Qabil-e-Rehm Quom

قابل رحم ہے وہ قوم جس کے جج صاحبان فوجی آمریت کو طوالت بخشتے ہیں۔

قابل رحم ہے وہ قوم جو آج کی اس جدید ترقی یافتہ دنیا میں بھی جمہوریت کے ثمرات سے محروم ہے۔ پاکستان کے عوام کی حالت قابل رحم اس لیے رہی ہے کہ یہاں اقتدار اور قوت کے مراکز غیر منتخب ادارے رہے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ تقسیم ہند کے وقت انتقال اقتدار ملٹری سول بیورو کریسی اور جاگیردار طبقے کے اتحاد کو ہوا تھا، عوام اور نمائندہ سیاسی جماعتوں کو نہیں، ملک کی بانی قیادت تو آئینی ڈھانچہ اور قومی پالیسی کے خطوط تیار کیے بغیر ہی اس دنیا سے رخصت ہوگئی، چنانچہ اس پر ایک ایسی سفاک اور طاقتور اسٹیبلشمنٹ مسلط ہوگئی جس نے اپنی برتری قائم کرنے کے لیے سیاسی عمل کے ذریعے جمہوری شہری اور نمائندہ ادارے پیدا نہیں ہونے دیئے۔ عوام کو موقع ہی نہیں ملا کہ وہ اپنے مسائل کا خود اور اپنے نمائندوں اور عوامی اداروں کے ذریعے تجزیہ کریں اور اپنی مستقبل کی راہوں کو جمہوری انداز میں متعین کریں۔ تمام پالیسیاں اور فیصلے غیر منتخب اور عوام دشمن اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے آتے رہے اور شہری گمراہی اور خوف میں ان فیصلوں کو جبراً قبول کرتے رہے۔

پاکستان میں 1953ئ سے لے کر 1957ئ تک تمام پرائم منسٹرز آف پاکستان یا گورنر جنرل آف پاکستان غلام محمد، سکندر مرزا، چودھری محمد علی، آئی آئی چندریگر، محمد علی بوگرہ سب کے سب غیر منتخب بیورو کریٹ تھے۔ تقسیم ہند کے وقت جو ہجرت ہوئی تھی اس میں پاکستان اور بھارت میں فرق یہ تھا کہ پاکستان میں ہجرت کرکے آنے والے زیادہ تر لوگ یہاں کے ریاستی اقتدار کے ڈھانچے کا حصہ بنے، جبکہ بھارت میں ایسا نہیں ہوا جو لوگ ہجرت کرکے پاکستان آئے اور ریاستی اقتدار کا حصہ بنے ان کے یہاں پر حلقے ہی نہیں تھے لہذا انتخابات اور آئین سے اجتناب کیا گیا۔ 1956ئ کے آئین میں سکندر مرزا کے لیے اختیارات بڑھائے گئے تو پھر اس نے آئین کی منظوری دی، بیورو کریسی کی جب قوت آہستہ آہستہ ماند پڑنے لگی اور عوامی سیاسی تحریکیں مضبوط ہونے لگیں تو اس نے خود کو بچانے کے لیے وردی کا سہارا لیا، فوج کے کمانڈر انچیف کو کابینہ میں وزیر دفاع بنایا گیا، 1958ئ میں عسکری قوتوں نے یہ محسوس کیا کہ ہم صرف اقتدار کے آلہ کار کیوں بنیں، بندوق اور قوت تو ہمارے پاس ہے انہوں نے بزور قوت 1956ئ کا آئین بلڈوز کر دیا، 1958ئ میں آنے والا مارشل لائ چار سال بعد ایک فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب کی خواہشات اور ضروریات کے مطابق ایک نیا آئین لے کر آیا۔

ہمارے ہاں جتنے بھی غیر نمائندہ وردی پوش آمر رہے ہیں انہوں نے اپنے تحفظ، اقتدار کی طوالت، اپنی ذات کی مضبوطی اور وسیع اختیارات کے لیے آئین میں ترامیم کیں اسے معطل رکھا اور اس کو سبوتاږ کیا ان غیر نمائندہ آمروں نے خود کو آئین، قانون، پارلیمنٹ اور نمائندہ جمہوری اداروں سے بالادست بنانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔ اسمبلیوں کی خود مختار حیثیت کو تسلیم نہ کیا گیا۔ سکندر مرزا، جنرل ایوب خان، غلام محمد، جنرل ضیائ الحق، جنرل پرویز مشرف نے اسمبلیوں کا مذاق اڑایا اور عوام کے منتخب نمائندہ ایوان کو غیر مہذب کہا گیا۔ اس سارے عمل میں افسر شاہی، عدالتیں اور میڈیا کا ایک حصہ بطور جونیئر پارٹنر شامل رہا۔ ان غیر نمائندہ اداروں کی بالادستی میں جو سیاسی نظام رائج رہا اس میں عوام اور چھوٹے صوبوں کو شرکت کا احساس نہیں رہا تھا اور یوں ریاست اور وفاق سے بیگانگی اور نفرت کا عمل بڑھتا رہا، سقوط ڈھاکہ کے پیچھے بھی یہی محرکات تھے اور آج بلوچستان کے جلنے کے پیچھے بھی یہی عوامل کار فرما ہیں۔

فوج اور بیورو کریسی کے باہمی اتحاد کی مقتدرہ حیثیت کو پہلے بڑے چیلنج کا سامنا مارچ 1954ئ کو کرنا پڑا تھا جب مشرقی پاکستان میں طویل عرصے سے م¶خر کیے گئے صوبائی انتخابات کا بالآخر انعقاد ہوا فوج اور بیورو کریسی کی منظور نظر مسلم لیگ تین سو نو میں سے صرف دس نشستیں حاصل کرسکی۔ باقی تمام نشستیں جگتو فرنٹ کے حصے میں آئیں لیکن ابھی یونائیٹڈ فرنٹ کی حکومت قائم ہوئی ہی تھی کہ گورنر جنرل نے نااہلی کا الزام عائد کرتے ہوئے اسے برخاست کرکے وہاں فوری طورپر فوج کو متعین کر دیا گیا اور آج بھی عوام کے منتخب نمائندوں کو مختلف الزامات کے تحت نااہل قرار دینے کی روایت قائم ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جب بھی کبھی جمہوری طرزپر نافذ کیے گئے آئین کو منسوخ اور منتخب نمائندہ اداروں کو تحلیل کیا گیا ہے تو اعلیٰ عدلیہ نے مشکوک نظریہ ضرورت کے ذریعے غاصبوں کے اقتدار پر قبضہ کرکے اس عمل کی توثیق کی ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کا ہمیشہ نظریاتی جھکائو غیر نمائندہ اداروں کی طرف رہا ہے بلکہ اس نے نظریہ ضرورت کی حمایت میں آئین اور قانون کی حکمرانی کا دفاع کرنے کی بجائے اقتدار غصب کرنے والوں کو جائز قرار دیا ہے۔ فوجی حکومتوں کے تسلسل کی وجہ سے عدلیہ پر اثرات یہ ہوئے کہ عدلیہ سے غیر جانبدار اور غیر نظریاتی ججوں کو بتدریج الگ کر دیا گیا۔ فوجی حکمرانی قائم ہونے کے بعد نظریہ ضرورت کے تحت جاری کردہ فیصلے عدلیہ کے مزاج کا حصہ بنتے گئے، جبکہ اس کے برعکس فوجی حکمرانوں یا مقتدرہ اداروں کے خلاف فیصلہ دینے کی قوت کمزور پڑتی گئی، ساتھ ہی عدلیہ انسانی حقوق کے معاملات پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کی بجائے سیاسی معاملات میں الجھی رہی، جس سے عدلیہ کے اپنے وقار کو بھی ٹھیس پہنچی۔ ساتھ ہی اسٹیِبلشمنٹ نے میڈیا کے ایک حصہ کو استعمال میں لاتے ہوئے جمہوریت اور عوامی نمائندہ اداروں کے خلاف نفرت اور تعصب پر مبنی غیر سائنسی خیالات کو پروان چڑھایا گیا۔

آج جدید انسانی معاشرے میں سیاست اور جمہوریت کے تسلسل، مستحکم نمائندہ سیاسی اداروں اور جمہوری سیاسی کلچرکے بغیر سماجی، اقتصادی اور سیاسی ترقی کا تصور بھی محال ہے۔ جمہوریت اپنا سفر قومی ریاست سے شروع کرتے ہوئے مغرب کے خطے سے گزرتے ہوئے اب بین الاقوامی سرحد میں داخل ہوگئی ہے، جسے اب گلوبل ڈیموکریسی کے تصور سے جانا جا رہا ہے۔ ان پُرامید اور حوصلہ افزائ حالات میں نہ صرف ان غیر منتخب اداروں اور ان کے سربراہوں کے بے رحم چہرے بے نقاب ہورہے ہیں جن کی وجہ سے آج قوم کی حالت قابل رحم ہے، بلکہ یہ بھی محسوس ہورہا ہے کہ یہ عوامی شعور سے مردہ عناصر اپنی آخری سانس گن رہے ہیں۔ جمہوریت نے دیگر تمام متبادل نظاموں کے جواز کو ختم کر دیا ہے اور آج ساری دنیا تسلیم کررہی ہے کہ اخلاقی نظریاتی اور آئینی اعتبار سے جمہوریت ہی بہترین نظام حکومت ہے۔ جیسے جیسے لبرل آئزیشن کے عمل کے ذریعے معیشت، ٹیکنالوجی اور اطلاعات کی ترسیل میں ترقی ہو رہی ہے ریاستی کنٹرول کمزور پڑتا جا رہا ہے اور شہری سیاسی آزادیوں کے لیے دبائو بڑھتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں جہاں جمہوری ارتقائ کا عمل تمام تر مشکلات اور غیر نمائندہ اداروں کی طرف سے کھڑی کی جانے والی رکاوٹوں کے باوجود آگے بڑھ رہ ہے پاکستانی عوام میں بھی یہ خواہش ہے کہ وہ جدید جمہوری معاشروں میں بسنے والے عوام کی طرح مہذب اور خوشحال زندگی گزاریں وہ یہ بھی چاہتے ہین کہ ان کو ریاست میں اہمیت ملے۔ عوام اپنی خواہشات کا اظہار ووٹ کی طاقت سے کرتے ہیں۔ 1970ئ سے لے کر اب تک تمام عام اور ضمنی انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کا سب سے زیادہ ووٹ لینا اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام کا اعتماد پی پی پی پر ہے۔ بلاشبہ آج یہ پارٹی پاکستان میں جمہوریت اور وفاقیت کی سب سے نمایاں علامت ہے اور چونکہ اس نے ہمیشہ قابل رحم قوم کی بات کی ہے اور اس نے سیاسی شہری حقوق کے لیے آواز بلند کی ہے جس کی وجہ سے اس کو مقتدرہ اداروں اور غیر نمائندہ قوتوں کی طرف سے ہمیشہ ٹارگٹ کیا گیا ہے۔ اور آج تک یہ انصاف کی تلاش میں بھٹک رہی ہے۔ 2008ئ کے انتخابات کے بعد حکومت کی تشکیل سے لے کر اس کے آخری بجٹ تک ایک مسلسل سازشوں کا جال بنا گیا ہے اور اس کی قیادت کو مسلسل نشانہ بنایا گیا ہے۔ لہذا آج ہمارے ٹاک شوز کے اینکرز اور ہر شو میں موجود رہنے والے ٟاعلیٰٞ سیاسی دفاعی دانشور حضرات جو وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت کے فیصلے کے بعد اپنی عدالتیں لگائے بیٹھے ہیں اور جو جسٹس کھوسہ کے اضافی نوٹ کے بعد قابل رحم قوم کی حالت پر ماتم میں مصروف ہیں اور عوام کو مسلسل جمہوری حکومت کے خلاف بغاوت پر اکسا رہے ہیں انہیں اپنی چیخنے چلانے والی گفتگو میں پاکستان کی بے رحم سیاسی تاریخ، بے رحم غیر نمائندہ اداروں کے کردار اور موجودہ جمہوری ارتقائ کی اہمیت، مشکلات اور اس کے راستے میں سازش کرنے والے عناصر کو بھی جگہ دینا ہوگی، ورنہ آنے والی نسلیں ٹاک شوز میں بیٹھے ہوئے ان چہروں کو انہیں بے رحم چہروں میں دیکھی گئی جس نے قوم کو اس قابل رحم حالت تک پہنچایا ہے۔

Source: Daily Mashriq Lahore

Comments

comments

Latest Comments
  1. Adil
    -
  2. Rehman
    -
  3. zahid mehmood
    -
  4. Balklänningar
    -