میر تم بہت یاد آؤگے
میر تم یاد آتے رہو گے
لیل و نہار/عامر حسینی
ملتان میں پرانے شجاع آباد روڈ سے کون واقف نہیں ہوگا-یہ وہ راستہ ہے جہاں سے خواجہ فرید ملتان آیا کرتے تھے اور یہاں ایک عشق زادی کے ساتھ وہ بھی عشق زادے بن گئے تھے-انسان عشق بہت سے کرتا ہے-مرد اور عورت کے عشق کی کہانی تو اپنی جگہ مسلم ہے مگر ایک عشق وہ ہوا کرتا ہے جو انسان کو سماج کی ٹھوس مادی حقیقتوں سے ہوجاتا ہے اور وہ ان مادی حقیقتوں کو بدلنے کے کوشاں ہوجاتا ہے-ایسے ہی ایک عاشق میر سلطان سنگتی تھے-جو پرانے شجاع آباد روڈ پر ایک شکستہ سے نیم کچے مکان میں رہا کرتے تھے-ویسے ان کا گھر کوئٹہ میں بھی تھا مگر یہاں وہ اکثر قیام کرتے تھے-
کہا جاتا ہے کہ عشق وہ ہوتا ہے جو ماسوائے محبوب ہر شئے کو جلاکر راکھ کردیتا ہے-بس مقصود م محور وہ شئے ہوجاتی ہے جس سے عشق ہوا کرتا ہے-عرب کے صحرا میں ایک درخت ایسا ہے جس کو صحرا میں بھٹک جانے والے دیکھ لیں تو ان کو اپنی زندگی ضمانت مل جایا کرتی ہے-اس درخت کو ضال کہا جاتا ہے-یہ درخت دیکھ کر بھٹک جانے والے سارے غم بھول جاتے ہیں-وہ آدمی جو کسی شئے کے لیے سب کچھ بھول جائے اس کو بھی ضال کہہ دیا جاتا ہے-اسی لیے محمد علیہ السلام جب خالق کی محبت میں سب کچھ بھول گئے تھے تو اللہ نے ایک آیت میں ان کو یوں مخاطب کیا تھا
وجدک ضالا فھدی
ہمارے میر صاحب بھی افتادگان خاک کی مجبت میں سب کچھ بھول کر ضال ہوگئے تھے-اور دن رات وہ محنت کشوں میں گھرے رہا کرتے تھے اور ان کے شعور کو مادی جدلیاتی فلسفے سے تیز تر کرتے رہتے تھے-
میری ان سے یاد اللہ کرانے میں ریلوے ورکرز یونین کے رہنماء ملک غلام نبی اعوان کا ہاتھ تھا-ہوا یوں تھا کہ مارشل لاء کے دن تھے-ریلوے مزدوروں پر کڑا وقت تھا-ریلوے یونینز پر پابندی عائد تھی-ایم او ڈی نافذ تھی-ایسے میں ریلوے میں سگنل اینڈ بلاک ایسوسی ایشن کی جدوجہد جاری تھی-ملازمین کے لیے ناممکن تھا کہ وہ اس کو آرگنائز کرنے کے لیے کھلے عام سامنے آتے-ایسے میں قرعہ فال میرے نام نکل آیا-میں نے چیف آرگنائزر کا عہدہ سنبھال لیا اور جدوجہد شروع کردی-ایسے میں ملتان کے اندر ایک روز ہمیں ایک اجلاس کے لیے جگہ کی تلاش تھی تو ملک غلامنبی اعوان ہمیں پرانے شجاع آباد روڈ ملتان پر واقع ایک گھر میں لے گئے-یہ جولائی کی تپتی دوپہر تھی-اس گھر کی بیٹھک میں فرشی نشست ہوئی اور وہیں سلوکے اور شلوار میں ملبوس ایک کلین شیو بزرگ جنہوں نے آلہ سماعت کانوں سے لگارکھا تھا تشریف لے آئے-تعارف ہوا-میر سلطان سنگتی نام تھا-پرانے ٹریڈ یونین لیڈر اور کمیونسٹ تھے-ان دنوں طفیل عباس کے ساتھ کام کررہے تھے-
بہت سادگی سے محنت کشوں کا فلسفہ بیان کرتے تھے-سرمایہ داری نظام کا سائنسی انتقاد بھی مہارت سے کیا کرتے تھے-ان کے پاس آنے والوں میں زیادہ لوگ ریلوے کے مزدور،سنیٹری ورکرز،واسا ملتان کے ملازم اور واپڈا،پی ٹی سی ایل کے محنت کش ہوا کرتے تھے-ہر شام ان کے ہاں محفل سجتی تھی اور عمل اور خیالات دونوں پر غور فکر ہوا کرتا تھا-
وہ اپنے ملنے والوں سے کام کی جگہ پر پھیلی طبقاتی تقسیم اور کشمکش کو پہچاننے پر زور دیتے اور اس پہچان کے بعد جدوجہد کرنے کے لیے کام کرنے پر زور دیتے تھے-
بہت سارے نوجوان محنت کشوں میں انہوں نے طبقاتی فلسفے کی آتش کو دھکایا اور ان کو عمل کی طرف راغب کیا-میں نے اپنے تھیورٹیکل نالج کو ان کے تجربات سے اور زیادہ کارآمد بنایا-اگرچہ میں بہت زیادہ ان سے استفادہ نہیں کرپایا تھا-
میر سلطان سنگتی ایک روائتی قدامت پرست گھرانے میں پیدا ہوئے تھے-وہ ایسے ماحول میں پلے پڑھے تھے جہاں پر انسانوں کی تقدیر بنی بنائی اور فریم ورک کے اندر فکس ہوا کرتی ہے-جو ہورہا ہوتا ہے اس کے ہونے پر ناگزیریت کی مہر لگادی جاتی تھی اور پھر اپنی اور سماج کی حالت کو بدلنے کا کوئی تصور تک نہیں تھا-
امارت اور غربت،ظلم،ناانصافی اور بہت بڑی طبقاتی خلیج سب کب سب انسان کی نہ بدلنے والی تقدیر کا حصّہ تھے-ان پر صبر کرنا ہی سب سے بڑی نیکی تصور کی جاتی تھی-
میر سلطان سنگتی بھی ایسے ہی جبریہ ماحول کے پروردہ تھے-مگر پھر وہ سماجی تبدیلی کے سب سے بڑے فلسفے اور علم سے آشنا ہوئے-ان کی محنت کے دوران ان کو آجر اور اجیر کے رشتے کی سمجھ آنے لگی اور جدوجہد کے دوران ان پر یہ انکشاف ہوا کہ ناانصافی اور طبقاتی تقسیم خدا کی پیدا کردہ نہیں ہیں بلکہ یہ تو انسانوں کی بنائی ہوئی تقسیم ہے-اور یہ سمجھ آتے ہی انہوں نے اپنی ساری زندگی سماج کو بدلنے میں صرف کرڈالی-
میر صاحب سماج واد ہی نہ تھے بلکہ وہ ایک مشفق باپ بھی تھے-انہوں نے اپنی سماجی آدرشی ذندگی میں گھر کو بھی نظر انداز نہیں کیا تھا-یقینی طور پر وہ کارل مارکس ،فریڈرک اینگلس ،ولادیمیر لینن سے بہت متاثر تھے-وہ ہندوستان کے سماج وادیوں کو بھی اپنا آئیڈل گردانتے تھے-
میری ان سے ایک نشست ہوئی تو میں نے ان کو ایران کے عظیم مفکر ڈاکٹر علی شریعتی کی آئیڈیالوجی کے بارے میں بتایا-اور ان کو بتایا کہ اردو اور انگریزی زبانوں میں اشتراکیت کی بنیادیں عرب سماج اور برصغیر کے معاشرے میں تلاش کرنے کا کام سید سبط حسن نے کیا تھا-انہوں نے پیرس کمیون سے پہلے سندھ میں شاہ عنائت کے ہاں کمیون کو دریافت کرلیا تھا-انہوں نے بنی اسرائیل کے بیغمبروں کی تعلیمات میں اشتراکیت کو دریافت کرلیا تھا-اور برصغیر کی سوسائٹی میں سیکولر روایات کی دریافت بھی کی تھی-میر سلطان سنگتی سیکولرازم اور اشتراکیت کی ایشائی بنیادوں کے اس تذکرے پر بہت خوش ہوئے تھے-اور چاہتے تھے کہ اس طرح کا تذکرہ عام ہو-
میں انگریزی میں زیادہ لکھا کرتا تھا تو میر صاحب نے کہا کہ زیادہ سے زیادہ اردو میں لکھا کرو کیونکہ اردو پڑھنے والے اور سمجھنے والے زیادہ ہیں-میں نے ان کی بات پلے باندھ لی اور مختار عاقل کے اخبار میں لکھنے لگا-آج میری کالم نویسی کی جو مہارت ہے اس میں میر صاحب کا بھی ہاتھ ہے-
میر صاحب کی ایک ادا مجھے بہت پسند تھی-وہ تھی ان کی زندگی کے ایک ہی وقت میں کئی پہلو دکھانے کی ادا-بہت خشک موضوع کے دوران کہیں بیچ میں یہ بات ضرور کہتے تھے کہ آئیڈیالوجی کے عشق میں گرفتار لوگوں کے ساتھ ایک مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ نظریہ سازوں کو اور اپنے سورماؤں کو روبورٹ کی مانند ہر وقت بس نظریہ کے گرد گھومتے دیکھنے اور دکھانا پسند کرتے ہیں جبکہ ان کی زندگی کی جو ذاتی واردات ہوتی ہے اس پر کم ہی نظر جاتی ہے اور خود بھی ایسا ہی ہونے کی کوشش کرتے ہیں –میر صاحب مذاق میں کہا کرتے تھے کہ بس یہیں سے تو وہابیت کا آغاز ہوتا ہے-ان کی اپنی ایک تھیوری تھی اور وہ یہ تھی کہ وہابیت صرف اسلام کے ماننے والے سلفیوں میں ہی نہیں ہوتی بلکہ ایک طرح کا وہابی پن تو ہر مکتبہ فکر میں پایا جاتا ہے-وہابی مارکسسٹ بھی ہوسکتے ہیں اور کہا کرتے تھے کہ انہوں نے ایسے کئی کردار دیکھے ہیں-میں ان کی بات سنکر بہت ہنسا کرتا تھا-
ایک مرتبہ یہ ہوا کہ میں اپنے ماموں کے ہاں حیدرآباد میں تھا-بہت صاحب علم آدمی تھے-وہ مجھے مسلم دنیا کے اندر عروج کے زمانے کے بغدار،استنبول،قرطبہ ،دہلی اور بڑے بڑے نامور شہروں کی سماجی اور اجتماعی زندگی کی رنگینیوں کے بارے میں بتارہے تھے-جب بغداد الف لیلوی داستانوں کے مطابق شہر تھا تو اس زمانے میں فضاء بہت لبرل،سیکولر اور رواداری پر مبنی تھی-علم و فن ترقی پر تھے-بغداد شہر کے حمام اور قہوہ کھانے اور کافا ہاؤس(کافی ہاؤس)اصل میں مجادلہ علم و فن کے مراکز تھے-اس زمانے میں کٹّر پن کا کہیں پتہ نہ تھا-بھلا ابن الراوندی جیسا آدمی کٹّر پن سے بھرے سماج میں ایک دن بھی رہ سکتا تھا-اس کی شاعری کو پڑھ لیں تو احساس ہوجائے گا کہ اس زمانے کا بغداد کیسے کیسے لوگوں کو برداشت کرتا تھا-میرے ماموں اگرچہ جماعت اسلامی کے رکن رہے تھے مگر وسعت علمی نے ان کا دل و دماغ کشادہ کرڈالا تھا کہنے لگے کٹّر پن ہے جسے یار لوگ کبھی وہابیت اور کبھی ملائیت کہہ دیتے ہیں اس کا کسی خاص مسلک سے لینا دینا نہیں ہے-ورنہ اہل حدیث کے ہاں نواب صدیق خان قنوجی اور مومن خان مومن جیسے دانشور اور شاعر نہ پائے جاتے-جس قدر رومانویت اور آزاد خیالی مومن کی شاعری میں ہے وہ ہمیں میر تقی میر اور غالب کے ہاں مل جاتی ہے تو مجھے میر سلطان سنگتی بہت یاد آئے اور میں نے اپنے ماموں سے زکر کیا تو وہ بھی خوب ہنسے-
ویسے کمیونسٹ مشاہیر کی بیویوں اور بیٹیوں نے ان مشاہیر کی ذاتی زندگی کے ایسے گوشے وا کئے ہیں کہ جو ہمیں سبط صاحب،سجاد ظہیر ،کیفی اعظمی،سردار جعفری کی اپنی کتابوں میں نظر نہیں آتے-رضیہ سجاد ظہیر نے “میرے حصّے کی روشنائی” لکھی اور پہلی دفعہ لوگوں کو ایک بیٹے،ایک باپ،ایک شوہر اور ایک بھائی کی شکل میں اور ایک دوست و رفیق کی صورت میں سجاد ظہیر سے ہمیں ملوایا-کیفی اعظمی کی اہلیہ شوکت کیفی “یاد کی رہ گذر”لکھ کر ایک شوہر،ایک باپ کی صورت کیفی اعظمی کی نقش کرگئیں اور شبانہ اعظمی اور کیفی کے درمیان کیا تعلق تھا اس کو بھی بہت خوب صورت طریقے سے پینٹ کرگئیں-
ابھی کچھ روز ہوئے جب میری فیس بک وال پر ایک نوجوان سے بات ہوئی جس نے اپنا نام علی عباس رکھا ہوا ہے-کہنے لگا کہ وہ علی عباس جلال پوری کا نواسہ ہے-اس نے بتایا کہ اس کی والدہ اپنے والد پر ایک کتاب لکھنے کی خواہش مند ہیں-اور کہا کہ وہ اپنے والد سے جڑی یادوں کو ان کے چاہنے والوں سے شئیر کرنا چاہتی ہیں-میں بہت خوش ہوا کہ علی عباس جلال پوری کی بیٹی اپنے حصّے کی روشنائی سے لوگوں کو متعارف کرائے گی تو علی عباس جلال پوری کے اندر جھانکنے کا موقعہ ملے گا ورنہ اپنی کتابوں میں اپنی تحریروں کے واسطے سے انہوں نے کبھی ان کے اندر جھانکنے کی اجازت کسی کو نہ دی-یہاں تک کہ ان سے ملنے کے بعد بھی ان کے اندر کی خبر نہ ہوسکی-
ملتان اور کوئٹہ میں میر صاجب نے جو بھی وقت گزارا افتادگان خاک کے درمیان گزارا-ان کے شعور کی بیداری میں اپنا کردار ادا کرتے رہے-
میں حوادث زمانہ کی نذر ایسا ہوا کہ پھر ان سے ملاقات کی سبیل نہ نکل سکی-مگر دنیا بھر میں جہاں بھی گیا تو ان کی کہی ہوئی کوئی نہ کوئی بات یاد آتی رہی اور میر صاجب سے تعلق قائم رہا-
میں گھر سے باہر جانے کی تیاری کررہا تھا کہ میرے موبائل پر شوکت چوھدری صاحب کا میسج آیا-وہ مسیج فقط اسقدر تھا کہ
“میر سلطان سنگتی کوچ کرگئے”
میں نے گھر سے باہر جانے کا ارادہ ترک کردیا اور میر صاحب کو یاد کرنا شروع کردیا-ان کو یاد کرنے لگا تو نہ جانے کون کون یاد آیا-یہ کام لکھتے ہوئے بھی مجھے اپنے مرحوم ماموں یاد آئے-اپنی غم خوار اور چارہ ساز ہما علی کی یاد آئی اور بہت سارے مشاہیر یاد آئے جو سب اب اس دنیا میں نہیں رہے مگر یاد آتے ہیں تو آتے ہی چلے جاتے ہیں-
میر صاحب کی یاد آئی تو آتے ہی چلے گئی اور مجھے بس اتنا کہنا ہے کہ
“زندگی کا سفر میرے سانس کی روانی کے رکنے تک یونہی چلتا چلا جائے گا مگر اس سفر کے دوران ہر موڑ پر میر تم ياد آتے رہو گے”
پیدا کہاں ہیں وہ پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
Comments
Latest Comments
Bohat Khoob.