سوات کی ملالہ اور کوئٹہ کی ہانیہ
کل جب قوم کی بیٹی ملالہ یوسفزئی پر حملہ ہوا تو میں خون کے آنسو رویا. پھر جب دیکھا کہ آزاد میڈیا، سیاستدان، آزاد عدلیہ، شیعہ، سنی، جوان، بوڑھے، بچے، مرد عورتیں، امیر، غریب الغرض پوری قوم رنگ و نسل و زبان و مذہب و علاقہ و قبلہ کی تفریق کے بغیر ملالہ کے غم میں غمگین ہے تو مجھے کچھ تسلی ہوئی کہ چلو پاکستانی قوم ابھی مکمل طور پر سوئی نہیں. ان کے دلوں میں ایک کمسن طالبہ علم پر قاتلانہ حملہ کرنے والے سفاک درندوں کے ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی ہمت نہ سہی لیکن مظلوم ملالہ سے ہمدردی کا انسانی جذبہ تو کم از کم باقی ہے
اسی خیال سے غالب کی طرح دل کے بہلانے کو جی چاہا لیکن پھر مجھے تاریخ کے اوراق نے عید الفطر کا وہ دن یاد دلایا جب ملالہ کی طرح قوم کی ایک اور بیٹی کوئٹہ میں اسلام کےٹھیکداروں کے حملے کا نشانہ بنی
کیا کسی کو کچھ یاد آیا کہ میں کس کی بات کر رہا ہوں؟ وہ بچی جس نے ابھی تک زندگی کی صرف پانچ ہی بہاریں دیکھیں تھیں، جسے ابھی تک آغوش مادر کے علاوہ کسی چیز سے انس نہ تھا، کیا کسی کو کچھ یاد آیا کہ میں کس کی بات کر رہا ہوں؟ وہی پھول جسے جہاد کے نام پر فساد پھیلانے والوں نے تہ تیغ کیا، جسے ابھی تک کھلونوں سے کھیلنے کے علاوہ کچھ آتا ہی نہ تھا، کیا کسی کو کچھ یاد آیا کہ میں کس کی بات کر رہا ہوں؟
خیر کسی کو کچھ یاد کیونکر آئے، کسی نے قوم کی اس بیٹی کے بارے میں سنا ہی نہیں ہوگا، جس نے سنا ہو اس نے بھلا بھی دیا ہوگا. کوئی حانیہ خان کو یاد کرے تو کیوںکرے؟ کسی کو کیا پتہ کہ اکتیس(۳۱) ستمبر ۲۰۱۱ کو عید الفطر کے دن کوئٹہ میں عید گاہ علمدار روڈ کے سامنے ہونے والے خودکش دھماکے میں پانچ سالہ حانیہ بھی شہید ہوئی تھی.جی ہاں! ملالہ سے پہلے بھی یہ باطلان(غور کرنے والے دیکھ سکتے ہیں کہ میں نے طالبان نہیں لکھا) معصوم بچوں پر بزدلانہ حملے کر چکے ہیں جس کی ایک مثال حانیہ خان ہے. لیکن قوم کی اس بیٹی کو جو اب ہم میں نہیں کون یاد کرے گا؟ کیا حانیہ پاکستان کی بیٹی نہیں تھی؟ یاد تو اسے کیا جاتا ہے جسے نام نہاد آزاد میڈیا والے اچھالیں اور جس کے نام پر سیاست دان اپنی سیاست چمکائیں. ہماری بیچاری سوئی ہوئی عوام تو بس ڈھول کی آواز پر رقص کرتی ہے، چاہے وہ ڈھول ثانیہ مرزا کے نام پر بجے یا ملالہ یوسفزئی کے نام پر، عافیہ صدیقی کے نام پر بجے یا وینا ملک کے نام پر. اب میں ان باقی تین ہستیوں کے نام کے ساتھ فخر قوم ملالہ یوسفزئی کا نام لینے پر معذرت خواہی کا اظہار کرکے آگے بڑھتا ہوں، سمجھنے والے مثال کو سمجھ گئے ہونگے
لکھنے اور بولنے والوں نے بہت کوششیں کیں لیکن ملالہ کی شان میں جتنا بھی کہا جائے وہ کم ہے. میں تو صرف اتنا کہوں گا کہ انتہا پسندی، کرپشن، لاقانونیت، دہشتگردی، جاگیردارانہ نظام، ملا گردی، غربت اور ان جیسے ان گنت مسائل سے دوچار پاکستان کی ڈوبتی کشتی کو اگر کوئی سہارا دے کر ساحل تک پہنچا سکتا ہے تو وہ صرف ملالہ جیسے لوگ ہی ہیں. لیکن مستقبل کے اس چمکتے ستارے کو انسانیت کے دشمنوں نے اپنی جہالت کا نشانہ بنا کر زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا کر دیا ہے
مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ اس ظلم میں خاموش امت برابر کی شریک ہے. وہ خاموش امت جسے حانیہ خان کی شہادت کی خبر نہ ہوئی، جسے یہ خوش فہمی رہی کہ شیعوں کو قتل کرنے والے صرف شیعوں کے دشمن ہیں، جسے یہ اندازہ نہ تھا کہ دہشتگرد کسی ایک فرقے کے دشمن نہیں بلکہ پوری انسانیت کے دشمن ہیں، جسے یہ احساس نہ تھا کہ اگر آج میرے پڑوسی کا گھر جل رہا ہے تو کل میرے گھر کی باری ہے، جسے اپنے ہم وطنوں کا دکھ اور درد محسوس نہ ہوا. اگر حانیہ کی شہادت پر قوم جاگ گئی ہوتی اور ملک دشمن دہشتگردوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوتی تو آج ملالہ پر حملہ کرنے کی کسی میں جرات نہ ہوتی. زندہ قومیں ماضی کی غلطیوں سے عبرت حاصل کر کے ان کا ازالہ کرتی ہیں اور مستقبل میں ان کا تکرار نہیں کرتیں. اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستانی قوم کس حد تک زندہ ہے
Source: Karbala-e-Quetta
************
ملالہ میری بچی
(شکیل جعفری )
تو بنت در علم ، یہ بو جھل کی اولاد
ہے تجھ پہ ہمیں ناز
ملالہ میری بچی
معصوم نہتوں کو بناتا ہے نشانہ
ظالم کا ہے انداز
ملالہ میری بچی
یہ سورما ہیں کتنے جری، کتنے بہادر
یہ بھی نہیں اب راز
ملالہ میری بچی
دنیا نے بہت اچھی طرح جان لیا اب
یہ گدھ ہیں کہ شہباز
ملالہ میری بچی
نازک سا تیرا جسم مگر عزم قیامت
اونچی تیری پرواز
ملالہ میری بچی
تو جہد کا پیکر بھی ہے تو امن کی سالار
ہم ہیں تیرے جانباز
ملالہ میری بچی
Wo jo bachiyon se bhi dar gaye – by Kishwar Naheed
wesey Taliban ko taliban pukarney se guraiz kyun, kyun is lafz ke gird taqaddus ka haalaa banaya ja raha hei