درویش استاد سبط جعفر

درویش استاد سبط جعفر

عامر حسینی

ہم ابھی ایک پرسے سے فارغ ہوتے ہیں تو دوسرے پرسے کی باری آجاتی ہے اور یہ سلسلہ کہیں رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے-کراچی کربلاء میں بدل چکا ہے-کبھی تو اجتماعی قیامت آتی ہے تو کبھی انفرادی قیامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے-شیعہ برادری کی نسل کشی کی جارہی ہے اور یہ سلسلہ کہیں رکنے کا نام نہیں لے رہا-                سبط جعفر ایک استاد تھے جو کراچی میں لیاقت آباد میں سرکاری کالج میں استاد کے فرائض سرانجام دےرہے تھے-وہ امام علی کے سچے پیرو تھے اور انہوں نے امام علی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یہ عہد کرکھا تھا کہ وہ اپنے سماج میں جہالت اور بے علمی کا خاتمہ کرکے دم لیں گے-انہوں نے اپنی پوری زندگی کو علم و عرفان کو پھیلانے کے لیے وقف کررکھا تھا-وہ واقعی امام جعفر کے سبط تھے کہ اما جعفر صادق کے وصف علمیت اور صدق و صفا کو انہوں نے اپنی ذات کا حصہ بنا رکھا تھا-

انہوں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی علم کو تقسیم کرنے میں کسی بھی طرح کے مذھبی تعصب اور تنگ نظری کو آڑے آنے نہیں دیا تھا-وہ زمیں کی طرح تھے جس پر نیک و بد سب ہی چلتے ہیں اور سب فیض پاتے ہیں-

استاد سخی صرف علم کے نہ تھے بلکہ وہ مال کے سخی بھی تھے-ساری زندگی انہوں نے مال و دولت کو جوڑنے کے فعل سے نفرت کی اور اپنے مال و دولت کو ہمیشہ ضرورت مندوں میں تقسیم کرنے کو مقدم جانا-استاد اتنے سخی تھے کہ کسی ضرورت مند کی مدد کے لیے قرض لینے سے بھی گریزاں نہ ہوتے تھے-اور یہ عمل سخاوت بھی ضرورت مندوں کی مذھبی یا نسلی تفری‍ق کے تابع نہیں تھا-استاد نے علم و مال دونوں کی سخاوت میں کسی تعصب کو آڑے آنے نہیں دیا-

میں نے استاد سے بہت ساری ملاقاتیں اپنی ‍زمانہ طالب علمی میں کی تھیں-میں پی آئی بی کالونی جاتا تو رستے میں استاد سے کئی مرتبہ ملتا تھا-استاد کی موٹر سائیکل ان کی رفیق تھی-یہ زوالجناج تھی جو ان کے ساتھ ہمیشہ رہا کرتی تھی اور استاد اس پر سارے کراچی میں علم،محبت اور مال بانٹتے پھرتے تھے-استاد کی قناعت پسندی دیکھ کر مجھے رشک آتا تھا اور میں نے کبھی استاد کو “فکر دنیا”میں غلطاں نہیں دیکھا تھا-ان کو دیکھتا تھا تو مجھے امام علی کی یاد آتی تھی اور میں اس قناعت کی نعمت کے میسر آجانے کی تمنا کیا کرتا تھا-

استاد کی شاعری سادگی اور پرکاری کا نمونہ تھی اور ان کی اھل بیت اطہار سے عشق اور معرفت کی آئینہ دار تھی-وہ اتنے سوز اور درد کے ساتھ اس کی تلاوت کرتے تھے کہ سننے والوں کی آنکھوں میں آنسو ؤں کی جھڑی اور دل پگھل کر موم ہوجاتے تھے-یہ کیفیتوں کا بدلنا استاد کے کلام کی سچائی کی روشن دلیل تھی-استاد تاريخ اسلام کے عالم بے بدل تھے اور وہ تاریخ کے واقعات کے بیان کے دوران بعض مرتبہ ایسے نکات لیکر سامنے آتے کہ جو ان واقعات کو ہزاروں مرتبہ پڑھنے والوں کے زھن میں کبھی نہیں آئے تھے-سبط جعفر واقعی شہر علم کے اندر باب بو تراب سے داخل ہونے والوں میں سے تھے-تبھی تو علم کے گوہر نایاب ان کے دماغ میں آتے اور ہم جیسے طفلان مکتب علم کی تشنگی کو دور کیا کرتے تھے-ان کے قاتلوں کی بدبختی ہے کہ انہوں نے ایک ایسے عالم کے خون کا جرم اپنے سرلےلیا جس کی سیاہی سے ان کی آنے والی نسلیں بھی متاثر ہوتی رہیں گی-

میں استاد کا نثری نوحہ لکھنے بیٹھا ہوں تو مجھے خبر ملی کہ عباسی شہید ہسپتال کے ایک ڈاکٹر اسد عثمان کو ان کے محافظ کے ساتھ شہید کردیا گیا-اور کہنے والے اب یہ کہتے پھرتے ہیں کہ دیکھو یہ شیعہ نسل کشی نہیں بلکہ شیعہ سنی ایک دوسرے کا قتل عام کررہے ہیں-اس طرح کی باتیں کرنے والے وہ لوگ ہیں جو یہ خواہش بد دل میں پالے ہوئے ہیں کہ کسی طرح سے کراچی کو بغداد بنا ڈالیں اور یہ بغداد عباسی خلیفہ معتصم کا بغداد ہو اور پہلے کرخ محلے کے شیعہ تہہ تیغ ہوں اور پھر سنی آبادی کو نیست و نابود کردیا جائے اور پھر کوئی ھلاکو خان آئے اور وہ شیعہ ،سنی سب کی کھوپڑیوں کا ایک مینار تعمیر کرے-یا پھر وہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح سے ان کو ایسے مواقع میسر آجائیں کہ کسی کا خون آلود کرتہ اور کسی مظلوم کی کٹی انگلیاں میسر آجائیں اور ان کو شام کی مسجد میں رکھکر خلقت خدا میں فساد پربا کرنے کی راہ ہموار ہو اور جو علم وانصاف کے جھنڈے اٹھائے ہوئے ہوں ان کے قتل کا جواز میسر آجائے-

کیا یہی سب کچھ نہیں کیا تھا مروان اور اس کے ٹولے نے جب وہ مظلوم اور عمررسیدہ خلیفہ کا سیکرٹری بنکر ریاست کے سیاہ و سفید کا مالک بن گیا تھا-اس زمانے میں ابوزر کے ساتھ کیا ہوا تھا کہ ربذہ جو ایک صرح سے کالا پانی تھا وہاں ان کو جلاوطن کردیا گیا تھا-عبداللہ بن مسعود پر تشدد اور ان کی زبان بندی کی کوشش کرنے والا کون تھا؟اور ابوبکر کے بیٹے محمد بن ابی بکر کو حضرت عثمان سے متنفر کرنے والا کون تھا؟وہ کون تھا جو ظالموں کی سپر بنا ہوا تھا اور مظلوم خلیفہ تک لوگوں کی رسائی ک روکے ہوئے تھا؟پھر بلوائیوں کو آسانی سے راستہ دینے والا کون تھا؟وہ کون تھا جو اپنی فوجوں کو مدینہ میں محاصرے کے وقت مظلوم خلیفہ کی مدد کو تو بھیج نہ سکا لیکن جب مدینہ میں مظلوم خلیفہ شہید ہوگئے تو ان کے خون آلود کرتے اور مظلوم نائلہ کی انگلیوں کو دمشق کی جامع مسجد کے منبر پر رکھکر واویلہ کرنے اور لشکر تیار کرنے کو بہت بے چین نظر آیا تھا؟الزام خون کا کس ہستی پر لگایا گیا کہ جو محاصرے کے دنوں میں پانی اور خوراک کا مشکیزہ لیکر گئی تھی اور اپنی کل دولت اپنے دونوں لخت ہائے جگر کو مظلوم خلیفہ کے دروازوں پر نیزے اور تلوار دے کر کھڑا کرکے گئی تھی –جب سارا مدینہ بےگانہ تھا اور مروان اور بنو امیہ کے دیگر لوگ بھی “کامل الحیاوالایمان”کی مدد کرنے کو تیار نہ تھے-وہ جو دفاع کرنے والا تھا اور اپنی اولاد کو داؤ پر لگانے والا تھا اس کو قتل کا زمہ دار ٹھہرانے سے اصل سازش سامنے آگئی تھی کہ “خود ہی ذبج کرے اور خود ہی لے ثواب الٹا”سازش کامیاب ہوئی اور جنگ جمل،جنگ صفین سے معاملہ آگے چلتاہوا اھل بیت کے سارے اہم لوگوں کی لاشوں تک پہنچا-بیچ میں امام حسن نے خون ریزی کو بند کرنے کی اپنی سی کوشش کی لیکن آگ ایسی لگی تھی کہ سب گھروندے اس میں جل کر راکھ ہوگئے-

آج بھی جو گروہ سرگرم ہے وہ اپنے مربیوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے-وہ ایک طرف تو شیعہ برادری کو خاک و خون میں نہلارہا ہے تو دوسری طرف وہ سنی علماء اور ان کے پروفیشنلز کی لاشوں کو بھی گرا رہا ہے کیونکہ اھل سنت کے اھل علم و دانش اس تکفیری گروہ کی چالاکی اور بدنیتی کو سمجھ رہے ہیں-اور جو اس گروہ کو بے نقاب کرنے کی کوشش کرتا ہے اس کے قتل کو ممکن بنا کر الزام شیعہ پر لگانے کا طریقہ ڈھونڈ لیا گیا ہے-احسن العلوم کے سنی عالم کا قاتل یہ اعتراف کرچکا کہ اس عالم کا قتل اس لیے کیا گيا کہ وہ لشکر جھنگوی اور طالبان کو بے نقاب کررہا تھا-یہ گروہ اس قدر سفاک ہے کہ اس نے ماضی میں ایثار القاسمی کو ،مفتی نظام الدین شامزئی ،مولانا حسن جان سمیت کئی دیوبندی علماء کو اسی لیے قتل کیا کہ وہ ان کی اصلیت کا پردہ چاک کرنے لگ گئے تھے-اور الزام شیعہ برادری پر لگا دیا گیا-مقصد یہ ہے کہ سنی اور شیعہ برادریوں کے لوگ جو ایک دوسرے کے ساتھ امن و آتشی کے ساتھ رہتے ہیں ان کے درمیان سماجی تعلقات ہیں ان کو دشمنی میں بدلا جائے-یہ مقصد کسی حد تک پارا چنار اور گلگت بلتستان میں حاصل کیا جاچکا ہے اور اب اس کا نشانہ کراچی اور ملک کے باقی حصے ہیں-

میں کہتا ہوں کہ تاریخ کے شناور واقف ہیں کہ “حضرت طلحہ”کو تیر مارنے والا جنگ جمل کے دوران اور کوئی نہیں بلکہ مروان تھا اور پھر حضرت عائشہ ام المومنین سے حوشب کنویں پر غلط بیانی کرنے والے کون تھے؟فتنہ و فساد کی آگ اسی طرح سے بھڑکائی جاتی ہے –

اھل علم و دانش کو اس سارے فساد کی جڑ تکفیری گروہ کی سازشوں کا ادراک کرنا چاہئے-اور ان کو فرقہ پرستی کی عینک سے اس سارے عمل کو دیکھنے سے گریز لازم ہے-کیونکہ اگر یہ آگ یونہی بھڑکتی رہی اور تو اس آگ کا ایندھن سب سے پہلے یہی اھل علم و دانش بنے گا-بونے لوگوں کو سب سے زیادہ خطرہ ہی ان بلند قامت لوگوں سے ہے کیونکہ استاد سبط جعفر اور ڈاکٹر  اسد عثمان  جیسے لوگ ان کے کاروبار جہالت کے مندے کا باعث بنتے ہیں-ان کی جہالت کا کوئی خریدار نہیں بنتا اور اسی وجہ سے وہ علم کی تقسیم اور درجہ بندی کے لیے جہالت کو بنیاد بناتے ہیں-جہالت کو پروان چڑھنے کے لیے “علم و دانش” کے لہو کی ضرورت پڑتی ہے-ڈاکٹر شبہیہ الحسن،ڈاکٹر حیدر،سبط جعفر اور اسد عثمان کے لہو کے گرائے جانے کے پیچھے یہی جہالت کارفرما ہے-

sibte

Comments

comments

Latest Comments
  1. Fazil Barelvi
    -
  2. Ahad
    -