Chief Justice said – by Wusatullah khan

جسٹس صاحب نے فرمایا !

وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

لاپتہ افراد سے متعلق عدالتی کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال

لاپتہ افراد کے مسئلے سے متعلق عدالتی کمیشن کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے کہا ہے کہ کتنے لوگ غائب ہیں؟ اس بارے میں حکومت اور انسانی حقوق کمیشن سمیت کسی کے پاس بھی مصدقہ اور مکمل فہرست نہیں ہے۔

حکومتِ بلوچستان نے کمیشن کو جن نو سو پینتالیس گمشدہ افراد کی فہرست پیش کی اس میں سے صرف پینتالیس کے کوائف مکمل تھے۔چنانچہ کمیشن نے یہ فہرست واپس کر دی۔اس کے بعد بلوچستان حکومت نے فہرست دوبارہ نہیں بھجوائی۔تاہم جسٹس صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے سست اور نااہل حکومتِ بلوچستان کو اس بابت کیا سرزنش کی؟

جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے کہا کہ ان کے پاس صرف چار سو ساٹھ لاپتہ کیسز کا مصدقہ ریکارڈ ہے۔ان میں سے ستاون کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ان میں سے گیارہ سے پندرہ لاپتہ افغانستان میں پکتیا اور پلِ چرخی جیلوں میں بند ہیں۔تاہم جسٹس صاحب نے ان لاپتہ قیدیوں کے کوائف یا نام نہیں بتائے۔

جسٹس صاحب نے کہا کہ گمشدگی کے واقعات میں غیرملکی ایجنسیوں کے ملوث ہونے کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔جسٹس صاحب کو یہ معلومات فرنٹیر کور، آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلی جینس، انٹیلی جنس بیورو اور پولیس نے دیں جو خود بھی عدالتی شبہات کے کٹہرے میں ہیں یا پھر کمیشن کو کسی آزاد و غیر جانبدار زریعے سے معلوم ہوا کہ غیر ملکی ایجنسیاں بھی لوگوں کو غائب کر رہی ہیں؟ اگر یہ درست ہے تو بلاشبہ بہت سنگین معاملہ ہے۔تو کیا جسٹس صاحب ان میں سے کچھ غیرملکی ایجنسیوں کے نام لیں گے تاکہ دفترِ خارجہ سنجیدگی سے نوٹس لے سکے۔
جسٹس صاحب نے یہ بھی بتایا کہ کئی افراد جنہیں لاپتہ کہا جا رہا ہے دراصل بیرونِ ملک مقیم ہیں۔ جسٹس صاحب اگر ان بیرونِ ملک لاپتہ افراد میں سے کچھ کے کوائف یا نام بتا دیں تو کم ازکم کوئی صحافی ان تک رسائی کرکے تصدیق تو کر ہی سکتا ہے۔

جسٹس صاحب نے یہ بھی بتایا کہ بلوچستان کے ستاون میں سے بارہ لاپتہ افراد پچھلے ہفتے ہی رہا ہو کر گھروں کو پہنچ چکے ہیں۔لیکن رہائی پانے والوں کے ہونٹ سلے ہوئے ہیں۔تین تو اپنا نام بھی نہیں لینا چاہتے اور باقی یہ نہیں بتا رہے کہ وہ کس کی تحویل میں تھے اور انہیں کہاں رکھا گیا۔لہذٰا گواہی کے بغیر عدالت کیسے ملزموں تک پہنچ سکتی ہے۔

جسٹس صاحب!! یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ عدالتی کمیشن سے بھی زیادہ بااختیار قوتوں کا خوف ان آزاد پرندوں کے پر کاٹ چکا ہو۔ہو سکتا ہے انہیں منہ کھولنے کی صورت میں دوبارہ غائب ہونے کا خدشہ ہو۔ ہو سکتا ہے وہ منہ کھولنا چاہتے ہوں مگر اپنے بچوں، بیوی اور ماں کی شکلیں ملک و قوم کے عظیم تر مفاد اور انصاف کی طاقت سے زیادہ پیارے ہوں۔ ہو سکتا ہے انہوں نے وہ خبر پڑھ یا سن لی ہو کہ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے گذشتہ ماہ بلوچستان پولیس اور فرنٹیر کور کو جن تین لاپتہ افراد کو پیش کرنے کا حکم دیا تھا انہیں اغوا کے ویڈیو ثبوت کے باوجود لاشوں کی صورت دے دی گئی۔

ہوسکتا ہے گھر واپس پہنچ جانے والے افراد کے کان میں کسی نے کہہ دیا ہو کہ صحافی سلیم شہزاد قتل عدالتی کمیشن کے سامنے بھی گواہیاں ہوئی تھیں مگر کمیشن صرف اس حتمی نتیجے پر پہنچ سکا کہ سلیم شہزاد کو کسی نے تو ضرور قتل کیا ہے۔

ان کے پاس صرف چار سو ساٹھ لاپتہ کیسز کا مصدقہ ریکارڈ ہے۔ان میں سے ستاون کا تعلق بلوچستان سے ہے: جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال

مگر انصاف چونکہ اندھا ہوتا ہے لہذا سائل اگر اس کی لاٹھی پکڑ کے راستہ نا دکھائے تو یہ لاٹھی سائل کی تشریف پر بھی پڑ سکتی ہے۔چنانچہ جو لاپتہ دوست کمیشن کی کوششوں سے رہائی پا چکے ہیں ان کا فرض ہے کہ سب کچھ بلا جھجک بتا دیں۔جیسے یہی کہ انہیں اغوا کرنے والے سادہ کپڑوں میں تھے یا باوردی۔آنکھوں پر کس رنگ کی پٹی باندھی گئی۔گاڑی کا نمبر کیا تھا۔اغوا کرنے اور پھر الٹا لٹکانے والوں کے پاس کس ادارے کا شناختی کارڈ تھا۔اس شناختی کارڈ پر کیا نام اور عہدہ تھا۔انہیں کس جگہ رکھا گیا۔مکان نمبر کیا تھا۔سرکاری عمارت تھی تو اس پر کس ادارے کا بورڈ لگا تھا۔

کیا لاپتہ گواہان کمیشن کو اس مکان یا عمارت تک لے جا سکتے ہیں جس کے تہہ خانے میں انہیں رکھا گیا۔کیا وہ شناختی پریڈ میں اپنے پکڑنے والوں کو پہچان پائیں گے۔کیا انہیں یقین ہے کہ انہیں اغوا کرکے بیرونِ ملک نہیں لے جایا گیا ۔کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ ان سے تفتیش کرنے والوں کا لہجہ پنجابی ، بلوچی ، سندھی یا پشتو تھا یا پھر وہ انگریزی، فارسی، ہندی یا عبرانی میں بات کر رہے تھے۔اگر رہائی پانے والے اتنی سی معلومات بھی فراہم نہیں کر سکتے تو خود بتائیں کہ کمیشن آخر ملزموں تک کیسے پہنچے؟

جسٹس صاحب نے یہ بھی کہا کہ کمیشن کی سماعت کے دوران اس ہفتے چار نئی لاپتہ درخواستیں سامنے آئی ہیں اور سات لاشیں اور ملی ہیں۔ کمیشن کے کہنے پر نامعلوم ملزموں کے خلاف قتل کی دفعہ تین سو دو کے تحت مقدمات درج کیے ہیں۔تاہم جسٹس صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ یہ مقدمات لاشوں کے ورثا کیوں درج نا کروا سکے؟
خیر چھوڑئیے باتیں تو ہوتی رہیں گی۔یہ بتائیے کہ چائے میں آپ کتنی چینی لیں گے۔۔۔

Source: BBC URDU

Comments

comments

Latest Comments
  1. Dr:Abdul Qadeer Memon
    -