Isn’t that overseas Pakistani going to become a second-class citizen?

Second-class citizen is an informal term used to describe a person who is systematically discriminated against within a state or other political jurisdiction, despite their nominal status as a citizen or legal resident there. While not necessarily slaves, outlaws or criminals, second-class citizens have limited legal rights, civil rights and economic opportunities, and are often subject to mistreatment or neglect at the hands of their putative superiors. ( Wikipedia)

مزہبی اقلیتوں کے بعد اب رحمان ملک، فرح ناز اصفہانی سمیت تمام اورسیز پاکستانی دوسرے درجے کے شہری بن گے ہیں۔

مولانا شبیر احمد عثمانی کا خیال تھا کہ کسی غیر مسلم کو قانون ساز یا پالیسی ساز ادارے کا رکن اور کسی کلیدی عہدے پر فائز نہیں ہونا چاہئے۔ مولانا عثمانی نے قائد اعظم کے اس فلسفہ سے انکار کیا تھا کہ پاکستان میں کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد نہ ہندو ہندو رہے گاٴ اور نہ ہی مسلمان مسلمان رہیں گے اور یہ سب سیاسی معنوں میں مملکت کے برابر کے شہری ہوں گے۔ مولانا مسلم اور غیر مسلم پر مشتمل ایک پاکستانی قوم ہونے کے نظریے سے انکاری تھے۔ یہ مخصوص سوچ قومی یکجہتی کے سیاسی فلسفے کے خلاف تھی۔ کراچی میں مولانا شبیر احمد عثمانی اور پنجا ب میں رجعت پسند طبقے کے پروپیگنڈہ کے باوجود قائد اعظم نے اپنی روشن خیال اور اعتدال پسند سوچ کو نہیں بدلا۔

قائد اعظم کی وفات کے بعد فرقہ وارانہ سیاست پر یقین رکھنے والے دوبارہ سرگرم عمل ہوگئے اور وزیراعظم لیاقت علی خان کی قیادت میں انہوں نے قرارداد مقاصد اسمبلی میں منظور کرکے پاکستان کو ایک مذہبی جانبدار ریاست بناکر مسلم اور غیر مسلم کے راستے علیحدہ علیحدہ کردیئے اور اس طرح قومی یکجہتی کا تصور کمزور ہوتا چلا گیا۔ مولانا شبیر عثمانی کے نظریات اور قرارداد مقاصد کا منطقی نتیجہ جنرل ضیائ الحق کی اسلام کے نام پر آمریتٴ جداگانہ انتخاباتٴ امتیازی قوانینٴ حدود آرڈیننسوں اور بدترین سماجی تعصبات اور نسلی فسادات کی صورت میں برآمد ہوا۔ جداگانہ انتخابات کے ذریعے اقلیتوں کو سیاسی محرومی اور معاشرتی علیحدگی دے کر قوم کے دھارے سے باہر کردیا گیاٴ اور ان کے لئے اعلیٰ انتظامی اور ریاستی عہدوں پر قدغن لگا کر انہیں دوسرے درجے کا شہری بنادیا گیا رجعت پسند اور غیر جمہوری نظریات کا نتیجہ تقسیم در تقسیم کی صورت میں برآمد ہوا۔ تقسیم در تقسیم کے اس عمل نے شیعہٴ سنیٴ بریلویٴ دیو بندیٴ سندھیٴ بلوچیٴ پٹھانٴ مسیحیٴ ہندوئوںٴ سکھٴ پارسیٴ مرد اور عورت وغیرہ کو ایک دوسرے کے مخالف اور بعض صورتوں میں دشمن بنادیا۔1979 ئ سے اب تک فرقہ وارانہ مذہبی دہشت گردیٴ انتہا پسندی اور قتل و غارت گری کا ایک ایسا طوفان آیاٴ جس نے ہنستے بستے کئی خاندانوں کو اجاڑ دیاٴ اور اس نے انسانوں کے درمیان تقسیم کچھ یوں کی کہ کچھ لوگ زیادہ افضل اور پہلے درجے کے شہری ہیں جبکہ دیگر کمتر اور دوسرے درجے کے شہری ہیں۔

یہ فلسفہ انسانوں کے درمیان دوری اور فسادات کا سبب بنا اب پاکستان میں تقسیم در تقسیم کا عمل ایک نئے انداز سے کیا جارہا ہے یعنی پاکستانی شہری اور دوہری شہریت کے حامل اوورسیز پاکستانی شہری جن کو اگرچہ آئین اجازت دیتا ہے کہ وہ دوہری شہریت اختیار کرسکتے ہیںٴ مگر اب ان کی حیثیت دوسرے درجے کے شہری جیسی ہوگئی ہے ۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوںٴ جن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دو اراکین پارلیمنٹ فرح ناز اصفہانی اور رحمان ملک کی رکنیت معطل کی گئی ہے اس کے خلاف نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں۔ بیرون ملک مقیم وہ پاکستانی جو دوسرے ممالک کے منتخب قانون ساز اداروں کے رکن ہیں انہوں نے پاکستان میں دوہری شہریت کے حامل افراد کو انتخابات میں شرکت سے روکنے والے سپریم کورٹ کے فیصلوں پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے برسلز سے یورپین پارلیمنٹ کے منتخب رکن سجاد کریم کا کہنا ہے کہ یہ بات ان کے لئے انتہائی تشویش کا باعث ہے کہ اس وقت پاکستان میں ان پاکستانیوں کو جن کے پاس دوہری شہریت ہے ان کو دوسرے درجے کا شہری بنایا جارہا ہے ان کا کہنا ہے کہ بھارت اور چین نے اپنی ترقی بیرون ملک مقیم افراد کو قومی دھارے میں لاکر کی مگر پاکستان اپنے بیرون ملک مقیم شہریوں کو جو اس کا اثاثہ ہیں وہ نہ صرف ان کو خود سے دور کررہا ہے بلکہ دوسرے درجے کا شہری بنارہا ہے اس تقسیم کے عمل سے پاکستان کو ہی بالآخر نقصان ہوگا۔

برطانوی دارالعوام کے رکن خالد محمود جو برطانیہ کے شہر برمنگھم سے لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے ہیں وہ بھی سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر نالاں ہیں ان کا کہنا ہے کہ ملک
سے باہر رہنے والے افراد کی اکثریت کے پاس دوہری شہریت ہےٴ اور انہیں ووٹ کا حق دیا جارہا ہےٴ تو پھر وہ انتخابات کیوں نہیں لڑ سکتے؟ پاکستان پیپلز پارٹی کی یہ پالیسی ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کو نہ صرف پاکستان میں ووٹ کا حق دیا جائے بلکہ ان کو زیادہ سے زیادہ سیاسی عمل میں شرکت کا موقع دے کر ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا جائے۔ خالد محمود نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ اگر یہ غلط ہے تو پھر پاکستان میں موجود سیاسی جماعتیں ملک سے باہر اپنے دفاتر کیوں قائم کرتی ہیں۔ پاکستان کی تمام بڑی جماعتوں کے برطانیہ سمیت یورپ بھر میں دفاتر قائم ہیں اور اگر ایسے ہی فیصلے آتے ہیں تو تمام لوگوں کو خود بھی پاکستان تک ہی محدود رہنا ہوگا۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی اسمبلی میں بھی ملک سے باہر مقیم افراد کے لئے مخصوص نشستیں ہیں ناروے کی پارلیمنٹ کے ڈپٹی سپیکر اختر چودھری بھی اس فیصلے پر سوال اٹھاتے ہیں ان کے نزدیک اگر دوہری شہریت کی اجازت ہے تو پھر آئین و قانون میں ان افراد کو جن کے پاس صرف پاکستان کی شہریت ہے اور انہیں جن کے پاس دوہری شہریت ہے مساوی حقوق ملنے چاہئے۔

پاکستان میں منتخب سیاسی نمائندوں کو حراساں کرنے کی ایک لمبی تاریخ جنرل ایوب خانٴ جنرل ضیائ الحق اور جنرل پرویز مشرف تک پھیلی ہوئی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کی نیب کو وفاداریاں تبدیل کرکے وزیر بنانے کی فیکٹری کے طور پر یاد کیا جاتا ہے ان غیر جمہوری ادوار میں خاص طور پر پی پی پی کے اراکین کو ہی ٹارگٹ کیا گیا اگرچہ این آر او میں آٹھ ہزار مقدمات تھےٴ مگر غیر نمائندہ اداروں کی توجہ صدر آصف علی زرداری کی طرف ہی رہی ہے۔

ججوں کی بحالی کی تحریک کے وقت بھی ڈاکٹر آمنہ بُٹر امریکی شہریت رکھتی تھیں مگر اُس وقت کسی نے ان کی دھری شہریت پر سوال نہیں اٹھایا؟

پہلی بات تو یہ کہ ہم سیاسی طور پر اس بات کے حامی ہیں کہ دوہری شہریت کے حامل افراد کو پاکستان کے سیاسی عمل میں شرکت اور رکن پارلیمنٹ کا حق ہونا چاہئے دوسری بات اگرچہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکرٹری کنوردلشاد کا یہ کہنا ہے کہ 35 اراکین ایسے ہیں جن کے پاس دوہری شہریت ہےٴ مگر اب تک دو افراد ہی سپریم کورٹ کے فیصلے کی زد میں آئے ہیں اور دونوں کا تعلق پی پی پی سے ہے۔ فرح ناز اصفہانی اور رحمان ملک۔ فرح ناز اصفہانی کے بارے میں تو ہم گزشتہ کالم میں لکھ چکے ہیںٴ ان کے بعد وزیر داخلہ رحمان ملک جو بے نظیر بھٹو کی جلاوطنی کے ساتھی ہیں اور جو دہشت گردی کے خلاف عزم و استقلال کے ساتھ کھڑے رہے ہیں ان کی رکنیت بھی معطل کردی گئی ہے۔ آمنہ بُٹر صاحبہ رکن پنجاب اسمبلی جنہوں نے ہمیشہ انسانی آزادیوں اور پسماندہ طبقات کے حقوق کے حوالے سے آواز بلند کی ہے جن کا نام دوہری شہریت کی فہرست میں آیا ہے انہوں نے ٹویٹر پر کہا ہے وہ اس مقدمہ میں سرینڈر نہیں کریں گی اور اپنے حقوق کا ہر ممکن انداز میں دفاع کریں گی ان کا کہنا ہے کہ انہیں فخر ہے کہ وہ پاکستانی ہیں اور وہ ہمیشہ پسماندہ طبقات کے لئے آواز بلند کرتی رہیں گی چاہے رکن پارلیمنٹ رہیں یا نہ رہیں ان کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے اس وقت یہ قانون موجود نہیں تھا اور الیکشن کمیشن نے کاغذات منظور کئے تھے۔ رول 4 جو دوہری شہریت کے حامل افراد کو انتخابی عمل سے باہر کرتا ہے وہ الیکشن کمیشن نے جنوری 2012 کو شامل کیا تھا ڈاکٹر آمنہ بُٹر کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب وہ چیف جسٹس کی بحالی کے لئے گھر سے باہر نکلی تھیں اور ان کو سپریم کورٹ کے اندر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا اس وقت بھی وہ دوہری شہریت رکھتی تھیں مگر اس وقت کسی نے یہ سوال نہیں اٹھایا۔

Source: Daily Mashriq Lahore

یہ سوال ہمیں پریشان کئے ہوئے ہے کہ دوسرے ملک کی شہریت رکھنے سے یہ اندازہ یا شک کیسے کیا جاسکتا ہے کہ اس فرد کی محبت اور وفاداری اپنے آبائی وطن سے ختم ہوگئی ہے؟ پھر یہ بھی بڑا واضع ہے کہ کوئی شخص خواہ وہ صرف پاکستانی شہریت رکھتا ہو یا دوہری شہریت اگر وہ ملک و قوم کے خلاف کوئی کام کرتا ہے تو اس کی نشاندہی ہوسکتی ہے اور قانون حرکت میں آسکتا ہے مگر محض دوہری شہریت کی بنیاد پر اوورسیز پاکستانیوں کی حب الوطنی پر شکٴ اور انہیں دوسرے درجے کا شہری بناکر ملک کے دروازے بند کرنا خطرناک عمل ہے۔ اگر دوہری شہریت کے حامل پاکستانیوں پر ہماری معیشت کو سہارا دینے پر کوئی پابندی نہیں تو پھر سیاست میں مثبت کردار ادا کرنے پر کیوں پابندی لگائی جارہی ہے؟

Comments

comments

Latest Comments
  1. shakeel arain
    -
  2. shakeel arain
    -