Eyewitness report: What exactly happened with Shia passengers in Chilas? – by Ali Raza

Ali Raza (Eyewitness)

On 3 April-2012, at least 100 Shia Muslims were killed and over 250 abducted in Chilas area of Gilgit-Baltistan when a mob of 2000 Deobandi-Jihadi militants of Sipah-e-Sahaba Pakistan (Ahle Sunnat Wal Jamaast) stopped several buses on the Karakoram Highway near Chilas, pulled out the passengers, checked their identity documents and physical marks (Shia men usually have self flagellation marks on their back due to Muharram mourning rituals), segregated Shia Muslims killing at least 100 of them and abducting another 250.

LUBP have previously published eyewitness accounts of three Shia survivors of the Chilas massacre. Also there is an audio interview by Nakvisson. We are now publishing the account of another eye witness whose narrative in English and Urdu languages is provided below.

An eyewitness Ali Reza spoke to Islam Times and provided an account of the massacre of Shia Muslim in Chilas:

“There were dozens of buses in the convoy which was protected by police. However, I could sense right from the beginning that something was going to happen. Our convoy was delayed on the way for several hours in different spots. At Buner Farm in district Diamer, thousands of people stopped the buses near the police station. Dozens of people were on motorbikes and they all had weapons. Then suddenly thousands of stones were hurled at the buses. Women and children started screaming. They dragged the men out, checked their ID cards and shot them dead on the spot. Then the slogans of “Shias are infidel” was raised in the air. When I got out, I grabbed a 4 year old child of another women and pretended to travelling without an ID card. They checked my back and found no marks of flagellation (a Shia mark). They let me go with the woman and her child. I saw a woman grabbing on to the hand of another male, who was shot in front of her. Many men were killed in front of us by stone pelting. Then a passenger from Skardo was dragged out. Tens of men attacked him with baton, stones and knives. He was screaming and calling Imam Hussain when one person raised a large stone of twenty five pounds and dropped on his face. I saw several dead bodies were dragged and thrown in the river Indus.

The terrorists were entering the police station and coming out with weapons. There was one person who was putting up a fight with empty hands. The terrorists dragged him towards the river and then I do not know what happened to him. Thousands of people were shouting, “Shias are non Muslims” thus legitimising butchering of innocent men and youth. Later we were taken to a house in Thalichi. There, the women informed that three men jumped in the river to save their lives. One was running towards the river when he was shot at from behind. At least 50 people lost lives as per my observation but the media is trying to hide the truth.” (Source)

Narrative in Urdu:

سانحہ چلاس کا آنکھوں دیکھا حال

سانحہ چلاس کا ایک عینی شاہد علی رضا دہشتگردوں کے ہاتھوں سے بچ کر سکردو پہنچنے میں کامیاب ہوا۔ اسلام ٹائمز کو اپنے مشاہدات بتاتے ہوئے علی رضا نے جو گفتگو کی اسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔ تفصیلی گفتگو کچھ یوں ہے

دو اپریل کی رات 8 بجے باقی مسافروں کے ہمراہ میں بھی راولپنڈی سے سکردو کے لیے روانہ ہوا۔ راستہ بھر میں کنوائی کے نام پر گھنٹوں بسوں اور گاڑیوں کو روک کر رکھا گیا۔ ایک درجن سے زائد بسیں گلگت بلتستان جانے والی تھیں۔ راولپنڈی سے نکلتے وقت میرے ایک ہی عزیز کو علم تھا جبکہ باقی احباب سے میں نے خفیہ رکھا تھا، تاکہ دیر سویر کی صورت میں وہ پریشان نہ ہوں۔ راستہ بھر میری چَھٹی حس مجھے کسی دلسوز المیہ کا پتہ دے رہی تھی، لیکن میں برابر اسے وہم سمجھ کر ٹالتا رہا۔

اس دشوار سفر میں بار بار سانحہ کوہستان ذہن میں ابھرتا تھا، پھر میں دل ہی دل میں منصوبہ بندی کرتا رہا کہ اگر خدانخواستہ دہشتگرد بسوں میں آئے تو میں کسی ایک دہشتگرد کا اسلحہ چھین لوں گا اور باقی دہشتگردوں کو ماروں گا اور مسافروں کو محفوظ طریقے سے سکردو پہنچاوں گا۔ یہ سارے خیالات تھے، جو آپ سے شیئر کر رہا ہوں، لیکن میں نے اپنی آنکھوں سے جو مناظر دیکھے، خدا کسی دشمن کو بھی نہ دکھائے۔ راستہ بھر کے منصوبے خاک میں مل گئے۔ بے سروسامانی اور ہزاروں بپھرے قاتلوں کی بھیڑ میں جو کچھ ہوا، فی الحال وہ سب کچھ بیان کرنیکا حوصلہ نہیں۔

جیسے ہی ہم چلاس میں گونر فارم کے قریب پہنچے تو اردگرد ہزاروں لوگ موجود تھے۔ کئی درجن موٹر سائیکل سواروں نے ہمیں رکوایا۔ تقریباً وہ سب لوگ مسلح تھے۔ میں نے کھڑکی سے جھانکا تو قریب ہی پولیس تھانہ اور عوامی اجتماع کو دیکھ کر مطمئن ہوا۔ موٹر سائیکل سواروں نے بس کو رکوایا، ہوائی فائرنگ شروع ہوگئی، دائیں بائیں سے ہزاروں کی تعداد میں موجود بھیڑئے امڈ آئے اور بس پر پتھراؤ شروع کر دیا۔ اتنے میں دروازہ کھولنے کو کہا۔ میرے قریب چند خواتین اور ان کی گود میں چار سالہ بچہ بھی تھا۔ وہ خواتین دھاڑیں مار مار کر رونے لگیں۔ بس کا دروازہ کھلوایا اور کہا ایک ایک کر کے نیچے اتریں۔ میں پیچھے تھا۔ پہلا مظلوم شخص شاید ان کا تعلق گلگت سے تھا وہ نیچے اتر ہی تھا کہ ایک کربناک آواز آئی۔ ابھی تک معلوم نہیں تھا کہ آواز کس کی ہے، دوسرا شخص بھی نیچے اترا۔ وہاں سے پوچھنے کی آواز آئی شناختی کارڈ دکھاؤ۔

تھوڑی دیر کے توقف کے بعد گولیوں کی آواز آئی اور ساتھ ہی شیعہ کافر کے نعرے بلند ہو گئے۔ بس سے مسافرین کانپتے، لرزتے قتل گاہ کی جانب بڑھ رہے تھے۔ سب کی زبان سے یااللہ مدد کا ورد جاری تھا۔ جب میری باری آئی میں نے اس معصوم بچے کو اٹھانے میں اس عورت کی مدد کی اور اس خاتون کو حوصلہ دیا اور کہا انشاءاللہ کچھ نہیں ہو گا، آپ بے فکر ہو جائیں، اس خاتون نے کہا کہ کچھ نہیں ہو رہا تو ان گولیوں کی آواز کیا ہے۔ میں باہر نکلا تو کئی لمبی لمبی داڑھی والے بوڑھے موجود تھے۔ انہوں نے میرے شناختی کارڈ کا پوچھا تو میں نے نفی میں سر ہلایا۔ انہوں نے میری قمیض اوپر کی اور پشت دیکھ کر کہا یہ شیعہ نہیں ہے زنجیر کی کوئی علامت نہیں۔ میں آگے بڑھ رہا تھا۔

ہمیں سائیڈ پر بلایا، لیکن میں کیا دیکھتا ہوں میرے ارد گرد 25،20 لاشیں پڑی تھیں۔ میں ان لاشوں سے گزر رہا تھا۔ میرے آگے والی بس سے بھی لوگوں کو اتار کر مار رہے تھے۔ میں نے قیامت کا وہ منظر دیکھا، جب ایک میاں بیوی یا شاید بہن بھائی ہوں، کو بس سے اتارا گیا۔ وہ دونوں شکل سے گلگت کے لگ رہے تھے۔ دہشتگردوں نے اس آدمی کے ہاتھ کو کھینچ کر دوسری طرف لے جانا چاہا تو اس خاتون نے چیختے چلاتے دوسرے ہاتھ کو دوسری طرف کھینچ لیا تو اس خاتون کے سامنے ہی گولی چلائی گئی۔ مجھ میں جرأت نہیں کہ اس خاتون کے سامنے اس کے عزیز کو تڑپتے سسکتے دیکھوں، لہٰذا میں نے اپنی نظریں پھیر لیں۔ کئی مرتبہ سوچا ان ظالموں پر حملہ کر دوں، لیکن ہزاروں درندوں میں اکیلا آدمی کیسے حملہ کرے۔؟

میری نظر دوسری طرف پھر گئی تو میں نے کیا دیکھا کہ سکردو کے ایک شخص کو پیچھے والی گاڑی سے نکال کر باہر لایا گیا۔ پتہ نہیں میری گناہگار آنکھوں نے یہ دلخراش منظر کیسے دیکھا، جب اس مظلوم پر پتھروں، ڈنڈوں اور ہر اس چیز سے جو ان کے ہاتھوں میں تھی حملہ شروع ہو گیا۔ میں نے کچھ دیر یہ منظر بھی دیکھا، لیکن اس وقت اس کی طرف نہیں دیکھ سکا، جب وہ حملوں کی تاب نہ لا کر زمین پر گر پڑا۔ وہ زور زور سے یاحسین ع کہہ رہا تھا۔ ایک ظالم نے پانچ سے دس کلو کا ایک بڑا پتھر اٹھا کر اس کے سر کی طرف پھینکا تو مجھ سے دیکھا نہیں گیا۔ اتنے میں میری نظریں ان ظالموں پر پڑیں جو چار پانچ بے گناہ شہیدوں کی لاشوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر دریا برد کر رہے تھے۔

میری بائیں طرف پولیس کا تھانہ تھا، جہاں دہشتگرد داخل ہو رہے تھے اور مسلح ہو کر باہر نکل رہے تھے۔ وہاں کربلا کا منظر تھا۔ کسی پر چھری چل رہی ہے، کسی پر ڈنڈے برسائے جا رہے تھے، کسی کی چیخ، کسی کی پکار، ہر طرف خون، شیعہ کافر کے نعرے اور لاشوں کی بے حرمتی۔ کمسن دہشتگردوں کے ہاتھوں میں بھی اسلحہ، بھائی کا بہن کے سامنے تڑپنا، بھائی کا بھائی کی نظروں کے سامنے شہید ہو جانا، یہ سب وہ دلدوز مناظر ہیں جو میں زندگی بھر نہیں بھول سکتا۔ یہ وہ مناظر ہیں جن سے پہاڑوں کے دل دہل جائیں اور انسانیت کا سرشرم سے جھک جائے۔

ہاں ایک بات آپکو بتا دوں کہ میں نے ایک جرأت مند جوان کو دیکھا، جو خالی ہاتھ انسان نما درندوں سے لڑ رہا تھا۔ میں نے اسے اپنی بساط کے مطابق کسی پر مکا، کسی پر پتھر مارتے ہوئے دیکھا۔ اس پر گولیاں تو نہیں چلائی گئیں لیکن پانچ چھ درندہ صفت دہشتگرد اسے گھسیٹ کر بس کی دوسری طرف دریا کی سمت لے گئے۔ پھر نہیں معلوم انہیں کس بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا گیا۔
جہاں تک کئی زندہ مسافروں کے دریا میں چھلانگ لگانے کا تعلق ہے تو وہ میں نے خود نہیں دیکھا البتہ جب ہمیں وہاں سے عورتوں اور دیگر لوگوں کے ساتھ ’’تھلی چے‘‘ نامی مقام پر کسی کے گھر میں لے جایا گیا تو کئی لوگوں نے ذکر کیا کہ تین مسافروں نے دریا میں چھلانگ لگا دی ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور نے کودنے کی کوشش کی تو اس پر برسٹ مارا گیا۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں شہداء کی تعداد جس کو میڈیا سولہ بتا رہا ہے، وہ غلط ہے اور لوگوں کو گمراہ کرنے کیلئے ہے۔ اس سانحہ میں شہید ہونے والوں کی تعداد کم از کم 50 کے قریب ہے۔

Source: Islam Times

Report by senior journalist Shireen Mazarai
We need to wake up to the slaughter of Shias in Gilgit. Rulers “solution” is to black out news instead of strong action to protect citizens!
Some info from Gilgit sources: all communication cut between Gilgit and the world; Approx 200 Shias martyred in last 3 days.
Approx 150 Shias’ eyes removed from their faces which then smashed with stones. Govt enforced curfew only in Shia areas so criminals free!
Ground/ air transportation blocked to & from Gilgit. Police arresting mainly Shias. Strike has led to food/water shortages!
Source: Wolrd Shia Forum

Law and order situation became volatile in Gilgit-Baltistan (GB) as people in Skardu and other parts of GB took out protest rallies against Pakistan army and ISI and condemned the killings and abductions. Instead of arresting the ASWJ-SSP militants responsible for the Shia massacre, Pakistan army and police arrested 300 Shias who were leading the protests at various cities of Gilgit Baltistan against Shia massacre in Chilas.

Sources said security forces carried out raids in several parts of the city and arrested over 300 innocent people including Shia activists and clerics to bar them from leading demonstrations against the Pakistani government. Security forces have also set up pickets outside the Central Imamia Masjid of Shia Muslims in the Gilgit city and people were restricted from offering Friday prayers. Reportedly, law enforcement agencies also raided several places in the city to arrest Shia leader Agha Rahat al Hussaini. Curfew is currently imposed in all the major towns, and people are being punished by starving them to death without any access to food, medicines and other basic needs.

In Skardu, tens of thousands of Baltis staged rallies demanding the government to hand over bodies of up to 250 Shias who were killed on Tuesday. According to some reports, 250 people were killed and around 300 passengers – who were on their way to GB from other cities – have gone missing. This figure includes around 75 passengers belonging to Skardu that have gone missing. Sources claimed that dozens of decomposed bodies had been recovered form from various parts of the GB.

It is being speculated that the grenade attack on an ASWJ-SSP gathering was a handiwork of an ASWJ-SSP insider in order to create further momentum for Shia genocide, which was clearly reflected in the pre-planned massacre of at least 100 Shia Muslims in Chilas two hours after the grenade attack. However, Pakistan army-controlled media has censored and blocked all news reports about Shia massacre in Chilas, and has been instructed to describe the State-sponsored Shia genocide in Gilgit Baltistan and other parts of the country as routine sectarian violence between Sunnis and Shias.

Context:

Since mid 1970s, Pakistan army has been continuously encouraging sectarian polarization in Gilgit-Baltistan to plant Jihadist proxies as controllers of this important region. The situation worsened dramatically under General Zia-ul-Haq, when the military dictator encouraged cadres of the radical Sunni-Deobandi Sipah-e-Sahaba Pakistan (SSP, now ASWJ) to extend its activities to the Gilgit-Baltistan region. ISI-backed Jihadi-Deobandi extremist organizations are now engaged in activities like bomb blasts and killings that provoke sectarian clashes usually leading to Shia genocide.

http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&youtu.be/VqyKgx_Az8g

Comments

comments

Latest Comments
  1. Rahat Ali Changezi
    -
  2. Baqi Khan
    -
  3. Abbas Shigri
    -
  4. Haji Agha
    -
  5. Baqi Khan
    -
  6. Social Media Watch
    -
  7. Tahir Jadoon
    -
  8. Noman
    -
  9. Political Shia
    -
  10. Political Shia
    -
  11. Nawaz Memon
    -
  12. Rahat Ali Changezi
    -
  13. Haroon
    -
  14. Political Shia
    -
  15. Political Shia
    -
  16. Mussalman
    -
  17. Abbas Shigri
    -
  18. Nasir Hazara
    -
  19. Mujahid Kazmi
    -
  20. Tahir Jadoon
    -
  21. Shia Killing
    -
  22. Shia Killing
    -
  23. Ch. Azmat
    -
  24. Shia Killing
    -
  25. Haider Toori
    -
  26. Ali
    -
  27. Ali
    -
  28. Haider Toori
    -
  29. Haider Toori
    -
  30. Basharat
    -
  31. Rusty Walker
    -
  32. syed shahbaz
    -
  33. Baraj Yolu
    -
  34. Abercrombie Fitch Hoody Women
    -
  35. ipjegjedd
    -