Establishment’s bastards and people’s bastards – by Wusatullah Khan

We are cross-posting an old article published on BBC Urdu on 20 December 2009. Written by Wusatullah Khan, the following lines provide the crux of the article:

بقولِ شیخ سعدی اصفہان کے بھیڑئیے سے اصفہان کا کتا ہی نمٹ سکتا ہے۔جب تک اسٹیبلشمنٹ اپنے حرام زادوں کو تحفظ دیتی رہے گی۔عوام اپنے حرامزادے ان کے مقابل لاتے رہیں گے ۔۔۔۔

That about sums it up. Given that Pakistan’s military establishment has never tired of fielding their bastards (right from Junejo to Nawaz Sharif to PML-Q to Imran Khan), why should the people, to whom this country really belongs, exercise restraint?

We will keep using the power of vote to bring our own bastards, at least they will be our bastards, so that we don’t have to take to the streets yet again, like we did against previous military dictators and their hand-picked puppets.

While urban-centric liberal proxies of the military establishment are usually busy in writing and publishing articles to prove that the PPP is military establishments’ B-Party, other more objective analysts have offered an alternative perspective.

Nadeem Paracha explains this phenomenon in one of his recent articles on PPP Jiyalas:

In the last thirty years or so, the Urdu word ‘jiyala’ has come down to become an iconic term in the realm of Pakistan’s populist politics. Almost entirely associated (in this context) with diehard supporters and members of the Pakistan Peoples Party (PPP), it is used both as a term of endearment as well as for ideological dogmatism. It continues to attract the curiosity and attention of a number of young Pakistanis.

The PPP jiyala, though sometimes ridiculed by the detractors of the PPP, is largely witnessed as a passionate phenomenon that even the staunchest anti-PPP parties would like to see in their ranks.

So who or what is a PPP jiyala and where did he or she appear from; and why can such people only be found among the PPP’s supporters in spite of the fact that in the last two decades, almost all mainstream political parties have successfully adopted the antics of the country’s first ever purveyor of populist politics, Zulfikar Ali Bhutto (the founder of the PPP)?

A jiyala in this respect is a PPP supporter who is bound to stick with the party or with the Bhutto family’s overriding claim over the leadership of the party no matter what state the party is in. He or she would defend it passionately, even fight on the streets and campuses for it, and there have also been cases in which jiyalas have died for the party.

Contrary to the belief, especially among the party’s opponents, that jiyalas are ‘blind followers of the PPP ‘ who unquestionably nod at everything that is dished out to them by the party, the fact is that jiyalas have also been some of the harshest critics of the party that they so intensely love.

There have been a number of reported cases in which jiyalas have publicly confronted the party’s leadership over various issues. According to economist and researcher, Haris Gazdar, who is in the process of conducting an elaborate research on the PPP ‘s support base in the Punjab, the party’s traditional voters remain passive and almost impersonal to the fate of the party when it is in power, but become highly active when it’s in the opposition or facing a challenge from the establishment or the opposition.


ہمارے اور انکے باسٹرڈز

وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

ہمیں انیس سو اٹھاسی سے اب تک بتایا جا رہا ہے کہ مرحومہ بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف زرداری اور ان کے حوالی موالی اس ملک کا سب سے کرپٹ سیاسی ٹولہ تھا اور ہے۔

مگر یہ کوئی نہیں بتا رہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے ساڑھے چار برس چھوڑ کر یہ کرپٹ ٹولہ تیسری بار کیسے اقتدار میں آگیا۔مسٹر ٹین پرسنٹ کس طرح پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھے مومنینِ کرام، حاجی صاحبان اور متقی و پرہیزگار ارکان کی اکثریت کے ووٹ سے پاکستان کے صدر بن گئے۔یا تو زرداری کو صدر بنانے والے نیند میں چل رہے تھے یا پھر اتنے بھولے اور معصوم تھے کہ انہوں نے یقین کرلیا کہ جسے وہ صدر منتخب کر رہے ہیں اس کی شکل تو زرداری جیسی ہے لیکن اس مرتبہ اس کے جسم میں ایک معصوم نومولود کی روح حلول کرگئی ہے۔

جس طرح ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ آدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔اسی اصول کی بنیاد پر ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ آدمی اپنے ووٹ سے پہچانا جاتا ہے۔اگر کروڑوں عام اور ان کے منتخب کردہ پارلیمانی زرداریوں نے ووٹ دے کر آصف علی اور ان کی جماعت کو پانچ برس کے لیے اقتدار دے دیا تو اس میں افسوس اور واویلا کاہے کو ؟

کیا آپ نے کبھی کسی ایسے ووٹر کو ووٹ کے حق سے محروم کرنے کا قانون بنایا جس پر دودھ میں پانی، پٹرول میں مٹی کا تیل، مرچوں میں سرخ اینٹ کا چورا، چائے میں لکڑی کا برادہ ، منرل واٹر کی بوتل میں نلکے کا پانی ملانے، بلیک مارکیٹنگ کرنے اور دو نمبر دوا، جعلی کھاد، جعلی بیج اور کاغذی سڑک بنانے کا الزام ثابت ہوجائے۔

کیا آپ نے کبھی ایسے شخص کو ووٹ دینے سے انکار کیا جس کی شہرت ہو کہ وہ بینکوں کے قرضے ہڑپ کرگیا ، ٹیکس چوری میں مسلسل مبتلا ہے، جس نے بدمعاشوں، ڈاکووں ، قاتلوں، چوروں اور املاک پر قبضہ کرنے والے پیشہ وروں کا گروہ پال رکھا ہے۔جو عصمت دری کرنے والوں کی ضمانتیں کراتا ہے۔جو جھگڑے کے تصفیے میں نوعمر بچیوں کو بطور ہرجانہ دینے کے فیصلے کرتا ہے۔

کیا آپ نے کبھی سیاست میں آنے والے کسی ایسے ریٹائرڈ ایماندار بیوروکریٹ، جج یا جرنیل کو قومی و صوبائی اسمبلی کا رکن یا ضلعی ناظم منتخب کرنے کی کوشش کی جس کے پاس ایک سے زائد گھر، گاڑی ، بینک بیلنس ، سینکڑوں ایکڑ مراعاتی زمین ، کھاد یا گیس کا مراعاتی کوٹہ یا کسی غیرملکی بینک میں اکاؤنٹ نہ ہو۔

کیا آپ میں سے کسی نے کبھی یہ مطالبہ کیا کہ ہر حاضر سروس جرنیل، جج، بیوروکریٹ یا سیاستداں، جب بھی اعلیٰ عہدہ یا ترقی پائے تو اپنی منقولہ و غیر منقولہ املاک اور کھاتوں کا گوشوارہ پیش کرے۔اور ان میں سے ہر سال بیس فیصد گوشوارے بذریعہ قرعہ اندازی مکمل چھان بین کے لیے منتخب کیے جائیں تاکہ باقی اسی فیصد اگلے گوشوارے میں غلط بیانی نہ کرسکیں۔

یہ وہ سوالات ہیں جو ہر ووٹر کے گریبان میں چھپے ہوئے ہیں لیکن اسے بوجوہ نظر نہیں آتے۔مگر ان گذارشات کا یہ مطلب نہیں کہ گند صاف کرنے کا آغاز ہی نہ ہو۔چلئے آپ مشرف، شوکت، شجاعت سے آغاز نہ کرسکے نہ سہی، زرداری گیلانی سے ہی سہی۔لیکن ان ووٹروں کا بھی تو کچھ کیجئے جو موقع پاتے ہی پھر ایسے لوگوں کو کرسی پر بٹھا دیتے ہیں۔

ایک بات بتاؤں

براعظم وسطیٰ امریکہ کے ملک نکاراگوا میں سموزا خاندان سنہ انیس سو تیس سے انیس سو اناسی تک مسلسل برسرِ اقتدار رہا۔ کسی نے امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ کی توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ حضور نکاراگوا میں جمہوریت کا سورج کب نکلے گا اور وہاں کے لوگوں کو سموزا خاندان کی حرم زدگیوں سے کب چھٹکارا ملےگا۔روزویلٹ نے کہا یہ سچ ہے کہ سموزا حرامزادے ہیں۔لیکن وہ ہمارے حرامزادے ہیں۔۔۔

بقولِ شیخ سعدی اصفہان کے بھیڑئیے سے اصفہان کا کتا ہی نمٹ سکتا ہے۔جب تک اسٹیبلشمنٹ اپنے حرام زادوں کو تحفظ دیتی رہے گی۔عوام اپنے حرامزادے ان کے مقابل لاتے رہیں گے ۔۔۔

Source: BBC Urdu

Comments

comments

Latest Comments
  1. TLW
    -
  2. Oh Bhains
    -
  3. O. Waracih
    -
  4. O. Waracih
    -
  5. TLW
    -
  6. Ahmed Iqbalabadi
    -