On Hussain Haqqani’s interview with Sana Bucha

حسین حقانی کے خدشات

امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے ایک نجی ٹی وی کے ٹاک شو میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ طبعیت کی خرابی اور درپیش خطرات کے پیش نظر فی الحال پاکستان نہیں آسکتے ہیں، جہاں تک ان کی صحت کا معاملہ ہے اس کے بارے میں تو فیصلہ ان کے ڈاکٹرز ہی کریں گے جیسا کہ انہوںنے خود بھی فرمایا ہے کہ اس ضمن میں ان کے ڈاکٹرز کا ہی حتمی فیصلہ ہوگا جیسا کہ بین الاقوامی روایات اور قوانین ہیں۔ اگر میمو کمیشن چاہے تو وہ اپنے ڈاکٹرز کو ساھ بٹھا کر ویڈیو لنک کے ذریعے بیان قلمبند کروانے کے لیے تیار ہیں۔ ویسے بھی بقول عاصمہ جہانگیر صاحبہ عدالت کو بیان چاہیے جان نہیں چاہیے۔ ہم اس کالم میں ان خطرات خدشات اور شکایات کا تزکرہ کریں گے جن کا اظہار حسین حقانی صاحب نے اپنے تفصیلی اور جامع انٹرویو میں کیا ہے۔

حسین حقانی نے فرمایا ہے کہ پاکستان میں انکی زندگی کو جو خطرات درپیش ہیں وہ میمو سے بڑی حقیقت ہیں وہ ان لوگوں کی یقین دہانی پر آنے کے لیے تیار نہیں ہیں جنہوں نے ان لوگوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جنہوںنے سلمان تاثیر کے قاتل پر پھول برسائے، ان وکلائ کے لائسنس منسوخ نہیں کیے گئے اور نہ ہی ان کو سزائیں دی گئیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم نے سلمان تاثیر کے قتل کے بعد پاکستان میں انتہا پسندی کی عفریب کو دیکھا ہے اور بین الاقوامی دنیا نے بھی پاکستان میںبنیاد پرستی اور مذہب کے نام پر لاقانونیت کے کینسر کو بڑی شدت سے محسوس کیا ہے اس سے پہلے تصور یہ تھا کہ پاکستان میں ایک خاموش اکثریت ہے جو کہ روشن خیال، اعتدال پسند اور قانون و انصاف پر یقین رکھنے والی ہے مگر یہ بھرم اس واقعہ کے بعد ٹوٹ گیا جب صورت یہ ہو کہ قانون کے محافظ ہی لاقانونیت اور قانون کو ہاتھ میں لینے کے عمل کی حمایت کریں تو صورت حال اور بھی گھمبیر ہو جاتی ہے اور جب ججوں کی صفوں میں سے ہی کوئی نکل کر ایسے شخص کا وکیل بن جائے تو حسین حقانی جیسے روشن خیال اعتدال پسند اور جدید فکر رکھنے والے شخص کے لیے یقینی طور پر شدید ترین خطرات ہیں جب اختلاف رائے کی بنیاد پر کسی کو بھی غدار اور کافر قراردے کر قتل کیا جا سکے ایسے لاقانونیت کے ماحول میں حسین حقانی کو پاکستان میں آکر اپنا بیان قلمبند کروانے پر تحفظات ہیں۔

حسین حقانی کو شکایت ہے جیسا کہ بین الاقوامی دنیا کو بھی یہ نظر آرہا ہے کہ شاید پاکستان میں انصاف مساوی بنیادوں پر نہیں ہو رہا۔ ایک غیر ملکی کا بیان تو ریڈ کارپٹ بچھا کر ویڈیو لنک کے ذریعے لیا جائے جو کوئی بھی ٹھوس ثبوت پیش نہ کرسکے مگر اپنے ہی ایک سابق سفیر کے ساتھ مساوی طورپر سلوک نہ کرنا اور اس کو وہی سہولیات فراہم نہ کرنا انصاف نہیں ہوگا۔ حسین حقانی نے کہا ہے کہ انہوں نے میمو عدالتی کمیشن سے پورا تعاون کیا ہے اور ان کے خلاف کوئی الزام ثابت نہیں ہوا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہوں نے چار دن کے نوٹس پر آنے کی اس صورت میں یقین دہانی کروائی تھی اگر منصور اعجاز پاکستان آکر بیان قلمبند کرواتا۔ مساوی سلوک کی بات کرتے ہوئے انہوں نے بڑے واضح انداز میں کہا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو اور اس کی پارٹی کے لوگوں کے ساتھ بھی کبھی انصاف ہونا چاہیے۔ اس ضمن میں انصاف فراہم کرنے والے ادارے تعصبات روا رکھتے ہیں جس کا سامنا حسین حقانی کو بھی کرنا پڑرہا ہے۔

حسین حقانی نے انٹرویو میں خارجہ پالیسی کے حوالے سے بڑی تفصیلی اور جامع گفتگو کی، ان کا کہنا تھا کہ خارجہ امور کے بارے میں جیسا کہ ہمارے ہاں تصور موجود ہے کہ ایک ہی رائے حتمی اور مستند ہوسکتی ہے، دنیا بھر میں جس طرح خارجہ پالیسی کی تشکیل عوامی نمائندہ ادارے کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی انہی بنیادوں پر خارجہ پالیسی کی ترتیب ہونی چاہیے۔ امریکہ سے تعلقات کے حوالے سے عقلی اور زندہ حقیقتوں کے برعکس ہمارے ہاں ہیجان پر مبنی بحث و مباحثہ کو فروغ دیا جاتا ہے جو انتہا پسندی کے فروغ کا باعث بنتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ایک مضبوط سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت ہر ملک کو ہوتی ہے مگر اس کا کام خارجہ پالیسی بنانا اور اپنے ملک کے سفیروں کے خلاف جھوٹی سچی خبریں پھیلانا نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کا کام میڈیا مینجمنٹ ہوتا ہے ان مقتدرہ اداروں کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہوئے انہوں نے کہاکہ مشاہدہ اور تجزیہ کا عالم تو یہ ہے کہ اسامہ بن لادن یہاں رہ رہا ہوتا ہے اور کسی کو خبر نہیں ہوتی، امریکہ ہماری سرحدی خود مختاری کو پامال کرکے ایبٹ آباد آپریشن کرکے چلا گیا او رکسی کو خبر نہ ہوئی اس پر تو نہ ہی کوئی کمیشن بنا، پھر مہران بیس کا واقعہ ہوتا ہے مگر اس پر کوئی کمیشن نہیں بنتا، حتیٰ کہ جی ایچ کیوپر حملہ ہوتا ہے اس پر بھی کوئی کمیشن نہیں بنتا مگر ایک شخص جس کو بین الاقوامی دنیا ایک مسخرہ سمجھتی ہے اس کے ایک مضمون پر عدالتی کمیشن مقرر کر دیا جاتاہے ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کا سربراہ میاں نوازشریف ہاتھ میں پٹیشن لے کر عدالت پہنچ جاتا ہے جس عدالت میں خصوصی پروٹوکول ملتاہے اور اس مرتبہ بھی نہ صرف پیپلز پارٹی کے ساتھ مساوی سلوک روا نہیں رکھا جاتا بلکہ ان کے قائدین کو غداروں کی فہرست میں جگہ ملتی ہے۔

حسین حقانی نے میڈیا کے کردار کے حوالے سے بھی شکایت کی کہ میڈیا جانبدار اور غیر ذمہ دارانہ کردار ادا کرتا رہا ہے۔ سلمان تاثیر کے حوالے سے میڈیا کی حساس ترین ایشو پر غیر ذمہ دارانہ رپورغنگ اور انوکھی میڈیا کوریج نے انہیں غلط طور پر توہین رسالتػ کا مرتکب ٹھہرا دیا اور ان کی حفاظت پر مامور سرکاری محافظ نے انہیں قتل کردیا، میڈیا مبصرین اور تجزیہ نگاروں کے مطابق ٹی وی کمرشل ٹاک شوز کے اینکرز اور مہمانوں کے اشتعال انگیز تبصرے سابق گورنر پنجاب کے قتل کے بالواسطہ ذمہ دار ہیں۔ اس کے علاوہ میڈیا کا ایک خاص سیکشن اپنے نقطہ نظر سے اختلاف رکھنے والوں کو غدار، امریکی یا بھارتی ایجنٹ بھی قرار دیتا رہا ہے۔ اس فضائ میں حسین حقانی سمیت ان تمام پروگریسو، لبرل او رجدید نقطہ نظر رکھنے والوں کو شدید ترین خطرات لاحق ہیں جو جمہوریت، آزادی فکر اور رائے، بنیادی انسانی حقوق اور ایک جدید روشن خیال معاشرے کی بات کرتے ہیں۔ موجودہ انتہا پسندی کے ماحول اور ریاستی اداروں میں موجود غالب رجعت پسند فکر کی موجودگی میں یقینی اعتبار سے حسین حقانی کے ساتھ تعصب روا رکھا گیا ہے جس سے پاکستان میں ان کے لیے خطرات موجود ہیں۔

حسین حقانی نے اپنے انٹرویو میں جس اہم ترین نقطہ کی طرف اشارہ کیا ہے اس پر غور و فکر کی انتہائی ضرورت ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمیں خارجہ پالیسی امریکہ بھارت سمیت دیگر ہمسایوں سے تعلقات ریاست کے جدید ڈھانچے کی ازسر نو تشکیل اورجدید معاشرے کے قیام کے لیے جمہوریت، وفاقیت اور انسانی زندگی کی اہمیت کے حوالے سے علمی اور عقلی بنیادوں پر بحث و مباحثہ کا آغاز کرنا ہوگا۔ اس وقت جو ہمارے ہاں غالب رائے عامہ ہے وہ کسی فکری تحریک کے نتیجے میں وجود میں نہیں آئی ہے بلکہ یہ غیر ذمہ دارانہ ٹی وی ٹاک شوز، ان کے اینکروں، ریٹائرڈ سول اور فوجی افسران جن کو میڈیا دفاعی اور سفارتی ماہرین کے طور پر پیش کررہا ہے اور ان سیاستدانوں کے پروپیگنڈہ سے معرض وجود میں آئی ہے جن کو عوام نے گزشتہ انتخابات میں بری طرح مسترد کر دیا تھا اور جن کی پارلیمنٹ میں ایک بھی سیٹ نہیں ہے یہ لوگ اپنے سیاسی مفادات کے پیش نظر سیاست، جمہوریت اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے علمی فکری بحث کرنے کی بجائے قوم میں ایک ہیجان، انتہا پسندی اور جمہوریت سے نفرت کو فروغ دے رہے ہیں۔ حسین حقانی امریکہ بھارت سے بہتر باعزت اور بامعنی تعلقات کی بات کررہے ہیں۔ ان کے نزدیک ڈرون کو گرانا بیانات تک تو ٹھیک ہے مگر یہ بچگانہ اور ہیجان پیدا کرنے والے بیانات ہیں اور اس کی حقیقت کرپشن پر نعرہ بازی کی طرح ہے ہوسکتا ہے ان کے خیالات اور فکر سے بہت سے لوگ اختلاف رکھتے ہوں یہ ان کا جمہوری حق ہے، مگر ان کو امریکہ کا سفیر قرار دینا ان کی حب الوطنی پر شک کرتے ہوئے انہیں غدار قرار دینا، یقینی طورپر ان کی زندگی کو شدید ترین خطرات میں ڈالتا ہے۔ ان کی فکر سے اختلاف رائے کی صورت میں ایک علمی، عقلی اور منطقی بحث ہونی چاہیے اس سے ہم ایک میچور ترقی یافتہ اورجدید ریاست بن سکتے ہیں۔

پاکستان پیپلزپارٹی ایک لبرل، پروگریسو،جمہوریت اور بنیادی انسانی حقوق پر ایمان رکھنے والی قومی وفاقی سیاسی جماعت ہے جو مذہبی تنوع اور ثقافتی کثیر الجہتی کی حامی ہے اور جس کو پاکستان کی رجعت پسند قوتوں کا سامنا ہے، جو عقل و منطق کی بجائے بندوق اور دہشت پر یقین رکھتی ہے جو پاکستان کو پسماندہ اور فرسودہ رکھنے کے لیے اس کے تعلیمی اداروں کو بموں سے اڑا رہی ہے، جس کے نزدیک انسانی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں ہے جن کی فکر و فلسفہ کی وجہ سے آج پاکستان کی مساجد، امام بارگاہیں، چرچز، مندر اور دیگر مذہبی مقامات محفوظ نہیں رہے۔ حسین حقانی جیسے لوگ پاکستان کو ان رجعت پسند قوتوں کے رحم و کرم پر چھوڑنا نہیں چاہتے، یہ وہ فکر اور خیال کا اختلاف ہے جو ان کی زندگی کو پاکستان میں غیر محفوظ کررہا ہے۔

Source: Daily Mashriq Lahore

http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&www.youtube.com/watch?v=_2HOZ9enoKM

Comments

comments

Latest Comments
  1. Naeem Kazmi
    -
  2. Shoaib Mir
    -
  3. Aabid
    -
  4. Noureen
    -
  5. Rabia
    -
  6. Shafaqat
    -
  7. Sameer
    -
  8. Mah Jabeen
    -
  9. Natasha
    -
  10. Kafil Ahmad
    -
  11. Ahmad
    -
  12. Bilal
    -
  13. Muhammad
    -
  14. Maqsood
    -