CJ Gate: Chief justice should not sit in the bench
انصاف کا تقاضہٴ چیف جسٹس بنچ میں نہ بیٹھیں
چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری نے قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں اپنے بڑے بیٹے ڈاکٹر ارسلان افتخار کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کا ازخود نوٹس لیا ہےٴ چیف جسٹس نے ان خبروں کا از خود نوٹس لیتے ہوئے جن میں ان کے بیٹے ارسلان افتخار پر کاروباری شخصیت ملک ریاض سے کروڑوں روپے کے فوائد حاصل کرنے کے الزامات لگائے گئے ہیں، اس مقدمہ کی سماعت کے لئے سپریم کورٹ کا تین رکنی بنچ قائم کیا گیا ہے ۔ جس میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس عارف خلجی اور جسٹس جواد ایس خواجہ شامل ہیں۔
اس ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران ارسلان افتخار نے عدالت میں پیش ہوکر ان الزامات سے انکار کیا ہے جبکہ اس معاملہ کی دوسری اہم شخصیت ملک ریاض کے پرسنل سٹاف افسر نے عدالت کو بتایا کہ ملک ریاض برطانیہ میں زیر علاج ہیںٴ اس لئے پیش نہیں ہوسکتے۔ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل عرفان قادر نے چیف جسٹس کی جانب سے اس معاملے کی سماعت کرنے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ججوں کے ضابطہ اخلاق کے آرٹیکل چار کے تحت یہ مقدمہ نہیں سن سکتے۔
اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وہ ضابطہ اخلاق ججوں کے بارے میں ہے اور یہ معاملہ ان کے بیٹے کا ہےٴ اور انہوں نے اس اعتراض کا نوٹس لیا ہےٴ اور فیصلے میں اس کا ذکر کیا جائے گا۔ اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ آپ جذباتی ہورہے ہیں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ چیف جسٹس بنچ میں نہ بیٹھیں۔ یہ چیف جسٹس آف پاکستان کے خلاف صدارتی ریفرنس کے بعد دوسرا موقع ہے جب چیف جسٹس اپنے بیٹے ارسلان کی وجہ سے ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہیں۔ مارچ 2007 ئ میں جب جنرل پرویز مشرف نے چیف جسٹس کے خلاف سترہ صفحات پر مشتمل صدارتی ریفرنس دائر کیا تھاٴ تو اس میں سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے ڈاکٹر ارسلان کے حوالہ سے مندرجہ ذیل نکات بھی رکھے گئے تھے۔
چیف جسٹس کا اپنے بیٹے ڈاکٹر ارسلان افتخار کو حکومت بلوچستان کے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں سیکشن آفیسر بھرتی کرواناٴ ڈاکٹر ارسلان کا حکومت بلوچستان سے وزارت داخلہ میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایف آئی اے کے تبادلہ کرانا ، حکومت بلوچستان میں نوکری کے دوران مطلوبہ عرصہ ملازمت مکمل کئے بغیر ملازمت کو مستقل کراناٴ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈاکٹر ارسلان کو پولیس سروس میں بھرتی کرانے کی کوشش کرانا۔ اس صدارتی ریفرنس میں یہ الزام بڑا واضع تھا کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنا اثرورسوخ استعمال کرکےٴ اپنے بیٹے ڈاکٹر ارسلان کے کیرئیر کو آگے بڑھانے میں مدد دی ہے۔ اور اس کے ساتھ وہ رویہ اپنایا ہے جو کسی عام شہری کے لئے ممکن نہیں۔
یہ وہ الزامات ہیں جن کی تحقیقات نہ تو جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہوئی اور نہ ہی اب جبکہ 2008ئ کے انتخابات کے بعد جمہوری منتخب حکومت کے قیام کے بعد جب عدالت عظمیٰ حکومت اور انتظامیہ کے خلاف انتظامی بے ضابطگیوں اور بدعنوانیوں پر مبنی تمام مقدمات کی سماعت ہورہی ہے اور وہ بضد ہے کہ حکومتی سربراہ ریاستی سربراہ کے خلاف سوئس حکام کو خط لکھے کہ وہ پاکستان کے صدر مملکت کے خلاف الزامات کی تحقیقات کرے۔ لیکن ان الزامات جن کا تعلق براہ راست چیف جسٹس کی ذات اور ان کے خاندان سے ہےٴ تا حال ان پر تحقیقات کا سلسلہ شروع کرکے ان الزامات کی حقیقت کو سامنے نہیں لایا گیا، اور اب ڈاکٹر ارسلان پر یہ الزامات سامنے آئے ہیں کہ انہوں نے ریاض ملک سے کاروبار کے نام پر اس وقت بھاری رقوم اور مالی فوائد حاصل کئے جب سپریم کورٹ ٴٴبزنس ٹائی کون ٴٴریاض ملک کے بیٹے علی ریاض ملک کےخلاف مقدمات کی سماعت کررہی تھیٴ ڈاکٹر ارسلان پر الزام ہے کہ انہوں نے ریاض ملک کے بیٹے علی ملک کے کریڈیٹ کارڈز پر پاکستان اور پاکستان سے باہر شاپنگ کی اور وہ فرانس میں بھی تفریح کے لئے گئے تھے اور ان کا سارا خرچہ علی ملک نے برداشت کیا تھا۔ اس طرح یہ الزام بھی سامنے آیا ہے کہ چیف جسٹس کی فیملی لندن گئی تھی۔ اور ان کا سارا خرچہ بھی علی ملک کے کریڈیٹ کارڈز سے ادا کیا گیا تھا۔
مذکورہ بالا ان الزامات کی نوعیت انتہائی سنگین ہےٴ جو بہر صورت تقاضہ کرتی ہےٴ ایک صاف شفاف تحقیقات کاٴ اگرچہ چیف جسٹس کی دیانت پر کسی کو کوئی شک نہیں ہے مگر جس طرح اٹارنی جنرل نے یہ اعتراض اٹھایا ہے کہ وہ ججوں کے ضابطہ اخلاق کے تحت اس مقدمہ کی سماعت نہیں کرسکتے اسی طرح یہ اعتراض مختلف سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کی طرف سے بھی اٹھایا جارہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ سوالات بھی اٹھائے جارہے ہیں کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک سربراہ خاندان کو اس بات کا علم اور احساس نہ ہو کہ اس کے اہل خانہ اپنے وسائل سے پر تعش زندگی گزار رہے ہیں اور انہیں اس وقت احساس ہوا ہو کہ جب یہ الزامات میڈیا میں آنے شروع ہوجائیں۔ پھر کچھ حلقے یہ اعتراض بھی اٹھا رہے ہیں کہ ان الزامات کی تحقیقات نیب یا ایف آئی اے کو کرنا چاہئے تھی جس طرح سابق وفاقی وزیر حامد سعید کاظمی اور وزیراعظم موسیٰ گیلانی کے مقدمات میں ہوئی ہے اور اس معاملے میں سوموٹو کے ذریعے سماعت درست نہیں، لہٰذا موجودہ حالات و واقعات کے تناظر میں جب ایک اہم ریاستی ستون عدلیہ کے سربراہ کے اہل خانہ کے حوالے سے اتنے سنگین الزامات سامنے آرہے ہوں تو قانون اور انصاف کا تقاضہ ہے کہ اپنے بیٹے کے خلاف الزامات کے بنچ کی سربراہی چیف جسٹس آف پاکستان نہ کریں۔
بین الاقوامی دنیا کا یہ مسلمہ اصول اور روایت ہے کہ کوئی جج اپنا یا اپنے خاندان کا مقدمہ خود نہیں سن سکتا اور اسی سے غیر جانبدارانہ تحقیقات اور انصاف ممکن ہوسکتا ہے۔ اور ایسی ہی نظیروں سے عدلیہ کا وقار اور عزت بھی بلند ہو گی ۔
Source: Daily Mashriq Lahore