زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد
گئے زمانے کا ذکر ہے ایک دفعہ لائبریری میں خطبات احمدیہ مل گئی، نایاب کتاب ہے بڑے شوق سے جاری کرائی، لے کر باہر نکل رہے تھے کہ ایک دوست نے پکڑ لیا جو بڑے غور سے کتاب کا سرورق دیکھ رہے تھے، خود مظہر کلیم ایم اے بڑے شوق سے پڑھتے تھے اور ہمارے متعلق شکوک و شبہات کا شکار رہنا ان کی پرانی عادت تھی، سمجھتے تھے ہم بس اب دہریے بنے کہ تب، کہنے لگے ‘اب کیا قادیانی بننے کی ٹھانی ہے، یہ کیا احمدیہ وغیرہ پڑھ رہے ہو ؟ ‘جی ؟’ ہم پریشان ہو گئے. بولے یہ کیا خطبات کی کتاب اٹھا لے جا رہے ہو، کچھ اور نہیں ملا؟، ہم نے جواب دیا ‘مگر یہ تو سر سید کی کتاب ہے’ بولے ‘اچھا تو سر سید بھی قادیانی تھے ‘. پھر بولے تم نے پڑھا نہیں اشتیاق احمد کیا لکھتے ہیں، سارے قادیانی وطن دشمن اور کافر ہیں، ہندؤں اور یہودیوں کے ساتھ مل کر پاکستان کو نقصان پنہچا رہے ہیں. یہ تومیں ہوں، کوئی اور دیکھ لے گا کہ ایسی کتابیں پڑھتے ہو تو پٹائی ہو جاے گی، اگلے جمعے میرے ساتھ مسجد چلنا، پورا خطبہ سننا، نماز پڑھنا اور پھر امام صاحب سے بات کریں گے، وہ ختم نبوت پر بتائیں گے تم کو، میرا خیال ہے کہ چلّے پر جانا چاہیے تم کو، تھوڑا وقت گزارو گے تو سدھر جاؤ گے . اس وقت تک چلّے کا چلن اتنا عام نہیں تھا، اور سنتے یہ تھے کہ جادوگر اور عامل وغیرہ چلّہ کھینچتے ہیں. اب شبہے میں پڑنے کی باری ہماری تھی، ہم نے کہا ‘مگر اتنی سی بات کہ لئے چلّے کی کیا ضرورت ہے ؟اور آپ کب سے ان باتوں کو ماننے لگے؟’ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک عرصے تک ہم دونوں میں بات چیت بند رہی, اور ہمارے متعلق نہ جانے کیا کیا مشہور ہو گیا. ہم سوچتے ہیں کہ اس دن اگر خطبات بہاولپور لے کر نکلتے تو وہ ضرور اسے نواب صاحب بہاولپور کے خطبات کا مجموعہ سمجھتے، اور ہم سستے چھوٹ جاتے.
سیانوں کا کہنا ہے کہ لاعلمی سلامتی ہے، ہو سکتا ہے کہ لاعلمی کسی فرد کی سلامتی ہو مگر اس سے دوسروں کی سلامتی بھی تو خطرے میں پڑ سکتی ہے. کیونکہ کم علمی اور نادانی ہمیشہ مغالطوں کو جنم دیتی ہے، اور جاہل کو طیش دلانا سب سے آسان کام ہے کہ جیسے جلتی پر تیل چھڑکنا، جو جتنا کم جانتا ہے اتنی آسانی سے فرض کرتا اور بے وقوف بنتا ہے اور جو جتنا زیادہ جانتا چلا جاتا ہے اتنا ہی زیادہ جواب طلب ہو جاتا ہے اور حقائق تلاش کرتا ہے. اسی لیے ایسے لوگ کسی کو پسند نہیں ہوتے جو زیادہ سوال کریں، اور ہمیشہ پر تجسس رہیں، کیونکہ ایسے لوگ نہ خود کھیلتے ہیں (کسی اور کے ہاتھوں میں ) نہ دوسروں کو کھیلنے دیتے ہیں (کسی اور کے ہاتھوں میں )، اسی لئے فراز نے کہا تھا کہ:
ہر دور کا نخچیر رہا ہے لب گویا
یہ دور بھی منصور کو سولی پے چڑھا دے
کسی بھی انسان کے لئے سب سے آسان کام یہ ہے کہ وہ کسی بھی دوسرے انسان کی اندھا دھند تقلید کرے، کیونکہ پھر سوچنے اور فیصلہ کرنے کی تکلیف نہیں کرنی پڑتی، محبت میں بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے
سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے
اسی لئے ہمارے ہاں رہنماؤں سے محبت پر ضرورت سے زیادہ زور دیا جاتا ہے، جب مرید کسی پیر کے ہاتھ پر بیعت کرے تو تقاضا یہ ہے کہ کامل سپردگی ہو، عشق بھی یہی تقاضا کرتا ہے کہ محبوب کا ہو کر انسان پھر کسی بھی اور کا نہ ہو اور یہی کیفیت عشق حقیقی تک لے جاتی ہے. چلیں اگر مقصد عشق حقیقی ہو تو سمجھ آتا ہے، مگر اس چکر میں بارودی جیکٹ پہن کر خود کو اڑا لینے والے بھی آ جاتے ہیں، بے وقوفوں کی طرح کسی کا آلہ کار بن کر دوسرے انسانوں کی جان سے کھیلنے والے بھی اندھا دھند تقلید کا شکار ہو جاتے ہیں، سب سے بڑھ کر جب ایسے لوگ بڑھ کر مجمعے کا روپ دھار لیں تو بہت خطرناک ہو جاتے ہیں، مجمعے سے زیادہ خطرناک کوئی نہیں ہوتا اس لئے کہ اس پر فرد جرم عائد نہیں ہوتی، اور ہمارے ہاں سب سے زیادہ آسان یہ ہے کہ ایک دو اشخاص نہیں بلکہ پورے پورے مجمعے کو جذباتی کر کے اس سے کوئی جرم سرزد کر وا لیا جائے یا کسی اور طرح استمعال کیا جائے کہ کوئی بھی سوال کرنے والا نہ ہو، بس اندھوں کی طرح آگے بڑھنے والے ، غصّے اور جذبات سے بھرپور لوگ ہوں جن کو حقائق سے کوئی غرض نہ ہو. اب تو بات مجمعے سے بڑھ کر پوری پوری جماعتوں اور فرقوں تک آ گئی ہے کہ جہاں محض جذبات اور اندھی تقلید کا دور دورہ ہے، سوالات سنے ہی نہیں جاتے ، بات کی ہی نہیں جاتی، محض دہرائی جاتی ہے. کسی انسان سے بات کرنا ایسا لگتا ہے کہ جیسے دیوار سے بات کر رہے ہوں.
اسی سہل پسندی کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں ہر گھما پھرا کر بات کرنے والے کو فلسفی اور دانشور مانا جاتا ہے اور سیدھی بات سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی جاتی ، مثلآ اگر ہم کہیں کہ ‘دائرہ ایک ایسی لکیر ہے جس کے تمام نقطے ایک مرکزی نقطے سے ایک جیسے فاصلے پر ہوں’ تو کوئی نہیں سنے گا، ایک اور صاحب ہیں جو یہی بات یوں کہیں گے کہ ‘ ایک ایسا کرّہ جو ابد سےانتہا تک اپنے سرے کی تلاش میں میں سرگرداں ہے’ تو شنید یہ ہے کہ سب سر دھنیں گے اور اس قول زریں کو پاکستان کے صوفیانہ فلسفے میں ایک اہم بیانیہ مانا جائے گا. اس سے بھی بڑھ کر یہ ہے کہ آپ اگر اپنی مبہم نگاری کو مذہبی رنگ دے دیں تو آپ کے پو بارہ ہیں، مثلآ ایک صاحب کا کہنا ہے کہ ‘مسلمان وہ ہے جو خدا کو مانتا ہے، اور مومن وہ ہے جو خدا کی مانتا ہے’ چلیں جناب، ہمیں یقین ہے کہ جملہ قارئین کرام سر دھننا اور واہ واہ کرنا شروع کر چکے ہونگے، یہ محض ہماری کمزور عقل کا قصور ہے کہ ہم اتنا اعلیٰ بات کو محض مہمل بلکہ مہلک سمجھتے ہیں، پہلی بات تو یہ کہ اس مسلمان اور مومن کی تشخیص میں یہ فیصلہ کون کرے گا کہ کون کس درجے کے لائق ہے؟ جب ہم کو یہ اختیار ہی حاصل نہیں تو ہم ہوتے کون ہیں ٹھیکے دار بننے والے؟ ہر فرد جو معاشرے کی کسی اکائی کا حصّہ ہے اس کی حیثیت کا فیصلہ صرف اس بات پر ہونا چاہیے کہ وہ کیسا شہری ہے، نا کہ اس پر کہ وہ مومن ہے یا مسلمان ہے یا کافر. ہر وہ شخص ایک اچھا انسان ہے جس کی ذات سے کسی اور کو تکلیف نہ پنہچے، اور جو شر سے بچے، خود کو نجات یافتہ سمجھ لینا بربادی کی طرف پہلا قدم ہے کیونکہ اس کے بعد دوسرے انسان محض کیڑے مکوڑے رہ جاتے ہیں.
جذباتیت ہماری سوچ کا حصہ ہے، ہم ایسی کوئی بات پسند ہی نہیں کرتے جس میں جذباتی ہونے کا کوئی عنصر نہ ہو، اس لئے ہم کو جذباتی نعرے اور باتیں ہی بھاتی اور اکساتی ہیں، کسی پر کوئی ایسا الزام دھر دیں جو ہمارے جذبات کو اکسا دے اور خون کو کھولا دے پھر اپنے شکار کا حشر دیکھیں کیا ہوتا ہے. فوری طور پر نتیجے پر پنہنچنے کا ہم کو خود بھی اتنا شوق ہے کہ نا پوچھیں، بچپن میں ایک زمانے تک ہم اپنی پڑوسی کو جو کسی دماغی بیماری کا شکار تھے جاسوس سمجھتے تھے، کیونکہ وہ نہ کسی سے بات کرتے تھے نا کبھی ہنستے مسکراتے ملتے، روزانہ صبح گھر سے نکلتے اور رات گئے گھر آتے اور سیدھا اندر، ہمارے دوست مجید کے خیال میں یہ صاحب مسلمان نہیں تھے اس لئے کسی سے ملتے جلتے نہیں تھے.اسی طرح ایک دفع ایک خاتون نے بھرے بازار میں کسی پر چیخنا شروع کر دیا کہ ان کو چھیڑ رہا ہے، لوگوں نے اس شخص کو مارنا شروع کر دیا پتا چلا وہ تو پٹتے هوئے بھی ہنس رہا تھا، ایک ایسے فرد کو جس کو در اصل ہمدردی کی ضرورت تھی ، جذباتیت نے تشدد کا نشانہ بنا ڈالا. ہم اب اس جذباتی فیصلوں کی عادت میں اتنا آگے بڑھ چکے ہیں کہ کبھی کوئی منیب اور مغیث جان سے جاتے ہیں، کبھی کوئی ملنگ زندہ جلا دیا جاتا ہے تو کبھی کسی گیارہ سالہ بچی اور اس کے گھر والوں کی زندگی ہمیشہ کے لئے برباد کر دی جاتی ہے. ہم عجیب عجیب باتوں پر یقین کرتے ہیں، کبھی یہ مانتے ہیں کہ گھاس کھا کر گزارہ کر لیں گے، کبھی منزل نہیں مگر رہنما چاہیے ہوتا ہے، کبھی ایک سرکاری ملازم کے جان نثار بن جاتے ہیں، کبھی محض اس لئے ایک آمر کو سر پر سوار کر لیتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں. ہم وقوعات کی توجیہات کے چکر میں نہیں پڑتے بلکہ محض نعروں سے بہل جاتے ہیں اور فرض کر لیتے ہیں ہر بات جو ہمارے جذباتی تَیقُن پر پوری اترے وہ سچ ہے, اور اگر ایسا نا ہو تو ہم انکار کی حد کر دیتے ہیں, زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد. نتیجہ یہ ہے کہ زیادہ تر دوستوں سے زیادہ دشمن بناتے ہیں اور خود کو ہر سطح پرتنہا پاتے ہیں.
بہت خوب اب پاکستان کا معاشرہ بہت آگے نکل چکا ہے اور واپسی بہت مشکل ہے
This is certainly exceptional. Sole checked out a personnal gratification therefore we are flabbergasted. We are attracted to one of these possessions. One particular appreciate your advice, and treasure doing in this. Please keep adding information to¡