عائشہ صدیقہ کی سچ بیانی اور بوزنے
عائشہ صدیقہ نے ایک ٹویٹ کیا جس کی بنیاد پر “ٹائمز آف انڈیا “میں ایک آرٹیکل شائع ہوا-اس آرٹیکل میں انہوں نے بتایا کہ کیسے پاکستان کی معروف خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے اپنے لیے کام کرنے والے سکالرز کو امریکہ کے اندر کام کرنے والے تھنک ٹینکس کے ساتھ نتھی کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے-اور ان سکالرز میں سے انہوں نے بطور خاص یوسف معید کا نام بھی لیا-
ٹائمز آف انڈیا نے عائشہ صدیقہ کے ٹویٹس کی بنیاد پر جو سٹوری شائع کی اس کی کہانی بھی خاصی دلچسپ ہے –میں نے یہ آرٹیکل مکمل کرکے بلاگ میں شايع کردیا تو ان کا مجھے فیس بک پر میسج ملا-جس میں انہوں نے اس سٹوری کا خلاصہ درج کیا-میں اس کو یہاں پیسٹ کررہا ہوں
Ayesha Siddiqa
The Pak mil establishment doesn’t like me is not a secret. They want top kill me intellectually is also not hidden. They got a reason to do so due to this unfortunate story that Times of India correspondent in Washington, DC did. He made a scoop out of my tweets making it look like that I had named certain people as ISI agents in US think tanks. I sent a rebuttal to ToI that was never printed. My issue is with a host of people in US think tanks and their peculiar narrative which is so close to establishment’s perspective (both Pak and US). Anatol Lieven has used this to sort out his own differences with me. I don’t have a problem with him except challenging his hypothesis which I believe is my right as a reader and writer. Lieven would only have people sing his praises. Sadly, the two boys who were part of the ToI story are not being defended here. Lieven is using this opportunity to get even.
یہ آرٹیکل جب شائع ہوا تو اسی دوران پاکستان میں کام کرنے والے ایک انسٹیٹوٹ جناح انسٹی ٹیوٹ اسلام آباد کا نام بھی سامنے آیا جس کے اب ڈائریکٹر رضا رومی ہیں-اور اس کی سربراہ شیری دحمان تھیں جو اس وقت امریکہ میں پاکستان کی سفیر ہیں-رضا رومی کا نام آیا تو ساتھ ہی نجم سیٹھی صاحب کا نام بھی گردش کرنے لگا-
اس دوران یہ بھی ہوا کہ تعمیر بینک سیکنڈل سامنے آیا جس میں یہ پتہ چلا کہ اس کے سربراہ جوکہ شیری رحمان کے شوہر ہیں انہوں نے جناح انسٹی ٹیوٹ کو بینک سے خاصا سرمایہ فراہم کیا جو کہ قانون کی کھلی خلاف ورزی تھی-
وزرات اطلاعات کے خفیہ فنڈ کی آڈث رپورٹ میں لسٹ اے کے حوالے سے انکشاف ہوا کہ اس فنڈ سے جناح انسٹی ٹیوٹ کو اس کے ملازموں کی تنخواہوں اور معاملات چلانے کے لیے کابینہ سے منظوری کے بغیر خطیر رقم فراہم کی گئی-
جناح انسٹی ٹیوٹ اور آئی ایس آئی کے درمیان تعلقات کا ایشو پہلی مرتبہ اس وقت سامنے آیا تھا جب اس نے ایک رپورٹ افغانستان کے بارے میں شایع کی تھی اور اس رپورٹ میں لائن جو اختیار کی گئی اس نے ملک میں سیکولر اور لبرل حلقوں کو حیران کرڈالا تھا کہ کیسے سیکولر اور لبرل ازم کا پرچار کرنے والے دھشت گردی کے حوالے سے بات وہ کررہے تھے جو اسٹبلشمنٹ کی تزویراتی گہرائی اور ڈیپ سٹیٹ تھیوری کے مطابق تھی
یہ بات بھی قابل زکر ہے کہ ملٹری اسٹبلشمنٹ سے حسین حقانی کی لڑائی کے بعد امریکہ میں سفیر کے لیے جس نام کو ملٹری اسٹبلشمنٹ نے خود پیش کیا تھا وہ شیری رحمان کا تھا-اور آج جبکہ پی پی پی سے واضح تعلق رکھنے والے لندن کے ہائی کمشنر واجد شمس الحسن مستعفی ہوگئے ہیں تو شیری رحمان ابھی تک اپنے عہدے پر براجمان ہیں-اور مسلم لیگ نواز کو بھی ان کی جگہ دوسرا سفیر لانے کے لیے بے قرار نظر نہیں آتی-
جناح انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر جوکہ فرائڈے ٹائمز کے مدیر بھی ہیں ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے رسالے میں کالعدم سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کو پروجیکٹ کرنے میں بہت آگے رہے ہیں-اس میگزین کے مالک نجم سیٹھی نے بطور چیف منسٹر کئی دھشت گردوں اور فورتھ شیڈول میں موجود لوگوں کو رہا کیا-
پاکستان کے اندر عام طور پر اوپر بیان کردہ سجائیوں کو حساس ترین قرار دے کر اردو پرنٹ میڈیا میں سامنے نہیں لایا جاتا-اور جب یہ سچائیاں سوشل میڈیا کے زریعے اور بعض اوقات پاکستان کے انگریزی پریس کے کسی حصے میں یہ سب شایع ہوجاتا ہے تو پھر “مقدس گائیوں “کو اس سچائی سے پیدا ہونے والے خطرات سے بچانے کے لیے ان مقدس گائیوں کے بچھڑے میدان میں اتر آتے ہیں-اور جھوٹ کا طوفان بدتمیزی برپا کیا جاتا ہے-
مقدس گائیوں کے دودھ پر پلنے والے یہ لے پالک بچے بہت کاریگری سے سچ بیانی پر جھوٹ کی سیاہی ملتے ہیں-
ان میں جنگ گروپ کے مالک میر شکیل الرحمٰن کے لاڈلے صحافی سلیم صافی بھی ہیں-قرشی اور ہمدرد کی صافی خون سے فاسد خارج کرنے اور رنگت نکھارنے کا کام کرتی آئی-لیکن صحافت کے ایم ایس آر کے ملازم صافی کا کام سچائی کو گدلا کرنا اور جھوٹ کے وائرس کو اس میں شامل کرنا ہے-کہا جاتا ہے کہ جرگوں اور پنچائیتوں میں عدالتوں میں جھوٹ بولنے والی روائت کام نہیں کرسکتی مگر ایم ایس آر کا ٹی وی چینل اپنی صافی سے جس جرگہ کو لیکر آتا ہے اس کا پروڈیوسر بھی بقول عائشہ صدیقہ جھوٹ بولنے سے باز نہیں آتا اور چکر دینے کی کوشش کرتا ہے-جبکہ صافی کے جرگے میں ایسے لگنے لگا جیسے سچ بولنا ہی سب سے بڑا گناہ ہے-
عائشہ صدیقہ کے ساتھ عسکری اسٹبلشمنٹ اور آئی ایس آئی کا تنازعہ کیا ہے؟ان کے بارے میں آئی ایس پی آر کی جانب سے پریس ریلز کیوں جاری ہوجاتی ہیں؟ان کی کتاب جو کہ ایک سنجیدہ علمی تحقیق ہے اس پر عسکری اسٹبلشمنٹ ناراض کیوں ہے؟اور یہ جو ڈاکٹر ملیحہ لودھی،زاہد حسین ،طلعت محمود (سابق جرنیل)اور حسن عسکری رضوی ہیں ان کی تیوریاں عائشہ صدیقہ کا نام آتے ہی چڑھ کیوں جاتی ہیں؟آئی ایس آئی کے افسران ان کے بارے میں اپنی نفرت کا اظہار کیوں کرتے رہتے ہیں؟
ان سوالات کا ایک جواب تو یہ ہے ڈاکٹر عائشہ صدیقہ اس ملک کی پہلی صحافی اور تجزیہ نگار ہیں جنہوں نے بہت سنجیدگی اور علمیت کے ساتھ ڈیفنس کیپٹل کے اس کردار کا جائزہ لینے کی کوشش کی جس کی وجہ سے اسٹبلشمنٹ شتر بے مہار ہوئی اور آج ڈیفنس کپیٹل کی بنیاد پر وہ ڈیپ سٹیٹ تھیوری کے تحت تزویراتی گہرائی کی پالیسی کو اتنے کشت و خون کے باوجود جاری رکھے ہوئے ہے-
عائشہ صدیقہ کا شمار ان گنے چنے چند صحافیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے جمہوریت ،سماجی انصاف اور رواداری کی اقدار اصل دشمنوں کو بے نقاب کرنے میں کسی مصلحت سے کام نہیں لیا-
عائشہ صدیقہ کی ایک کامیابی اور ہے کہ بہت سارے نوجوان صحافی ایسے ہیں جو ان کی روائت کی پیروی کررہے ہیں اور وہ اسٹبلشمنٹ کے ہم بستر صحافیوں کی مناپلی کو چیلنج کرنے سے شرماتے نہیں ہیں-
پاکستان کے اندر اردو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں امبیڈڈ صحافیوں کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے-اور احباری مالکان اور چینلز کے مالکان ایسے صحافیوں کی پرورش کرنے اور اپنے اخبارات و چینل میں ان کو کشادہ اور نمایاں جگہ دینے میں سب سے آگے ہیں-ایم ایس آر نے تو اپنا اخبار اور چینل اسی مقصد کے لیے وقف کررکھا ہے-یہ اخبار اور چینل “سن “جیسے بدنام پاپا رازی جرنلسٹوں کی جنت بن گئے ہیں-
ضیاء الحق کی تعفن مارتی فکری لاش سے غذا حاصل کرنے والوں نے اپنی دھشت گردی کے جواز کے لیے قلمی دھشت گردوں کے ٹولوں کو اینکرز اور رپورٹر بناکر بٹھادیا ہے-اور اکثر یہ خود کو انوسٹی گیسٹو مدیر ،انوسٹی گیشن انچارچ اور انوسٹگیٹیو روپورٹر بناکر پیش کرتے ہیں-
کس قدر تضاد ہے ان بوزنوں کی باتوں میں-ابھی زیادہ دن نہیں گزرے یہ پاکستان کے اندر پاکستانی اسٹبلشمنٹ کی انتہاپسندی کو فروغ دینے میں کردار کا پول کھولنے والے صحافیوں کو سی آئی اے،سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ ،پینٹاگون ،سی آئی اے۔ایم آئی سکس اور موساد کا ایجنٹ قرار دینے سے زرا شرم نہیں کھارہے تھے-عائشہ صدیقہ اور حسین حقانی کی جانب سے تحقیقی کتب کے سامنے آنے پر یہ الزامات دھرائے گئے –لیکن جب عائشہ صدیقہ کی جانب سے بعض سکالرز کے آئی ایس آئی کے ساتھ روابط اور ان سے فنڈنگ لینے کا انکشاف ہوا تو صحافیوں کو ایجنٹ قرار دینے کی روش کو بری روش قرار دیا جانے لگا-اور اخلاقیات کے سبق بھی پڑھائے جانے لگے-
حال ہی میں ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کے حوالے سے ڈان نے دو خبریں شايع کی ہیں-ان خبروں میں ڈان نے بین سطور ایجنسیوں کے کردار اور زمین سے سیلرز کو مدد فراہم کئے جانے کے اقرار کو کمیشن کی رپورٹ میں موجود ہونے کا زکر بھی کیا گیا ہے-لیکن ہمارا اردو پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا تو اس بات کو یکسر گول کرگیا-
اس کمیشن رپورٹ نے اس واقعے کے رونماء ہونے کی زمہ داری کسی بھی ادارے پر نہیں ڈالی-پاکستان کے دفائی سسٹم کے فیل ہوجانے یا ایجنسیوں کی بے خبری بارے بھی کوئی موقف سامنے نہیں آیا-لیکن کسی اخبار یا ٹیلی ویژن چینل میں اس پر کوئی بحث دیکھنے کو نہیں ملی-کسی اخبار نے اس کمیشن کی رپورٹ بارے کوئی ایسا اداریہ نہیں لکھا جس میں ان سوالات کو پھر سے اٹھایا گیا ہو-
یہ بھی اپنی جگہ ایک سوال ہے کہ اس رپورٹ کے اس حصے کو میڈیا تک پہنچایا گیا ہے جس میں ریونیو سمیٹ سول اداروں کی نااہلی کا زکر ہے جبکہ ہمیں معلوم نہیں ہے کہ جب جلال آباد سے امریکی ہیلی کاپٹرز پاکستان کی حدود کی چلاف ورزی کرتے ہوئے ایبٹ آباد تک آئے تھے تو ہمارا ریڈار سسٹم ان کے داخلے کی نشاندہی کرسکا تھا یا نہین؟اس وقت جب یہ آپریشن ہورہا تھا تو زمینی مدد فراہم کرنے والے پاکستان کے کسی سیکورٹی ادارے کے لوگ تھے یا اور لوگ تھے؟
میں عائشہ صدیقہ پر دشنام طرازی کے تناظر میں یہ سوالات اس لیے اٹھا رہا ہوں کہ میرے پڑھنے والے جان لیں کہ کیسے ہمارا مین سٹریم میڈیا ایک طرف تو ازخود لگائے ہوئے سنسر کا شکار ہے تو دوسری طرف وہ کس قدر پاکستان کی عسکری اسٹبلشمنٹ اور آئی ایس آئی کے زیراثر ہے-ایسے میں اگر سچ ٹائمز آف انڈیا ۔آوٹ لک ممبئی ،نیویارک ٹائمز ،لی ماںد چھپ جاتا ہے تو شور مچ جاتا ہے-
ہماری ایجنسیاں پورا سچ بولنے والوں کو الگ تھلگ کرنے اور ان کے لکھے لفظوں کو شایع ہونے سے روکنے اور اپنے بوزنوں کو قدآور بنانے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتیں-اور ہمارا مین سٹریم میڈیا اس تنہا کرنے کے عمل میں ان کا پورا ساتھ دیتا ہے-
اس ميڈیا میں تو اتنی ہمت بھی نہیں ہے کہ یہ حافظ سعید ،امیر حمزہ اور دیگر لوگوں کے مہا بیانیوں کا رد بیانیہ شایع کرنے کی ہمت کرسیکں-اسانج اور سنوڈن یہاں پیدا ہوجاتے تو ایسے غائب ہوتے کہ کسی کو ان کا نشان نہ ملتا-
Comments
comments
Raza Rumi said: Your article is good but you wrote on a website that indulges in my defamation and character assassination. Pls don’t tag me with that.
Like · · Unfollow Post · See Friendship
تو میں نے ان کو جواب لکھا
Aamir Hussaini لیکن رضا آپ اتنے جذباتی کیوں ہیں ؟میں حیران ہوں کہ آپ اگر ان الزامات کو غلط خیال کرتے ہیں تو ان کا جواب ٹھنڈے دل سے اور منطقی انداز میں کیوں نہیں دیتے-مجھے یاد ہے کہ ہماری ملاقات جو فرائڈے ٹائمز کے دفتر میں ہوئی بہت بہتر تھی اور اب کا صوفیاء سے لگاؤ بھی اس طرح کی جذباتیت کے منافی ہے
6 minutes ago · Like
Aamir Hussaini ثقلین امام کے ساتھ آپ کی ٹیوٹر پر بات چیت بھی خاصی گرم تھی اور میں حیران تھا کہ ثقلین صاحب جیسے سینئر آدمی سے آپ کا برتاؤ بہت حد تک درست نہ تھا-رضا آپ کی گرم گفتاری نے مجھے بہت رنجیدہ کیا تھا
4 minutes ago · Like
Raza, please be cool, if you want to answer, then answer like a gentleman. If you get upset, and think that you could change the fact, it does not work that way.
آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اردو میڈیا بہے واویلا مچا رہا ہے لیکن اس وقت کی حکومت کی “ناکامی” پر ۔۔۔۔ ان کا خیال ہے کہ صدر زرداری کا کام دوربین پکڑ کر آسمان کھنگاکتے رہنا تھا کہ کسی وقت دشمن کا جہاز نہ آجائے۔ اسی طرح یوسف رضا گیلانی کی ڈیوٹی تھی کہ وہ ایبٹ آبادسے لے کر اور کراچی تک کی تلاشی لیتا تاکہ اسامہ بن لادن کا پتہ چلایا جاسکتا۔۔۔۔اب چونکہ انہوں نے اپنا کام نہیں کیا اس لیے مجرم ہیں۔ رہا سوال فوج اور آئی ایس آئی کا تو وہ تو بقول زید حامد کنفیوز ہوگئی تھی ۔اسے تو تین دن تک سمجھ ہی نہیں آئی کہ ہوا کیا ہے۔ لیکن یہ نکتہ ثانوی ہے۔ ہمارا میڈیا اصل میں اس بات پر پیچ و تاب کھارہا ہے کہ امیریکیوں نے ہماری مادر وطن کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کیوں کی؟؟؟؟ کیوں کی کیوں کی؟؟؟