Mourning Swat: A paradise lost – Wusatullah Khan

BBC Urdu dot com

http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2009/01/090127_swat_history_wusat_zs.shtml

بہشتِ مرحوم کی یاد میں

وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

طالبان کی جانب سے سوات میں تباہ کیا جانے والا بدھ کا مجسمہ

سکندرِ اعظم ذرا جلدی میں تھا۔ مقامی لوگ آج بھی یقین سے کہتے ہیں کہ اگر اسے دریائے سوات کے کنارے کچھ دن اور سستانے، برفیلے پہاڑوں سے چھو کر آنے والی ہوا میں بانسری کی لرزتی ہوئی لے پر غور کرنے اور پتھروں سے ٹکراتے پانی کے بہاؤ سے مرصع خاموشی کی آواز پر کان دھرنے کا موقع مل جاتا تو پھر وہ کہیں کا نہ رہتا اور اس کا مقبرہ بھی یہیں کہیں ہوتا۔
لیکن سکندر سے زیادہ حسن پرست تو کنشک نکلا جس نے پشاور کے گزرگاہی شور سے تنگ آ کر اپنا دارالحکومت گھوڑوں پر لادا اور سوات کی جانب نکل لیا۔

سوات میں تعلیم پر ضرب: خصوصی ضمیمہ
اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اگلے ہزار برس کے لیے وادی سوات بدھوں کی عبادت اور بھکشو طلبا کی تربیت کا مرکز بن گئی۔ آج بھی منگلور کے قریب جہان آباد کی چٹانوں میں کھدا ہوا گوتم بدھ کا مجسمہ اس سنہری دور کے آخری گواہوں میں بچا ہے جب وادی میں پھیلی ہوئی سینکڑوں عبادت گاہوں سے یا توگھنٹیوں کی آوازیں سنائی دیتی تھیں یا پھر سنگتراشوں کے تیشے کی صدا آتی تھی۔

سوات بلکہ آج کا پورا مالاکنڈ اور ٹیکسلا تک کا علاقہ بدھوں کے لیے وہی تھا جو آج کے سنّیوں کے لیے الازھر والا قاہرہ یا شیعوں کے لیے قم یا ہندوؤں کے لیے بنارس یا عیسائیوں کے لیے غربِ اردن ہے۔ پھر ایک دن وہی ہوا جو ایک نہ ایک دن سب علاقوں کے ساتھ ہوجاتا ہے۔ وحشی ہنوں نے بدھ سوات کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ معاشرہ تتربتر ہوگیا جو جہاں تھا وہیں دبک گیا۔

سوات بلکہ آج کا پورا مالاکنڈ اور ٹیکسلا تک کا علاقہ بدھوں کے لیے وہی تھا جو آج کے سنّیوں کے لیے الازھر والا قاہرہ یا شیعوں کے لیے قم یا ہندوؤں کے لیے بنارس یا عیسائیوں کے لیے غربِ اردن ہے۔

اس یلغار کے کچھ عرصے بعد چھ سو تیس عیسوی میں ایک چینی راہب ہیون سانگ اس علاقے میں آیا۔ اس کے بقول ’چودہ سو بدھ خانقاہوں میں سے اکثر یا تو کھنڈر بن چکی ہیں یا خستہ حالی کے سبب ترک کر دی گئی ہیں۔ بہت سے جیّد راہب یا تو نقل مکانی کر گئے یا مرگئے۔ جو رہ گئے وہ مقدس تعلیمات کے حوالے تو دیتے ہیں لیکن ان کا مطلب نہیں جانتے۔ بیلوں پر انگور چڑھا ہوا ہے مگر کاشتکاری ناپید ہوگئی ہے‘۔

ہیون سانگ نے یہ زوال دیکھا تو چالیس گھوڑوں پر قلمی نسخے لدوا کر اپنے ساتھ لے گیا۔( لگتا ہے جیسے ہیون سانگ ڈیڑھ ہزار برس پہلے کے نہیں بلکہ دو ہزار نو کے حالات بیان کر رھا ہو)۔

اس زوال کے باوجود وادی سوات اگلے پانچ سو برس تک بدھ تہذیب میں رنگی رہی۔ تاوقتیکہ سلطان محمود غزنوی نے آخری بدھ راجہ گیرا کے اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔

پندرھویں صدی کے آخری برسوں میں اس وادی پر افغان یوسف زئیوں کی یلغار شروع ہوئی اور انہوں نے یہاں پہلے سے آباد باشندوں کو دریائے سندھ کے پار اس علاقے میں دھکیل دیا جو بعد میں ہزارہ کہلایا مگر یہ نوارد یوسف زئی ہن حملہ آوروں کی طرح نپٹ جاہل نہیں تھے بلکہ انکے سردار شیخ ملی نے نہ صرف اس وقت کے رواج کے حساب سے دیوانی و فوجداری قوانین کا مجموعہ دفترِ ملی کے نام سے مرتب کروایا بلکہ رزمیہ شاعری بھی کی جسے فتح سوات کے نام سے جمع کیا گیا۔

سن انہتر میں پاکستان سے الحاق کے بعد سوات پاکستان کے سیاحتی نقشے پر سب سے مقبول جگہ بن گیا اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سوات کے طول و عرض میں پانچ سو سے زائد چھوٹے بڑے ہوٹل اپنے پچیس ہزار سے زائد کارکنوں سمیت سیاحوں کے منتظر رہتے تھے مگر پھر بھی سینکڑوں مہمانوں کو ان ہوٹلوں میں جگہ کی تنگی درپیش رہتی تھی۔

اسی دور میں بازید انصاری نے اپنی سوانح حیات اور حفظ و تجوید کے اصولوں پر مبنی تصنیف خیرالبیان مرتب کی جبکہ اخوند زادہ درویزا نے ’تذکرہ‘ اور ’مخزن‘ تصنیف کیں جنہیں پشتو کے زمانی ادب کا اہم سنگِ میل کہا جاتا ہے۔
مغلوں کے زوال کے بعد انیسویں صدی کے وسط میں یکے بعد دیگرے اکبر شاہ اور مبارک شاہ نامی دو مقامی حکمران گزرے جنہوں نے رواج و شریعت کی بنیاد پر حکومت کرنے کی کوشش کی لیکن انگریزوں کی گرفت مضبوط ہوتے ہی ان کی حکمرانی غتربود ہوگئی۔ اٹھارہ سو تریسٹھ سے انیس سو پندرہ تک یہ علاقہ نواحی ریاست دیر کے زیرِ اثر رہا۔ پھر ایک دن سوات کے قبائلی سرداروں کا ایک بڑا جرگہ کبل کے میدان میں دریائے سوات کے کنارے منعقد ہوا جس نے میاں گلشن زادہ عبدالودود کو اپنا سربراہ چن لیا۔ میاں گل ودود کی انیس سو سولہ میں بطور والی سوات رسمِ تاج پوشی ہوئی اور رعایا میں وہ باچا صاحب کے نام سے پہچانے گئے۔

باچا صاحب اپنے زمانے کے حساب سے ایک ترقی پسند حکمران ثابت ہوئے۔ برطانیہ نے ان کی ریاست کی محدود خود مختاری تسلیم کی اور انہیں پندرہ توپوں کے سلیوٹ کا حقدار قرار دیا۔ میاں گل نے فارسی کی بجائے پشتو کو ریاست کی سرکاری زبان بنانے کا قدم اٹھایا۔ پہلی مرتبہ زمینوں کی الاٹمنٹ موروثی طریقے سے کی گئی۔گو یہ خانہ بدوشی کے دور کے مقابلے میں ایک اچھا معاشی قدم تھا لیکن موروثی زمینی ملکیت نے خوانین کے ایسے طبقے کو جنم دیا جو ریاست کا تو وفادار تھا لیکن مزارعین کو پسماندہ رکھنا چاہتا تھا۔

میاں گل نے رواج اور شریعت کو قانونی شکل دیتے ہوئے دو جلدوں میں فتاوی ودودیہ کے نام سے مجموعہ قوانین بھی مرتب کروایا۔(یہ مجموعہ مرتب کروانے کا خیال غالباً انہیں اورنگ زیب کی فتاوی عالمگیری کی شہرت کے سبب آیا ہوگا)۔

انیس سو انہتر میں ریاست سوات پاکستان میں شامل کی گئی اور بادشاہت کی جگہ مالاکنڈ ڈویژن کی کمشنری نے لے لی تو پہلے کمشنر سید منیر حسین شاہ نے یہ نوٹ لکھا کہ سوات میں مزید ترقیاتی کاموں کی ضرورت نہیں ہے۔ جو تعمیراتی ڈھانچہ موجود ہے وہ لوگوں کی ضرورت کے لیے بہت ہے۔ بس اسے ہی برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ سوات یہ نوٹ لکھے جانے کے تقریباً اڑتیس برس بعد تک زندہ رھا اور پھر اسے کروڑوں لوگوں کے سامنے دن دھاڑے ذبح کردیا گیا۔

میاں گل عبدالودود نے اگرچہ خود رسمی تعلیم حاصل نہیں کی تھی لیکن اس کی اہمیت سے بخوبی واقف تھے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہمسایہ ریاست دیر جہاں دنیاوی تعلیم کے حصول کو سرکاری طور پر گناہِ کبیرہ سمجھا جاتا تھا اس کے برعکس سوات کی نئی ریاست میں انیس سو بائیس میں پہلا پرائمری سکول قائم ہوا جس میں بچے اور بچیاں ساتھ پڑھتے تھے۔ چار برس بعد ایک اور سکول صرف لڑکیوں کے لیے بنایا گیا۔

لیکن جدید سوات کا سنہری دور دوسرے والی میاں گل عبدالحق جہانزیب کا بیس سالہ دورِ اقتدار تھا۔ وہ انیس سو انچاس میں اپنے والد کی جگہ برسرِ اقتدار آئے۔ مفت تعلیم اور صحت کی سہولتوں کے ساتھ ساتھ شاہراہوں اور انفراسٹرکچر کی تعمیر کو اولیت دی گئی۔ سوات، بنیر، شانگلہ پار اور انڈس کوہستان کے علاقے میں تعلیمی اداروں کے فروغ کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ وظیفوں کا اجراء ہوا۔

انیس سو باون میں ریاست کے دارالحکومت سیدو شریف میں جدید اعلی تعلیم میں خود کفالت کے لیے جہانزیب کالج بنایا گیا۔اسی کالج سے سائنسی و ادبی موضوعات پر مبنی رسالہ ’علم‘ بھی شائع ہوتا تھا۔ انیس سو چونسٹھ میں میاں گل جہانزیب کے مالی اور زمینی عطیے سے کانونٹ تعلیم کے لیے سنگوٹا پبلک سکول کی بنیاد ڈالی گئی۔( انیس سو نواسی تک یہاں مخلوط تعلیم تھی۔ پھر اسے لڑکیوں کے لیے وقف کردیا گیا اور لڑکوں کے لیے علیحدہ ایکسلسئیر کالج بنایا گیا۔گذشتہ برس اکتوبر میں طالبان نے دونوں اداروں کو تباہ کر کے ان کا سازوسامان لوٹ لیا)۔

دوسرے والی کے دور میں بننے والے ان اداروں میں نہ صرف سوات بلکہ صوبہ سرحد کے دیگر اضلاع سے بھی والدین اپنے بچے معیاری تعلیم کے لیے بھیجا کرتے تھے۔ اس دور میں سوات کی لڑکیوں میں خواندگی کا تناسب دیگر تمام نواحی علاقوں سے زیادہ تھا۔( انیس سو انہتر میں جب پاکستان کی یحیٰی حکومت نے ریاست دیر، چترال اور سوات کو پاکستان میں مدغم کرلیا تو اس کے بعد سوات میں نجی تعلیمی ادارے بھی بڑی تعداد میں قائم ہوئے۔تعلیمی اداروں کی تباہی کے موجودہ دور سے قبل ضلع سوات میں صرف لڑکیوں کے لئے دس ہائی سکول، چار ہائر سیکنڈری سکول، چار ڈگری کالج اور ایک پوسٹ گریجویٹ کالج فعال تھا)۔

جن ہاتھوں نے ہزاروں برس قبل گندھارا تہذیب کو مجسموں اور سٹوپا کی شکل میں آنے والی نسلوں کے لیے نشانیوں کی صورت محفوظ کرنے کی کوشش کی۔ انہی ہاتھوں نے اسلام پھیلنے کے بعد اپنے فن کو بھی نئی شکل دے دی۔مجسمے تراشنے والوں نے مساجد کے مینار ، آتش دان اور ان پر نقش تراشنےشروع کر دیے۔ انہی ہاتھوں نے لکڑی کے فرنیچر میں کندہ کاری کی جدتیں گھڑیں۔اس فن نےگھڑوں کو نقشین بنانے اور غالیچوں، واسکٹوں اور تکیے کے غلافوں پر کشیدہ کاری کی صورت قبضہ کرلیا۔ یوں بحرین، کالام ، اترور، گبرال گندھارا آرٹ کی اس جدید شکل کے گڑھ بن کر ابھرے۔

جہاں تک علاقے کی معیشت کا معاملہ ہے تو بنیادی سرگرمی زراعت ہی رہی۔ لیکن جن ہاتھوں نے ہزاروں برس قبل گندھارا تہذیب کو مجسموں اور سٹوپا کی شکل میں آنے والی نسلوں کے لیے نشانیوں کی صورت محفوظ کرنے کی کوشش کی۔ انہی ہاتھوں نے اسلام پھیلنے کے بعد اپنے فن کو بھی نئی شکل دے دی۔

مجسمے تراشنے والوں نے مساجد کے مینار ، آتش دان اور ان پر نقش تراشنےشروع کر دیے۔ انہی ہاتھوں نے لکڑی کے فرنیچر میں کندہ کاری کی جدتیں گھڑیں۔اس فن نےگھڑوں کو نقشین بنانے اور غالیچوں، واسکٹوں اور تکیے کے غلافوں پر کشیدہ کاری کی صورت قبضہ کرلیا۔ یوں بحرین، کالام ، اترور، گبرال گندھارا آرٹ کی اس جدید شکل کے گڑھ بن کر ابھرے۔

اگرچہ والیانِ سوات کے دور میں اجنبی باشندے بلا سرکاری اجازت اراضی نہیں خرید سکتے تھے لیکن میاں گل جہانزیب نے سن ساٹھ کے عشرے میں سوات کو ٹیکس فری زون کا درجہ دے دیا۔ تاہم ہر صنعتکار کو یہ عہد کرنا پڑتا تھا کہ وہ بعد میں اپنا صنعتی یونٹ کہیں اور منتقل نہیں کرے گا۔ پنجاب اور کراچی کے صنعت کاروں نے یہاں ریشم کی صنعت کو فروغ دیا اور کاسمیٹکس تیار کرنے کی فیکٹریاں لگائیں۔ قریباً ساڑھے تین سو فیکٹریوں میں ہزاروں مقامی لوگوں کو روزگار ملا جبکہ خواتین کی ایک محدود تعداد بھی ان اداروں میں کام کرتی تھی۔

شہر میں والی کی اجازت سے ایک سینما گھر بھی قائم کیا گیا لیکن کسی کو غل عپاڑے اور دادا گیری کی جرات نہیں تھی۔ دارالحکومت سیدو شریف اور منگورہ میں کسی بھی حیثیت کا آدمی کھلے عام اسلحہ کی نمائش نہیں کر سکتا تھا۔

مقامی لوگوں کی ایک بڑی تعداد کا روزگار سیاحت کی صنعت سے بھی وابستہ تھا۔ سن انہتر میں پاکستان سے الحاق کے بعد سوات پاکستان کے سیاحتی نقشے پر سب سے مقبول جگہ بن گیا۔وجہ یہ تھی کہ یہاں کے لوگ باقی علاقوں کی نسبت نہایت خوش اخلاق اور معتدل مزاج کے حامل سمجھے جاتے تھے۔

ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سوات کے طول و عرض میں پانچ سو سے زائد چھوٹے بڑے ہوٹل اپنے پچیس ہزار سے زائد کارکنوں سمیت سیاحوں کے منتظر رہتے تھے مگر پھر بھی سینکڑوں مہمانوں کو ان ہوٹلوں میں جگہ کی تنگی درپیش رہتی تھی۔

اگرچہ والیان کے دور میں شریعت اور رواج پر مبنی قوانین کے سبب فوری اور سستا انصاف میسر تھا لیکن ریاست کی عمومی فضا روشن خیال تھی۔ دربار میں باقاعدہ مشاعرے ہوتے تھے جن میں سوات سے باہر دور دور سے شعراء کو مدعو کیا جاتا تھا۔ دربار کے علاوہ خوشحال لوگوں کے ہاں بھی شادی بیاہ اور خوشی کے مواقع پر مجرے کی روایت تھی۔

عید کے دنوں میں دریائے سوات کے کنارے عوامی میلہ لگتا تھا۔ ناچ گانا اور کھیل تماشا اس میلے کی پہچان تھا۔ وہ میلہ ہی نہیں سمجھا جاتا تھا جس میں حافظ الپوری کا کلام نہ ہو۔ ستار، رباب، تھمبل، منگئے ( گھڑا) اور چاوترے کی صدا اور شپےلئی ( بانسری ) کی لے سنائی نہ دے اور بی بی، شینوگے، اقبال ، خورشیدہ، شمیم اور گنگو رقص کناں نہ ہوں۔

رقص و موسیقی کے فن سے وابستہ لوگوں کے لیے منگورہ میں ایک علیحدہ محلہ بھی آباد کیا گیا۔ جب والی دوم نے ایک رقاصہ سے شادی کی تو خاصا شور اٹھا لیکن ایسی کئی رقاصائیں تھیں جنہوں نے اشرافیہ میں شادی کی اور پھر ان کا نام کسی نے کسی کی زبان سےنہیں سنا۔

کبھی ریاست کی عمومی فضا روشن خیال تھی
شہر میں والی کی اجازت سے ایک سینما گھر بھی قائم کیا گیا لیکن کسی کو غل عپاڑے اور دادا گیری کی جرات نہیں تھی۔ دارالحکومت سیدو شریف اور منگورہ میں کسی بھی حیثیت کا آدمی کھلے عام اسلحہ کی نمائش نہیں کر سکتا تھا۔

جب انیس سو انہتر میں ریاست سوات پاکستان میں شامل کی گئی اور بادشاہت کی جگہ مالاکنڈ ڈویژن کی کمشنری نے لے لی تو پہلے کمشنر سید منیر حسین شاہ نے یہ نوٹ لکھا: ’سوات میں مزید ترقیاتی کاموں کی ضرورت نہیں ہے۔ جو تعمیراتی ڈھانچہ موجود ہے وہ لوگوں کی ضرورت کے لیے بہت ہے۔ بس اسے ہی برقرار رکھنے کی ضرورت ہے‘۔

سوات یہ نوٹ لکھے جانے کے تقریباً اڑتیس برس بعد تک زندہ رھا اور پھر اسے کروڑوں لوگوں کے سامنے دن دھاڑے ذبح کردیا گیا۔

Comments

comments