Thank you Mansoor Ijaz?
سپریم کورٹ کے تشکیل کردہ تحقیقاتی کمیشن نے ’میمو‘ اسکینڈل کے اہم گواہ منصور اعجاز کی طرف سے اُن کا بیان بیرون ملک ریکارڈ کرنے کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے اُن کو پاکستان آکر کمیشن کے سامنے پیش ہونے کا آخری موقع دیا ہے۔
ادھر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی ہدایت پر میمو اسکینڈل کی تحقیقات کرنے والی پارلیمان کی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا اجلاس بھی منگل کو پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا، جس میں حسین حقانی اور انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا کی طرف سے موصول ہونے والے بیانات کا جائزہ لیا گیا۔
کمیٹی کے سربراہ سینیٹر رضا ربانی نے بتایا کہ منصور اعجاز کو بھی اپنا بیان جمع کرانے کی ہدایت کی گئی تھی لیکن ان کی طرف سے نا تو کوئی جواب داخل کرایا گیا ہے اور نا ہی مطلع کیا گیا ہے کہ آیا وہ کمیٹی کے سامنے پیش ہوں گے یا نہیں۔
متنازع خط کو حکومت کاغذ کا ایک بے وقعت ٹکڑا قرار دیتی ہے، جب کہ پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہان نے عدالت عظمیٰ میں اس حوالے سے اپنے تحریری بیانات حلفی میں ’میمو‘ کو ایک حقیقت قرار دیتے ہوئے اس کی تحقیقات پر زور دیا تھا۔ متنازع مراسلے پر متضاد موقف سویلین حکومت اور عسکری قیادت میں تناؤ کی ایک وجہ بھی بنا ہوا ہے۔
منصور اعجاز جس نے بغیر دستخط شدہ کاغذ کے ایک ٹکڑے سے مملکت خداداد کے ریاستی ستونوں کو ایک دوسرے کے مدمقابل لاکر،پاکستان میں کمزور جمہوریت کو شدید خطرات سے دوچار کردیا تھا۔ اب اس الف لیلوی داستان کا انجام قریب ہے، اس میں اتنا دم خم بھی نہیں کہ ہم آنے والی نسلوں کو سنا سکیں، نہ جانے ہمارے ریاستی اداروں کے سربراہ کس منہ سے یہ کہانی آنے والی نسلوں کو سنائیں گۓ؟
کہتے ہیں ‘جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے’، اسے کچھ دور چلنے کے لے بیساکھیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ منصور اعجاز کو میمو اسکینڈل میں ایک بڑی بیساکھی میاں نواز شریف اور انکی جماعت کی صورت میں ملی، جن کی انصاف کے لۓ کوئ درخواست رد ہونے کا سوال ہی نہیں۔ ان کی آذاد عدلیہ سے محبت اور پارلیمنٹ سے نفرت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
مغل بادشاہوں اورانگریزحکمرانوں کے پروٹوکول سے متاثر، منصور اعجاز کے وکیل اکرم شیخ اس کی سیکورٹی کے لۓ فوجی دستہ مانگ رہے ہیں، اور میڈیا پر بیٹھے اینکروں اور تجزیہ نگاروں کے سنجیدہ سوالات اور تبصروں نےپورے معاملے کو کامیڈی سرکس میں بدل کر عوام کو ایک ہییجانی کیفیت میں مبتلہ کیاہوا ہے۔
حامد میر کا شمار ان صحافیوں میں ہوگا، جنہوں نے ‘میمو’ سازش کے دوران روایتی پی پی پی مخالف میڈیا کے برعکس منتخب سویلین حکومت اور صدر مملکت کو اپنی تحریروں میں سپورٹ کیا۔ اور انہوں نے انٹرویو کے زریعے صدرمملکت کی سوچ اور خیالات بھی عوام تک پہنچاۓ۔
حامد میرنے اپنے کالم ‘قلم کمان’ میں ‘منصور اعجاز تھینک یو’ کے عنوان سے جو کچھ تحریر فرمایا ہے، اس میں صداقت ہے۔ ہمارے ریاستی اداروں کے سربراہان کا چہرہ اور کردار سب کے سامنے ہی ہے، پی پی پی کے خلاف سازش کرنے والے سیاسی اداکاربھی سب کے سامنے بے نقاب ہوچکے ہیں۔ حامد میر نے کالم میں حکومت کی رخصتی کی افواہ میں ہونے والے ایک فراڈ کا تزکرہ بھی کیا ہے۔ یہ درست ہے کہ تمام جرائم افواہوں’ بے یقینی کی فضا میں ہی ہوتے ہیں۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ سیاسی بے یقینی ہی ہے ۔ جسے میڈیا اور سیاسی اداکار مذید بڑھا رہے ہیں۔
حامد میرکے کالم میں کچھ باتیں ایسی ہیں، جن سے ہمیں اتفاق نہیں ہے۔ وہ فرما رہے ہیں، منصوراور اس کے میمو سے یپلز پارٹی کی مقبولیت بڑھ جاۓ گئ۔ ایسا نہیں ہے: پی پی پی کو اپنی مقبولیت کے لۓ کسی ‘جوکر’کی ضرورت نہیں، ہاں البتہ میان نواز شریف اور انکی جماعت نے منصوراور اس کے میمو سے فائدہ اٹھانے کی کوششش کی جس میں وہ ناکام رہے۔ میرصاحب تھینک یو اور ہار پہنانے کا مشورہ میاں صاحب کو دیتے تو ذیادہ بہتر تھا، لیکن بدلتے حالات میںشائد وہ بھی منصور کو تھینک یو کہنے کے لۓ تیار نہیں؟
Source: Daily Jang
Hamid Mir’s opposition to Mansoor Ijaz is due to his faith, ie. Ahmadi Muslim sect.
Instead of wasting our energy and resources on these issues, would it not be better that the entire political and administrative quarters would focus on curtailing terrorism and preventing the killing of innocent people, through the use of IEDs.
@Awais Khan: I totally agree with you that non-issues shouldn’t be highlighted too much. Like you said, the problem of IEDs is a serious one. Similarly, there are other important issues, for instance the economic condition of the country etc.
Memo case has created a lot of problem, not only for the government but for other political stakeholders as well. However, the need of the hour is to focus on other issues such the aid cut from USA, based on the issue of IEDs.