Cable Net Works spreading Indian Culture (Tariq Azeem) : By Khalid Wasti
طارق عظیم کا بیان کسی منجھے ہوئے سیاستدان کے ذرخیز ذہن کی اختراع ہے جس کے مختلف النوع پہلوؤں کا احاطہ کرنا ممکن نہیں – پہلی بات تو یہ ہے کہ موصوف کچھ پلے ہی نہیں پڑنے دیتے کہ یہ خبر ہے یا “نقطہءاعتراض“ ؟ پھر مفہوم و معانی کے بحر ذخار کی گہرائی کا اندازہ کرنا بھی آسان نہیں کہ آپ کو اعتراض کارٹونوں پر ہے یا بھارتی کلچر پر ؟ – اگر کارٹونوں کے ذریعے کچھ اور پھیلایا جا رہا ہوتا تو کارٹون قابل قبول تھے ؟ یا بھارتی کلچر کسی اور ذریعے سے پھیلایا جاتا تو وہ قابل قبول تھا ؟
آپ نے یہ معاملہ مجلس قائمہ کے آئیندہ اجلاس میں اٹھانے کا عندیہ دیا ہے – دروغ بر گردن راوی ، طارق عظیم نے آف دی ریکارڈ یہ بھی کہا کہ اگر ہندوستان ملیریا ، ہیضہ یا تپ دق کے جراثیم پھیلا رہا ہوتا تو مجھے یا میری میری پارٹی کو ہر گز کوئی اعتراض نہ ہوتا اس لیئے کہ بچہ بچہ جانتا ہے کہ ملیریا ، ہیضہ یا تپ دق کس بلا کا نام ہے لیکن جہاں تک کلچر کا تعلق ہے ، ہمارے “زعما“ پچھلے ساٹھ برسوں تک نظریہءپاکستان اور نفاذ اسلام وغیرہ جیسے نیک کاموں کی ترویج و اشاعت میں مشغول رہنے کے باعث قوم کا ذہن کلچر کے معاملے میں واضح نہیں کر پائے – یہی وجہ ہے کہ ملک کی ستر فیصد آبادی کلچر کو ایگری کلچر کا مخفف سمجھتی ہے –
حال ہی میں قرارداد مقاصد کے ثمرات حسنہ سے کسی قدر بہرہ مند ہونے کے بعد ہم پارلیمینٹ پر سپریم کورٹ کی بالادستی قائم کرنے کے استعماری مقاصد کے حصول کے لیئے تن من دھن کی بازی لگائے ہوئے ہیں – اس کارخیر کو پایہءتکمیل تک پہنچاتے ہی ہم اٹھارہ کروڑ عوام کو کلچر کا ایک ایسا تصور قبول کرانے کے درپئے ہو جائیں گے جو دنیا کے کسی گوشہ میں موجود نہیں ہے –
طارق عظیم نے مزید کہا کہ کارٹونوں کے ذریعے بھارتی کلچر اور عقائد کو فروغ دیا جارہا ہے حالا نکہ فضائی ، ریلوے اور سڑک کے رابطے بحال ہو جانے کے بعد باہمی میل جول کے نتیجے میں اس کی چنداں ضرورت نہیں تھی – آپ نے یہ بھی کہا کہ کارٹونوں میں مختلف ہندو مذہبی شخصیات کو پیش کیا گیا ہے جس کے جواب میں ہم اپنی طرف کی کچھ شخصیات کے اصلی اور سچے فوٹو چھاپنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں –
آخر میں آپ نے فرمایا کہ ہمارے کم سن بچوں کے ذہنوں پر اثرانداز ہونے کے لیئے بنائے گئے ایسے پروگرام قطعی ناقابل قبول ہیں – اس ضمن میں صرف وہی پروگرام قابل قبول ہو سکتے ہیں جو ہمارے اسلاف نے تاریخ کو اس کے “حقیقی پس منظر“ میں سمجھنے کے لیئے تیار کیئے تھے جن سے ہمارے اسلاف کی نسلوں نے کماحقہ استفادہ کیا – یہ “تاریخی حقائق“ محمد بن قاسم کی آمد سے لے کرکارگل کی فتح تک پھیلے ہوئے ہیں اور ان “حقائق“ نے جو مائینڈ سیٹ پیدا کیا ، آج ہمارے گلے کا ہار بنا ہوا ہے –
Oh, My God aab Chote Bhem ka kiya ho ga…..
@ junaid .lol