سپاہ صحابہ اور طالبان کا سلیکشن کمیشن – از حق گو

mqm-ppp

جوں جوں الیکشن کا دن قریب آرہا ہے پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوے واقعات نے ہر ایک پاکستانی کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے ، طالبان کی پیپلز پارٹی ، اے این پی اور ایم کیو ایم کو کھلی دھمکیوں اور ان پر ہونے والے حملوں کے ساتھ ساتھ اپنی من پسند جماعتوں کو نشانہ نہ بنانا اور ان کو کھلا میدان دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ طالبان اور ان جماعتوں کا اپس میں گٹھ جوڑ ہے

اسی حوالے سے ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام میں محمد حنیف جو اپنے بے لاگ تبصروں اور تجزیوں کے حوالے سے بہت مشہور ہیں ان کے کہنے کے مطابق طالبان نواز پارٹیز دراصل طالبان کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں اسی لئے وہ طالبان دہشت گرد کی کاروایئوں سے محفوظ ہیں

محمد حنیف کا کہنا تھا کہ طالبان نواز پارٹیز کی الیکشن مہم سپاہ صحابہ، طالبان اور لشکر جھنگوی چلا رہے ہیں ، ان کہ کہنے کے مطابق کہ وہ تمام پارٹیز جن کے اندر طالبان نواز، سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے ہمدرد عناصر موجود ہیں ان کو طالبان اور سپاہ صحابہ کی طرف سے الیکشن مہم چلانے کی بھرپور آزادی ہے مسئلہ صرف ان پارٹیز کے لئے ہے جو طالبان اور سپاہ صحابہ مخالف پارٹیز تصور کی جاتی ہیں

بشیر جان  جو اے این پی کے لیڈر ہیں اور حال ہی میں کراچی میں ان پر ایک بم حملہ بھی کیا گیا ہے ان کہ کہنے کے مطابق کراچی میں ان کے حلقہ انتخاب میں سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کو جو کہ متحدہ دینی محاذ نامی ایک مذہبی اتحاد کا حصّہ ہی کو الیکشن مہم چلانے کی بھرپور آزادی ہے ، کالعدم تنظیمیں کھلے عام وال چا کنگ اور نعرے بازی میں مصروف ہیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے چپ سادھے ہوے ہیں

آج کچھ گھنٹے قبل دیر کے علاقے میں پیپلز پارٹی کے ایک کانوائے پر ہونے والے حملے میں چھ افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاع ملی ہے. ایسا لگتا ہے کہ یہ طے کیا جا چکا ہے کہ صرف وہ لوگ اور پارٹیاں ہی ان الیکشن میں بھرپور حصّہ لے سکیں گے جن کو انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کی غیر اعلانیہ تائید حاصل ہے. ان کے علاوہ اور سبھی کو آگ اور خون کے دریا میں سے گزرنا ہوگا.

اس دوران قانون نافذ کرنے والوں اداروں کی خاموشی ایک نہایت ہی قابل تشویش عمل ہے اور ستر ہزار پاکستانی جو کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہید ہو چکے ہیں ان کے اهل و عیال کا یہ سوال ہے کہ آخر وہ کون سی نا دیدہ قوتیں ہیں جو ایسے دہشت گرد گروہوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کروائی کرنے سے کروائی سے روکے ہوئے ہیں

ان حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان کے مستقبل کے متعلق یہ پیشین گوئی کی جا سکتی ہے کہ آنے والی حکومت انتہا پسندی اور دہشت گردی کے آگے مزید بے بس ہوگی اور حالات مزید خراب ہونگے. طالبان واضح طور پر ایک حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں کہ روشن خیال اور متعدل افراد اور سیاسی جماعتوں پر جس حد تک ہو سکے عرصۂ حیات تنگ کیا جائے تاکہ مستقبل میں زیادہ سے زیادہ قوت حاصل کی جا سکے.
وہ تمام پاکستانی جن میں بڑے رہنما اور سیاست دان بھی شامل ہیں اور جو یہ سوچ رہے ہیں کہ طالبان کی طرف ہمدردانہ رویہ رکھتے ہوئے، سیاسی فائدے اٹھائے جا سکتے ہیں، خود کو حکومت میں لایا جا سکتا ہے اور پھر طالبان سے بات چیت کی جا سکتی ہے، وہ کسی غلط فہمی کا شکار ہیں یا پھر طالبان حکمت عملی کا جانتے بوجھتے حصہ بن چکے ہیں کیونکہ جتنا زیادہ طالبان کو ان کا وجود باقی رکھنے کے موقعے ملیں گے، جتنا زیادہ ان کا عمل دخل بڑھے گا، جتنی زیادہ لیجٹیمیسی ان کو ملے گی، اتنا ہی زیادہ ان کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا. سیاسی تائید حاصل کرنے کا مقصد عوامی تائید حاصل کرنا ہے. اور اس کے بعد ایک مائل بہ تشدد قوت جو کسی بھی انتہا تک جا سکتی ہے اس کو اپنی جنگ  ہماری آبادیوں تک لے آنے سے کون روک سکے گا؟

   اس وقت پاکستانی عوام کو یہ اہم فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اپنا مستقبل کس کے حوالے کریں؟ ان جماعتوں اور افراد کے کہ جو اس وقت پاکستان کے بچاؤ کی لڑائی لڑ رہے ہیں یا ان کے کہ جو پاکستان کو مزید تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں. یہ وقت اختلافات کو پیچھے چھوڑ کر فیصلے کرنے کا وقت ہے،  خاموشی سے اہم فیصلے کرنے کا وقت ہے.

 

 

Comments

comments

Latest Comments
  1. Arsalan
    -