یا عالم بغیر اجازت نامہ حاصل کئے مجلس یا جلوس سے خطاب نہیں کرسکے گا-

شعیہ زاکرین یا علماء کو اشتعال انگیز تقریر کرنے کی اجازت نہیں ہوگی-

مجالس کے دوران لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کی اجازت نہیں دی جائے گی-

پنجاب حکومت نےمندرجہ بالا چار اقدامات شیعہ برادری کے تحفظ اور ان کی سیکورٹی کو ممکن بنانے کے نام پر اٹھائے ہیں-جبکہ یہ فسطائی اقدامات شیعہ برادری کی مذھبی آزادی اوران کے مذھبی رسوم اور طریقوں کو دبانے والی ہیں-بقول شخصے کہ فسطائیت کی ہر ایک قسم قانونی جواز اور عوام کی فلاح و بہبود کے نام پر مسلط کی جاتی ہے-اور اس فسطائیت کی ایک فنکاری یہ بھی ہوتی ہے کہ یہ مظلوم کو ان پر ظلم کے عمل کو ان کی بھلائی کا کام کہہ کرکرتی ہے-

پنجاب حکومت کے ان مجوزہ اقدامات کو دیکھ کر کوئی بھی ذی شعور اور صاحب عقل پہچان لے گا کہ یہ اس ملک میں سرگرم تکفیری دیوبندی گروپ کے کئی سالوں سے چلی آرہی شیعہ مخالف تحریک کے مطالبات پورا کرنے کی طرف سفر کا آغاز ہے-کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں بننے والی سپاہ صحابہ پاکستان (جو آج کل اہل سنت والجماعت کے نام  سے پورے ملک میں کام کرہے ہیں)اپنے بننے کے وقت سے لیکر ایک طرف تو پاکستان کی ریاست سے وہ احمدیوں کی طرح شیعہ کو بھی کافر قرار دینے کا مطالبہ کررہی ہے-دوسری طرف اس تکفیری گروہ نے آغاز کار سے عاشور کے جلوس اور مجالس پر پابندی لگانے اور شیعہ مذھب کی رسومات کو ان کی امام بارگاہوں تک محدود رکھنے کا مطالبہ کرتی آرہی ہے-لیکن سابق ادوار حکومت میں کسی نے بھی تکفیری دیوبندی گروپ کے ان مطالبات کو سنجیدگی سے لینے ضرورت محسوس نہیں کی تھی-مگر اب پنجاب حکومت چیف منسٹر شہباز شریف کی قیادت میں شیعہ برادری کی مذھبی رسومات کو محدود کرنے کی پالیسی پر عمل پیدا ہونے کی تیاری کررہی ہے-گویا ایک منتخب جمہوری حکومت کہلانے کی دعوے دار صوبائی حکومت سکورٹی کے نام پر شیعہ برادری کی مذھبی آزادی کو سلب کرنے کا ارادہ کرتی نظر آتی ہے-

پنجاب حکومت کے بارے میں یہ راز سب کو معلوم ہے کہ اس کی سپاہ صحابہ پاکستان کے ساتھ ایک ڈیل موجود ہے اور اس کا اتحاد بھی مسلم لیگ نواز کےساتھ موجود ہے-اور اسی وجہ سے پنجاب حکومت ایک طرف تو پہلے سے ہی شیعہ برادری کی جانب سے مجالس عزا اور جلوس ہائے عزاداری کو سیکورٹی فراہم کرنے کے نام پر ایک طرح سے محاصرے میں لئے ہوتی ہے اور شیعہ برادری میں خوف کو پھیلانے کا سلسہ بھی جاری رکھے ہوئے ہے-دوسری طرف اب یہ اگلے قدم کی جانب آئی ہے-اور یہ قدم شیعہ برادری کی عاشورہ کی مذھبی رسومات کو تباہ و برباد کرنے کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے-برصغیر میں کبھی بھی عاشور کے جلوسوں اور مجالس کے لیے یہ شرط عائد نہ کی گئی کہ ان کے انعقاد کے لیے حکومتی اجازت نامے کا حصول ضروری ہوگا-اور نہ ہی کبھی شیعہ علماء و زاکرین سے یہ کہا گیا تھا کہ وہ کسی بھی مجلس یا جلوس میں تقریر کرنے کے لیے ایک پرمٹ حاصل کریں گے-لیکن اب ان کے لیے رجسٹریشن کو لازم قرار دیا جارہا ہے-گویا سیدھا سیدھا شیعہ برادری کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ ان کی مذھبی رسومات کی ادائیگی کے لیے قانونی جواز کی اور ان کے عالموں کو بیان و درس کے لیے پروانہ راہداری حکومت دے سکتی ہے –گویا سٹيٹ کے حکام شیعہ برادری کے رسوم اور مذھبی شعائر کے انعقاد ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرے گی-یہ کسی بھی مذھبی گروہ یا برادری کو ریاست کی شہریت اور اس کے تحت حاصل ہونے حقوق سے محروم رکھنے کی طرف جانے والا راستہ ہے-اور تکفیری دیوبندی اور سلفی وہابی ایجںڈا اس پروسس کو ریاستی سطح پر شیعہ کو غیر مسلم گروہ قراردینے تک لیجانے کا سخت خواہش مند ہے اور اسے مسلم لیگ نواز سے کافی امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے-

جلوس ہائے عزاداری اور مجالس عاشورہ کو رجسٹر کرانے اور علماء شیعہ کے لیے پروانہ راہداری جیسی شرائط کا مقصد شیعہ برادی کے اندر اس مسئلے پر تفریق اور تقسیم پیدا کرنا بھی ہے-

حیرت کی بات یہ ہے کہ شیعہ برادری جو روز قتل ہورہے ہیں اور ان کے خلاف اس قدر ظلم و ستم کے باوجود انہوں نے مجالس اور عزاء داری کو محدود نہ تو خود کیا اور نہ ہی اس کو محدود کرنے کا مطالبہ کیا ہے-شیعہ برادری کی تاریخ یہ رہی ہے کہ اس کی اجتماعی نسل کشی کے نازک ترین لمحوں میں بھی اس نے اپنی مذھبی آزادیوں پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا تو اب کیسے کرسکتے ہیں-اور پنجاب حکومت کا کام شہریوں کی عزت،آبرو اور پراپرٹی کو محفوظ کرنا ہے وہ ایسے اقدامات سے گریزاں ہے اور ناک پر بیٹھی مکھی اڑانے کی بجائے ناک ہی اڑانے جیسے حل پیش کرتے نہیں تھکتے-

شیعہ برادری کو ان پابندیوں کو کسی بھی شکل میں قبول نہیں کرنا چاہئیے کیونکہ ان پابندیوں کو قبول کرنے کا مطلب عاشور کے عشرے میں سانحہ کربلاء میں شہید ہونے والے اور قیدی بنائے جانے والوں کے مصائب کا بیان نہ ہوسکے-

سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ سلسلہ صرف شیعہ برادری پر ختم ہونے والا نہیں ہے-سواد اعظم اہل سنت کے عید میلاد النبی کے جلوس اور بزگان دین کے مزارات پر عرس وغیرہ کی تقریبات کا انعقاد پہلے سے ہی دیوبندی تکفیری اور س سعودی وہابی پروپیگنڈا کی زد میں ہے-سواد ا‏عظم اہل سنت کے شعائر اور رسومات کو بھی رکوانے کی کوشش اگلا قدم ہوگا-اور تکفیری گروہ شیعہ،احمدی،ہندؤ ،کرسچن اور بریلوی سواد اعظم اہل سنت کو پاکستانی ریاست کے دوسرے درجے کے شہری بنانے کے درپئے ہے-

یہ خوش آئیند بات ہے کہ مجلس وحدت المسلمین نے کراچی نشتر پارک میں بہت صاف انداز میں پنجاب حکومت پر واضح کیا کہ وہ عزاداری کو محدود کرنے کی کوشش نہ کرے-جبکہ مجلس وحدت المسلمین نے سنّی برادری کی جانب یہ کہہ کر ہاتھ بڑھایا ہے کہ

شیعہ اور سواد اعظم کے ساتھ تعلق رکھنے والے لوگوں کے آباؤاجداد نے پاکستان بنایا تھا ان کی اولاد ہی اب اس کو بچاسکتی ہے-جبکہ سنی اتحاد کونسل کے مرکزی رہنماء حامد رضاء کی جانب سے بھی بیان آیا ہے کہ وہ ملک کے اندر شیعہ- سني فساد اور لڑائی کی سازش ناکام بنادیں گے-

Comments

comments

Latest Comments
  1. Usman Rahat Farooqi
    -