Would the PPP workers in Rawalpindi vote for PML-N? – by Ahsan Abbas
سیاسی طالبعلم بمقابلہ سیاسی طالبان
ضمنی انتخابات نے سیاسی ماحول کو ایک مرتبہ پھر گرما دِیا ہِے۔ راولپنڈی حلقہ ٥٥ کے ضمنی انتخاب کی مُہم جوئی کا کل آخری دِن تھا۔ پوٹوھار کی خلقِ خُدا جلد ہی اپنے ووٹ کا حق اِستعمال کریں گے۔ مُسلم لیگ ن ، عوامی مُسلم لیگ سمیت کئی پارٹیوں کی نامزد امیدوار اپنی اوقات کا فیصلہ خلقِ خُدا سے یں گے۔ جیتنے والے جشن منائیں گے اور ہارنے والے دھاندلی کا ڈھول بجائیں گے۔
حلقہء کا ماحول اُس وقت زیادہ گرمانے کی کوشش کی گئی جب میاں نوازشریف نے فقط ایک سیٹ کے لیے جاتی عُمرہ چھوڑ کر میدانِ عمل میں آکر مُہم جوئی کا شوق پورا کیا۔ بقول شیخ رشید کہ انہوں نے مسلم لیگ ن کی دوڑیں لگوا دیں ہیں۔ یہ تاثر کسی حد تک درُست مان لیا گیا ہے کہ مسلم لیگ ن نے حلقہء میں کمزور پوزیشن کو دیکھتے ہوئے پنجرے میں بند سرکس کے شیرکو میدان میں لانے کا فیصلہ کیا۔
میڈیا میں لائیو کوریج کے پروگرام دیکھیں تو اندازہ ہو کہ میڈیا ایکٹر پپلز پارٹی کے نظریاتی ووٹ بنک کے ٹرن آؤٹ پر اِس حلقہ کا فیصلہ ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ سینٹر فیصل رضا عابدی اِس بات کو متعدد بار دُہرا چُکے ہیں کہ پپلز پارٹی نے اِس حلقہ میں کسی اُمیدوار کو نہ کھڑا کیا نہ ہی کسی کی حمایت کا اِعلان کیا۔ مگر میڈیا اینکرز بارہا اِس بات کو جتانے کوشش کرتے رہے کہ پپلز پارٹی کا ووٹر شیخ رشید کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے۔ اگر میڈیا میں پھیلنے والی اِس بات کو مدِ نظر رکھ لیا جائے تب بھی اِس میں کوئی جُرم نظر نہیں آتا۔
حلقہ این اے ٥٥ پنجاب کے شہر راولپنڈی میں واقع ہے کہ جہاں سے تین سابق وزیرِ اعظم کے تابوت سندھ بھیجے گئے۔ مُحترمہ بینظیر بھٹو شہید کا پوٹوھار کی غیور عوام سے آخری خطاب کو شاید ہی کوئی سچا پاکستانی بھُول سکے، کہ جب اُنھوں نے سوات میں پاکستانی پرچم کو لہرانے کاعزم ظاہر کیا۔ پنڈی کی عوام سیاسی چپقلش کی اُس بدترین دہشت گردی کو بھی نہیں بھُول سکتے کہ جب مُحترمہ کی جائے شہادت پر آگ لگائی گئی۔ کیا پپلز پارٹی کا ووٹر اُس ٹولے کو ووٹ دے گا جو اِس ناپاک جسارت میں پیش پیش تھے؟
یقینا نہیں! ۔۔۔۔
مُسلم لیگ ن کی بدقسمتی صرف یہی نہیں کہ یہ سیٹ مُسلم لیگ ن کے ایم این اے کی نااہلی کی وجہ سے خالی ہوئی بلکہ گُذرے دو سال کی سیاست میں مُسلم لیگ ن نے اپنے آپ کو ماضی کی طرح مُستقل مزاج رکھا۔ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کی نامزدگی سے مُسلم لیگ ن کی حرم زدگی کا دور شروع ہُوا اور پھر آستین کا سانپ بن کر جمہوریت پر تابڑ توڑ حملے ، صدر زرداری کی شخصیت کو مُسلسل اپنی انتقامی سیاست کا نشانہ بنانا، میثاقِ جمہوریت کی نفی، اور پنجاب میں بیوروکریسی پر انحصار وہ تمام کارہائے نُمایاں ہیں جو مُسلم لیگ ن انجام دیتی آرہی ہے، مزاح کا پہلو یہ ہے کہ اَپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے با وجود صدر زرداری کے خلاف منفی پروپگنڈا کسی منطقی انجام کو تو نہ پہنچ سکا مگر مُسلم لیگ ن کے اپنے مُہرے آہستہ آہستہ سیاسی بساط سے باہر ہوتے گئے۔ کوئی جعلی ڈگری میں پکڑا گیا، تو کوئی امتحان دیتے، کسی نے کریڈٹ کارڈ چوری کیا ، تو کسی نے مظلوم کے ساتھ زیادتی۔۔۔۔کوئی قبضہ گروپ کی پُشت پناہی کرتا ہے تو کوئی ہیروں کی سمگلنگ۔۔۔۔۔ غرض کہ مُسلم لیگ ن کو چاندپر تھُوکنے کا وہی ردِ عمل مِلا جو چاند پر تھُوکنے سے مِلتا ہے۔ مگر ہائے ری میاں نوازشریف کی سیاسی وراثت۔۔
میں ضیاء الحق کی روح کو کہاں لے جاؤں جو میاں صاحب کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتی۔۔۔۔۔ ضیاء کی پیدا کردہ دہشت گردی کو وکلاء گردی اور پولیس گردی سے تحفظ فراہم کرنے میں بھی مسلم لیگ ن پیش پیش ہے، وکلاء گردی کو اگر میں چند لمحوں کے لیے کسی تحریک سے مُشابہت دے بھی دوں تو میں اِس پولیس گردی کو کہاں لے جاؤں کہ جس میں کل پپلز پارٹی پنجاب کے دو سو سے زائد کارکُنوں پر صرف اِس اِلزام کے تحت پرچہ دیا گیا ہے کہ انھوں نے اپنے منتخب صدرِ پاکستان سے اظہارِ یکجہتی کے لیے پاکستان بھر میں ہونے والے مُظاہروں میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے لاہور پریس کلب کے سامنے مُظاہرہ کیا، جس میں پُتلا جلایا گیا تو صرف اُن کا جو کلمہ نہ پڑھتے تو موت کے بعد اُنھیں جلایا ہی جانا تھا۔
صدر زرداری جمہوریت کے دُشمن ہیں۔۔۔۔۔۔۔ نوازشریف کا یہ بیان اُن کے سیاسی دہریہ ہونے کی نشاندہی کے لیے موثر ثبوت ہے۔ ججوں کی تقرری میں آنے والے مسائل نے صدر زرداری کو تو کسی بھی طرح کمزور نہیں کیا بلکہ پپلز پارٹی کے کارکُنوں کو ایک مرتبہ پھر مُتحرک کرنے میں بُنیادی کردار اَدا کیا! جبکہ دوسری طرف رات کے اندھیروں میں آنے والے فیصلوں اور اِس سے قبل کُچھ اندھیری مُلاقاتوں کے انکشاف نے تو جمہور پسند عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ آخر ہم ہی کیوں؟ پپلز پارٹی ہی کیوں؟ ہمیشہ۔۔۔۔۔۔
عدلیہ اپنے اِس معرکہ میں کس حد تک سُر خُرو ہوئی اُس کا اندازہ تو ایک عام انسان کو علی احمد کُرد اور عاصمہ جہانگیر کے بیانات سے ہو گیا۔۔ ۔۔
عدلیہ بحال کرا کے لائے تھے چار دن۔۔۔۔
کُچھ راستے میں بِک گئے کُچھ بھرے بازار میں۔۔۔
اب پپلز پارٹی پنجاب کے جیالوں کے خلاف پولیس گردی کا ایک جامعہ پلان ترتیب دے دیا گیا ہے۔ اور چھوٹے میاں اپنی تمام تر صلاحیتوں کو پنجاب میں ہر قسم کی گردی کے لیے استعمال کریں گے۔۔۔ کاش! کہ وہ اتنی جستجو اور دانشمندی کے ساتھ کم از کم لاہور کی عوام کو اُن کے روایتی تہوار بسنت سے لُطف اندوز ہونے دیتے۔۔۔۔۔ ! مگر ہائے رے ہٹ دھرمی ۔۔۔۔!
افسوس کا مقام یہ بھی ہے کہ جب مال روڈ پر دن دھاڑے صدرِ پاکستان آصف علی زرداری اور بی بی شہید کے پوسٹر جلائے جاتے ہیں، جب بی بی شہید کی جائے شہادت کو نظرِ آتش کیا جاتا ہے۔۔۔ تب کوئی اِنصاف کا دیوتا۔۔۔ یا جمہوریت کا ہنو مان اِس پر از خود نوٹس یا ایف آئی آر اندراج کراتا نظر نہیں آتا۔۔۔
میں لاہور کا ادنیٰ کارکُن ہونے کے ناطے یہ پیغام تمام جیالوں کو دینا چاہتا ہوں کہ گھبرانا مت بے گُناہ جیل کاٹنا ہمارے لیڈرز کی سُنت رہی ہے تو بھاگنا مسلم لیگ ن کی لیڈر شپ کا طرہء امتیاز۔۔ ہمارا عادل اوپر نیلی چھتری کے پار بیٹھا سب دیکھ رہا ہے۔۔۔ وہی ہے جس نے کسی کو جیل سے ایوانِ صدرکی عزت بخشی تو کسی کو مُلک بدری کی ذلت۔۔۔ اُس ذات نے بھٹو صاحب کے عدالتی قتل کا فیصلہ مولوی تمیزالدین کے جنازے پر سُنا دیا ۔۔۔۔۔ اور ہم پاکستان کی عوام جمہوری اداروں پر عدالتی خوش کش حملے کو ناکام بنانے کے لیے کسی بھی جیل کا منہ دیکھنے کو تیار ہیں۔۔۔!
میں یہاں اِس بات کو اُجاگر کرنا چاہوں گا کہ پپلز پارٹی کی مرکزی قیادت کو پنجاب بالخصوص پپلز پارٹی لاہور کی سیاسی انتقام کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ صدر زرداری ایک مرتبہ پھر لاہور کو زینت بخشیں اور کارکُنوں کے درمیان آکر بیٹھیں۔۔
صدر زرداری کے پولیٹیکل مشیران بھی اِسلام آباد سے لاہور کے فاصلوں کو کم کریں اور مُسلم لیگ ن کو اُن کی ہوم گراونڈ میں مُشکلات سے دوچار کرنے کے لیے پپلز پارٹی پنجاب کے کارکُنوں کی حوصلہ افزائی کریں۔
تُم تیر آزماؤ ۔۔۔ ہم جگر آزمائیں۔۔۔۔! یہی وہ مفاہمانہ پالیسی ہے جس پر پپلز پارٹی عمل پیرا ہو کر پاکستان بچانے کی سر توڑ کوششوں میں مصروف ہے۔۔۔ جہاں آصف علی زرداری صاحب بی بی شہید کی سیاسی تعلیمات کے طالبعلم ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں تو وہاں میاں نواز شریف ضیا ء ملعون کے سیاسی طالبان ہونے کا بھر پور حق ادا کرتے نظر آتے ہیں۔۔۔! مسلم لیگ ن بقول شاعر
ہم نے انھیں سیدھا کبھی چلتے نہیں دیکھا۔۔۔
فطرت کے سنپولوں کو بدلتا نہیں دیکھا۔۔۔۔۔
سید احسن عباس رضوی
(احسن شاہ)
Punjab govt’s role in PML-N electioneering arouses ire
By Inamullah Khattak
Friday, 19 Feb, 2010
RAWALPINDI: The local public relations directorate has come into open for the PML-N election campaign in violation of the code of conduct set by the Election Commission of Pakistan (ECP), leaving a question mark over the transparency in the NA-55 by-polls scheduled for February 24.
The directorate works under the Punjab’s Information and Culture Department, and its primary task is to project the cause of the provincial government. However, the public entity has become involved in electioneering of PML-N candidate Shakeel Awan.
Since the PML-N aspirant is being given a tough time by his rival candidate Sheikh Rashid Ahmed, who is also backed by the PPP Rawalpindi chapter, the Directorate of Public Relations has focused its attention on highlighting the PML-N campaign by forwarding day to day activities to newspapers.
On Saturday, when the PML-N took out a car and bike rally in Rawalpindi, it was the same directorate that projected the event by providing photos to newspapers, which were subsequently carried in the Sunday editions.
The rally was led by PML-N parliamentarian MNA Hanif Abbasi, MPAs Ziaullah Shah, Yasir Raza and Raja Hanif.
Evidence of the government’s involvement in the PML-N election campaign is available with Dawn.
Directorate of Public Relations’ director Fahim Mumtaz told this reporter that since MNA Hanif Abbasi was the chairman of Sasti Roti project, therefore he was given coverage.
He acknowledged that pictures of the election campaign were taken by the staff of his office as well as that of MNA Hanif Abbasi, but he denied that his office was involved in projecting the PML-N election campaign.
This was the third move on the part of the PML-N led provincial government that apparently went against the rules announced by the ECP in a notification issued on January 8.
First, the Punjab government transferred an executive district officer (municipal services) on the complaint of a PML-N parliamentarian, though the ECP had strictly banned transfer and appointments in Rawalpindi till the completion of the by-election process.
Then the Punjab government last week appointed a medical superintendent (MS) at the District Headquarters (DHQ) hospital in Rawalpindi.
When contacted, Awami Muslim League (AML) president Sheikh Rashid condemned the alleged involvement of the provincial government in the PML-N election campaign and asked the ECP to take action against the practice. “The PML-N sees its failure in the election that is why it has engaged government departments for its candidate.
The Punjab government has already planned to rig the election but we will not let that happen,” he told Dawn over phone.
Mr Rashid wondered why the ECP was silent over the issue, stressing that so far no action had been taken against any violation of the election rules.
http://www.dawn.com/wps/wcm/connect/dawn-content-library/dawn/the-newspaper/national/12-punjab-govts-role-in-pmln-electioneering-arouses-ire-920–bi-05
Procedural irregularities in by-polls witnessed
By Amir Wasim
Thursday, 25 Feb, 2010
ISLAMABAD: A group of independent election monitors reported seeing heavy police presence and intelligence operatives occasionally “interfering” in the voting process at some polling stations during the by-election in NA-55 on Wednesday.
In their preliminary report, the Free and Fair Election Network (Fafen) observers also reported “significant procedural irregularities” and failure of election officials to enforce regulations and laws.
In most of polling stations, security officials were present inside polling stations and booths. Many presiding officers said security officers were present inside the premises without their permission and on the orders of the local administration.
The observers also noticed “intelligence officials entering polling stations and asking questions about the number of votes cast.”
Under electoral rules, even at sensitive polling stations, police are only authorised to maintain order outside. They can only enter polling stations or booths when requested by the presiding officer. At some polling stations, security officials accompanied Fafen observers and even supervised their interactions with the officials. At some stations, police officers were assisting election officials in counting and handling election materials.
Over 30 polling stations were set up in privately schools and buildings, which was not in line with the electoral rules.
The observers as well as some mediapersons reported that the election officials under “close supervision of security officers were hesitant particularly in opening the counting process for pubic scrutiny.”
At 12 polling stations, ballot books had counterfoils filled before the ballots had been removed, indicating the possibility of “fraudulent votes.”
Similarly, the observers reported from 12 polling stations that the number of CNICs of voters as written on the counterfoils of the ballot books did not match with the corresponding entries on the electoral rolls “again raising the possibility that fraudulent voting might have taken place.”
At 19 polling stations, dubious thumb impressions marked on counterfoils of ballot books at the same angle with phasing out ink print were observed. In case of genuine voters, each thumb impression is marked in fresh, dark ink and may be at varying angles.
Armed civilians were observed inside eight polling stations. Public representatives and officials were present inside six polling stations.
At one polling station, an unidentified man was acting on behalf of a female presiding officer and was positioned at a place from where he could view voters stamping their ballots.
The workers of almost all the parties were campaigning in violation of election laws that barred the same within 400 yards of polling stations. At 13 stations, campaigning and canvassing was being done inside.
The installation of cameras in polling stations, apparently for security reasons, is a certain case of breach of voters’ privacy.
In at least one polling station, a security camera was installed on top of the secrecy screen where voters stamp the ballot.
http://www.dawn.com/wps/wcm/connect/dawn-content-library/dawn/the-newspaper/national/12-procedural-irregularities-in-bypolls-witnessed-report-520–bi-03