Sinful Saudi citizens on MTV – BBC Report
ایم ٹی وی پر’گناہ گار‘ سعودی
سعودی عرب میں پولیس ان تین سعودی نوجوانوں سے تفتیش کر رہی ہے جنہوں نے ایک ٹیلی ویژن شو میں مملکت کے قوانین پر تنقید کی تھی۔
پروگرام میں ایک سعودی خاتون لباس کے حوالے سے عورتوں پر عائد پابندیوں پر تنقید کرتی ہیں
حکام کا کہنا ہے کہ ایم ٹی وی کی ایک دستاویزی فلم میں شریک ہونے والی ایک خاتون اور دو مروں سے ابتدائی تفتیش کے بعد ان کے خلاف عدالتی کارروائی کا فیصلہ کیا جائے گا۔
جدہ میں ایک عدالتی اہلکار کا کہنا تھا کہ ان افراد کے خلاف ’گناہ کا اعتراف‘ کرنے پر کارروائی ہو سکتی ہے۔
ایم ٹی وی کا چار حصوں پر مشتمل ’ریزِسٹ دا پاور‘ نامی یہ پروگرام امریکہ میں نشر کیا گیا ہے۔ اس میں ’فاطمہ‘ نامی ایک لڑکی خواتین پر لباس سے متعلق عائد پابندیوں کے خلاف بات کرتی ہے اور عبایا پر تنقید کرتی ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ وہ اکثر اپنے آپ کو لڑکا ظاہر کر کے اور مردانہ کپڑے پہن کر سائیکل پر سیر کرتی ہے۔اس نے یہ بھی بتایا کہ وہ شوخ رنگوں کے عبایا بنا کر بیچتی ہے۔
عزیم نامی ایک چوبیس سالہ سعودی نے اس فلم میں سعودی عرب کے اسلامی نظام کے تحت معاشرے میں مردوں اور عورتوں کی تفریق سے متعلق پابندیوں پر بات کی اور ان پابندیوں کے باوجود اپنی محبوبہ سے ملنے کی کوششوں کے بارے میں بات کی۔ اس کا کہنا تھا ہمیں اپنی مرضی سے رہنے کی آزادی ہی نہیں ہے۔
عظیم نامی ایک چوبیس سالہ سعودی نے اس فلم میں سعودی عرب کے اسلامی نظام کے تحت معاشرے میں مردوں اور عورتوں کی تفریق سے متعلق پابندیوں پر بات کی اور ان پابندیوں کے باوجود اپنی محبوبہ سے ملنے کی کوششوں کے بارے میں بات کی۔ اس کا کہنا تھا ’ہمیں اپنی مرضی سے رہنے کی آزادی ہی نہیں ہے‘۔
اس پروگرام میں ایک سعودی ’ہیوی میٹل‘ بینڈ کو بھی دکھایا گیا ہے جس کو اپنے پروگراموں کے لیے جگہ نہیں ملتی۔
خیال رہے کہ پچھلے سال اکتوبر میں ایک سعودی شہری مازن ابو جواد کو پانچ سال کی سزا ہوئی تھی کیونکہ اس نے ایک لبنانی ٹی وی پروگرام میں اپنی جنسی زندگی اور معاشقوں کے بارے میں فخر سے بات کی تھی۔
اب سعودی حکام کا کہنا ہے کہ ایم ٹی وی کے پروگرام پر بات کرنے والے ان تین نوجوانوں کو بھی سخت سزا دی جا سکتی ہے۔
Do we want that in Pakistan?
if not, then we will have to resist the ‘Saudi’ization’ of Pakistan.
سعودی شہزادے کی پارٹی اور ہیکرز کا حملہ
وکی لیکس کی جانب سے جاری کی گئی نئی سفارتی دستاویزات میں سعودی عرب کے ایک شہزادے کے محل میں دی گئی پارٹی کا ذکر ہے۔ اس کے علاوہ ہیکرز نے ماسٹر کارڈ کی ویب سائٹ کو اس لیے ہیک کیا کہ اس نے وکی لیکس کے لیے سروس بند کردی تھی۔
سعودی عرب میں پارٹیاں
وکی لیکس کے حق میں
وکی لیکس میں افشاء ہونے والی امریکی سفارتی دستاویزات میں سعودی عرب میں امریکی قونصل جنرل مارٹن آر کوین کی وہ خط و کتابت بھی شامل ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ ایک طرف تو جدہ کی سڑکوں پر کٹر وہابیت نظر آتی ہے لیکن پس پردہ امراء کے نوجوانوں کی زیر زمین شاہانہ زندگی بھی تیزی سے پھل پھول رہی ہے۔
سعودی عرب جیسے ملک میں یہ سب اس لیے ممکن ہو پا رہا ہے کیونکہ ان تقریبات میں یا تو کوئی سعودی شہزادہ موجود ہوتا ہے یا ایسی تقریبات کو شاہی خاندان کے کسی رکن کی سر پرستی حاصل ہونے کی وجہ سے مذہبی پولیس کچھ کر نہیں سکتی۔
قونصل جنرل مارٹن آر کوین کے مطابق جدہ میں ایک زیر زمین ہیلووین پارٹی میں جو ایک شہزادے کی رہائش گاہ پر ہوئی ڈیڑھ سو کے لگ بھگ نوجوان سعودی عورتیں اور مرد موجود تھے۔ اس ہیلووین پارٹی میں امریکی قونصل خانے کے اہلکاروں نے بھی شرکت کی۔
رہائش گاہ کے اندر داخل ہونے سے پہلے شہزادے کے سکیورٹی گارڈز کی چیک پوسٹ سے گزرنے کے بعد جو منظر سامنے آیا وہ سعودی عرب سے باہر کسی بھی نائٹ کلب جیسا تھا۔ نوجوان جوڑے ناچ رہے تھے، میوزک چلانے والا ڈی جے اور ہر کوئی مخصوص لباس میں تھا۔
اس پارٹی کے لیے رقم کا انتظام مشروبات بنانے والی ایک امریکی کمپنی اور خود میزبان شہزادے نے کیا تھا۔
رہائش گاہ کے اندر داخل ہونے سے پہلے شہزادے کے سکیورٹی گارڈز کی چیک پوسٹ سے گزرنے کے بعد جو منظر سامنے آیا وہ سعودی عرب سے باہر کسی بھی نائٹ کلب جیسا تھا۔ نوجوان جوڑے ناچ رہے تھے، میوزک چلانے والا ڈی جے اور ہر کوئی مخصوص لباس میں تھا۔
امر بالمعروف نہی عن المنکر نامی مذہبی پولیس کہیں دور دور تک نظر نہیں آ رہی تھی جب کہ اس پارٹی میں داخلہ سختی سے نافذ العمل مہمانوں کی لسٹ کے لحاظ سے تھا۔
ایک نوجوان سعودی تاجر کے مطابق اس طرح کی تقریبات ہمیشہ شہزادوں کے گھروں میں یا ان کی موجودگی میں ہوتی ہیں جس کی وجہ سےمذہبی پولیس کو مداخلت کا موقع نہیں ملتا۔
سعودی سلطنت میں اس وقت دس ہزار سے زائد شہزادے ہیں۔
سعودی قانون اور روایات کے مطابق شراب پر سختی سے پابندی ہے لیکن اس تقریب میں شراب وافر مقدار میں موجود تھی جسے تقریب کے لیے بنائے گئے بار سے مہمانوں کو دیا جا رہا تھا۔
امریکی قونصل جنرل لکھتے ہیں کہ اگرچہ اس تقریب میں اس بات کا براہ راست مشاہدہ نہیں کیا گیا لیکن کوکین اور حشیش کا استعمال ان سماجی تقریبات میں عام ہے اور دوسرے موقعوں پر دیکھا گیا ہے۔
مارٹن آر کوین کے مطابق سعودی نوجوان اس نسبتاً سماجی آزادی اور سیکس سے تفریح حاصل کرتے ہیں لیکن صرف بند دروازوں کے پیچھے اور یہ سب صرف امیروں کے لیے ہی ممکن ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2010/12/101208_wikileaks_saudi_party_hackers_zz.shtml
Here is link to cable for above story
http://www.guardian.co.uk/world/us-embassy-cables-documents/235420
@pejamistri
Thank you for the link.