India offers Pakistan electricity and economic-centric foreign policy
My Editorial published in the Daily Mashriq
بھارت نے پاکستان میں جاری توانائی کے بحران کو فوری طور پر حل کرنے کے لیے 5ہزار میگاواٹ بجلی روزانہ کی بنیاد پر فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے۔ بجلی کی یہ فراہمی بلاتاخیر پنجاب کے راستے ممکن ہوگی۔ یہ پیشکش بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے جنوبی کوریا میں منعقدہ جوہری کانفرنس کے موقع پر مختصر بات چیت کے دوران پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے کی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان نے اگرچہ یہ پیشکش قبول کر لی ہے مگر حتمی جواب دینے سے قبل اس پیشکش کا مناسب سطح پر جائزہ لیا جائے گا۔ وزیراعظم گیلانی نے اس پیشکش پر اپنے بھارتی ہم منصب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی ہے کہ اسلام آباد جلد نئی دہلی کو اس معاملے پر مناسب چینل کے ذریعے جواب دے گا۔ یاد رہے بھارت دنیا میں بجلی پیدا کرنے والا پانچواں بڑا ملک ہے یہ 700 ارب کلو واٹ بجلی پیدا کرتا ہے جس کا نصف سے زائد حصہ کوئلہ کے ذریعے پیدا ہوتا ہے۔
پاکستان میںچونکہ پارلیمانی جمہوریت بہت ہی متزلزل بنیادوں پر قائم رہی ہے اور یہاں طویل آمرانہ ادوار اور ان میں بننے والی پالیسیوں نے پاکستانی سماج، سیاست، خارجہ پالیسی اور عوام کے رجحانات پر بدترین اثرات مرتب کیے ہیں۔ فوجی حکومتوں کے تسلسل اور عوامی نمائندہ اداروں کے بار بار تحلیل ہونے اور آئین کی معطلی سے پارلیمانی نظام مستحکم نہ ہوسکا اور ہم معیشت اور تجارت پر مبنی خارجہ پالیسی تشکیل نہ دے سکے۔ غیر جمہوری ادوار میں خارجہ پالیسی کی تشکیل جن نظریاتی اور سلامتی کے تصورات پر کی گئی اس سے نہ صرف ہم سفارتی سطح پر دنیا سے کٹ کر رہ گئے بلکہ یہاں کے عوام بھی غربت جہالت اور اندھیروں کا شکار ہوگئے۔ آج کی جدید جمہوری دنیا میں خارجہ پالیسی کی تشکیل اور مفاد کی ذمہ داری عوام کی منتخب سویلین حکومت پر ہوتی ہے جس کو پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہوتی ہے۔ یہ اپوزیشن اور غیر منتخب اداروں کی صوابدید نہیں ہے۔مگر بدقسمتی سے پاکستان میں طویل فوجی آمرانہ ادوار میں جمہوری تقاضوں، انسانی آزادیوں اور معاشی تجارتی مفادات کے برعکس سلامتی اور دفاع کے تصورات کو اولیت دیتے ہوئے پالیسیاں تشکیل دی گئیں۔ بظاہر آج بھی پاکستان میں خارجہ پالیسی پر فیصلہ سازی اور اس پر عملداری سیکورٹی اور انٹیلی جنس اسٹیبلشمنٹ کی دسترس میں دکھائی دیتی ہے ہمارے ہاں جو سفارتی تنہائی نظر آرہی ہے اس کے بنیادی اسباب یہی ہیں کہ ہم نے نظریاتی سلامتی کی ریاست بننے کی لاحاصل جدوجہد میں ہمسایہ ممالک اور بین الاقوامی دنیا سے تجارتی اور معاشرتی تعلقات قائم نہیں کیے جس کی وجہ سے ملک میں انتہا پسندی کو بھی فروغ ملا۔
پاکستان میں اگر کسی منتخب حکومت نے تجارت اور معیشت پر مبنی خارجہ پالیسی تشکیل دینے کی کوشش کی ہے تو اس حکومت کو سازش کے ذریعے ختم کردیا گیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے بھارت کے ساتھ تعاون اور تجارت کی بات کی تو انہیں سیکورٹی رسک قرار دے دیا گیا۔ میاں نواز شریف نے بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ ٴاعلان لاہورٴ کیا تو کارگل میں آپریشن کرکے حکومت کے خاتمے کی راہ ہموار کر دی گئی ۔ موجودہ حکومت نے امریکہ کے ساتھ کیری لوگر بل کو حتمی شکل دی تو اس پر آئی ایس پی آر نے اختلافی پریس ریلیز جاری کردی جس کو پاکستان کے جمہوریت پسند حلقوں نے پسندیدگی کی نطر سے نہیں دیکھا تھا۔
جدید ترقی یافتہ اقوام اپنی خارجہ پالیسی کو ترتیب دیتے وقت اقتصادیات اور تجارت کو اولیت دیتے ہیں۔ امریکی صدر بارک اوبامہ اور سیکرٹری خارجہ ہلیری کلنٹن نے بھی 21ویں صدی میں امریکہ کی خارجہ پالیسی کے خد و خال واضح کرتے ہوئے معیشت اور تجارت کو اولین ترجیح قرار دیا ہے۔ ہمیں بھی جدید تقاضوں کے مدنظر، جغرافیائی سلامتی کے ساتھ ساتھ انسانی سلامتی (Human Security) اور معاشی فلاح کے تصورات کو بھی مقدم رکھنا ہوگا۔ ٴٴپاپولر سلوگنٴٴ اور ٴٴجذباتی نعروںٴٴ کی بجائے عوام کی حقیقی ضروریات اور بین الاقوامی حرکیات کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر خارجہ پالیسی کی تشکیل نو کرنا ہوگی جس کے بنیادی اجزائ تجارت اور باہمی تعاون پر مبنی ہوں۔
بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کی بجلی فراہمی کی پیشکش اور پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا اس پر ردعمل خوش آئند اور مثبت پیش رفت ہے جس سے پاکستان میںتوانائی کا بحران حل ہوسکتا ہے۔ علاقائی خوشحالی اور بہتر مستقبل کے لیے جنوبی ایشیائ کے ان دو اہم ممالک کو پرامن بقائے باہمی کے اصولوں پر چلتے ہوئے باہمی معیشت ،تجارت اور تعاون کو فروغ دینا ہوگا۔ دو طرفہ تعلقات کے استحکام سے نہ صرف انفرانسٹرکچر، تعلیم، افرادی قوت، معدنیات، ہائیڈل پروجیکٹ، ثقافت، معیشت اور تجارت کے شعبوں میں ترقی ہوگی بلکہ اس سے جنوبی ایشیائ میں موجود ارب سے زائد انسانوں کی زندگیوں میں آسانیاں اور سہولیات بھی پیدا ہوں گی۔ پاکستان اور بھارت میں بہتر تعلقات کے فقدان کی بنائ پر علاقائی تعاون کا ادارہ ٴٴسارکٴٴ بھی فعال نہیں ہوسکا اور خطے کے عوام معاشی اور تجارتی ثمرات سے محروم رہے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم خطے کے عوام کی خوشحالی اور ترقی کے لیے اقتصادیات اور باہمی تجارت کی بنیاد پر خارجہ پالیسی کو نئی شکل و صورت دیں۔
جنوبی ایشیائی ممالک میںسلامتی کے جو فرسودہ تصورات ہیں ان کی سب سے بڑی قیمت یہاں کے عوام نے ادا کی ہے۔ یہ خطہ اپنے بے تحاشہ وسائل، لاتعداد مخفی صلاحیتوں اور کرشماتی ممکنات کے باوجود بھوکا، پیاسا اور اندھیرے میں ڈوبا خطہ رہا ہے۔ جہاں آج بھی دیہی علاقوں میں بھوک کی فصل اگ رہی ہے۔ جہاں لوگ بے سرو سامان فٹ پاتھوں پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جہاں نوجوان نسل اپنے مستقبل سے ناآشنا اور ایک گمراہ بھیڑ دکھائی دیتی ہے۔ جہاں آج بھی مذہبی، نسلی، ذات پات اور فرقے کی بنیاد پر عورتوں کی عصمت دری ہوتی ہے۔ ان ممالک نے اپنے وسائل عوام کی تعلیم، صحت، روزگار کے مواقع اور کوالٹی لائف کی بجائے دفاعی اخراجات پر اجاڑ دیئے ہیں۔ لہذا اب ضروری ہے کہ عوام کے مفادات کو اولیت دی جائے اور اس بنیاد پر خارجہ پالیسی تشکیل دی جائے۔
excellent !