Baloch are missing on the national scene and state agenda

 

ہمارے ریاستی ادارے جن آوازں پر آنکھ اور کان بند کۓ ہوۓ ہیں، وہ آوازیں اب سات سمندر پار امریکی کانگرس کے ایوانوں میں سنائ دے رہی ہیں۔ امریکی ایوانِ نمائندگان کی امورِ خارجہ کی کمیٹی میں بلوچستان کی صورتحال پر عوامی سماعت کے دوران کہا گیا ہے کہ پاکستان پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ اس آگ اور خون میں لپٹے صوبے، جہاں بدترین انسانی حقوق کی پامالی ہورہی ہے، کے حالات معمول پر لانے کے لیے اقدامات کرے۔

امریکی ایوانِ نمائندگان کی امورِ خارجہ کی کمیٹی میں بلوچستان کے معاملے پر عوامی سماعت، کیلیفورنیا سے ایوان کے رکن ڈینا روباکر نے کی جو ایک مضمون میں مطالبہ کر چکے ہیں کہ امریکہ کو خودمختار بلوچستان کی حمایت کرنی چاہیے تاکہ شدت پسندی پر قابو پایا جا سکے۔

بدھ کو’اوور سائٹ اینڈ انویسٹیگیشن‘ کے لیے ذیلی کمیٹی کے تحت ہونے والی سماعت کے دوران پانچ ماہرین نے اپنے بیانات کمیٹی کو جمع کرائے جن میں واشنگٹن ڈی سی کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر کرسٹین فیئر، امریکی فوجی تجزیہ نگار اور مصنف رالف پیٹرز اور انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے پاکستان کے لیے ڈائریکٹر علی دایان حسن بھی شامل ہیں۔

امریکہ نے بلوچستان میں لوگوں کی پراسرار گمشدگیوں سمیت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور پاکستان سے کہا ہے کہ وہ مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے۔

امریکی محکمۂ خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نولینڈ نے ہفتہ وار ٹوئٹر بریفنگ میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ امریکہ نے بلوچستان کے ایشوز پر پاکستانی حکام سے بات بھی کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم انسانی حقوق کی پامالی کے الزامات کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں اور ہم نے پاکستانی حکام سے ان ایشوز پر بات بھی کی ہے اور ہم نے ان سے کہا ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لیے حقیقتاً ایسے مذاکرات کا آغاز کریں اور ان کی قیادت کریں جس سے پیش رفت ہوسکے‘۔

بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری ہے جس کے خلاف آئے روز احتجاج بھی ہورہا ہے لیکن ریاست ابھی تک ان خلاف ورزیوں کو روکنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ کراچی میں رکن بلوچستان اسمبلی بختیار ڈومکی کی اہلیہ اور بیٹی کے قتل کے خلاف بلوچستان اور سندھ میں شدید احتجاج کیا گیا ہے۔ ان مظاہرین نے ہاتھوں میں بختیار ڈومکی کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں اور بلوچستان میں آپریشن اور ہلاکتوں کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔
کراچی میں ایک ہفتہ قبل بختیار ڈومکی کی اہلیہ اور بیٹی کو ڈرائیور سمیت قتل کر دیا گیا تھا۔ بختیار ڈومکی نواب اکبر بگٹی کے نواسے ہیں اور ان کی اہلیہ نواب اکبر بگٹی کی پوتی تھیں۔

بلوچ اعلیٰ عدلیہ اور دیگر ریاستی اداروں سے سوال کر رہے ہیں کہ کون ہے بلوچوں کے قاتل، ہمارے ساتھ یہ ظلم کیوں ہورہا ہے۔ اورہمیں کس جرم کی سزا دی جارہی ہے؟

اکیسویں صدی میں بھی ہمارے ریاستی اداروں کی ترجیحات پاکستان کو ایک جمہوری ریاست بنانے کی بجاۓ فوجی مفادات پر مبنی ‘قومی سلامتی’ کی ریاست بنانے پر لگی ہوئ ہیں۔

ریاست کی جمہوری ترجیحات کاانداذہ اس اقدام سے بھی لگایا جاسکتاہے کہ سپریم کورٹ نےملک کے چیف ایگزیکٹیو کے آئینی اختیارات پر قدغن لگاتے ہوۓ، بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور آئی ایس آئی یعنی انٹر سروسز انٹیلیجنس کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا کی ممکنہ برطرفی کے خلاف درخواست باقاعدہ طور پر سماعت کے لیے منظور کرلی ہے، اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اٹارنی جنرل سے کہا تھا کہ وہ حکومت سے تحریری طور پر بیان لے کرعدالت میں پیش کریں۔

سپریم کورٹ اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی غیر جانبداری اور مقتدرہ غیر نمائیندہ قوتوں کی جانب جھکاؤ ایسے فصیلوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ اسی اثناء میں انجینیئر خالد جمیل کی جانب سے آئی ایس آئی کے سربراہ کو اُن کے عہدے سے ہٹانے کے لیے ایک درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تھی۔ اس درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا نے وزیر اعظم کی رضا مندی کے بغیر متنازع میمو کے اہم کردار امریکی شہری منصور اعجاز سے لندن میں ملاقات کی تھی تاہم سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس کی جانب سے ابھی تک اس درخواست کو قابل ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں فصیلہ نہیں کیا گیا۔

آج بلوچ قومی منظر سے غائب ہوتے جارہےہیں، ان کے دکھ سکھ ریاستی اداروں کے دکھ سکھ محسوس نہیں ہورہے، بیگانگی کا ایک ناقابل بیان رشتہ ہے جو آہستہ آہستہ علیحدگی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہ وہی ریاستی ترجیحات اوربیگا نگی کی کیفیت ہے جس کا نتیجہ ہم سقوط ڈھاکہ کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔ فرخ خان پتافی بلوچستان کے شہروں میں اپنے ہم وطن بلوچ شہریوں کو تلاش کررہے ہیں اور ان کی قومی ذندگی سے گمشدگی پر تکلیف اور پریشانی میں مبتلہ ہیں۔ یہ وہ تکلیف اور پریشانی ہے جو پاکستان کے ہر شہری اور ریاستی ادارےکو ہونی چاہیے۔ مگر ہماری قومی ذندگی خطوط میں قید دکھائ دیتی ہے، چاہے وہ میمو کا خط ہو یا این آر او کا۔


Source: Daily Express

Comments

comments

Latest Comments
  1. Salma
    -
  2. Tahir Jadoon
    -