Pakistan was made in the name of Quaid’s Islam or Mullah’s Islam? – by Khalid Wasti


” پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا”
قائد اعظم کا اسلام یا مُلا کا اسلام ؟

مذہب کے نام پر سیاست اور مذہب کو سیاسی اغراض و مقاصد کے لیئے استعمال کرنے والا ٹولہ وقتا فوقتا اس بات کا اعادہ کرتا رہتا ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا – آئیے اس امر کا جائزہ لیں کہ پاکستان کے اسلام کے نام پر بننے کا مفہوم کیا ہے ؟ کیا یہ ملک سیاسی آزادی کے نام پر حاصل نہیں کیا گیا تھا ؟ کیا یہ ملک معاشی استحصال سے نجات پانے کے نام پر حاصل نہیں کیا گیا تھا ؟ کیا یہ ملک مسلمان اقلیت کو ہندو اکثریت کے استبداد سے بچانے کے نام پر حاصل نہیں کیا گیا تھا ؟ کیا صرف اور صرف اسلام ہی ایک ایسا نعرہ تھا جس کی بنیاد پرپاکستان حاصل کیا گیا

اگر اسلام ہی وہ واحد فیکٹر تھا تو پھر وہ کون سا اسلام تھا جس کے نام پر یہ ملک حاصل کیا گیا ؟ وہ اسلام جس پر قائد اعظم عمل پیرا تھے اگر مُلا کے اسلام کے مطابق ہوتا تو پھر مُلا ان پر کافر اعظم ہونے کا فتوی کیوں عائد کرتا ؟ بفرض محال یہ تسلیم بھی کر لیں کہ پاکستان محض اسلام کے نام پر حاصل کیاگیا تھا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کون سا فہم اسلام اس کی بنیاد تھا ؟ قائد اعظم کا فہم اسلام یا مُلا کا فہم اسلام ؟ سیدھی بات ہے کہ قائد کا فہم اسلام ہی قائد کے ملک میں چلنا تھا

یہاں قائد اور مُلا کے فہم اسلام کا فرق واضح کرنا ضروری ہے –  قائد اعظم کے فہم اسلام کو مختصر ترین لفظوں میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں مُلائیت (تھیوکریسی) کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی – مذہب ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہوگا اور ریاست کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوگا

مُلا کے اسلام کو مختصر لفظوں میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں مُلائیت (تھیو کریسی) کی بالادستی ہو گی – اسلامی غیر اسلامی ، قران و سنت اور اسلامی تعلیمات کے مطابق اور مخالف ہونے کا حتمی فیصلہ مُلا کرے گا – دائرہءاسلام میں داخل خارج ہونے اور جنت دوزخ میں جانے کا سرٹیفکیٹ مُلا جاری کرے گا

گویا قائد اعظم کا اسلام محبت ، اخوت ، رواداری ، وسیع القلبی ، مساوات ، عدل و انصاف ، شخصی اور مذہبی آزادی ، روشنی ، ترقی ، علم وآگہی ، عقل ودانش ، جدیدیت ، دلیل و منطق اور تمام اعلی انسانی قدروں کا ترجمان اور مُلا کا اسلام علامہ اقبال کے لفظوں میں دین مُلا فی سبیل اللہ فساد کے علاوہ کچھ نہیں

” اسلام کے نام ” اور “موقع محل کے مطابق اس کے استعمال ” کو سمجھنے کے لیئے قدرے تفصیل میں جانا ضروری ہے – مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد جب اسلام کا نام لیتی ہے تو اس سے ان کی مراد کسی سیاسی ایجنڈے کی تکمیل نہیں ہوتی – اس سے ان کا مدعا خداوند تعالی اور اس کے نبی ء پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی نسبت کا اظہار کرنا ہوتا ہے – ان کا مطمعءنظر نہ تو اقتدار میں حصہ لینا ہوتا ہے اور نہ ہی دوسرے مسلمانوں کو اپنے سے کمتر مسلمان ثابت کرنا – وہ جس رستے کو درست سمجھتے ہیں اس پر چلتے چلے جاتے ہیں اور دوسرے رستوں پر چلنے والوں کو ان کی اپنی پسند کے راستوں پر بخوشی چلنے دیتے ہیں – اسے آپ ” اکثریت کا اسلام” “سواد اعظم کا اسلام” یا “غیرسیاسی اسلام ” کہہ سکتے ہیں –  دوسری طرف مسلمانوں کے اندر ہی ایک گروہ ایسا بھی ہے جس کا ” کاروبار زندگی ”  اس کے خود ساختہ برانڈ  اسلام کی ترویج واشاعت اور پراپیگنڈہ سے منسلک ہے – اس گروہ سے وابستہ ” پیشہ ور افراد” اسلام کے نام پر سیاست کرتے ہیں – حکومت کے ایوانوں میں حصہ لینے کی تگ و دو کرتے ہیں – ” چند روزہ دنیا” کے اقتدار کے لیئے گٹھ جوڑ کرتے ہیں – اپنے آپ کو ” اصلی اور سچا ” مسلمان بیان کرتے ہیں – دوسرے فرقہ کے مسلمانوں کو کافر ، مرتد ، دائرہءاسلام سے خارج اور واجب القتل قرار دیتے ہیں – مختلف مسالک کے درمیان نفرت کے بیج بو کر تنگ نظری ، مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کی آگ بھڑکا نے کا باعث بنتے ہیں – اس برانڈ کو آپ عوام کے مذہبی جذبات سے کھیلنے والی ایک ” تشدد پسند اقلیت کا اسلام” ،  ” سیاسی اسلام ”  یا  ”  مُلا کا اسلام ”  کہہ سکتے ہیں

پہلی قسم کا اسلام بر صغیر اور دنیا کے دوسرے حصوں میں صوفیاء کے ذریعے سے پہنچا جو محبت ، اخوت ، رواداری، وسیع القلبی ، روشن خیالی اور تمام اعلی انسانی قدروں کا ترجمان ہے اور دوسری طرح کا اسلام بادشاہت اور ملوکیت کے ایوانوں سے ہوتا ہوا اور ان کی ضرورتوں اور خواہشوں کی تکمیل کرتا ہوا بنی نوع انسان تک پہنچا – اس کا خلاصہ بادشاہ اور مولوی ، خلیفہ اور مفتی یا عہد حاضر کے حوالے سے مُلا اور ملٹری گٹھ جوڑ ہے – قاضیء وقت نے بادشاہ سلامت کو خدا تعالی کا سایہ قرار دیا ، مولوی اور ملا نے ہر اس چیز کو “اسلام کے عین مطابق ” قرار دیا جس کی حاکم وقت نے ضرورت محسوس کی – صرف ایک مثال پیش خدمت ہے –  یزید نے حضرت امام حسین کے قتل کا فتوی لینے کے لیئے اپنے آدمیوں کو سب سے بڑے قاضی، شریع کے پاس بھیجا – شریع نے دونوں ہاتھ کانوں کو لگاتے ہوئے کہا کہ نعوذ باللہ ، میں نواسہ ء رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا فتوی دے کر جہنمی نہیں ہو سکتا- یزد کے ہرکارے واپس چلے گئے اور سب ماجرا اسے کہہ سنایا – یزید یہ سب کچھ سن کر مسکرایا اور کہا کہ انتظار کرو ، رات آنے دو – رات کے اندھیرے میں یہی نمائیندے اشرفیوں کی تھیلیاں اٹھائے وقت کے چیف جسٹس قاضی شریع کے “درغربت” پر دولت کے انبار لیکر حاضر ہوگئے – چنانچہ اسی قاضی نے تحریری فتوی دیا کہ یزید حاکم وقت ہے اور حاکم وقت کو للکارنے والا باغی ہوتا ہے ، اور باغی کی سزا موت ہے اس لیئے قتل حسین اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے

بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اسلام جن انسٹی چیوشنز کے ذریعے پھیلا ان میں سے ایک انسٹیچیوشن بادشاہت کا اور آمریت کا بھی تھا جس کے ذریعے مُلا نے ایسے ہی اسلام کو فروغ دیا جس کی مثال بیان کی گئی ہے – یہی وہ تصور اسلام ہے جسے اس عہد کے بدترین آمر جنرل ضیاءالحق نے اپنے مذموم مقاصد کے لیئے فروغ دیا اور اس کی تائید میں اس عہد کے ہر مُلا نے اس آمر وقت کا ساتھ دیا -” مرد مومن ” کی بے شمار وارداتوں میں سے صرف ایک مثال اس نقطہ ء نظر سے پیش خدمت ہے کہ قارئین یہ سمجھ سکیں کہ تیرہ سوسال بعد بھی یزیدی ذہنیت نہیں بدلی ، قاضی شریع کا طرز عمل نہیں بدلا – روشنی اور اندھیرے کی جنگ ازل سے جاری ہے اور شاید اسے ابد تک جاری بھی رہنا ہے –  جنرل ضیاء اپنی اصلیت سے بخوبی آگاہ تھا کہ عوام اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ قوم کے سر پر سوار رہنا چاہتا تھا – اس نے اعلان کیا کہ میں ریفرینڈم کرانے جا رہا ہوں اور اس ریفرینڈم میں قوم سے سوال پوچھا جائے گا کہ کیا آپ اس ملک میں اسلامی نظام چاہتے ہیں ؟ اگر اکثریت کا جواب ہاں میں ہوا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ قوم نے آئیندہ پانچ سال کے لیئے مجھے منتخب صدر کے طور پر قبول کر لیا ہے – یہ حقیقت کو مسخ کرنے کی یزیدی کوشش تھی جس کے اوپر وقت کے قاضیوں نے مہر تصدیق ثبت کر دی

درج بالا معروضات کا مقصد اس حقیقت کو ذہن نشین کرانا ہے کہ اسلام اسلام کے نعرے اور شوروغل مچائے بغیر امت مسلمہ کی ایک بہت بڑی اکثریت انتہائی خاموشی کے ساتھ اسلام کی حقیقی تعلیمات پر عمل پیرا رہی ہے اور اب تک عمل پیرا ہے – ا ور  دوسری طرف اسلام کے نام پر سیاست کا کاروبار چمکانے والا ایک ایسا   گروہ بھی ہے جو کبھی اسلام کو خطرے میں بتاتا ہے اور کبھی نظام مصطفے کے نفاذ کا چکمہ دے کر اپنے مفادات اور سیاسی ایجنڈے کے حصول کے لیئے عوام کے جذبات سے کھیلتا ہے – یہ علمائے ُسو ہیں جنہوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے اور جو علمائے حق ہیں وہ خاموشی سے اسلام کی تعلیمات اور احکامات پر عمل پیرا ہیں اور دن رات اسلام اسلام کا ڈھول نہیں بجاتے

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کے لیئے چودہ سو سال پہلے ان حقائق سے متنبہ کر تے ہوئے فرمایا تھا کہ   علماءامتی کاءالانبیاء بنی اسرائیل   کہ میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح ہوں گے –  ظاہر ہے کہ یہ علمائے حق ہیں – جو اسلام کو سب سے پہلے اپنے وجودوں پر نافذ کرتے ہیں ‘ پھر یہی اسلام ان سے محبت اور عقیدت رکھنے والوں کے وجودوں پر نافذ (ٹرانسمٹ) ہوتا ہے اور پھر معاشرے کے اندر درجہ بدرجہ اس اسلام کا نفاذ (ٹرانسمیشن) کسی جبر ، تشدد ، قتل و غارت اور دہشت گردی کے بغیر ہوتا چلا جاتا ہے

دوسری طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے علمائے ُسو کے متعلق فرمایا کہ   علماءھم شر من تحت ادیماءالسماء    کہ یہ آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے – سوچنے والی بات یہ ہے کہ وہ ” علماء” جو ارشاد نبوی کے مطابق بد ترین مخلوق ہیں کیا وہ اس بات کا اعلان کریں گےاور لوگوں کو بتائیں گے کہ ہم ایک بدترین مخلوق ہیں اور آپ ہماری باتوں کو سنیں اور قبول کریں ؟ ظاہر ہے کہ ایسا تو ہر گز نہیں ہوگا بلکہ اس کے برعکس وہ کہیں گے کہ ہم جو کچھ بھی کہتے ہیں وہ قرآن و سنت کے عین مطابق ہے – جیسا کہ قرآن پاک میں واضح ارشاد ربانی ہے کہ   واذاقیل لھم لا تفسدو فی الارض   کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ پھیلاؤ تو وہ کہتے ہیں    قالو انما نحن مصلحون    کہ ہم فساد کب پھیلاتے ہیں ، ہم تو معاشرے کی اصلاح کرتے ہیں – سو یہ عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اصلاح کے نام پر فساد پھیلانے والے مُلا کے ٹولے سے آگاہ رہیں اور جب موقع ملے انہیں بے نقاب بھی کرتے رہیں – عمومی طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ دل میں تقوی اور خشیت اللہ رکھنے والے علمائے حق چپ چاپ اسلام کی تمام اعلی قدروں پر عمل کرتے چلے جاتے اور چراغ سے چراغ جلاتے چلے جاتے ہیں اور دوسری طرف اسلام کی تجارت و سیاست کرنے والے اپنا پروگرام جاری رکھتے ہیں – یہی وہ اندھیرے اجالے کی جنگ ہے جو ازل سے جاری ہے اور شاید ابد تک جاری رہے گی

بنیادی موضوع کی طرف واپس آتے ہوئے گزارش ہے کہ قیام پاکستان مختلف سیاسی ، سماجی ، معاشی اور معاشرتی عوامل کا نتیجہ تھا – اسلام کا نام پر اس کے بننے کی پخ مُلا نے اس لیئے لگائی کہ نعرے کی آڑ میں وہ اپنی بالا دستی قائم کر سکے – اور بفرض محال اگر اسلام کا عنصر بھی حصول پاکستان کے دیگر عناصر میں شامل تھا تو یہ اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلام تھا ، صوفیا کا اسلام تھا ، ترقی پسندوں کا اسلام تھا اور قائد اعظم کا اسلام تھا – یہ بادشاہوں اور آمروں کے درباروں کا ڈیزائن کیا ہوا اسلام نہیں تھا ، یہ دولتوں کے انبار لے کر مرضی کے فتوے دینے والے قاضیوں کا اسلام نہیں تھا ، یہ علمائے ُسو اور یزید و ضیاء کا اسلام نہیں تھا اور حرف آخر ، یہ مُلا کا اسلام نہیں تھا

Comments

comments

Latest Comments
  1. کاشف نصیر
    -
  2. fatima.ahtesham
    -
  3. Khalid Wasti
    -
  4. Humayun
    -
  5. Zul-Jinnah
    -
  6. Aamir Mughal
    -
  7. Aamir Mughal
    -
  8. Aamir Mughal
    -
  9. Aamir Mughal
    -