متحدہ ہندوستان میں شیعہ نسل کشی کی مختصر تاریخ – از وسعت الله خان
Related posts: Historical context and roots of Deobandi terrorism in Pakistan and India – See more at: https://lubpak.com/archives/306115
A research article on differences and similarities between Deobandis and Salafis/Wahhabis – See more at: https://lubpak.com/archives/280211
From Mahmud of Ghazni to Shah Waliullah: A brief history of #ShiaGenocide in pre-1947 India – by Wusatullah Khan (BBC Urdu)
.
برِصغیر میں شیعہ سنی تعلقات کا گراف اگر بنایا جائے تو وہ خطِ مستقیم کے بجائے خطِ منہنی کی طرح ٹیڑھا میڑھا بنے گا۔کبھی مثالی تعلقات ، کبھی برے تو کبھی نیم برے تو کبھی نیم اچھے۔۔۔
ہندوستان میں مسلمان افغانستان ، ایران اور بحرِ ہند کے راستے داخل ہوئے۔ ان میں عرب ، ترک ، ایرانی حملہ آور اور فاتحین بھی تھے اور جابر عربی و عجمی حکومتوں سے تنگ مفرور ملزم ، فن کار ، علما ، صوفی اور بہتر معاشی و سماجی مستقبل کے خواہاں عام مسلمان بھی۔
آنے والوں کو دو بنیادی چیلنج درپیش تھے۔ اول یہ کہ اقلیت ہونے کے سبب مقامی ہندو اکثریت کے درمیان اپنا تشخص اور دبدبہ کیسے قائم رکھیں دوم یہ کہ خود مسلم سماج کے اندر سماجی، سیاسی، نسلی اور فرقہ وارانہ تضادات کو کیسے قابو میں رکھیں۔
اس تناظر میں ہندوستان میں شیعہ سنی تعلقات کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے یعنی ابتدائی دور ، مغلیہ دور اور انگریزی دور۔
ابتدائی دور
محمد بن قاسم کے بعد سندھ میں لگ بھگ ڈھائی سو برس تک قائم رہنے والا سنی عرب اقتدار پہلے دمشق کی خلافتِ بنو امیہ اور پھر بغداد کی خلافتِ عباسیہ کی خوشنودی پر منحصر رہا۔
جب نویں اور دسویں صدی عیسوی میں ہندوستان میں مبلغین اور صوفیوں کی آمد کا سلسلہ بڑھنا شروع ہوا تب تک سنیوں کے چار فقہی مکاتیب ( حنفی ، حنبلی ، مالکی ، شافعی ) تشکیل پا چکے تھے اور اہلِ تشیع تین شاخوں ( زیدی ، اثنا عشری ، اسماعیلی ) میں بٹ چکے تھے۔
سنیوں میں امام ابو حنیفہ کے حنفی مکتبِ فکر کے پیروکاروں کی اکثریت تھی اور شیعوں میں چھٹے امام جعفر صادق کے مرتب کردہ فقہِ جعفریہ کے اثنا عشری پیروکار زیادہ تھے۔ چونکہ اس زمانے میں فقہی اختلافات زیادہ تر علمی مباحث کی حدود میں تھے لہذا تحصیلِ علم مشترکہ میراث تھی چنانچہ یہ کوئی انہونی بات نہیں تھی کہ دو سنی فقہا امام مالک اور امام ابوحنیفہ امام جعفر صادق سے بھی درس لیتے رہے۔
( اثنا عشری شیعہ جانشینی و امامت کے مسئلے پر امام جعفر صادق کے دو بیٹوں اسماعیل ابنِ جعفر اور موسی کاظم کے حامیوں میں تقسیم ہوگئے۔ اسماعیل ابنِ جعفر کے حامی اسماعیلی کہلائے۔ اسی شاخ نے دسویں صدی عیسوی میں مراکش تا سندھ فاطمی اسماعیلی سلطنت قائم کی جس کا دارلحکومت قاہرہ تھا۔ جب فاطمی سلطنت کمزور ہوئی تو اسماعیلی دو مزید گروہوں میں بٹ گئے ایک شاخ نزاری کہلائی اور دوسری مستعصلی۔(داؤدی بوہرہ مستعصلی گروہ کی ہی شاخ در شاخ ہے)۔
اسماعیلی مبلغین ملتان تک پھیل گئے چنانچہ دسویں صدی کے وسط میں وہاں اسماعیلی قرامطہ حکومت قائم ہوئی مگر گیارہویں صدی کے شروع میں محمود غزنوی کے دو حملوں میں ملتان سے سیہون تک پھیلی قرامطہ حکومت ختم ہوگئی۔ ان حملوں میں ملتان کی اسماعیلی آبادی کا قتلِ عام ہوا۔ قرامطہ حکمران ابوفتح داؤد کو قیدی بنایا گیا۔ ملتان کے شہریوں سے لگ بھگ دو کروڑ دینار تاوان وصول کیا گیا اور بچے کچھے اسماعیلی بالائی پنجاب اور زیریں سندھ کے مختلف علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔
محمود غزنوی کے بعد قرامطہ حکومت پھرمختصر عرصے کے لیے قائم ہوئی تاہم بارہویں صدی میں شہاب الدین غوری نے اس کا مستقل قلع قمع کر دیا اور بعد ازاں صوبہ ملتان دہلی سلطنت کا حصہ بن گیا۔
اس دوران کشمیر میں ایک نئی پیش رفت شروع ہوگئی۔ کشمیر میں اسلام چودھویں صدی کے شروع میں ترکستان سے صوفی بلبل شاہ قلندر اور انکے ایک ہزار مریدوں کے ساتھ پہنچا۔ بودھ راجہ رنچن نے دینی افکار سے متاثر ہو کر بلبل شاہ کے ہاتھ پر بیعت کی ۔یوں راجہ رنچن سلطان صدر الدین کے نام سے کشمیر کا پہلا مسلمان حکمران بنا۔بعد ازاں ایک ایرانی صوفی سید علی ہمدانی سات سو مبلغوں ، ہنرمندوں اور فن کاروں کی جماعت لے کر کشمیر پہنچے اور اس ثقافت کا جنم ہوا جس نے جدید کشمیر کو شناخت مہیا کی۔
لگ بھگ اسی دور میں شمس الدین عراقی اور انکے پیروکاروں نے کشمیر میں قدم رکھا۔ انہوں نے چک خاندان کی مدد سے ہزاروں ہندوؤں کو شیعہ اسلام میں داخل کیا۔ ایک ترک جنگجو سردار مرزا حیدر دگلت نے پندرہ سو چالیس میں کشمیر پر حملہ کیا اور شیعہ فرقے کا قتلِ عام کیا۔ مرزا دگلت کی واپسی کے بعد چک خاندان کا اقتدار پھر سے بحال ہوگیا ۔ چک حکمرانوں کے تبلیغی جوش وخروش کے ردِ عمل میں سن سولہ سو بائیس سے سولہ سو پچاسی تک کشمیر میں چار بڑے شیعہ سنی بلوے ہوئے۔
ایک سرکردہ مقامی سنی عالم شیخ یعقوب سرفی نے مغلِ اعظم اکبر کو کشمیر پر فوج کشی کی دعوت دی ۔ یوں کشمیر کی آخری آزاد حکومت اپنی ہی فرقہ پرستی کا لقمہ بن گئی۔جب اٹھارویں صدی میں مغل سلطنت زوال پذیر ہونے لگی تو کشمیریوں نے احمد شاہ ابدالی کو مدعو کیا لیکن یہ دعوت بھی ایک مصیبت بن گئی۔
لوٹ مار کا ایک دور ختم ہوتا تو دوسرا شروع ہوجاتا۔پھر کشمیر رنجیت سنگھ کے تختِ لاہور کے زیرِ نگیں آگیا۔مگر انیسویں صدی کے وسط میں انگریز وں نے کشمیر رنجیت سنگھ کے ورثا سے لے کر ڈوگروں کے ہاتھ فروخت کردیا۔ ڈوگرہ دور میں کشمیری مسلمانوں کے فرقہ وارانہ اختلافات وقتی طور پر دب گئے اور تین سو برس بعد سری نگر میں عاشورے کا جلوس نکلا۔
آج بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں صرف کارگل اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں بلتستان اور گلگت ہی وہ علاقے ہیں جہاں شیعہ اکثریت ہے۔
مغلیہ دور
جو بھی ہندوستان جیسے عظیم ملک پر طویل عرصہ حکومت کرنا چاہتا ہے اس پر لازم ہے کہ وہ تمام مذہبی طبقات و مذاہب سے کشادہ دلی برتے۔ جب تک مغلوں نے اس اصول پر عمل کیا ان کی سلطنت مستحکم رہی ۔تنگ نظری بڑھتی گئی تو سلطنت کی عمر گھٹتی گئی۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بابر سے لے کر شاہ جہاں تک مغلوں کا طرزِ حکومت کم و بیش نرمی و گرمی کی مرکب سیکولر پالیسی کے محور پر رہا۔ جب اورنگ زیب نے اس پالیسی سے روگردانی کی تو نتیجہ شورش اور ٹوٹ پھوٹ کی شکل میں نکلا۔
جن دنوں بابر وسطی ایشیا میں فرغانہ کی کھوئی ہوئی سلطنت حاصل کرنے کی تگ و دو میں تھا تو مشکل وقت میں ایران کے صفوی بادشاہ اسماعیل نے قزلباش جنگجوؤں کو بابر کی مدد کے لیے بھیجا۔ بابر یہ بات نہیں بھولا اور جب اس نے ہندوستان میں مغلیہ اقتدار کی بنیاد رکھی تو اپنے ساتھ ایرانی مشاورت بھی لایا۔ اس نے ولی عہد ہمایوں کو وصیت کی کہ ایرانیوں سے تعلقات اچھے رکھنا۔خود کو فرقہ واریت اور مذہبی تعصبات سے بالا رکھتے ہوئے ہر طبقے کے ساتھ اس کی روایات کے مطابق انصاف کرنا۔
جس طرح بابر سے فرغانہ کی سلطنت چھنی اور اس نے ایران کے شاہ اسماعیل کی مدد سے اقتدار دوبارہ حاصل کیا۔اسی طرح ہمایوں سے بھی جب شیرشاہ سوری نے مغل سلطنت چھین لی تو شاہ اسماعیل کے بیٹے طہماسپ نے بھرپور مدد دی۔ ہمایوں نے عالمِ غربت میں لگ بھگ پندرہ برس ایران میں گذارے۔ بعض روایات کے مطابق ہمایوں نے بادلِ نخواستہ شاہ طہماسپ کے اصرار پر مصلحتاً وقتی شیعت اختیار کرلی ۔ شاہ طہماسپ نے بارہ ہزار ایرانی سپاہیوں کا لشکر ہمایوں کے سپرد کیا ۔یوں ہمایوں نے مغل سلطنت دوبارہ حاصل کی۔ہمایوں ایران سے اپنے ہمراہ فارسی ، درباری روایات ، فنونِ لطیفہ کے ماہرین اور انتظامی و فوجی انصرام کے طریقے لایا۔یوں ایرانی اثر و نفوز مغلیہ خاندان میں رچتا بستا چلا گیا۔
ہمایوں کے بیٹے اکبر کے زمانے میں مذہبی رواداری نے نیا رخ اختیار کیا۔اکبر نے صلحِ کل کی پالیسی کے تحت راجپوتوں سے سیاسی تقاضوں کے سبب رشتے ناطے کیے۔ اکبر کے رتنوں میں دو اہم رتن ابوالفضل فیضی اور عبدلرحیم خانِ خاناں شیعہ تھے۔ تاہم اکبر کی فراخدلانہ مذہبی پالیسی کے ردِ عمل میں درباری علما کے مابین عقائد کی سرد جنگ چھڑ گئی جو وقت کے ساتھ ساتھ نت نئی شکلیں اختیار کرتی گئی۔
اکبر کے وارث جہانگیر کی محبوب ایرانی نژاد ملکہ نور جہاں اور اس کے بھائی آصف خان کے اثرو نفوز نے دربارِ جہانگیری پر ایرانی رنگ اور چڑھا دیا۔چنانچہ ایک سرکردہ غیر درباری سنی عالم شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی نے دربار پر بڑھتے ہوئے شیعہ اثرات کے ردِ عمل میں ردِ روافظ کے نام سے کتاب لکھی لیکن شیخ احمد سرہندی نے جب قیوم ہونے کا دعوی کیا تو جہانگیر نے زنداں میں ڈال دیا۔
مگریہ کہنا بھی درست نہ ہوگا کہ ابتدائی مغل بادشاہ مکمل طور سے ایرانی اثرات کے سحر میں تھے کیونکہ انہیں جب کوئی سیاسی و بقائی فیصلہ درپیش ہوتا تو وہ رواداریاں باآسانی لپیٹ بھی دیتے تھے۔
جیسے شروع شروع میں اکبر کا مذہبی رویہ خاصا سخت گیر رہا۔ اس نے بااثر سنی درباری عالم شیخ عبدالنبی کے مشورے پر حضرت امیر خسرو کے پہلو میں دفن ایک ایرانی شیعہ عالم میر مرتضی شیرازی کی قبر اکھڑوا دی۔ بعد ازاں یہی اکبر مذہبی و فرقہ وارانہ لحاظ سے غیر جانبدار ہوگیا۔
اسی دور میں ایک شیعہ عالم نور اللہ شستری ایران سے آگرہ آئے اور مختصر عرصے میں اپنی علمیت و فراست سے بادشاہ کا اعتماد حاصل کرلیا۔ اکبر نے انہیں قاضی القضاۃ کا درجہ دیا۔ جب کشمیر کی شیعہ چک سلطنت میں زیادتیوں کے شکار سنی علما دہائی دینے لگے تو اکبر نے حالات معلوم کرنے کے لئے نور اللہ شستری کو ہی بطور شاہی ایلچی کشمیر بھیجا۔
اکبر کی وفات کے بعد جہانگیر نے نور اللہ شستری کو چیف قاضی کے منصب پر برقرار رکھا۔ لیکن جب شیعہ عقائد پر سنی اعتراضات کے جوابات پر مبنی انکی کتاب احقاق الحقائق ( سچ کی توضیح ) سامنے آئی تو دربار کے سنی علما نے نور اللہ شستری پر شرک کا فتوی جاری کیا۔یوں ستر سالہ شستری شاہی غضب کا نشانہ بنے اور کوڑوں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کرگئے۔ اہلِ تشیع انہیں بطور شہیدِ ثالث یاد کرتے ہیں۔
شاہجہاں کی فرقہ وارانہ پالیسی بھی کم و بیش اپنے پیشروؤں کی طرح ہی رہی۔ شاہجہاں کی محبوب بیوی اور ملکہ نور جہاں کی بھتیجی ممتاز محل تاج محل میں محوِ آرام ہے۔دورِ شاہجہانی کا ایک ایسا واقعہ ملتا ہے جب ایک اسماعیلی مبلغ سیدنا شجاع الدین کے عقائد ناپسند کرتے ہوئے لاہور کے شاہی اصطبل میں ڈال دیا گیا۔ روایت ہے کہ اصطبل کے اردگرد آتشزدگی ہوئی لیکن اصطبل محفوظ رہا۔۔چنانچہ شاہجہاں نے سیدنا شجاع الدین کو رہا کر کے عزت و احترام سے صوبہ گجرات روانہ کردیا گیا۔
تاہم اسی شاہ جہاں کا بیٹا اورنگ زیب جب گجرات کا گورنر بنا تو اس نے ایک اور اسماعیلی مبلغ سیدنا قطب الدین کو شرک کے فتوی پر سزائے موت دے ڈالی۔ تینتیس جلدوں پر مشتمل جو فتاویِ عالمگیری مرتب کیا گیا اس میں شیعہ عقیدے کو مشرکانہ بتایا گیا ۔اورنگ زیب کے دور میں تعزیے اور ماتمی جلوس کی ممانعت ہوئی ۔وہ چوبیس برس جنوبی ہندوستان کی ترکمان شیعہ قطب شاہی حکومت سے برسرِ پیکار رہا اور اس ڈیڑھ سو سالہ سلطنت کا خاتمہ کرکے ہی دم لیا۔
خود قطب شاہی دور بھی جنوبی ہندوستان کی پہلی تاجک شیعہ بہمنی سلطنت کے پونے دو سو سالہ اقتدار کے کھنڈرات پر قائم ہوا تھا۔لیکن اورنگ زیب کے ہاتھوں سولہ سو ستاسی میں قطب شاہیوں کے خاتمے کا ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ جنوبی ہندوستان سے ایک مضبوط مسلمان بادشاہت ہٹنے کے بعد ہندو مرہٹے اور مغل آمنے سامنے ہو گئے۔
رفتہ رفتہ اس چپقلش نےمغل حکومت کے استحکام کو ہی کھوکھلا کردیا اور اورنگ زیب کی وفات کے بعد مغلیہ اختیار تیزی سے مٹتا چلا گیا۔ جس تخت پر بااختیار بادشاہ بیٹھتے تھے اس پر بادشاہ نما کٹھ پتلیاں بٹھائی اٹھائی جانے لگیں۔
اٹھارویں صدی میں دو سگے بھائی مغل جرنیلوں نے بادشاہ گر کی شہرت پائی۔ تاریخ انہیں سید برادران کے نام سے جانتی ہے۔ سید حسن علی خاں اور حسین علی خاں ایرانی ساداتِ بارہہ میں سے تھے۔ اورنگ زیب کے بعد جب طوائف الملوکی پھیلی تو اصل اقتدار سید برادران کے ہاتھ آگیا۔ انہوں نے پندرہ برس میں چھ بادشاہوں ( بہادر شاہ ، جہاندار شاہ ، فرخ سیر ، رفیع الدرجات ، رفیع الدولہ ، محمد شاہ ) کو تخت پر بٹھایا ۔ان میں سے ایک کو قتل ، دوسرے کو نابینا اور تین کو معزول کیا۔بالاخر چھٹے بادشاہ محمد شاہ ( رنگیلا ) نے سید برادران کا کام اتار ڈالا۔
سلطنتِ اودھ
جس دور میں مغل بادشاہ محمد شاہ نے بادشاہ گر سید برادران کو ٹھکانے لگایا ۔انہی برسوں میں اودھ کے مغل گورنر برہان الملک سعادت علی خاں نیشا پوری نے کمزور تختِ دہلی سے زبانی وفاداری نبھاتے ہوئے فیض آباد سے خاندانِ اودھ کی حکمرانی کا آغاز کیا۔اودھ کی شیعہ سلطنت دراصل اس علاقے میں لگ بھگ تین سو برس پہلے قائم جون پور کی شرقی شیعہ سلطنت کے کھنڈرات پر قائم ہونے والی ایک بڑی شیعہ حکومت تھی جو سترہ سو بائیس سے اٹھارہ سو اٹھاون تک ایک سو چھتیس برس قائم رہی ۔ دس نوابین نے اودھ پر حکمرانی کی ۔ان میں سے نواب آصف الدولہ ، غازی الدین حیدر اور واجد علی شاہ نے بالخصوص سلطنتِ اودھ کے سیاسی ، سماجی و ثقافتی عروج و زوال میں اہم کردار ادا کیا۔
آصف الدولہ کے زمانے میں ایران سے اصولی شیعہ علما کی آمد شروع ہوئی جنہوں نے اخباری شیعہ رواج کے برعکس اس پر زور دیا کہ فقہی حوالے سے کسی ایک مرجع ( وہ عالم جس سے فقہی رہنمائی لی جا سکے ) کی تقلید ضروری ہے۔ آصف الدولہ کے وزیرِ اعظم حسن رضا خان نے شیعہ مبلغین کی نا صرف خصوصی سرپرستی کی بلکہ عراق میں نجف اور کربلا کی دیکھ بھال کے لئے بھی اودھی خزانے سے لگ بھگ دس لاکھ روپے سالانہ بجھوائے جانے لگے جبکہ پانچ لاکھ کے صرفے سے دریائے فرات سے نہرِ ہندی نکلوائی گئی جس نے نجف تا کربلا کا علاقہ سرسبز کردیا۔خانہ بدوش عرب قبائل نے یہاں سکونت اختیار کرنے لگے اور شیعت فروغ پانے لگی۔
ایران کے اصولی شیعہ علما کی آمد سے قبل اودھ بالخصوص فیض آباد میں سنی اور شیعہ مقامی ہندووں کے ساتھ مل کے عاشورہ کا انتظام و انصرام کرتے اور رسومات میں شریک ہوتے تھے ۔مگر کٹر علما کی آمد سے کٹرپن اور مذہبی فاصلہ بھی بڑھتا گیا۔ اودھ بالخصوص لکھنئو میں فرقہ ورانہ کشیدگی اسی دور کا تحفہ ہے۔ اٹھارہ سو ستاون کی جنگِ آزادی میں اودھ میں انگریزوں کے خلاف مزاحمت کے غیر موثر ہونے کا ایک اہم سبب بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ خلیج بھی تھی۔
تاہم سترہ سو چوہتر میں فیض اللہ خان نے رام پور میں جو چھوٹی سی شیعہ ریاست قائم کی اس میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی مقابلتاً بہتر رہی۔جبکہ سب سے بڑی مسلمان ریاست حیدرآباد میں بھی فرقہ وارانہ ہم آہنگی زہر آلود نہیں ہوئی۔
انگریزکا دور
اودھ کی ریاست بعد از زوال اترپردیش کا حصہ ہو گئی اور فرقہ واریت بھی انیسویں سے بیسویں صدی میں داخل ہوگئی۔ مقامی شیعہ اور سنی عالموں کے بڑھتی مذہبی مخاصمت کے سبب انیس سو چار اور آٹھ کے درمیان یو پی بالخصوص لکھنئو اور گردونواح میں شیعہ سنی تصادم کی کئی دفعہ نوبت آئی۔چنانچہ انیس سو نو میں پورے صوبے میں عاشورہ اور چہلم کے جلوس ممنوع ہوگئے لیکن سن تیس کے عشرے میں تین بڑے فرقہ وارانہ تصادم ہوئے اور اس مسئلے نے آزادی کے بعد بھی جان نہیں چھوڑی۔
تاہم انگریزی دور میں یو پی کو چھوڑ ہندوستان کے دیگر علاقوں بالخصوص رجواڑوں میں شیعہ سنی کشیدگی زیادہ تر زبانی حد تک ہی رہی ۔دونوں فرقوں سے تعلق رکھنے والے مغربی تعلیم یافتہ سیاسی رہنماؤں نے اس مسئلے کو اپنی سیاست اور انا کا محور بنانے سے گریز کیا ۔اس دور میں کانگریس اور مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے سیاستدانوں ، عام لوگوں اور بیشتر علما کی زیادہ توجہ انگریزی اقتدار کے خلاف بڑی لڑائی پر ہی مرکوز رہی۔
دیوبندی اور وہابی تشدد پسندی بمقابلہ سنی بریلوی اور شیعہ
انیس سو سینتالیس میں جن علاقوں میں پاکستان بنا وہاں صوبہ سرحد کو چھوڑ کر ہر جگہ سنی بریلوی مکتبہِ فکر کے پیروکاروں کی
اکثریت تھی ۔چونکہ بریلوی مسلک میں تصوف کو خاصی اہمیت حاصل ہے اور تصوف کا روحانی سلسلہ حضرت علی سے شروع ہوتا ہے ۔لہذا بریلویوں اور اہلِ تشیع کے درمیان کم و بیش مذہبی رواداری کی فضا ہی رہی۔البتہ دیگر مکاتیبِ فکر بمقابلہ شیعہ مکتبِ فکر ایسی صورتِ حال نہ تھی۔
شاہ ولی اللہ اور محمد بن عبدالوہاب
سترہ سو تین عیسوی ہیں جزیرہ نما عرب میں محمد بن عبدالوہاب اور ہندوستان میں شاہ ولی اللہ کی پیدائش ہوئی۔ دونوں نے اگلے تین سو برس میں مسلمان دنیا پر گہرے نقوش چھوڑے۔
شاہ ولی اللہ کی تعلیمات نے ان کی وفات کے سو برس بعد دیوبند مکتبِ فکر کی صورت اختیار کی اور محمد بن عبدالوہاب کی دین کو تمام علتوں سے پاک کرنے کی تحریک و تشریح نے ایک طرف خاندانِ سعود کی فکری تعمیر کی اور دوسری طرف خالص پن کے نظریے نے شدت اختیار کرتے کرتے سلفی رخ لے لیا جس نے آگے چل کر تکفیری فلسفے کی شکل میں القاعدہ کو جنم دیا اور پھر اس دھارے میں دیگر شیعہ مخالف دھارے بھی ملتے چلے گئے۔
شاہ ولی اللہ دہلوی شاہ عبدالرحیم کے صاحبزادے تھے اور شاہ عبدالرحیم اورنگ زیب عالمگیر کے فتاویِ عالمگیری کے مرتبین میں شامل تھے۔جب شاہ ولی اللہ نے آنکھ کھولی تو ہندوستان میں مغل سورج ڈوب رہا تھا۔ شاہ ولی اللہ نے لگ بھگ دس برس کا عرصہ عرب میں گذارا۔ اگرچہ انکی محمد بن عبدالوہاب سے براہِ راست ملاقات نہیں ہوئی تاہم دونوں کے کچھ اساتذہ مشترک ضرور رہے۔
شاہ ولی اللہ ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی و حکومتی زوال پر خاصے مضطرب تھے ۔انہوں نے اہلِ سنت کے چاروں مکاتیب میں فکری و فقہی ہم آہنگی کی پرزور وکالت کی تاہم فقہِ جعفریہ اس ہم آہنگی سے خارج رکھا گیا۔ انہوں نے مختلف مذہبی موضوعات و مسائل پر اکیاون تصنیفات رقم کیں۔ ایک کتاب قرت العینین میں اہلِ تشیع کو کمزور عقیدے کا فرقہ ثابت کیا گیا۔
شاہ ولی اللہ نے احمد شاہ ابدالی کو ہندوستان پر حملہ آور ہونے کی جو دعوت دی اس کا مدعا و مقصد نہ صرف بڑھتی ہوئی مرہٹہ طاقت کا زور توڑنا بلکہ دہلی سے رافضی اثرات ختم کرنا بھی تھا۔چنانچہ جب ابدالی حملہ آور ہوا تو اس نے دہلی میں اہلِ تشیع کو بطورِ خاص نشانہ بنایا۔ شاہ ولی اللہ کے صاحبزادے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی بھی بلند پایہ عالم تھے لیکن اثنا عشری عقائد کے بارے میں انکے خیالات اپنے والد کی نسبت زیادہ سخت تھے ۔اس کا اندازہ انکی تصنیف تحفہِ اثنا عشریہ پڑھ کے بھی ہوسکتا ہے۔
جہاں تک ہندوستان میں وہابی عقائد کی ترویج کا معاملہ ہے تو ان کی اشاعت بہت بعد میں شروع ہوئی اور پہلا اہم مرکز ریاست بھوپال بنا جب محمد بن عبدالوہاب کے افکار سے متاثر ایک سرکردہ عالم صدیق علی خان کی انیسویں صدی کی آخری چوتھائی میں بھوپال کی حکمراں شاہجہاں بیگم سے شادی ہوئی اور وہابی فکر کو ریاستی سرپرستی میسر آگئی تاہم بریلوی اور دیوبندی مکتبِ فکر کو ہندوستان کی سرزمین جتنی راس آئی ویسی مقبولیت وہابی نظریات کو حاصل نا ہوسکی۔
البتہ آزادی کے بعد شیعہ سنی تعلقات کے تناظر میں وہابی مکتبِ فکر نے عمومی زہن پر مخصوص اثرات مرتب کیے وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ آج تک وہ اثرات کس کس شکل میں ظاہر ہوئے ہیں۔یہ کوئی راز نہیں ہے۔
Source: Adapted with minor modification from BBC Urdu
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی آخری وقت اشاعت: ہفتہ 23 فروری 2013
Comments
Tags: General & Islamic History, India, Shah Waliullah, Shia Genocide & Persecution, Wusatullah Khan
Latest Comments
Khan Sahib it is not only although provoking scribe but as well as an empirical study to the core issue what we witnessing since last one and half decade here in Pakistan.
FaizJehangiri @Faiz_Jehangiri
@NishapuriFC Quite disgusting to read about Shah Waliullah’s anti-Shia role.Our text books always paint him as a prophet of peace.
Expand Reply Retweeted Favorite More
2 hrs Kamran Niaz @Kayehenn
@Faiz_Jehangiri @nishapurifc these persons were promoted & brought in text books as part of Zia’s vision to Wahabise the mindset.
Expand
2 hrs FaizJehangiri @Faiz_Jehangiri
@Kayehenn @nishapurifc Karamta was always portrayed as kafir cult in our textbooks,which Mahmood Ghaznavi punished.Zia murdered history.
FaizJehangiri @Faiz_Jehangiri
@NishapuriFC Quite disgusting to read about Shah Waliullah’s anti-Shia role.Our text books always paint him as a prophet of peace.
Hide conversation Reply Retweeted Favorite More
4
RETWEETS
1
FAVORITE
5:56 p.m. – Feb 23, 2013 · Details
Tweet text
Reply to @Faiz_Jehangiri
Image will appear as a link
2 hrs Nishapuri FC @NishapuriFC
@Faiz_Jehangiri Mahmood Ghaznavi, Shahab Ghauri, Mujaddad Alf Sani, Aurangzeb Alamgir, Shah Waliullah etc were pioneers of LeJ #ShiaGenocide
Syed Farrukh Abbas @Farrukhhussaini
@NishapuriFC salah ud din ayubi killed 60,000 in Egypt Shia’s before he killed a single crusader in palestine.
Shah Waliullah was a key player in Shia genoicde for centuries to come. He also brought Sunnis of India close to Hanbali and Wahhabi ideology, culminating in pro-Wahhabi Deobandis.
Shah Waliullah, the 18th century Muslim thinker seems to have inspired both liberal and orthodox ways of thinking in South Asia.6 His most remarkable contribution was the linkage he formed between Deobandi Islam and the Hanbali Islam of Saudi Arabia during his sojourn in Hijaz. The rise of Saudi influence in Pakistan during the Afghan jihad against the Soviets cemented the old nexus further. Saudi gift of the seed money for General Zia’s Zakat Fund was conditional: a significant bequest had to be made to the Ahle Hadith seminary headquarters in Faisalabad, the city from where Al Qaeda’s Abu Zubaidah was to be arrested in 2002. Army chief Aslam Beg was the first to allow Deobandi seminaries in Bahawalpur and Rahimyar Khan so that their armed youth could be used as ‘second line of defence’ against a possible Indian attack from Rajasthan.7 The Arab sheikhs, who enjoyed extra-territorial rights, came to the area for hunting rare birds and began to fund the seminaries, thus allowing the rise of the Sipah Sahaba under an intensely anti-Shia and anti-Iran leader, Maulana Haq Nawaz Jhangvi.8 The Deobandi-Ahle Hadith tradition in India had always been coloured with strong sectarianism. Jihad in Pakistan brought to the fore the dominance of a Deobandi consensus together with a strong anti-Shia trend among the main jihadi groups.
1.Bobby S. Sayyid, A Fundamental Fear: Eurocentrism and the Emergence of Islamism, (Zed Books London, 1995). The book discusses the problem from the Muslim point of view but with the tools of Western scholarship.2.Daily Times Lahore (11 September 2003) quoted Ernest Gellner from his book Post-modernism, Reason and Religion: ‘High Islam stresses the severely monotheistic and nomocratic nature of Islam, it is mindful of the prohibition of claims to mediation between God and man, and it is generally oriented towards puritanism and scripturalism. Low Islam, or Folk Islam, is different. If it knows literacy, it does so mainly in the use of writing for magical purposes, rather than as a tool of scholarship. It stresses magic more than learning, ecstasy more than rule-observance. Rustics, you might say, encounter writing mainly in the form of amulets, manipulative magic and false land deeds. Far from avoiding mediation, this form of Islam is centred on it: its most characteristic institution is the saint cult, where the saint is more often than not a living rather than a dead personage (and where sanctity is transmitted from father to son).’ Gellner was an outstanding theorist of modernity and a rare breed among late twentieth century scholars. He made major contributions in very diverse fields, notably philosophy and social anthropology. He is known for his path-breaking analyses of ethnicity and nationalism (Thought and Change, 1964; Nations and Nationalism, 1983), among other works.3.Dr Rashid Ahmad Jullundheri, Journal Al Ma’aref Quarterly, (January-March 1998) Idara Saqafat Islamia Lahore. The issue contains a long survey of the Deoband seminary’s birth and activities under British Raj.4.K.K. Aziz, Religion, Land and Politics in Pakistan: A Study of Piri-Muridi; (Vanguard Books Lahore, 2002): Historian Khursheed Kamal Aziz has taken in hand an interesting but difficult theme from Pakistan’s history: the relationship between ownership of land and the custodianship of grassroots spirituality as a power base for national politics. He was surprised to find that not much research work had been done on the subject. The most significant angle he provides to the understanding of the Brelvi dominance in Pakistan on the eve of 1947 is in his narrative of the participation of the Chishti order of sufi saints in the politics of a land that was dominated by Suhrawardi saints and Deobandi ulema. It was the Chishti success that brought in the Brelvi influence from Central India and converted what became known as Pakistan into a Low Church territory. This also makes known the Chishti support to the Pakistan Movement as opposed to the Deobandi ulema who opposed it.5.Daily Jang, Lahore (14 June 2003), wrote that the founder of the Banuri Mosque complex, which is the centre of the powerful Deobandi movement in Pakistan, was Maulana Yusuf Banuri (1908-1977) who was born in Basti Mahabatabad near Peshawar, son of Maulana Syed Muhammad Zakariya who was in turn the son of a khalifa of Mujaddid Alf-e-Sani. He was educated in Peshawar and Kabul before being sent to Deoband where he was the pupil of Shabbir Ahmad Usmani. He returned to join the seminary of Dabheel. In 1920 he passed the Maulvi Fazil exam from Punjab University. In 1928, he went to attend the Islamic conference in Cairo. He migrated to Pakistan in 1951 and started teaching at Tando Allahyar. He founded the Jamia Arabiya Islamiya in Karachi in 1953 while he led the attack against Pakistani Islamic scholar Dr Fazlur Rehman. He was involved in the aggressive movement of Khatm-i-Nabuwwat from 1973 onwards and was made member of the Council of Islamic Ideology (CII) by General Zia on coming to power.6.Dr Javid Iqbal, Islam and Pakistan’s Identity, (Vanguard Books Lahore, 2003). The Mughal rule in India and the rise of the puritan wahabi Islam in the Mughal twilight is discussed in the book as a process of constant adjustment to reality; so is the ‘enigmatic’ and fantasy-ridden Khilafat Movement. But the highlight of the discussion is the consideration by the author of the role of Shah Waliullah who continues to inspire both the fundamentalists and the liberals in Pakistan. The followers of Deoband who link up with the Ahle Hadith or wahabis and subliminally apostatise the Shiites revere him because he was in the tough Naqshbandi tradition. The liberals love him because he translated the Quran into Persian. The author links Iqbal’s ‘liberal’ interpretation in his Lectures of the Islamic hudood to Shibli’s reading of Shah Waliullah.
http://www.shiachat.com/forum/index.php?/topic/234976437-islamic-extremism-in-pakistan/
——-
Acc to Khaled Ahmed, Shah Waliullah urged Ahmad Shah Durrani (Abdali) to invade India to save Muslims from Hindus and Shias. #ShiaGenocide
wali Ullah was traitor.politically. he was main starter of Wahabisim like attitude folowd by Syed Ahmad.prasd by JI bc o tht
——
Khaled Ahmed, who does a systemic review of Shia-Sunni Problems(starting from the start of this conflict and with special mention of anti-Shia attitudes of Shaikh Ahmad Sirhindi and Shah Waliullah),
——
In context of Indian subcontinent, Mughal Emperor Alamgir crystallised anti-Shia sentiment in the psyche of Indian Muslims. Fatwa-e-Alamgiri compiled during the reign of Mughal emperor Alamgir under the supervision of Shah Waliullah and several hundred Sunni jurists from all over the world was the first comprehensive volume which collected several hundred fatwas declaring the Shia infidels. It went as far as to say that anyone who does not accept the Muslim caliphs is an infidel. It also made it binding upon Muslims to call Shia Rafidah, a derogatory term meaning defectors, deserters, and traitors. All fatwas used against the Shia since then refer back to this collection. A close examination of the fatwas used by Sipah Sahaba and similar anti-Shia militant groups makes it clear that the source of them is Fatwa-e-Alamgiri collection.
—–
The three conditions that Sayyid Ahmad and the Taliban fill are: fighting enemy number one (the British, the Americans) through a secondary enemy (the Sikhs, Pakistan); mixing local Islam with hardline Arab Islam; and using the tribal order as matrix of Islam. The Taliban derive their radical Islam from the Wahhabi severity of the money-distributing Arabs; the mujahideen of Sayyid Ahmad derived their puritanism from Shah Waliullah’s ‘contact’ with the Arabs in Hijaz in 1730.
In the battle of Balakot, Sikh commander Sher Singh finally overwhelmed Sayyid Ahmad after he was informed about his hideout by his Pashtun allies. Ahmad fought bravely but was soon cut down. To prevent a tomb from being erected on his corpse, the Sikhs cut him to pieces but ‘an old woman found the Sayyid’s severed head which was later buried in the place considered to be his tomb’ (p.105).
Author Jalal notes that in the battlefield of Balakot, where Sayyid Ahmad of Rai Bareilly was martyred in 1831, another kind of ‘cross-border’ deniable jihad is being carried out by other mujahideen. She writes: ‘To this day Balakot where the Sayyid lies buried is a spot that has been greatly revered, not only by militants in contemporary Pakistan, some of whom have set up training camps near Balakot, but also by anti-colonial nationalists who interpreted the movement as a prelude to a jihad against the British in India’ (p.61).
Not far from Balakot, the votaries of the Sayyid are fighting on the side of Al Qaeda against ‘imperialist’ America and its client state, Pakistan, and killing more Muslims in the process than Americans, just as the Sayyid killed more Muslims than he killed Sikhs. According to Sana Haroon (Frontier of Faith: Islam in the Indo-Afghan Borderland; Hurst & Company London 2007), Ahmed Shah Abdali had induced descendants of Mujaddid Alf Sani to move to Kabul after his raid of Delhi in 1748. In 1849, Akhund Ghafur set up the throne of Swat and put Syed Akbar Shah on it as Amir of Swat, the Syed being a former secretary of Sayyid Ahmad of Rai Bareilly.
It was a Wahhabi war in the eyes of mild Indian Muslims. It was therefore a virulently Sunni war which pointedly did not attract the Shia. It is difficult to believe that Urdu’s greatest poet Mirza Ghalib (1797-1869) could have supported the jihad (p.61). Writers have claimed that he wrote in cipher and used complicated metaphor in his poetry to attach himself surreptitiously to jihad; but that is not true if you read his Persian letters recently made accessible in the very competent Urdu translation of Mukhtar Ali Khan ‘Partau Rohila’ in a single volume Kuliyat Maktubat Farsi Ghalib (National Book Foundation Islamabad 2008).
Far from being attracted to the movement of jihad inspired by anti-Shia saints like Shah Waliullah and Shah Abdul Aziz, Ghalib praises an opponent of the Sayyid, Fazle Haq, and is more forthright about his own conversion to Shiism from the Sunni faith. Like Al Qaeda’s war against America, Sayyid Ahmad’s jihad was a Sunni jihad, an aspect that must be made note of. Al Qaeda today kills Shias as its side business.
Muslims history telling us that they never unite on one thing.
Masterpiece work, i must say!
May God bless you with best of heath Mr Wusatullah!
Shah Waliullah’s links with Muhammad ibn Abd al-Wahhab – by Allama Muhammad Umar Icharwi – See more at: https://lubp.net/archives/313032
محدث دہلوی امام شاہ عبدالعزیز اپنی کتاب ” تحفہ ءِ اثنا عشریہ” میں شعیہ حضرات کی بابت لکھتے ہیں:
“اہل تاریخ اس پر متفق ہیں کہ شیعوں میں سے آج تک کوئی جہاد پر کمر بستہ نہیں ہوا اور نہ ہی ان میں سے کسی نے کسی ملک یا اس کے حصے کو کفار سے چھین کر اسے دارلسلام بنایا بلکہ اس کے برخلاف انہیں اگر کسی شہر کی سیادت یا حکمرانی ملی بھی جیسے مصر و شام کی ریاست ان کے پاس آ بھی گئ تو انھوں نے کفار ہی کی طرف دوستی اور یگانگت کا ہاتھ بڑھایا اور دین کو دنیا کے عوض بیچ کر دارلسلام کو دارلکفار میں تبدیل کر دیا۔ (یہ ہمیشہ کافروں سے دوستی اور مسلمانوں کے قتل پر شیر رہے)۔ چنانچہ اس کا نتیجہ ہے کہ جہاں اس مذہب کے سبز قدم پہنچے وہاں کے باشندے ہمیشہ غالب و شان رہے۔ چنانچہ توران، ترکستان، روم اور ہندوستان کے بادشاہوں نے شیعوں کے اختلاط اور دوستی سے پہلے عزت و شان کی زندگی بسر کی ہے اور جب کسی شہر اور ملک میں شیعہ مذہب رائج ہوا وہاں فتنہ و فساد ، بدبختی، اور ذلت و باہمی نفاق جو زوال سلطنت کے اندرونی اسباب شمار ہوتے ہیں، آسمان سے بارش قطرہ برسنے لگے اور پھر وہاں کی فضا ناقابل اصلاح ہوگئی۔ ایران، دکن اور ہندوستان میں ہی نہیں۔ ملک عرب، شام ، روم ، توران و ترکستان وغیرہ کے حالات کو دیکھ لیجئے(تو اسکی تصدیق ہوجائے گی)۔ اور تاریخ کا ایک یہ بھی ناقابل تردید تجربہ ہے کہ جب بھی اتفاق سے کسی ملک میں شیعہ غلبہ ہوا ہے تو اسکے کے متصل بعد ہی اس پر کفار کا غلبہ ہونا گویا لآزمی ہوگیا۔ بلکہ یہ سمجھنا چاہیے کہ ان کا تسلط کفار کے تسلط کا گویا پیش خیمہ ہوتا ہے اور یہ گویا چھوٹے کفار ہیں۔ بنگال ، دکن، پورب و گرد و نواح، لاہور پنجاب میں کفار کو یہی بدبخت و سیاہ روح، سیاہ کار ہی بر سر اقتدار لائے۔
—————————————————————————
(امام شاہ عبدالعزیز، ” تحفہ ءِ اثنا عشریہ”، باب دوم، ص ۹)
(ترجمہ: مولانا خلیل الرحمن نعمانی)
(پبلشر: عالمی مجلس تحفظ اسلام)
When such morons are hailed as heroes in Pakistan Studies books, then no wonder #ShiaGenocide is a fact of life in the bastion of Islam
3.Shah wali ulah wrote letters to Ahmad Shah Durrani to come and kill both Marhattas and Shias in Delhi. Reference:- Sayyid Athar Abbas Rizvi, ‘Shah Waliullah and his times’, Ma’rifat publishing house 1980, page 306
Shah wali and his fanatic grand kids were poisonous parasites funded by the horn of evil najadi..these ppl should b remembered as traitors against the homeland not heroes but hyproes..ahh inviting the foreigners to rape motherland same pimpism practiced by general r.. azeel gul..
@sarah khan funny though this kaazib dehlvi calling shia black faced and terrorists…what twisted history to be taken darbari ghadaar we now can see who is killing the innocents and what their philsophies are??? Preached by you beasts..it was alamgir who killed tolerance in india..it was abdulwahab and his filthy followers killed innocents..it is your daughter isis who is deforming Islam..and by the way if u will see what as “black faced” they r all belonged to your sect
Dr israr
Malik ishaq
Zakir naik
And dont forget one eyed dajjal of saudi fataawis
No makeover can ever hide khabasat of their faces if u will ever has eyes or brain to accept the truth.
Deformed faces deformed faiths deo bands
http://www.bbc.com/urdu/pakistan/2012/11/121125_baat_se_baat_tim.shtml
یا حسین تیری پیاس کا صدقہ
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
آخری وقت اشاعت: اتوار 25 نومبر 2012 , 10:58 GMT 15:58 PST
Facebook
Twitter
Google+
پرنٹ کریں
یہ تب کی بات ہے جب ہم ایک گمراہ ، مشرک ، بدعتی معاشرے میں رہتے تھے۔ اے اللہ مجھے اور میرے مشرک ، گمراہ ، بدعتی پرکھوں اور اس سماج کو معاف کردینا جسے کوئی تمیز نہیں تھی کہ عقیدے اور بدعقیدگی میں کیا فرق ہے۔ اچھا مسلمان کون ہے اور مسلمان کے بھیس میں منافق اور خالص اسلام کو توڑنے مروڑنے اور اس کی تعلیمات کو مسخ کرنے والا سازشی کون ۔
اے میرے خدا میری بدعتی والدہ کو معاف کردینا جو اپنی سادگی میں ہر یکم محرم سے پہلے پڑنے والے جمعہ کو محلے پڑوس کی شیعہ سنی عورتوں کو جمع کرکے کسی خوش الحان سہیلی سے بی بی فاطمہ کی کہانی سننے کے بعد ملیدے کے میٹھے لڈو بنا کر نیاز میں بانٹتی تھی ۔
اسی بارے میں
ساتھ چلو یا گُم ہوجاؤ
انسانی حقوق اور لاتعلق میڈیا
کراچی شمالی وزیرستان میں ہے ؟
متعلقہ عنوانات
پاکستان
اے میرے خالق ، میرے والد کو بھی بخش دینا جو حافظِ قران دیوبندی ہونے کے باوجود یومِ عاشور پر حلیم پکواتے تھے تاکہ ان کے یارِ جانی حمید حسن نقوی جب تعزیہ ٹھنڈا کرنے کے بعد اہلِ خانہ کے ہمراہ بعد از عصر آئیں تو فاقہ شکنی کر پائیں۔
البتہ میری دادی کبھی اس فاقہ شکنی میں شریک نہیں ہوتی تھیں۔ وہ مغرب کی آذان کا انتظار کرتی تھیں تاکہ نفلی روزہ افطار کرسکیں۔ حمید حسن اور انکے اہلِ خانہ تو مغرب کے بعد اپنے گھر چلے جاتے تھے ۔ مگر عشا کی آذان ہوتے ہی ہمارے صحن کے وسط میں کرسی پر رکھے ریڈیو کی آواز اونچی ہو جاتی۔ سب انتظار کرتے کہ آج علامہ رشید ترابی کس موضوع پر مجلسِ شامِ غریباں پڑھیں گے۔ مجھے یا چھوٹی بہن کو قطعاً پلے نہیں پڑتا تھا کہ شامِ غریباں کیا ہوتی ہے ؟ کیوں ہوتی ہے ؟ اور مجلس کے اختتام سے زرا پہلے دادی کی ہچکی کیوں بندھ جاتی ہے ؟ اور کیا یہ وہی دادی ہیں جن کی آنکھ سے گذشتہ برس میرے دادا اور تایا کے یکے بعد دیگرے انتقال پر ایک آنسو نا ٹپکا تھا ؟
یہ فرقے کیا ہیں؟
وہ تو بھلا ہو اعلی حضرت میاں عبدالغفور کا جنہوں نے ایک دن دادی کو تفصیل سے اہم فرقوں اور حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی اور جعفری فقہ کے فرق کو سمجھاتے ہوئے بتایا تھا کہ اماں آپ نجیب الطرفین دیوبندی گھرانے سے ہیں اور بریلوی اور شیعہ ہمارے آپ کے پوشیدہ دشمن اور اسلام دشمنوں کے آلہِ کار ہیں لہذا ان سے ایک زہنی فاصلہ رکھتے ہوئے میل ملاقات رکھیں۔ اور اماں آپ اسلم برکی کے بچوں کو اب عربی قاعدہ نا پڑھایا کریں کیونکہ وہ قادیانی ہیں اور قادیانی کافر ہوتے ہیں اور کافر کو عربی قاعدہ پڑھانا نا صرف گناہِ کبیرہ ہے بلکہ قانوناً بھی جرم ہے۔ جب دادی نے قانون اور جرم کا لفظ سنا تب کہیں انہیں معاملے کی سنگینی سمجھ میں آئی۔ خدا میاں غفور کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔
اے اللہ شرک و ہدایت ، درست و غلط اور بدعت و خالص میں تمیز نا رکھنے والی میری سادہ لوح واجبی پڑھی لکھی دادی کی بھی مغفرت فرما ۔ اور پھر انہیں آج کی طرح کوئی یہ دینی نزاکتیں سمجھانے والا بھی تو نہیں تھا۔ وہ تو اتنی سادی تھیں کہ یہ فرق بھی نا بتا سکتی تھیں کہ بریلویت کیا چیز ہے اور شیعہ ہم سے کتنے مختلف ہوتے ہیں ؟
وہ تو بھلا ہو اعلی حضرت میاں عبدالغفور کا جنہوں نے ایک دن دادی کو تفصیل سے اہم فرقوں اور حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی اور جعفری فقہ کے فرق کو سمجھاتے ہوئے بتایا تھا کہ اماں آپ نجیب الطرفین دیوبندی گھرانے سے ہیں اور بریلوی اور شیعہ ہمارے آپ کے پوشیدہ دشمن اور اسلام دشمنوں کے آلہِ کار ہیں لہذا ان سے ایک ذہنی فاصلہ رکھتے ہوئے میل ملاقات رکھیں۔ اور اماں آپ اسلم برکی کے بچوں کو اب عربی قاعدہ نا پڑھایا کریں کیونکہ وہ قادیانی ہیں اور قادیانی کافر ہوتے ہیں اور کافر کو عربی قاعدہ پڑھانا نا صرف گناہِ کبیرہ ہے بلکہ قانوناً بھی جرم ہے۔ جب دادی نے قانون اور جرم کا لفظ سنا تب کہیں انہیں معاملے کی سنگینی سمجھ میں آئی۔ خدا میاں غفور کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔
لو میں بھی کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔
بچپن میں عید الضحی گذرنے کے بعد سکول کی چھٹی ہوتے ہی ہماری مصروفیت یہ ہوتی کہ بڑے قبرستان کے کونے میں ملنگوں کے ڈیرے پر نئے تعزیے کی تعمیر دیکھتے رہتے۔ یہ ملنگ روزانہ حسینی چندے کا کشکول اٹھا کر ایک چھوٹے سا سیاہ علم تھامے دوکان دکان گھر گھر چندہ اکٹھا کرتے اور پھر اس چندے سے زیور ، پنیاں اور کیوڑہ خرید کر تعزیے پر سجاتے اور سورج غروب ہوتے ہی کام بند کرکے بہت زور کا ماتم کرتے۔
میرے کلاس فیلو اسلم سینڈو کے ابا طفیلے لوہار کی تو محرم شروع ہونے سے پہلے ہی چاندی ہوجاتی ۔جس عزا دار کو چھریاں ، قمہ ، برچھی ، مچھلی اور زنجیر تیز کرانی ہوتی وہ طفیلے لوہار کی دوکان کا رخ کرتا ۔کام اتنا جمع ہوجاتا کہ اسلم سینڈو کو بھی اپنے باپ کا ہاتھ بٹانا پڑتا۔ البتہ شبِ عاشور طفیلے کی دوکان پر تالا لگ جاتا اور بند دکان کے باہر ہر سال کی طرح ایک سیاہ بینر نمودار ہو جاتا جس پر لکھا ہوتا ‘ یا حسین تیری پیاس کا صدقہ ‘ ۔۔۔دونوں باپ بیٹے دودھ کی سبیل لگا کر ہر آتے جاتے کو بااصرار پلاتے ۔
’یا حسین تیری پیاس کا صدقہ‘
میرے کلاس فیلو اسلم سینڈو کے ابا طفیلے لوہار کی تو محرم شروع ہونے سے پہلے ہی چاندی ہوجاتی ۔جس عزا دار کو چھریاں ، قمہ ، برچھی ، مچھلی اور زنجیر تیز کرانی ہوتی وہ طفیلے لوہار کی دوکان کا رخ کرتا ۔کام اتنا جمع ہوجاتا کہ اسلم سینڈو کو بھی اپنے باپ کا ہاتھ بٹانا پڑتا۔ البتہ شبِ عاشور طفیلے کی دوکان پر تالا لگ جاتا اور بند دوکان کے باہر ہر سال کی طرح ایک سیاہ بینر نمودار ہو جاتا جس پر لکھا ہوتا ’’ یا حسین تیری پیاس کا صدقہ ’’۔۔۔دونوں باپ بیٹے دودھ کی سبیل لگا کر ہر آتے جاتے کو بااصرار پلاتے ۔
پھر طفیل مرگیا اور اسلم سینڈو نے سارا کام سنبھال لیا۔ پھر میں نے سنا کہ اسلم نے ایک دن دوکان بند کردی اور غائب ہوگیا۔ کوئی کہتا ہے کشمیر چلا گیا ۔ کوئی کہتا ہے کہ افغانستان آتا جاتا رہا۔ کوئی کہتا ہے اب وہ قبائلی علاقے میں کسی تنظیم کا چھوٹا موٹا کمانڈر ہے اور اس کا نام اسلم نہیں بلکہ ابو یاسر یا اسی سے ملتا جلتا کوئی نام ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ کراچی کے نشتر پارک میں سنی تحریک کے جلسے کے بم دھماکے میں وہ پولیس کو چار سال سے مطلوب ہے ۔ کوئی کہتا ہے کہ کوئٹہ پولیس نے اسے اشتہاری قرار دے رکھا ہے۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔
لوگ کہتے ہیں مذہبی شدت پسندی اور تشدد قابو سے باہر ہوگیا ہے۔مگر لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ قبلہ و ایمان درست کرنے اور قوم کے جسم سے شرک و بدعت و گمرہی کے زہریلے مواد کے اخراج کے لئے تکفیری جہادی نشتر تو لگانا پڑتا ہے۔ انشاللہ عنقریب تمام مشرک ، بدعتی اور منافق جہنم رسید ہوجائیں گے اور ماحول اتنا پرامن اور عقیدہ اتنا خالص ہو جائے گا کہ اس خطہِ پاک کو دنیا پاکستان کے بجائے خالصتان پکارے گی۔۔۔
بس چند دن کی تکلیف اور ہے۔۔۔