زہریلی دوا

DILSHAD

کراچی میں جرائم پیشہ عناصر ، بھتہ خوروں اور قاتلوں کےخلاف آپریشن بجائے اب اس کا رخ ایم کیو ایم کے بے گناہ کارکنان کی طرف موڑ دیا گیا ہےبلاجواز گرفتاریوں اور دوران حراست غیر انسانی تشدد کے واقعات نے کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن کے پرایک سوالیہ نشانہ کھڑا کردیا ہے۔ ایم کیو ایم برنس روڈ سیکٹر یونٹ 23کے سابق یونٹ انچارج دلشاد احمد خان کو 23اکتوبر کو رات 9بجکر 30منٹ کے قریب پاکستان چوک کے علاقے سےرینجرز  کے اہلکاروں نے گرفتار کیا تھا اور علاقے کے لوگ ان کی گرفتاری کے عینی شاہد ہیں۔ دلشاد احمد خان کو مورخہ 25اکتوبرکی صبح 4بجکر 15منٹ پر قانون نافذ کرنے والے ادارے کی طرف سے ان کے گھر والوں کو انتہائی تشوشناک حالت میں دیا گیا ۔دلشاد احمد خان کو فوری طورپر ان کی فیملی نے سول اسپتال منتقل کیا جہاں ابتدائی طبی امداد کے بعد انہیں ایک پرائیویٹ ہسپتال میں داخل کرادیا گیا ۔ڈاکٹروں کی رپورٹ کے مطابق دلشاد احمد خان کو شدید دماغی چوٹ لگی ہے جس کی وجہ سے وہ کوما میں ہیں اور ان کو مصنوعی تنفس فراہم کیا جارہا ہے ۔ ان کی دونوں رانوں کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی ہیں اور دونوں ٹانگوں میں خون جما ہوا ہے جسم کے دیگر حصوں پر بھی شدید تشدد کے نشانات ہیں

رینجرز کی طرف سے یہ کوئی نیا کام  نہیں.رینجرز اس سے پہلے بھی برنس روڈ سیکٹر کے سابق یونٹ انچارج  اجمل بیگ کو تشدد کرکے شہید کرچکی ہے.رینجرز نے اجمل بیگ کو کئی دن تک بہیمانہ تشدد کا نشانہ بناتی رہی اور جب ان کے منہ سے خون کی الٹیاں آنے لگیں تو ان کو پولیس کے حوالے کیا پولیس نے ان کو ہسپتال میں داخل کرایا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے  شہید ہوگئے

سترہ جولائی کو گلستان جوہر میں رینجرز نے ایک ٹیکسی ڈرائیور  کو قتل کردیا تھا اوراس سے پہلے  پانچ جون کو شاہ فیصل کالونی کے قریب رینجرز نے ایک گاڑی پر فائرنگ کی تھی، جس میں ستائیس سالہ نوجوان غلام حیدر ہلاک ہوگیا تھا۔اس واقعے کا مقدمہ بھی رینجرز پر دائر کیا گیا تھا، جس میں ایک اہلکار گرفتار ہے، مقتول غلام حیدر کے رشتے دار نے ایف آئی آر میں موقف اختیار کیا تھا کہ ڈائلائسز کے بعد وہ اپنے کزن کے ساتھ واپس ملیر جارہے تھے کہ شاہ فیصل کالونی کے پاس ان کی گاڑی سے موٹر سائیکل ٹکرا گئی۔ان کے مطابق انہوں نے زخمی کو ایمبولینس میں روانہ کیا اور جیسے گاڑی لے کر آگے بڑھے تو رینجرز اہلکار نے فائرنگ کی جس میں ان کا رشتے دار ہلاک ہوگیا۔انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ چھ ماہ میں اسی نوعیت کے واقعات میں بارہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں، جن میں سے نو افراد پیراملٹری فورسز کی فائرنگ میں ہلاک ہوئے۔یاد رہے کہ دو سال قبل سرفراز شاہ نامی نوجوان رینجرز اہلکاروں کی فائرنگ میں ہلاک ہوگیا تھا، جس کی ویڈیو ٹی وی چینلز پر نشر ہونے کے بعد رینجرز کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سرفراز شاہ کیس میں ایک اہلکار کو سزائے موت جبکہ دیگر چھ کو عمر قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔سرفراز شاہ کے بھائی نے رینجرز اہلکاروں کو معاف کر دیا تھا۔

ستمبر 2010میں رینجرز نے کالعدم تنظیم کے دہشت گردوں کی فائرنگ سے شہید ہونے والےتنویر عبّاس رضوی کے  جنازہ سے واپس آنے والوں  پر فائرنگ کرکے 2افراد کو ہلاک کردیا تھا.رینجرز نے نعرہ تکبیر لگا کر جنازہ میں موجود افراد پر اندھا دھند فائرنگ کری  تھی جس سے 2افرادناصر علی  والد واحد علی  اور اکبر ہلاک اور متعدد زخمی ہوگتے تھے

رینجرز نہ صرف سیاسی کارکنان  اور عام  عوام کو نشانہ بناتی ہے بلکہ وہ ڈاکٹرز اور پروفیسر پر بھی تشدد کرتی ہے.رینجرز 2008میں  کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ریاض کو بھی تشدد کا نشانہ بنا چکی ہے.آل  پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن سندھ کی صدر ثمرینہ  ہاشمی نے کہا ہے کہ رینجرز دہشت گردوں اور بھتہ خوروں کو پکڑنے کے بجائے ڈاکٹرز اور دیگر پروفیشنلز  کو نشانہ بناتی ہے کیوں کہ وہ  رینجرز کا آسان ٹارگٹ ہے

رینجرز کی موجودگی اصل میں کراچی میں ایک زہریلی دوا کا کام کررہی ہے جو مرض کا علاج کرنے کے بجائے اس میں اضافے کا باعث ہے۔ سندھ رینجرزصرف کراچی کی معصوم بے گناہ عوام کے خون کی پیاسی ہے اس رینجرز کو لیاری کی وہ گلیاں نظر نہیں آتی ہیں جہاںکرا چی کے محنت کش مزدورنو جوانوں کو لیاری گینگ وار کے دہشت گرد ان ہی گلیوں میں تشدد کر کے انکے گلے کاٹ کر شہید کر دیتے ہیں ۔نہ رینجرز کو کراچی کی مضافاتی بستیوں میں موجود طالبان کے ٹھکانے نظر آتے ہیں جو فرقہ پرست تنظیموں کے بھی گڑھ بن چکے ہیں.کرا چی کی معصوم بے گناہ عوام کو کبھی رینجرز کے دہشت گرد بلا جواز شہید کرتے ہیں یا پھر اسی دہشت گرد رینجرز کی سر پر ستی میں لیاری گینگ وار کے دہشت گرد شہید کر دیتے ہیں .در اصل لیاری گینگ وار اور رینجرز دونو ں ہی کراچی کی عوام کے دشمن ہیں اس منی پاکستان کو چلانے والے لوگو ں کو مار رہے ہیں جو اس ملک کا سب سے بڑا نقصان ہے

کراچی کے حالت خراب ہونے پر جس تیسرےہاتھہ کی بات کی جاتی ہے وہ کوئی اور نہیں سندھ رینجرز ہی ہے ، کراچی میںشیعہ سنی ٹارگٹ کلنگ ، زمینوں پر ناجائز قبضے پر جرائم پیشہ افراد کی پشت پنائی ، کراچی کے عام شہریوں کو مار مار کر انھے دہشت گرد ، ٹارگٹ کلئر بنا کر میڈیا کے سامنے اپنا واہ واہ کروانے کے لئے پیش کیا جاتا ہے .کراچی کے مسائل کا حل اگر سچ مچ چاہتے ہیں تو کراچی سے رینجرز کو واپس سرحدوں پر بھجا جائے

DILSHAD

 

دلشاد بھائی جن پر رینجرز نے اس قدر تشدد کیا کہ اب کومے میں ہیں اور ایک نجی ہسپتال میں زیرعلاج ہیں

 

 

Comments

comments

Latest Comments
  1. Usman Rahat Farooqi
    -