بے نظیر بھٹو شہید – شاہد مجید

483788_513262818720431_861886032_n

ٹوکیو(شاہد مجید)shahid  majeed  ppp  japan

 

آج 21جون ہے بے نظیر بھٹو بی بی شہید نے کانٹوں کی جس سیج کا راستہ اپنے لئے خود متعین کیا تھا اس پر چلنے والے مسافروں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا آیا ہے ۔ زندگی کی حفاظت پر موت مامور ہے اور وہی اس کی بہترین محافظ بھی لیکن جب وقت آجاتاہے تو پھر اس سے نہ ایک سیکنڈ آگے نہ پیچھے ۔ بقول شاعر
جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم
جو چلے تو جاں سے گزر گئے
آئیے بیگم نصرت بھٹو کے اس انٹرویو کی یاد تازہ کرتے ہیں جوانہوں نے بے نظیر کے بچپن کے متعلق دیا تھا،

پنکی میر ی پہلی بچی تھی ،ظاہر ہے پہلا بچہ سب کو پیارا ہوتا ہے ہرماں اپنے پہلے بچے کو جب دیکھتی ہے اسکی ہربات معجزہ نظر آتی ہے ۔ اس طرح پنکی نے جب بولنا شروع کیا، چلنا شروع کیا تو مجھے ایک معجزہ سا لگا وہ غیر معمولی طور پر ذہین تھی دس مہینے کی تھی تو چیزیں پکڑ پکڑ کر چلتی تھی ۔سارے کام جلدی جلدی شروع کئے جلدی جلدی چلنا پھرنا اور پھر بولنا شروع کر دیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہم کوئٹہ میں تھے اور ایک رشتہ دار کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے روزانہ صبح جب انکا ملازم چائے لیکر آتا اور دروازے پر دستک دیتا تو میں کہا کرتی اند رآجاﺅ جس روز پنکی کی پہلی سالگرہ تھی اس سے پہلے کہ میں بولتی پنکی فورا بولی ’اندر آجاﺅ۔یہ پہلا جملہ تھا جو اس نے اپنی سالگرہ کے دن بولاتھا میرے لئے یہ خوشی کا لمحہ تھا۔
بیگم نصرت بھٹو کہتی ہیں “بینظیر بچپن میں خوبصورت، صحت مند تھی وہ
بہت ذہین اور ہر بات کو غورسے سمجھنے کی کوشش کرتی مثلا اسے پتا تھا کہ ردی کے ٹوکری کہا ں ہے اور بیکار چیزیں صرف اس میں پھینکی جاتی ہیں دس مہینے کی تھی تو اس وقت بھی جہاں کوئی کاغذ کا ٹکرا یا کوئی اور چیز گری ہوئی ملتی تو فورا ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتی ۔ پانچ چھ سال کی عمر سنجیدہ اورمدبر سی تھی اسکی آیا اورنرس ہمیشہ کہتی تھیں کہ بچی نے کبھی تنگ نہیں کیا ۔پڑھنے کی بہت شوقین تھی عید پر جو عیدی ملتی اسکی کتابیں خرید لاتی ۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ پنکی نام کس نے رکھا تو نصرت بھٹو نے بتایا ”کہ جب پیدا ہوئیں تو بہت گوری اور گلابی تھی بھٹو صاحب کی بڑی بہن ممتاز نے اسے پیار سے پنکی کہنا شروع کر دیا بس پھر سبھی اسے پنکی کہنے لگے اور بے نظیر اسکی ایک اور پھوپھی کے نام پر رکھا گیا تھا جو بیچاری چودہ سال کی عمر میں ہی فوت ہوگئی تھی ۔ جب پنکی کا نام بے نظیر رکھا گیا تو میں نے سب کو تاکید کی کہ اسکو پورے نام سے پکارا جائے ۔ نصرت بھٹو نے کہا کہ ”مجھے اور بھٹو صاحب کو پورا یقین تھا کہ ہماری بیٹی اپنی ذہانت سے کوئی بڑا کام کریگی اور نام پیدا کریگی لیکن وہ سیاست میں جائیگی اس کا اندازہ نہ تھا ۔ جب وہ کالج اور یونیورسٹی میں گئی تو اس نے خود ہی سیاست میں دلچسپی لینا شروع کر دی سیاست پر کتابیں پڑنے لگی میں نے اور بھٹو صاحب نے بچوں پر کبھی اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ کوشش کرتے تھے کہ بچوں کو اپنے ذہن سے سوچنے اور اپنے بارے میں خود فیصلے کرنے کا عادی بنائے اور انہیں پوری آزادی بھی دی ہم پورے تحمل سے بچوں کے سوالات سنتے اور انکے جوابات دیتے تھے ۔دراصل میں نے بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دی تھی ۔
بے نظیر بھٹو پہلی بار وزیراعظم کا حلف لے رہی تھیں تھے تو بیگم صاحبہ نے جواب دیا”میر ی تمنا تھی کہ کاش آج اس کا باپ اُسے حلف اٹھاتے دیکھتا مجھے آٹھ ماں کی چھوٹی سی پنکی یاد آرہی تھی جسے میں گود میں اٹھا لیا کرتی تھی ۔ مجھے خوشی تھی کہ اللہ تعا لیٰ نے میری بیٹی کوا تنا بڑا رتبہ دیا ہے اور دکھ بھی تھا کہ آج اس خوشی میں اس کا باپ شریک نہیں لیکن بے نظیر میں بڑا حوصلہ اور صبر ہے دکھ کے ہر لمحے میں اس نے ناصرف مجھے بلکہ میرے خاندان کو حوصلہ اور سہارا دیا ہمیشہ سنبھلنے کی کوشش کی۔جب بیگم نصرت بھٹو سے پوچھا گیا کہ بی بی کو کھانے میں کیا پسند ہے تو بیگم صاحبہ نے کہا کہ” کھانے پینے کا اسے وقت ہی نہیں ملتا ۔ورکنگ لنچ کھاتی ہے ،دہی بڑے بہت پسند ہیں ہم دہی بڑے چائے کے ساتھ کھاتے لیکن وہ بطور ڈنر یا لنچ کھاتی ہے دہی بڑوں کی ایک پلیٹ کھا لی تو سمجھو بے نظیر کا ڈنر یا لنچ ہو گیا ، میٹھا شروع سے اسے بہت پسند ہے میٹھی چیزیں شوق سے کھاتی ہیں۔ کھیلوں میں کون سا کھیل بے نظر کو پسند ہے تو نصرت بھٹو نے بتایا کہ”بے نظیر کو ٹینس بہت پسند ہے مگر اسے کھیل کے لئے وقت ہی نہیں ملتا ۔
بے نظیر بھٹونے ایک خاتون ہونے کے ناطے خواتین کی فلاح و بہبود اور انکی صحت کے حوالے سے اہم پالیسیاں بنائیں انہوں نے عورتوں کےخلاف کئی امتیازی قوانین ختم کرائے ۔ انہوں نے ہیلتھ ورکرز بھرتی کیں خواتین کے لیے الگ پولیس اسٹیشن بنوائے ،عدالتیں اور ترقیاتی بنک قائم کرنے کا منصوبہ بھی انکے پروگرام کا حصہ تھا فرسٹ وومن بنک کا قیام بھی خواتین کی فلاح و بہبود کا حصہ ہے ۔
بے نظیر بھٹو اپنی کتاب” دخترِ مشرق “ سے ایک اقتبا س میں کہتی ہے ”شاہنواز کے قتل کے بعد جب میں نے پاکستان جانے کا فیصلہ کیا تو میری والدہ نے تقریبا چیختے ہوئے کہا ”پنکی تم ہرگز واپس نہیں جاﺅ گی میں پہلے ہی اپنے بیٹے شاہنواز سے محروم ہو چکی ہوں اب میں اپنی بیٹی کو کھونا نہیں چاہتی ۔ “میں نے والدہ سے کہا ”شاہنواز نے میرے لئے بہت کچھ کیا“ مگر میں اس سے کبھی پوچھ نہیں سکتی کہ میں اسکے لئے کیا کر سکتی ہوں کافی عرصے پہلے جب وہ لاڑکانہ آیا تھا تو مجھ سے پوچھتا تھا کہ بابا کو کہاں دفن کیا گیا ہے مجھے وہاں لے چلو۔ “
بے نظیربھٹو اپنی آپ بیتی میں لکھتی ہیں کہ تعلیم کو ہمارے خاندا ن میں ہر چیز پر فوقیت حاصل تھی جس طرح میرے باپ کے سامنے انکے باپ کی مثال تھی اسی طرح میرے والد نے ہمیں دنیا کے لئے نمونہ بنا کرتعلیم یافتہ پاکستانیوں کی آئندہ نسل بنا کر پیش کرنا چاہتے تھے جب میں تین سال کی تھی تو مجھے نرسری میں داخل کر ا دیا گیاجب میں پانچ سال کی ہوئی تو کراچی کے بہترین کانونٹ سکول میں داخل کرا دیا گیا ۔ اس سکول میں ذریعہ تعلیم انگریزی تھا اور گھر میں اپنے والدین کی مادری زبان سندھی ، فارسی یاا ردو اور انگریزی بھی بولی جاتی تھی ۔میرے والد اکثر مجھ سے کہا کرتے تھے ”میں تم سے اک بات کہنا چاہتا ہوں کہ تعلیم اچھی طرح حاصل کر و ۔“جب ذرا بڑے ہوئے تو انہوں نے ٹیوٹر مقرر کر دیا وہ سکول کے بعد سہ پہر میں ہمیں ریاضی اور انگریز ی پڑھاتے۔میرے پاپا دنیا کے کسی حصے میں ہوتے تو ہمارے سکول کی رپورٹ سے باخبر رہتے۔خوش قسمتی سے میں ایک اچھی طالبہ تھی لہٰذا میرے بارے میں ا نکے زبردست منصوبے تھے انکی خواہش تھی کہ میں بھٹو خاندان کی وہ پہلی لڑکی ہوجو ملک سے باہر تعلیم حاصل کرے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرے پاپا ہم چار بہن بھائیوں سے کہا کرتے تھے کہ تم سب اپنے اپنے سوٹ کیسوں میں سامان ٹھونس کے تیار ہوا کرو گے اور میں تمہیں رخصت کرنے ائیر پورٹ جایا کرونگا ۔ ”پنکی جب ہم سے رخصت ہو گی تو ایک چھوٹی سی دبلی پتلی لڑکی ہوگی جب واپس آئیگی تو ساڑھی میں ایک خوبصورت نوجوان خاتون نظر آئیگی ۔
یہ تو وہ خیالات اور امیدیں تھیں جو بے نظیر بھٹو کے والدین نے ان اسے وابستہ کر رکھی تھیں سب والدین ایسی ہی خواہشات اور امیدیں رکھتے ہیں ۔ بے نظیر بھٹو اپنے نام کی طرح واقعی بے نظیر تھیں ۔ آج دنیا بھر میں انکی سالگرہ کے کیک کاٹے جائیں گے ،سیمنار ہوں گے ،جلسے ہونگے ۔ وہ شہادت کے اس عظیم رتبے پر فائز ہو گئی ہیں جس کاا عتراف انکے سیاسی مخالفین بھی کرتے ہیں ۔

وہ آج بھی کروڑوں لوگوں کے دلوں میں بستی ہیں انہوں نے اپنی پوری زندگی لوگوں کی بھلائی اور فلاح و بہود کیلئے وقف کر رکھی تھی ۔ آج پاکستان بھرمیں انکے ناموں سے ائیر پورٹ ، ہسپتال ،سڑکوں کے نام رکھے جارہے ہیں۔ اللہ کے فرمان کے مطابق شہید مرتے نہیں بلکہ وہ زندہ ہوتے ہیں ۔ اسکی تازہ مثال ہے بی بی شہید لوگو ں کے دلوں پر حکمرانی کر رہی ہیں پہلے ذوالفقار علی بھٹو کے زندہ ہے بھٹو زندہ ہے کے نعرے بلندہوتے تھے اب زندہ ہے بی بی زندہ ہے کے نعرے لگتے ہیں ۔ دونوں باپ بیٹی گڑھی خدا بخش جیسے چھوٹے سے گاﺅں میں اپنی قبروں میں بیٹھ کر اپنے چھوڑے ہوئے مشن کو آگے بڑھانے میں سرگرم عمل نظر آتے ہیں ۔

Comments

comments