UN humanitarian chief appeals for funds to help Pakistani flood victims

The top UN humanitarian official on Monday added her voice to the global appeal for donors to fund a $357 million plan to help the Pakistani Government provide vital assistance to more than five million people affected by massive flooding in the country’s south.

“We cannot let them (Pakistani people) down, said Valerie Amos, the UN Under-Secretary-General for Humanitarian Affairs and Emergency Relief Coordinator.The plan, launched on Sunday in Islamabad, aims at providing food, water,sanitation, health care, and emergency shelter to the most-affected families for six months.It is similar to a plan launched last year in the wake of the devastating floods that affected some 20 million people, resulted in some 2,000 deaths and submerged about a fifth of the country.

“One year after the largest floods in recent history, the people of Pakistan are in desperate need again. We cannot let them down,” said Ms. Amos.

“More than five million people are struggling to survive massive flooding across southern Pakistan, and the rains continue to fall,” she said.

They have lost their homes, their possessions and their livelihoods. The next few days will be crucial, as the UN and partners help the Government to get food,safe water and shelter to the most vulnerable.

This year’s monsoon rains and flooding have affected an estimated 5.4 million people in the provinces of Sindh and Balochistan, according to the UN Office for the Coordination of Humanitarian Affairs (OCHA), which warns that the humanitarian crisis is growing as the rains continue to fall across the south.

Nearly 1 million homes have been destroyed and 72 per cent of crops have been lost in the worst-affected areas. In Sindh province, 22 out of 23 districts have been flooded, and 16 need particularly urgent assistance.

“The United Nations and its humanitarian partners are working tirelessly to support Government-led efforts to provide food, water, health care and emergency shelter to the families worst hit by the floods,” said Timo Pakkala, the UN Humanitarian Coordinator in Pakistan.

“Despite our efforts, the needs are growing. We urge the international community to fully support the rapid response plan in order to save lives, he said. The UN and its partners, who are supporting the primarily Government-led emergency response effort, have so far distributed more than 20,000 shelter kits and sets of household goods, as well as 530,000 plastic sheets.

In addition, more than 650,000 people have received medicines and medical care,and 500,000 people will receive food aid by the end of September. Agencies are also aiming to provide 400,000 people with access to safe drinking water over the coming days.(APP)

The following News reports can provide you with further information on flood victims:

’ہم بھی اپنے اچھے خاصے دشمن ہیں‘


وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

ہندوستان میں انگریزوں نے اٹھارہ سو اکیانوے سے موسمیاتی ریکارڈ رکھنا شروع کیا اس کے بعد سے سب کو بخوبی اندازہ ہے کہ جس خطے میں پاکستان واقع ہے وہاں شدید سیلاب، تباہ کن بارش، سمندری طوفان، ہوائی جھکڑ یا انتہائی گرمی و سردی کوئی اجنبی عمل نہیں۔لیکن گذشتہ دس برس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان بھی رفتہ رفتہ عالمی موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ممالک کی فہرست میں اوپر کی جانب سفر کررہا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کے عالمی گرداب میں پھنسنے کا پہلا عندیہ سن دو ہزار ایک میں اسوقت ملا جب اٹھائیس جولائی کو اسلام آباد میں صرف دس گھنٹے کے دوران چھ سو بیس ملی میٹر ( چوبیس انچ ) ریکارڈ بارش ہوئی۔لیکن اسےمحض ایک انفرادی و انہونے موسمیاتی واقعے سے زیادہ اہمیت نہیں دی گئی کیونکہ اس کے آٹھ برس بعد تک ایسا کچھ نہیں ہوا۔

پھر اٹھارہ جولائی دو ہزار نو کو ایک اور تاریخ رقم ہوئی جب کراچی میں صرف چار گھنٹے کے دوران دو سو پینتالیس ملی میٹر ( نو اعشاریہ چھ انچ) بارش ریکارڈ کی گئی۔ان چار گھنٹوں میں برسنے والا پانی دو ہزار نو کے پہلے سات ماہ میں کراچی میں ہونے والی برسات سے بھی کہیں زیادہ تھا۔لیکن اسے بھی ایک موسمیاتی اتفاق سمجھا گیا۔

پھر سال دو ہزار دس آیا اور مئی کے مہینے میں گرمی کی تاریخی لہر نے پورے ملک کو لپیٹ میں لے لیا۔بائیس مئی سے تیس مئی تک یوں لگا جیسے سورج سوا نیزے پر آ چکا ہو۔ملک کے گیارہ شہروں میں درجہ حرارت پچاس کا ہندسہ پار کرگیا۔ان میں سے پانچ شہروں ( سبی، جیکب آباد، نواب شاہ، پڈ عیدن اور لاڑکانہ میں پارہ تریپن تک چڑھ گیا اور بارہ جون انیس سو انیس کا ریکارڈ بھی ٹوٹ گیا جب سندھ میں باون اعشاریہ سات سیلسیئس ٹمپریچر ریکارڈ کیا گیا تھا )

چھبیس مئی دو ہزار دس کو موہن جو دڑو میں ساڑھے تریپن سیلسیئس درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا۔ اس کرۂ ارض پر جب سے موسمیاتی ٹمپریچر ریکارڈ ہونا شروع ہوا ہے تب سے موہن جو دڑو کا مذکورہ ٹمپریچر دنیا میں ریکارڈ ہونے والے حرارتی درجات میں چوتھے نمبر پر ہے۔( عالمی ترتیب کچھ یوں بنتی ہے کہ تیرہ ستمبر انیس سو بائیس میں لیبیا کے مقام العزیزیہ میں ستاون اعشاریہ آٹھ ، کیلی فورنیا کی ڈیتھ ویلی میں دس جولائی انیس سو تیرہ کو چھپن اعشاریہ سات اور شمالی فلسطین میں اکیس جون انیس سو بیالیس کو تریپن اعشاریہ نو درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا )

سن دو ہزار دس کے پہلے چھ ماہ کے دوران پاکستان کے متعدد علاقوں میں اتنی خشک سالی دیکھی گئی کہ صدر آصف علی زرداری کو بھی بارش کے لیے نمازِ استسقا پڑھنی پڑی۔قدرت نے ان دعاؤں کا بھرپور نوٹس لیا اور پچیس جون سے چودہ ستمبر تک سکردو سے کراچی تک وہ وہ ہوگیا جو کسی کے بھی گمان میں نہیں تھا۔

آسمان نے پلٹ پلٹ کر وار کیا۔یوں لگا جیسے کسی نے شمالی علاقہ جات، خیبر پختون خواہ، مشرقی بلوچستان، جنوبی پنجاب اور سندھ کے سر پر پانی سے بھری بالٹی توڑ ڈالی۔پچیس فیصد پاکستان اور لگ بھگ دو کروڑ افراد کی املاک زیرِ آب آگئیں اور باقی ملک روزمرہ مہنگائی کے ریکارڈ گرداب میں گھر گیا۔سرکار کو اعمال کے بجائے قومی پیداواری اہداف پر نظرِ ثانی کرنا پڑی۔

سال دو ہزار دس کے سیلاب کے بعد یہ بات عمومی طور پر کہی جانے لگی کہ یہ محض اتفاق نہیں ہے بلکہ پاکستان اب موسمیاتی تبدیلیوں کی گرفت میں پھنستا جارہا ہے۔لیکن عملاً اس سیلابِ عظیم کے بعد ملنے والی سال بھر کی مہلت کو جس روایتی سستی، بدانتظامی اور نا مقبول دعاؤں میں ضائع کیا گیا اس کے بعد جو کچھ اب ہورہا ہے قطعاً بےسببِ و بےحیرت نہیں۔

سالِ گذشتہ ساون میں دریائے سندھ کے معاون مغربی دریاؤں ( سوات ، کابل) نے جو کام دکھایا وہی کام اس سال مشرقی معاونین (ستلج ، چناب، جہلم) نے دکھایا۔لیکن اس برس تباہی کا مرکزی کردار دریا سے زیادہ بارش نے بخوبی نبھایا۔

موسمیاتی تبدیلی کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ جو بارش پورے پاکستان میں برسنی تھی اس کا ستر فیصد کوٹہ اکیلے صوبہ سندھ میں جا برسا۔جو کام دریائے سندھ نے گذشتہ برس دریا کے مشرقی کنارے کے سندھی اضلاع کے ساتھ کیا اس سے کہیں زیادہ ہاتھ بارشوں نے دریا کےمغربی کنارے کے سندھی اضلاع میں کر دکھایا۔

بقول وفاقی مشیرِ ماحولیات ڈاکٹر قمرالزماں چوہدری کے چار ہفتے کے دوران سندھ پر انچاس ملین ایکڑ فٹ بارش برس گئی۔یوں سمجھ لیں جیسے تربیلا ڈیم کی چھ جھیلیں سندھ میں گھس گئی ہوں۔ جو بارشیں سندھ میں اوسطاً پانچ برس کے دورانیے میں ہوتی ہیں انہوں نے چار ہفتے میں ہی اپنا بوجھ اتار ڈالا۔ایسا مون سون سندھ نے کبھی ریکارڈڈ تاریخ میں نہیں دیکھا۔

گو اتنی بڑی غیر متوقع واردات سے کوئی بھی فوری طور پر نہیں نمٹ سکتا لیکن گذشتہ برس کی تباہی کے تجربے کے بعد خوش گمانی تھی کہ حکومتی مشینری نہ صرف ناگہانی آفتوں سے جنم لینے والی گذشتہ ناکامیوں سے کچھ سیکھ چکی ہوگی بلکہ اس طرح کے بحران سے نمٹنے کا ایک خام خاکہ یا حکمتِ عملی بھی کسی سرکاری دراز میں پڑی ہوگی۔لیکن ایسا نہیں ہوا۔

اگرچہ کچھ ملکی و بین الاقوامی اداروں نے طوفانی بارشوں کے پہلے ہفتے سے ہی خبردار کرنا شروع کردیا تھا لیکن صوبائی اور وفاقی مشینری کو یہ احساس ہونے میں دو ہفتے لگے کہ یہ تباہی معمول سے کہیں بڑی ہے۔تب تک ریسکیو منظم کرنے کا قیمتی وقت نکل چکا تھا اور جو جہاں پانی میں پھنس گیا وہیں پھنس گیا۔

تیسرے ہفتے تک سرکار کو یہ خیال آیا کہ بین الاقوامی اپیل کے بغیر اس عفریت کا مقابلہ مشکل ہے۔چوتھے ہفتے میں وزیرِ اعظم کے ریلیف فنڈ کے قیام کا اعلان ہوا۔اس دوران جو کام نہایت تندھی سے ہوا وہ تھا انتظامی و سیاسی الزام تراشی اور ایک کے بعد ایک پریس کانفرنس اور جوابی پریس کانفرنس۔

حکومت میں سے شاید ہی کسی کے دھیان میں ہو کہ دسمبر دو ہزار دس میں میکسیکو کے شہر کانکن میں جو عالمی موسمیاتی کانفرنس ہوئی اس کے تحت پینتیس ارب ڈالر کا گرین کلائمٹ فنڈ تشکیل دیا گیا تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والی ترقی پذیر ممالک کی مدد ہو سکے۔

بقول وفاقی مشیرِ موسمیات قمر زمان چوہدری، بنگلہ دیش نے سطح سمندر میں اضافے کے سبب بڑھتے ہوئے طوفانوں سے نمٹنے کے لیے گرین کلائمٹ فنڈ سے امداد لی ہے۔پاکستان بھی اگر اپنا مقدمہ پیش کرے تو اسے بھی مدد مل سکتی ہے۔

مگر مسئلہ یہ ہے کہ ایسا کرے کون اور کیوں کرے ؟ اس کے لیے تو اعتراف کرنا پڑے گا کہ پاکستان ساتویں جوہری طاقت ضرور ہے مگر ڈینگی مچھر اور بارش سمیت قدرتی آفات سے نمٹنے اور متاثرہ لوگوں کو ضروری آگہی پہنچانے کا کام تنہا نہیں کرسکتا۔اس کے لیے اقبال کرنا ہوگا کہ عذابِ الہی محض ہمارے کرتوتوں کے سبب نہیں بلکہ آسمان کے ساتھ ساتھ ہم بھی اپنے اچھے خاصے دشمن ہیں۔

مگر جہاں کاروبارِ سماج ہی ’ناک اونچی کہ مونچھ نیچی‘، ’ہم ایک دم صحیح تم یکسر غلط‘ کے اصول پر چل رہا ہو وہاں کوئی بھی کیا کر سکتا ہے اگر کرنا بھی چاہے ؟

Source: BBC Urdu

متاثرینِ سیلاب کی تعداد اسّی لاکھ سے تجاوز کرگئی

سندھ میں بارشوں اور سیلاب سے بچوں کی بڑی تعداد متاثر ہوئی ہے۔

پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ صوبۂ سندھ میں شدید بارشوں اور سیلاب سے متاثر ہونے والوں کی تعداد اسّی لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔

پی ڈی ایم اے کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق سیلاب اور بارشوں سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد تین سو باون ہوچکی ہے جس میں ترانوے خواتین اور تراسی بچے شامل ہیں۔

اُدھر صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ یہ قدرتی آفت ملک کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ کراچی میں تاجر برادری سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امدادی سرگرمیوں کو مانیٹر کرنے کے لیے بلاول ہاؤس میں ایک مانیٹرنگ روم بنا دیا گیا ہے اور وہ ذاتی طور سے امدادی کاموں کا جائزہ لیں گے۔

انہوں نے کہا کہ صوبۂ سندھ میں ایسے علاقے کے لوگوں کی گندم کے زیادہ بیچ دیے جائیں گے جو بارشوں سے متاثر نہیں ہوئے ہیں تاکہ ان علاقوں میں گندم کی پیداوار کو بڑھایا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم ایسے اقدامات کریں گے کہ ہمیں اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے گندم درآمد نہ کرنی پڑے۔‘


بچے شدید متاثر

اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسیف کے اہلکار عبدالسمیع مالک نے بی بی سی کے پروگرام سیربین میں مہوش حسین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی اس طرح کی کوئی آفت آتی ہے تو اس میں بچے سب سے زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں کیونکہ ایسے حالات میں بچے اپنا خیال خود نہیں رکھ سکتے۔

انہوں نے کہا کہ سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ سندھ کے کئی علاقے زیرِ آب آ چکے ہیں اور کئی جگہوں پر سیوریج کا پانی مل گیا ہے جبکہ کھڑے ہوئے پانی میں مچھر بھی بہت ہوتے ہیں اور اس سے بیماریاں بھی ہوتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان حالات میں بچوں کو اگر پیاس لگے تو وہ کہیں سے بھی پانی پی لیتے ہیں جس کے باعث ان میں اسہال اور ہیضہ کے خدشات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں جبکہ مچھروں کی وجہ سے ملیریا ہونے کا بہت خطرہ ہوتا ہے۔

عبدالسمیع مالک نے سیلاب زدہ علاقوں کا حال ہی میں دورہ کیا ہے۔ ان کے بقول کئی بچے اور لوگ بیمار ہیں اور انہیں دواؤوں کی ضرورت ہے جبکہ جو لوگ کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں انہیں سائبان چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی اپیل کے بعد سے اقوامِ متحدہ کے پاکستان میں تمام اداروں نے فوری امدادی کا کام شروع کردیا ہے۔ ان کے بقول اس قسم کی آفات میں شروع کے دنوں میں جان بچانے پر ساری توجہ مرکوز ہوتی ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ جس حد تک ہو سکے انسانی جانیں بچائی جائیں۔

انہوں نے کہا کہ یونیسیف کا ادارہ بچوں کے لیے کام کرتا ہے اور ’ہماری پہلی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ہم صاف پانی مہیا کریں تاکہ بچے اور بڑے صاف پانی استعمال کر سکیں۔ ایسی صورتحال میں بچوں میں ویکسینیشن بھی ضروری ہوتی ہے اور ہم نے فی الحال سیلاب زدگان کے بچوں کے لیے پولیو اور خسرہ کی ویکسینیشن کا آغاز کردیا ہے۔‘


اقوامِ متحدہ کی عالمی اپیل

ایسی صورتحال میں بچے اپنا خیال خود نہیں رکھ سکتے: عبدالسمیع مالک

اقوام متحدہ نے پاکستان میں سیلاب کے متاثرین کی مدد کے لیے تقریباًچھتیس کروڑ ڈالر غیر ملکی امداد کی اپیل کی ہے۔

پاکستان میں اقوام متحدہ کے کوآرڈینیٹر تیمو پکالا نے کہا کہ اب تک کے اندازے کے مطابق سندھ میں ہی پچاس لاکھ سے زیادہ افراد متاثرہ ہوئے ہیں اور متاثرین کی تعداد ستر لاکھ سے زیادھ بھی ہوسکتی ہے۔

تیمو پکالانےکہا کہ متاثرہ علاقوں میں رہائش ایک بڑا مسئلہ ہے لہٰذا عالمی برادری فوری طور پر ڈیڑھ لاکھ خیمے بھی مہیّا کرے۔

ادھر سندھ کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں کام کرنے والی بعض امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ روزانہ کی بنیادوں پر احتجاج کے باعث متاثرین تک رسد شدید متاثر ہو رہی ہے۔

دو غیر ملکی امدادی اداروں نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ان کے ملازمین کو مرکزی دفتروں سے ایسی صورتحال میں سفر نہ کرنے کی ہدایت جاری کی گئی ہیں۔


اقوام متحدہ کی جائزہ رپورٹ تیار

اقوام متحدہ اور حکومت نے سندھ کے بارش اور سیلاب سے متاثرہ سولہ اضلاع کی ابتدائی جائزہ رپورٹ تیار کرلی ہے۔

اقوام متحدہ کے امدادی ادارے اوچا کا کہنا ہے کہ سیلاب اور بارش سے 54 لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں، جن میں انچاس فیصد خواتین ہیں۔

اوچا کی رپورٹ کے مطابق موجودہ صورتحال کی وجہ سے دس لاکھ خاندان متاثر ہوئے ہیں، جن میں سے پانچ فیصد کی سربراہ خواتین اور چار فیصد کے سربراہ معذور افراد ہیں۔

فوری ضروریات کا تعین کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ 59 مقامات کے جائزہ لینے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ میرپورخاص اور تھرپارکر میں فوری شیلٹر کی ضرورت ہے۔

متاثرینِ سیلاب کا احتجاج

متاثرہ علاقوں میں امدادی سامان کی عدم دستیابی پر لوگوں میں اشتعال بڑھ رہا ہے۔

متاثرین سیلاب کا کہنا ہے کہ وہ بیس روز سے کھلے آسمان کے نیچے بیھٹے ہوئے ہیں اور اب تک کسی سرکاری اور غیر سرکاری ادارے نے ان کی مدد نہیں کی ہے جبکہ ان کا سارا سامان بارشوں کی نذر ہو گیا ہے۔

سانگھڑ کے شہر جھول میں رکنِ صوبائی اسمبلی عبدالستار راجپوت کی فیکٹری کے باہر فائرنگ میں ایک بارہ سالہ بچہ غلام حسین ہلاک ہو گیا ہے۔

متاثرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک ہفتے سے امدادی سامان یہاں موجود تھا مگر تقسیم نہیں کیا جا رہا تھا۔

دوسری جانب میر پور خاص کے شہر نو کوٹ میں سامان کی تقسیم کے دوران لوگوں کی بڑی تعداد جمع ہو گئی اور چھینا جھپٹی کے دوران ایک بزرگ شخص پیروں تلے آ کر ہلاک ہو گیا۔

Source: BBC Urdu

Comments

comments