Nawaz Sharif stands by the Parliament, supports Jatoi’s statement, rejects military intervention
Related article: Mian de nare wajan ge
’اداروں میں سب سے بڑا ادارہ پارلیمنٹ‘
میاں نواز شریف کے مطابق پاکستان کی عوام کی خواہشات کی عکاس پارلیمنٹ ہے اس لیے پارلیمنٹ کی حاکمیت کو بھی نقصان نہیں پہنچانا چاہیے
پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کا کہنا ہے کہ کسی ایسے سیلاب کی بات نہیں کرنی چاہیے جو پارلیمنٹ اور جمہوریت کو بہا کر لے جائے اورنہ پارلیمنٹ کے مقام کو کم نہیں کرنا چاہیے۔
جنوبی پنجاب کے علاقےمٹھن کوٹ میں سیلاب زدہ علاقوں کے دورے کے دوران میاں نوازشریف نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پہلے ایک سیلاب نے پاکستان میں اتنی تباہی مچائی اب ایسے کسی سیلاب کی خواہش نہ کی جائے جو جمہوریت کو بہا کر لے جائے کیونکہ اگر جمہورت ختم ہوئی تو سب کچھ ختم ہو جائے گا۔
میاں نواز شریف نے کہا کہ ’ہمارا مستقل جمہوریت میں ہی مضمر ہے۔ اداروں کو کام کرنے کی آزادی ہونی چاہیے اور ادارے آئین اور قانوں کے مطابق فیصلےکر سکیں اور ان فیصلوں کا احترام کیا جائے‘۔
میاں نواز شریف کے مطابق ان ’اداروں میں ملک کا سب سے بڑا ادارہ پارلیمنٹ ہے جس کا ایک تقدس اور مقام ہے۔ایک ادارہ عدلیہ ہے اس کا بھی اپنا مقام اور تقدس ہے اور اس کو بھی آزادی کےساتھ فیصلہ کرنے کا موقع ملے اور ان فیصلوں کا احترام ہونا چاہیے‘۔
میاں نواز شریف کے مطابق پاکستان کی عوام کی خواہشات کی عکاس پارلیمنٹ ہے اس لیے پارلیمنٹ کی حاکمیت کو بھی نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔
اداروں میں ملک کا سب سے بڑا ادارہ پارلیمنٹ ہے جس کا ایک تقدس اور مقام ہے۔ایک ادارہ عدلیہ ہے اس کا بھی اپنا مقام اور تقدس ہے اور اس کو بھی آزادی کےساتھ فیصلہ کرنے کا موقع ملے اور ان فیصلوں کا احترام ہونا چاہیے
نواز شریف
مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کا کہنا ہے کہ یہ جنگ عدلیہ اور پارلیمنٹ کی جنگ نہیں ہے بلکہ یہ چند لوگ ہیں جن کے مقدمات زیر سماعت ہیں انہیں پارلیمنٹ کہنا درست نہیں اور یہ تاثر بھی صحیح نہیں کہ پارلیمنٹ اور عدلیہ آمنے سامنے کھڑے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر آغاز ہی سے عدلیہ کے فیصلوں کا احترام کیا جاتا تو یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی کیونکہ اس سے حالات بہت خراب ہوئے ہیں۔
اس سوال پر کہ کیا ملک میں جس تبدیلی کی توقع کی جارہی ہے وہ فوج کی طرف سے ہو نے کا امکان تو نہیں میاں نواز شریف نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نہ تو اس طرح کے سوال ہونے چاہیں اور نہ وہ ایسے سوالات کا جواب دینا چاہتے ہیں۔’ایک عزت دار قوم نہ تو اس طرح سوچتی ہے نہ اس طرح کے سوال کرتی ہے اور نہ ایسے جواب دیے جاتے ہیں‘۔
میاں نواز شریف نے اس موقع پر یہ بھی کہا عبدالقیوم جتوئی نے جو باتیں کیں وہ سب غلط نہیں تھیں بلکہ ان کی کچھ باتیں درست بھی تھی جو بالکل حقائق کے عین مطابق تھیں۔
عبدالقیوم جتوئی نے پاکستان فوج پر تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ نواب محمد اکبر بگٹی کو فوج نے قتل کیا
تھا
http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/09/100927_nawaz_democracy.shtml
Another reason for the PTUJ’s mourning:
SC accepts government’s plea to adjourn NRO case
Upadated on: 27 Sep 10 06:41 PM
Staff Report
ISLAMABAD: After accepting the government’s plea, the Supreme Court (SC) has adjourned the NRO implementation case.
A three member SC bench headed by Chief Justice Iftikhar Muhammad Chaudhry, resumed hearing of the case on Monday.
It was widely hoped that the controversial summary of Swiss cases will be presented in court today, but the government made a new move and asked for more time to prepare before proceeding ahead.
The SC accepted the government’s petition and adjourned the hearing of NRO’s implementation case till October 13.
Prior to the start of the hearing on Monday, Attorney General (AG) Maulvi Anwar-ul-Haque submitted an appeal to the SC to postpone the NRO hearing on behalf of the government.
In his appeal, the AG argued that the Prime Minister is very busy with internal and external affairs, especially flood related issues, and needs some time to proceed with this matter.
He added that this is a matter of extreme value and the Prime Minister needs full concentration to deal with it – under his current busy schedule he is unable to do so.
He further added that under the given circumstances, the SC should allow the adjournment of this case for adequate time.
The three member bench granted a two week extension for further preparations and adjourned the hearing till the 13th of next month. SAMAA
http://www.samaa.tv/News25972-SC_accepts_governments_plea_to_adjourn_NRO_case_.aspx
نجی ٹی وی چینلز کی خصوصی ٹرانسمیشنز کی وجہ سے صبح سے ہی ایسا تاثر تھا کہ آج سپریم کورٹ کوئی غیر معمولی حکم جاری کرے گی اور حکومت کو خطرہ ہے۔
اکثر نجی ٹی وی چینلز کے سرکردہ اینکر پرسن اچانک اپنے اپنے چینلز پر آئے اور خصوصی نشریات شروع کردیں جس سے پورے ملک میں افواہوں کا ایک سلسلہ چل پڑا۔
چیف جسٹس اور فوج کے بارے میں متنازعہ ریمارکس دینے والے وزیر عبدالقیوم جتوئی نے وزیراعظم سے ملاقات کے بعد استعفٰی دے دیا تھا
جب سپریم کورٹ نے کوئی فیصلہ جاری نہیں کیا اور آرمی چیف کی وزیراعظم کے ہمراہ صدر سے ملاقات ہوئی اور صدر کے ترجمان نے یہ بیان جاری کیا کہ ملاقات میں جمہوری عمل کا تحفظ کرنے اور تمام معاملات آئین کے مطابق حل کرنے پر اتفاق ہوا ہے تو تمام چینلز کی نشریات بھی معمول پر آگئی۔
……….
ٹرائیکا میں ’جمہوری عمل کے دفاع اور حفاظت پر اتفاق‘
پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت نے ملک میں جمہوری عمل کا دفاع اور حفاظت کرنے اور تمام معاملات آئین کے مطابق حل کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
یہ اعلان پیر کو وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی صدرآصف علی زرداری سے ڈیڑھ گھنٹے کی طویل مشاورتی اجلاس کے بعد کیا گیا ہے۔
پروگرام کے مطابق پیر کو آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی سے ملاقات طے تھی لیکن بعد میں دونوں نے ایوان صدر میں صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کی۔
کلِک سپریم کورٹ، این آر او مقدمے کی سماعت ملتوی
صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے ’ٹرائکا اجلاس‘ کے بارے میں بتایا ہے کہ ملاقات میں ملک کی تازہ صورتحال کا جائزہ لیا اور جمہوری عمل کے تحفظ پر اتفاق کیا ہے۔
اسلام آباد سے ہمارے نامہ نگار اعجاز مہر کا کہنا ہے کہ یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی ہے جب پیر کو سپریم کورٹ نے قومی مصالحتی آرڈیننس ’این آر او‘ کے خلاف دیے گئے فیصلے پر عملدرآمد کا جائزہ لینا تھا۔
نجی ٹی وی چینلز کی خصوصی ٹرانسمیشنز کی وجہ سے صبح سے ہی ایسا تاثر تھا کہ آج سپریم کورٹ کوئی غیر معمولی حکم جاری کرے گی اور حکومت کو خطرہ ہے۔
اکثر نجی ٹی وی چینلز کے سرکردہ اینکر پرسن اچانک اپنے اپنے چینلز پر آئے اور خصوصی نشریات شروع کردیں جس سے پورے ملک میں افواہوں کا ایک سلسلہ چل پڑا۔
چیف جسٹس اور فوج کے بارے میں متنازعہ ریمارکس دینے والے وزیر عبدالقیوم جتوئی نے وزیراعظم سے ملاقات کے بعد استعفٰی دے دیا تھا
جب سپریم کورٹ نے کوئی فیصلہ جاری نہیں کیا اور آرمی چیف کی وزیراعظم کے ہمراہ صدر سے ملاقات ہوئی اور صدر کے ترجمان نے یہ بیان جاری کیا کہ ملاقات میں جمہوری عمل کا تحفظ کرنے اور تمام معاملات آئین کے مطابق حل کرنے پر اتفاق ہوا ہے تو تمام چینلز کی نشریات بھی معمول پر آگئی۔
پاکستان میں گزشتہ دو ہفتوں سے ذرائع ابلاغ میں جاری بحث و مباحثوں سے ایسا تاثر قائم ہو رہا تھا کہ منتخب حکومت اور صدر ِمملکت کو فارغ کرنے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔
ایسے میں دفاعی پیداوار کے وفاقی وزیر سردار عبدالقیوم جتوئی نے کوئٹہ میں نوابزادہ طلال بگٹی سے ملاقات کے بعد فوج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ’وہ بوٹوں سے نہیں ڈرتے، بوٹوں والوں نے نواب اکبر بگٹی، ذوالفقار علی بھٹو اور بینظر بھٹو کو قتل کیا۔‘
قیوم جتوئی نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پر بھی کڑی نکتہ چینی کی اور ان کے ڈومیسائل کے حوالے سے سوال اٹھائے۔
سردار عبدالقیوم جتوئی کے اس بیان کا وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے نوٹس لیتے ہوئے ان سے استعفیٰ طلب کیا اور کہا کہ ان کی کابینہ کے رکن نے غیر ذمہ درانہ بیان دیا ہے جو حکومتی پالسیی کا حصہ نہیں۔
لیکن اس کے ایک روز بعد یعنی اتوار کو وزیراعظم نے درجن بھر ٹی وی اینکر پرسن سے ملاقات میں واضح طور پر کہا کہ سپریم کورٹ اگر صدر کو حاصل آئینی تحفظ ختم بھی کردے گی تو بھی وہ سوئس حکام کو آصف علی زرداری کے خلاف ختم کردہ مقدمات دوبارہ کھولنے کے لیے وہ خط نہیں لکھیں گے۔
وزیراعظم نے یہ بھی کہا وہ پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو جوابدہ ہیں اور اپنی جماعت کے لیڈر کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہتے۔ ان کے بقول آئین کے مطابق صدرِ مملکت افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر ہیں اور پارلیمان ان کے بنا ادھورا ہے اس لیے وہ کسی قیمت پر پاکستان کی خودمختاری کا سودا نہیں کرسکتے۔
وزیراعظم کے بیان کو بیشتر سیاسی تجزیہ نگار سپریم کورٹ کے لیے کھلا پیغام قرار دیتے ہوئے کہتے رہے کہ اس سے عدلیہ اور حکومت کا ٹکراؤ پیدا ہوسکتا ہے
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/09/100927_army_president_pm_meeting.shtml