سندھ کا ’سیکیولر‘ مدرسہ

ریاض سہیل

بی بی سی اردو ڈاٹ کام کراچی

ترقی اور تیزی کے ساتھ بدلتی سیاسی، سماجی اور معاشی صورتحال نے کراچی کے روشن ماضی کو دھندلا دیا ہے۔ برطانوی راج کے خلاف جب بھی تحریک چلیں، چاہے وہ سیاسی تھیں یا مسلح، ان کا مرکز ہندوستان کو بتایا جاتا ہے، مگر اس مرکز کی جاندار شاخوں کا تذکرہ بہت ہی کم ملتا ہے جن کے بغیر یہ تحریکیں شاید اتنی کامیاب نہ ہوتیں۔

مدرسہ مظہر العلوممدرسہ مظہر العلوم کراچی کا پہلا مدرسہ تھا

کراچی میں موجود مدارس کی پہچان صرف دینی تعلیم ہے۔ چند ہی لوگ اس ایک سو چھبیس سالہ پرانے مدرسہ کے بارے میں جانتے ہوں گے جس کا نام مدرسہ مظہر العلوم المعروف کھڈے والا مدرسہ ہے۔ شاید اس گمنامی کی ایک وجہ ماضی میں اس کا سیکیولر مزاج ہونا ہے۔

مدرسہ مظہر العلوم کا قیام اٹھارہ سو چوراسی میں ہوا تھا۔ یہ کراچی کا پہلا مدرسہ تھا۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح کی درس گاہ سندھ مدرستہ الاسلام بھی اس کے بعد تعمیر ہوا تھا۔ مدرسہ مظھر العلوم کے بانی مولانا عبداللہ میمن تھے جو بنیادی طور پر شاہ بندر ٹھٹہ کے رہائشی تھے۔

اس مدرسے کی وجہ شہرت مولانا عبداللہ کے صاحبزادے مولانا صادق بنے جو دیوبند میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن کے پاس زیر تعلیم رہے اور بعد میں ان کی تحریکوں میں ان کے دست راست بھی رہے۔ اسی مدرسے سے فارغ التحصیل مولانا عبید اللہ سندھی سے بھی ان کی دوستی تھی۔ یہ تینوں شخصیات اور ان کی تحریکیں اس مدرسے کی وجہ شہرت بنیں۔

مدرسہ مظہر العلوم کے صدر العلوم غلام مصطفیٰ راجپر کے مطابق جب مولانا محمود الحسن نے جمعیت العلما الہند بنائی تو اسی طرز پر جمعیت العلما سندھ کی بنیاد رکھا گئی، اس وقت سندھ بمبئی کا حصہ تھا۔

مدرسہ مظہر العلوم

ان کے مطابق انگریز حکومت کے خلاف جب مدرسہ دیوبند کے سابق طالب علموں نے جمیعت الانصار قائم کی تو مولانا صادق اور مولانا عبید اللہ سندھی بھی اس کا حصہ بن گئے جس کے بعد ریشمی رومال اور خلافت تحریک چلائیں گئیں جس میں مسلمانوں اور ہندوؤں نے مذاہب سے بالاتر ہوکر شرکت کی۔

ان تحریکوں کے دوران کانگریس کے رہنما مہاتما گاندھی، مولانا ابوالکلام آزاد اور شیخ الہند محمود الحسن بھی مدرسہ مظہر العلوم آئے۔

دوسری عالمی جنگ میں جب برطانیہ ترکی کی جانب پیش قدمی کر رہا تھا تو اس مدرسے کے مہتمم مولانا صادق نے کراچی میں بیٹھ کر اپنا سیاسی کردار ادا کیا۔

مدرسہ مظہر العلوم کے صدر العلوم غلام مصطفیٰ راجپر کے مطابق اس منصوبہ بندی کا پتہ چلنے پر انگریز حکومت نے مولانا صادق کو گرفتار کرکے صوبے مہاراشٹر کے علاقے کاروار میں نظر بند کردیا جہاں وہ تین سال قید رہے مگر ثبوتوں کی عدم دستیابی کے باعث ان پر بغاوت کا مقدمہ نہیں چل سکا۔

مولانا صادق بھی برصغیر کے ان رہنماؤں میں سے تھے جنہوں نے مذہب کی بنیاد پر تقسیم کی مخالفت کی تھی۔ مولانا غلام مصطفیٰ راجپر کے مطابق ان رہنماؤں کا خیال تھا کہ ’اگر ہندو مسلمان کی بنیاد پر تقسیم ہوگی تو پھر مسلمان کئی فرقوں میں تقسیم ہوجائیں گے اور پاکستان کے موجودہ حالات بتاتے ہیں کہ ان کی پیشنگوئی درست ثابت ہوئی۔‘

مدرسہ مظہر العلوم

شہر کے قدیم علاقے لیاری کے قریب واقع اس مدرسے میں اس وقت بھی تین سو بچے زیر تعلیم ہیں جن میں کراچی اور سندھ کے دیگر علاقوں کے بچے بھی شامل ہیں۔

مدرسہ مظہر العلوم کے صدر العلوم غلام مصطفیٰ راجپر کا کہنا ہے کہ ان کے مدرسے میں تاریخ، یورپ کا فلسفہ، شاہ ولی اللہ اور امام غزالی کی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔ یہ کتابیں دیگر مدارس میں نہیں پڑھائی جاتیں۔

اس مدرسے میں قدیم لائبریری بھی موجود ہے، جس میں سنہ اٹھارہ سو دس کی بائیبل بھی ہے تو مختلف ممالک کی خارجہ پالیسیوں پر تبصرے کرنے والے بین الاقوامی رسالے فارین افیئر میگزین کا بھی ریکارڈ موجود ہے۔

پاکستان کے قیام کے بعد جمعیت العلما الہند سندھ کے رہنما بھی جمعیت العلما اسلام میں شامل ہوگئے مگر ون یونٹ پر مولانا صادق کے بیٹے مولانا اسماعیل کے قومپرست خیالات کی وجہ سے ان کی راہیں علیحدہ ہوگئیں۔

مدرسے میں جمعیت علما اسلام کے رہنما مفتی محمود کا مولانا محمد اسماعیل کو تحریر کردہ خط بھی موجود ہے جس میں انہیں کہا گیا تھا کہ ان کے بیان سے ایسا لگتا ہے جیسے جی ایم سید بول رہا ہے۔

ان قومپرست نظریات کے باعث اس مدرسے پر ہندوستان کے ایجنٹ ہونے کے الزامات بھی عائد ہوئے اور جنرل ضیاالحق کے دور میں مولانا اسماعیل کو جیل بھی جانا پڑا۔ جنرل ضیا الحق کے دور حکومت میں کالا باغ ڈیم کے منصوبے کے اعلان پر قوم پرست سیاست کا مرکز دریائے سندھ اور اس کا پانی بنا مگر مدرسہ مظہر العلوم کی جامع مسجد میں اس سے کہیں پہلے سے ہر نماز جمعہ میں دریائے سندھ کے بہاؤ جاری رکھنے کے لیے دعائیں مانگی جاتی ہیں۔

مدرسہ مظہر العلوم کے صدر العلوم غلام مصطفیٰ راجپر کا کہنا ہے کہ افغان جہاد کے دنوں میں پیسوں کی بارش ہوئی مگر انہوں نے خود کو اس سے دور رکھا۔اس لیے وہ دیگر مدارس کی طرح کسی بھی قسم کا تعلق نہیں رکھتے صرف مقامی لوگوں کے چندے سے اسے چلایا جاتا ہے۔ ’مالی تنگی میں ضرور ہیں مگر مطمئن ہیں۔

Comments

comments

Latest Comments
  1. Zainab Ali
    -
  2. Mansoor Khalid
    -