The punishment of dual nationality
سرد جنگ کے خاتمے، گلوبلائزیشن کے پیچیدہ اور تیز عمل، 11 ستمبر کے المناک سانحے کے بعد اب قومی سلامتی کے تصورات یکسر تبدیل ہوگئے ہیں۔ اب سیکورٹی کے تصورات محض سرحدوں کی حفاظت تک محدود نہیں رہے بلکہ آج کے جدید سلامتی کے تصورات میں فرد بنیادی حیثیت اختیار کر گیا ہے اس کے معاشی، سماجی، ثقافتی، مذہبی، لسانی اور سیاسی حقوق کا تحفظ ہی اس کے اور ریاست کے تحفظ اور سلامتی کی ضمانت ہے۔ اس سے ہیومن سیکورٹی کے تصور نے جنم لیا ہے اس انسانی سلامتی کے تصور کے پیمانے سے اگر کسی ریاست کے عوام خوشحال اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں تو وہ ریاست چاہے نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی حامل کیوں نہ ہو وہ کمزور تصور کی جائے گی اس کی سب سے بڑی مثال سوشلزم کے نظریے پر قائم سوویت یونین کا ٹوٹ کر بکھرنا ہے۔ سوویت یونین نے اپنے تمام وسائل اور ذرائع اسلحے کے انبار اور ایٹم بم جیسے ڈیکوریشن پیس بنانے میں اجاڑ دیے اور عوام کی بنیادی آزادیوں اور اقتصادی ترقی کی طرف توجہ نہ دی جس کے نتیجے میں سوویت یونین کی نظریاتی ریاست تنکوں کی صورت میں ہوا میں بکھر گئی۔
جدید گلوبل ویلج جس کو انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے فروغ نے گلوبل سٹی میں تبدیل کر دیاہے۔ لہذا اب یہ وہ سخت قومیت پر مبنی سرحدوں کی نہیں بلکہ تجارت، علاقائی تعاون، سافٹ بارڈرز اور ایک دوسرے پر انحصار کی دنیا ہے مگر ہم اپنے اعمال، ترجیحات اور کیے گئے فیصلوں سے دنیا سے دور کٹے مرجھا رہے ہیں۔ ہمارے فیصلوں میں جو فلسفہ نظر آتا ہے وہ خوف اور برتری کے گمان پر مبنی ہے، ہمیں نظر آتا ہے کہ ہم دنیا کی افضل ترین قوم ہیں اور باقی تمام دنیا ہمارے خلاف سازشوں میں مصروف ہے۔ قومی سلامتی کے فرسودہ نظریات اور اس خوف اور برتری کی نفسیات نے ہمیں دنیا سے کاٹ کر الگ تھلگ کر دیاہے۔
پاکستان کی سپریم کورٹ نے حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی فرح ناز اصفہانی کی رکنیت معطل کرکے ، اس بحث کا آغاز کیا ہے کہ کیا دوہری شہریت رکھنے والے لوگ پاکستان کی قانون ساز اداروں کے رکن بن سکتے ہیں یا نہیں؟
اٹارنی جنرل عرفان قادر نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ فیصلے سے قبل جج صاحبان کا ذہن بنا لینا منصفانہ سماعت کے خلاف ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی مجبوری میں امریکی شہریت کا حلف اٹھاتے ہیں۔ عدالت میں فرح ناز اصفہانی کی جانب سے تحریری بیان میں ان کا موقف تھا کہ دوہری شہریت کی اجازت آئین میں موجود ہے ان کا کہنا تھا کہ رکن بنتے وقت انہوں نے پاکستان کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھایا تھا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہی اراکین اسمبلی بعد میں وزیر یا وزیراعظم بھی بن سکتے ہیں لہذا وہ اس مقدمے میں سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔
دوہری شہریت کے کیس میں فرح ناز اصفہانی کی رکنیت کی معطلی اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ریمارکس کہ غیر ملکی ہماری اسمبلیوں میں بیٹھ کر قوم کی تقدیر کا فیصلہ نہیں کرسکتے ہیں اس فیصلے سے یہ بنیادی سوال جنم لیتا ہے کہ کیا پاکستانی جن کا جنم پاکستان میں ہوا ہے اور بعد میں انہوں نے کسی وجہ سے غیر ملکی شہریت بھی اختیار کرلی تو کیا وہ پاکستان کے وفادار ہوسکتے ہیں؟ اور کیا وہ پاکستان کی قانون ساز اسمبلیوں کے رکن بن کر قوم کی تقدیر کا فیصلہ کرسکتے ہیں؟ سب سے پہلے فرح ناز اصفہانی سے ہی شروع کر لیتے ہیں۔ وہ تحریک پاکستان کے اہم رہنما قائد اعظم کے قابل اعتماد ترین ساتھی اور پاکستان کے امریکہ میں پہلے سفیر ابوالحسن اصفہانی کی پوتی اور سابق سفیر حسین حقانی کی شریک حیات ہیں۔ ابو الحسن اصفہانی کی مالی، سیاسی اور سفارتی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ساتھ ہی حسین حقانی کو بھی یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے نہ صرف پاکستان میں روشن خیالی اور ترقی پسندی کی جمہوری تحریک کو آگے بڑھایا بلکہ وہ پاکستان کے امریکہ میں سب سے کامیاب سفیر بھی رہے انہوں نے پاکستان کے عوام کا مقدمہ امریکہ کے سامنے پیش کیا اور پہلی مرتبہ امریکہ نے پاکستان کے عوام کی خواہشات اور نقطہ نظر کو سمجھا، یہ پاکستان پیپلز پارٹی کے انسان دوست فلسفہ اور حسین حقانی کی بہت بڑی سفارتی کامیابی تھی۔ ستمبر 2009ئ میں امریکی کانگریس میں منظور ہونے والا کیری لوگر بل جس میں پہلی مرتبہ پاکستان کے عوام کے لیے ایک خطیر رقم رکھی گئی اور اس کے ساتھ امداد کو جمہوری عمل سے مشروط کیا گیا اس بل کی تیاری میں حسین حقانی کی ٴٴان پٹٴٴ اور ویږن کا بہت عمل دخل رہا ہے، جس پر پاکستانی قوم ہمیشہ ان کی شکر گزار رہے گی، مگر بعض اقتدار کے مراکز کے نزدیک یہ ایسا گناہ ہے جس کی سزا حسین حقانی اور اس کے خاندان کو ملتی رہے گی۔ فرح ناز اصفہانی کی پیدائش کراچی میں ہوئی جس سے پاکستان ان کا آبائی وطن بنتا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت ان سے یہ پہچان چھین نہیں سکتی انہوں نے اپنی زندگی کے دو عشرے صحافت کو دیتے ہوئے بین الاقوامی اور قومی میڈیا میں خدمات سرانجام دی ہیں اور ہمیشہ پاکستان کے مفادات اور اس کے عوام کے بنیادی حقوق اور آزادیوں کی بات کی ہے۔ بطور رکن پارلیمنٹ بھی انہوں نے انسانی حقوق، خواتین، مذہبی اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کے لیے ہمیشہ آواز بلند کی ہے۔
جہاں تک پاکستان کی تعمیر و ترقی کا تعلق ہے تو اس میں ایک بڑا کردار اوورسیز پاکستانیوں کی بھیجی ہوئی رقوم اور غیر ملکی امداد کا ہے، تمام شعبوں کی ترقی اور عالیشان تعمیرات میں ہمیں اسی غیر ملکی سرمایہ کی جھلک نظر آتی ہے، تمام عبادت گاہوں، مساجد، مندروں، چرچوں، رفاہی تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کی اینٹوں میں ہمیں انہیں اوورسیز پاکستانیوں کا پیسہ لگا دکھائی دیتا ہے۔ آج ان کی وفاداریوں پر شک کرنا لمحہ فکریہ ہے۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے درست فرمایا ہے کہ برطانیہ کے تین سو سے زائد قونصلرز، میئرز، دارالعمرائ اور دارالعموم کے ممبرز پاکستانی ہیں۔ دوہری شہریت کے مسئلہ پر بحث ہونی چاہیے تھی اور پارلیمنٹ کو اس معاملے پر قانون سازی اور فیصلہ کرنا چاہیے تھا کیونکہ دنیا تبدیل ہوگئی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستانی تارکین وطن کو پاکستان میں ووٹ اور رکن پارلیمنٹ بننے کے حق سے محروم نہیں کرنا چاہیے۔ آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ پاکستانی دہری شہریت نہیں رکھ سکتے اور وہ ممبر پارلیمنٹ اور بیوروکریٹ نہیں بن سکتے۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ اس حق میں ہیں کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملنا چاہیے اور وہ پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوں، قانون اور آئین کسی فرد کے لیے نہیں بنتے بلکہ اس کے لیے ملکی اور عالمی صورت حال کو دیکھنا پڑتا ہے۔
اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ اور رکن پارلیمنٹ بننے کا حق دینا ایک سیاسی معاملہ ہے اور اس پر مختلف سیاسی آرائ ہوسکتی ہیں جیسے پاکستان پیپلز پارٹی کی پوزیشن وزیراعظم گیلانی نے بیان کی ہے لہذا اس معاملے کو قانون سازی کے ذریعے پارلیمنٹ میں طے ہونا ہوگا۔ ہمیں دوہری شہریت کی سزا اوورسیز پاکستانیوں کو نہیں دینی چاہیے جنہوں نے اپنے وسائل اور نیک خواہشات ہمیشہ پاکستان کو دی ہیں جہاں تک حلف کا تعلق ہے تو ماضی میں ہمارے بہت سے جج صاحبان اور فوجی جنرلوں نے آئین کو معطل کرکے اور پی سی او کے تحت حلف اٹھا کر اپنے حلف سے غداری کی ہے۔ آج دنیا واقعی ہی بدل گئی ہے اب ہمیں اپنے نظریات اور خیالات بدلنا ہوں گے۔ قومی سلامتی کے فرسودہ تصور اور خوف پر مبنی سائیکی کے ذریعے اگر ہم اوورسیز پاکستانیوں کو غیر محب الوطن تصور کرتے ہوئے پاکستان کی سیاسی سرحدوں سے بے دخل کریں گے تو اس سے ہم خود ہی دنیا سے الگ تھلگ اور مزید تنہا ہو جائیں گے۔
Source: Daily Mashriq Lahore
لیکن متعصب،جانبدار اور (اب) رشوت خور ججوں سے بھلا کیا توقع کی جاسکتی ہے؟؟؟ فرح اصفہانی کو حسین حقانی کی بیوی ہونے کی سزا ملی۔ رحمان ملک کیسے بے اعتبار آدمی نے شریف برادران کے خلاف ایک دو پریس کانفرنسیں کیا کردیں اسے بھی دھر لیا گیا۔ کمین کے پاس اختیارات آجائیں تو پھر یہی ہوتا ہے ۔