پاکستانی اور پر تشدد رویے؟
آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ پاکستانی سماج میں اکثریت تشدد اور شدت پسندی، انتقام اور نفرت کی طرف مائل ہوتی جا رہی ہے؟ اجتماعی اور گروہی تشدد کی اپنی منفرد خصوصیات ہیں، جوزف کالونی کا واقعہ ایسا پہلا واقعہ نہیں تھا، اور ایسا بھی نہیں ہے کہ صرف ایک مخصوص اقلیت یا چند افراد اجتماعی طور پر نشانہ بنائے گئے ہوں، بلکہ پورے ملک میں یہ رجحان دن بہ دن بڑھ رہا ہے کہ لوگ مل کر کسی بھی کمزور گروہ یا افراد کو کسی بھی ایسی وجہ پر نشانہ بنانے لگ گئے ہیں کہ جہاں وہ خود کو مطمئن کر سکیں، چاہے وہ سیالکوٹ کے منیب اور مغیث ہوں، نصیرآباد میں زندہ دفن کر دی جانے والی عورتیں ہوں، بہاولپور میں زندہ جلا دیے جانے والا ملنگ ہو، اجتماعی زیادتی کا شکار ہونے والی مختاراں ہو، گوجرہ کے رہنے والے مظلوم ہوں، کرم میں سنگسار کر دیے جانے والے مرد اور عورتیں ہوں، کراچی اور حیدرآباد میں فسادات میں ایک دوسرے کے ہاتھوں مرنے والے سندھی، مہاجر، پنجابی، پٹھان ہوں، اجتماعی نفرت کا نشانہ بننے والے قادیانی ہوں شیعہ سنی فسادات میں ایک دوسرے کی نفرت کی بھینٹ چڑھنے والے یا ان جیسے اور ہزاروں افراد. ایسا لگتا ہے کہ پورا معاشرہ دیوانگی اور بربریت کا شکار ہے. تشدد، بربریت، انتقام، قتل، خون، زیادتی، ہوس کا گندا کھیل چلے چلا جا رہا ہے.
سب سے زیادہ پریشان کن امر ہمارے نچلے متوسط اور نچلے طبقات میں جاری تشدد پسندی ہے جو کبھی بھی کسی کا بھی ہتھیار بن جاتا ہے، دیکھا جا سکتا ہے کہ ان طبقات سے تعلق رکھنے والے بڑی تیزی سے بھپرے ہوئے مجمعے کا روپ دھار لیتے ہیں، اور تشدد ، لوٹ مار اور غارت گری پر تیار ہو جاتے ہیں. بس کسی طرح ان کے جذبات بر انگیختہ کر دئے جائیں، بہانہ چاہے کچھ بھی ہو، یہ لوگ وہ سب کر گزرتے ہیں جو وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا. ایسا کیوں ہے؟ یہ بات قطعی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ مجمع کے ہاتھوں ہوئی تباہی کسی فرد یا تنظیم کی باقائدہ منصوبہ بندی کے تحت کئے گئے واقعے سے مختلف ہے کیونکہ مجمع جو کچھ بھی کر رہا ہوتا ہے وہ سب کے سامنے ہو رہا ہوتا ہے مگر دہشت گرد افراد یا تنظیمیں چھپ کر زیادہ مہلک اور خوفناک مجرمانہ کاروائی میں ملوث ہوتے ہیں، مگر ایسا ضرور ہو سکتا ہے کہ مجمعے کے پیچھے بھی باقائدہ منصوبہ ساز موجود ہوں جیسا کہ جوزف کالونی یا گوجرہ کے واقعات سے متعلق کہا گیا ہے.
سوال یہ ہے کہ عام آدمی میں تشدد پسند رجحانات میں کیونکر اضافہ ہوتا جا رہا ہے؟ جواب اتنا مشکل نہیں ہے؛ غربت، وسائل کی کمی، مسابقت، استحصال، تعلیمی سہولتوں کا فقدان، تفریحی سہولتوں کا فقدان، امیر اور غریب میں بڑھتا ہوا فرق اور نتیجے میں ابھرتا احساس کمتری، جرائم پیشہ افراد اور تنظیموں کا کھلم کھلا کاروبار، اسلحہ اور تشدد کا استعمال، منشیات کا فروغ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بے بسی، مسجدوں اور مدرسوں پر مذہبی سیاسی جماعتوں کی اجارہ داری اور بے دریغ بلا روک ٹوک پروپیگنڈہ، دیگر سیاسی جماعتوں کی عملی نا کارکردگی اور عوامی رابطوں کی کمی، سیاسی جماعتوں کا جرائم پیشہ اور متشدد افراد پر انحصار، بائیں بازو کی جماعتوں کی عوام میں عدم موجودگی ، یونین اور دیگر مزدور تنظیموں پر پابندیاں، لیڈرشپ کی کمی اور نتیجتاً مزدوروں اور محنت کشوں میں سیاسی شعور کا فقدان، لیبر قوانین کی عملی ناکرگاردگی اور سیاسی جماعتوں کی بے توجہی اور اعلیٰ طبقات کا ان سیاسی جماعتوں پر مکمل کنٹرول، رشوت اور ہر طرح کی کرپشن کا عروج اور انتظامیہ کی بے حسی، بڑھتی ہوئی آبادی کا دباؤ، بنیادی سہولیات جیسے بجلی، پانی کی عدم فراہمی، کھانے پینے کی اشیا میں ملاوٹ، صحت کی سہولتوں کا فقدان، علاج معالجے کی سہولتوں اور دواؤں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ، اور ایسے کئی دیگر عوامل ہیں جو دن بدن بڑھتی مایوسی اور اس کے نتیجے میں پھیلتے انتشار اور تشدد کا سبب ہیں.
ہمارے حکمران طبقات اور ان کی پروردہ انتظامیہ نے ایک زمانے سے وہ سب وطیرے اختیار کئے ہوئے ہیں کہ جن سے عام آدمی کی عزت نفس کو جتنا ہو سکے کچلا جا سکے، ہمارے حکمران عوام کو جواب دہ ہونے کے بجائے بیرونی سہاروں اور قوتوں پر تکیہ کرتے رہے ہیں اور عوام سے خوف کی بنا پر ان سے جتنا دور جا سکتے ہیں، جاتے رہے ہیں، اب حال یہ ہے کہ ان کو عوامی مسائل کا ادراک ہی نہیں رہا ہے نا ہی عوام سے دلچسپی، ذاتی اور طبقاتی مفادات کو اہمیت دیتے دیتے ہمارے حکمران ایک ایسی دنیا بنا بیٹھے ہیں جو عام آدمی کی دنیا سے یکسر مختلف ہے، اس دنیا کا محور تعلقات، حیثیت ، دولت اور قوت ہیں. ان حالات میں عام آدمی کے حصّے میں محض بے بسی ہی آتی ہے، اس بے بسی کے عالم میں اس کے پاس کوئی سیاسی قوت تو ہے نہیں کہ حالات کو بدلنے کو کوئی سبیل ہو سکے، اس عالم میں ایسے سب نظریات جو کسی طرح ایک بے بس فرد کی کھوئی ہوئی عزت نفس بحال کر سکیں، اس کو اس کے ہونے کا احساس دلا سکیں، اس کو اس عالم تگ و دو میں کوئی اہمیت دلوا سکیں، تو وہ کیوں نہ ایسے نظریات و خیالات کو اپنائے؟ ہمارے ہاں دوسروں سے نفرت کی بنیاد پر آگے بڑھتی شدت پسندی جو کبھی قوم پرستی کا روپ دھرتی ہے تو کبھی بنیاد پرستی کا، اس کے مقبول عام ہونے کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ فرد کی ان بنیادی ضرورتوں کو پورا کرتی ہے جو سماجی اور معاشرتی تانے بانے میں اس کی اپنی ذات کی پہچان اور تسکین کا سبب ہیں، انسان ایک سماجی حیوان ہے اور اس کی بنیادی ضرورت ہے کہ اس کی سماجی حیثیت کو تسلیم کیا جائے. ریاست کی ایک اہم ذمّہ داری عام شہری کے ان بنیادی حقوق کا تحفظ ہے اور ہماری اشرفیہ کی کوتاہیوں کی بنا پر پاکستانی ریاست یہ اہم ذمّہ داری نبھانے سے قاصر ہے. بنیاد پرستی اور تعصبات پر مبنی ہر فلسفے میں فرد کو یہ یقین دلایا کہتا ہے کہ وہ راہ راست پر ہے اور یہ کہ اس کا راہ راست پر ہونا انتہائی اہم ہے، اتنا اہم کہ اگر کوئی اور اس راستے پر نہیں ہے تو اس کو راہ راست پے لانا اس کی ذمّہ داری ہے، یہ ذمّہ داری ہمارے معاشرے میں ہر طرح کی زیادتی کا سامنا کرتے ہوئے ایک شخص کے لئے ایک نعمت سے کم نہیں، اس لئے کہ یوں اس کی سماجی حیثیت میں اضافہ ہوتا ہے، اس کو ایک مشن مل جاتا ہے، وہ ریاست اور معاشرہ جس سے اس کو توہین کے سوا کچھ نہیں مل رہا، وہ اب ایک بھٹکا ہوا معاشرہ ہے جس کو راہ راست پر لانا اس کی ذمّہ داری ہے. اور چونکہ سیاسی، سماجی انصاف اور شرکت کے راستے تو خود ریاست نے بند کر رکھے ہیں، اس لئے بزعم خود راستی کے پیرو کار تشدد، زور، زبردستی نہ کریں تو کیا کریں؟ انتہا پسندی کچلی ہوئی انا کا نتیجہ ہے اور انتقام اسی کا شاخسانہ.
سونے پے سہاگہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران بھی طاقت کی زبان بولتے ہیں، یہ ہمارا جاگیرداری، قبائلی ورثہ بھی ہے کہ انتقام لینا ضروری ہے، لمبی لمبی گاڑیوں میں اسلحہ بردار باڈی گارڈ بٹھائے ہمارے معززین کیا پیغام دیتے ہیں؟ چھوٹی چھوٹی باتوں کو انا کا مسئلہ بنا کر انتقام پر اتر آنے والے ہمارے شرفا کیا مثال قائم کرتے ہیں؟ جس ملک کے کونے کونے میں نہ جائز و جائز اسلحے کی نمائش کو فخر جانا جاتا ہو، جہاں سیاسی رہنما بندوقوں کے سائے میں چلتے ہوں، جہاں ایک وردی پوش ایک پروفیسر یا ٹیچر سے زیادہ با عزت و با رسوخ ہو، جہاں روزانہ کتنی ہی جانیں تشدد کا شکار ہوتی ہوں، جہاں قانون ایک مذاق ہو اور طاقت ہی اصل قانون وہاں عام آدمی پر تشدد رویے اپنا لے تو تعجب کیوں؟
ہم نے عام آدمی کے لئے زندگی کو انتہائی مشکل بنا دیا ہے، آمدنی محدود اور اخراجات بے پناہ، لوگ تعلیم حاصل ہی نہیں کر پاتے کہ پیٹ کی آگ بجھانا زیادہ اہم ہے، پھر با شعور شہریوں کی تربیت کی طرف لے جانے والی راہیں مسدود، تعلیمی سلیبس غیر مؤثر، سرکاری سکول اور ادارے ناکافی سہولیات اور نا مناسب انتظام کے سبب انتہائی ناکام، ہمارے ہاں لائبریریوں کی تعداد کتنی ہے؟ کتابیں مہنگی، اردو اور علاقائی زبانوں میں نان فکشن کی اشاعت انتہائی محدود، عام آدمی میں طبقاتی شعور پنپ ہی نہیں سکا، ایسے دانشور جو اس بارے میں لکھتے ہیں وہ ذرایع ابلاغ سے دور رکھے جاتے ہیں. تفریح کے ذرایع نا پید، سنیما تقریبا ختم، پارکوں اور کھیل کے میدانوں کی جگہ پلازے، گلیوں اور سڑکوں پر کھل بھی ختم کہ اب وہاں صرف آگ اور خون کی ہولی کھلی جاتی ہے، مستقل خوف اور دہشت کے سائے میں پلتے لوگ، پوری پوری آبادیاں ہر طرح کی مافیاؤں کے قبضے میں. پان، سگریٹ، گٹکہ، چرس، ہیروئن، شراب میں ڈوبے لوگ. مسجدیں فرقوں اور دھڑوں میں تقسیم، دینی رہنما تعصبات کا شکار اور ان تعصبات کی ترویج میں مصروف، رواداری اور برداشت کی تعلیم مفقود اور انتہا پسندی کی ترویج، مذہب اور سیاست کے اختلاط کی وجہ سے سیاست مفلوج . باقائدہ سیاسی جماعتیں بھی عوام سے رابطے اور ان کی سیاسی تربیت کے اہم ترین فرض کو پورا کرنے میں ناکام اور نتیجے میں پیدا ہونے والے فاصلوں کو غیر سیاسی طریقوں جیسے طاقت کے استمعال اور جوڑ توڑ سے پورا کرنے پر کمر بستہ. ان حالات میں لوگ وہی کر رہے ہیں جو ہوتا ہے.
جب اتنے سارے عوامل موجود ہوں کہ جن کی بنا پر عام آدمی کے جذبات سے کھیلا جا سکتا ہے، اس کے اندر پل رہے غصے اور مایوسی سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے تو پھر کیوں نہیں؟ ان حالات میں اقلیتیں ایک آسان شکار بن جاتی ہیں کیونکہ ان کے خلاف جذبات کو اکسانا آسان ہوتا ہے، ان کو گمراہ اور راستے سے ہٹے هوئے ثابت کرنا بھی آسان ہوتا ہے. عام آدمی کو پہلے ہی اس تربیت اور ماحول سے دور رکھا گیا ہے کہ جہاں رواداری اور برداشت کی اہمیت ہو، وہ پہلے ہی ایسے راستوں کی تلاش میں ہے کہ جہاں اس کی ذات کو اس کے اپنے تئیں اثبات مل سکے، وہ دیکھتا رہا ہے کہ قوت اور طاقت کے استعمال سے مسئلے حل ہو جاتے ہیں (بظاھر)، اسے اس دنیا کے تنوع اور رنگ رنگی کا کوئی ادراک نہیں، اس کے لئے دنیا سیاہ اور سفید میں بٹی ہے، اس کے اندر مایوسی اور غصہ بھرا ہوا ہے، اور یہ غصہ کسی کمزور ہی پر نکل سکتا ہے اور نکل جاتا ہے. انتہائی بری بات یہ کہ یہ غصہ اور جھلاہٹ بھی کسی اور ہی کے کام آتی ہے، ہمارا عام آدمی یہاں بھی گھاٹے ہی میں رہتا ہے، اپنے جیسے لوگوں کو جھلاہٹ، غصّے اور نفرت کا نشانہ بنانے والے اپنے ہی گھر کی دیواریں گرا رہے ہیں، کیوں کہ نفرت سے صرف اور صرف نفرت ہی جنم لے سکتی ہے، تباہی سے آگے بھی تباہی ہی ہے، وہ اپنے ہی طبقے کی تباہی کا سبب بن رہے ہیں ,خود اپنے ہاتھوں اپنے جسم کو نوچنے کھسوٹنے والے اور اس میں لطف پانے والے یہ درندے اس بات کا ادراک ہی نہیں رکھتے کہ وہ در حقیقت خود کشی کر رہے ہیں.