چینی زبان کی تدریس کا فیصلہ کیا جائے کہ نہیں ؟

اخباروں میں یہ خبریں چھپیں کہ حکومت سندھ چینی زبان کو ایک مضمون کی حیثیت سے سکول کے نصاب میں شامل کرنا چاہتی ہے، اور اس کے لئے کئی جواز بھی دے گئے ہیں جیسا کہ چین سے ہماری دوستی، چین ایک عظیم ابھرتی طاقت جو کل دنیا پر چھا جاۓ گی، اس لئے چین سے روابط کو بڑھانے کے لئے اور لوگوں کو مواقع فراہم کرنے کے لئے لوگوں کا چینی جاننا ضروری ہے وغیرہ وغیرہ، مگر زمینی حقائق کا کیا کیجئے, فیصلے خاص طور پر ایسے فیصلے کے جن کا اثر قوم کی نئی نسل اور مستقبل پر پڑے ان میں جلد بازی اچھی نہیں. کسی بھی زبان کو تدریس میں اپنانے کا فیصلہ، یا یہ کہ اسے ایک لازمی مضمون کی حثیت دی جائے یا اختیاری؟، یا یہ کہ کیا ہمارے بچے ایسی زبان میں اتنی مہارت بہم پہنچا سکیں گے کہ جو ان کے مستقبل میں اہم طور پر کام آ سکے؟ یا یہ کہ کیا ان کے لیے ممکن ہوگا کہ چار زبانیں پڑھ سکیں یا پآنچ (کیونکہ اگر یادداشت ساتھ دیتی ہے تو سیکنڈری سکول میں عربی بھی پڑھائی جاتی تھی)، اتنے اساتذہ کیسے تیار کے جائیں گے؟ بچوں کو آگے جا کر کتنے مواقع ملیں گے کہ وہ اپنی استعداد کا استعمال کر سکیں، کیا اس کے لیے کوئی منصوبہ بندی کی گئی ہے؟
یہ صحیح ہے کہ تہذیبوں اور قوموں کے عروج و زوال اور زبان کا بڑا گہرا ساتھ رہا ہے، اکادی، آشوری، سمیری، مصری، آرمینی ، یونانی، لاطینی، چینی، سنسکرت، عربی، اسپینی، ولندیزی، فرانسیسی یا انگریزی؛ ان سب زبانوں کے عروج اور ترّقی کا گہرا تعلق اس بات سے ہے کے وہ قومیں جو یہ زبانیں بولتی تھیں انہوں نے کتنی ترّقی کی، جتنا عروج ان قوموں نے حاصل کیا اتنا عروج ان کی زبانوں کو ملا، جب قومیں زوال پذیر ہوئیں اور تہذیبیں شکست خوردہ تو زبانیں بھی ختم ہوں گئیں ، طاقتور سلطنتیں حکمرانوں کے کلچر اور ثقافت کے اثرات اتنا ہی بڑھاتی ہیں جتنا ان کی سرحدیں بڑھتی جاتی ہیں، پچھلی صدی تک یہی ہوتا رہا کہ جہاں تک فوجی قوّت کے بل پر حکومت کی جا سکی وہاں اپنی زبان اور کلچر کو بھی فروغ دیا جا سکا، جیسے گووا میں پرتگالی, پانڈیچری میں فرانسیسی، اور کلکتہ میں انگریزی، برازیل میں پرتگیزی اور انڈونیشیا میں ولندیزی, سوڈان کے ایک حصّے میں عربی یا خود مصر میں عربی. زبان کا قوّت اور طاقت سے بڑا گہرا رشتہ ہے.
جو قومیں آج ترّقی یافتہ ہیں ان کی زبانیں بھی پھل پھول رہی ہیں، آج کے دور میں اقتصادی ترّقی کا کسی تہذیب کے ہمہ گیر اثرات سے بڑا گہرا تعلق ہے، کیونکہ دنیا پر غلبے کے لئے ملکوں اور حکومتوں پر قبضہ ضروری نہیں بلکہ اقتصادی برتری ضروری ہے، اور جو قوم اقتصادی طور پر ترّقی یافتہ ہے اتنی ہی زیادہ علوم و فنون اس کی دسترس میں ہیں اور اتنی ہی زیادہ اس کی زبان ترّقی یافتہ اور اہم ہے. کسی زبان کی اہمیت کی ایک وجہ تو یہ ہو گئی کہ اس کے جانے بغیر آگے بڑھنا ممکن ہی نہ ہو جیسا کہ انگریزی ہے, کہ ترّقی یافتہ دنیا کے اہم ملکوں کی قومی زبان ہے، موجودہ دنیا کا بیشتر علم اس زبان میں موجود ہے، لہٰذہ ساری دنیا میں بولی اور سمجھی جاتی ہے. یا پھر یہ کہ زبان کے بولنے والوں کی تعداد اور اس کا حلقہ اثر جیسا کہ عربی یا اسپینی جو ماضی کی بڑی سلطنتوں کی سرکاری زبانیں رہی ہیں اس لیے ایک بڑے علاقے میں بولی جاتی ہیں اور ان کے جاننے والوں کی تعداد زیادہ ہے. ان وجوہات کی بنا پر وہ زبانیں جو آج کی دنیا میں سب سے اہم جانی جاتی ہیں ان میں چینی(منڈارین ) ، اسپینی، انگریزی، عربی اور فرانسیسی شامل ہیں، اقوام متحدہ ان پآنچ کے علاوہ روسی زبان کو اپنی مروج زبانیں قرار دیتا ہے اور ہر چھ میں تمام دستاویزات تیار کی جاتی ہیں. ان کے علاوہ بولنے والوں کی تعداد کے حوالے سے ہندی یا اردو، بنگالی، پرتگالی، جرمن، جاپانی اور پنجابی بھی بڑی زبانیں ہیں. دنیا کی آٹھ بڑی اقتصادی طاقتوں یعنی ریاست ہائے متحدہ امریکہ، برطانیہ، فرانس، جاپان، جرمنی، اٹلی، کینیڈا اور رشیا میں سے تین کی سرکاری زبان انگریزی ہے، پھر فرانسیسی، جاپانی, جرمن، اٹالین، اور روسی اس لئے اہم زبانیں ہیں کے صنعتی اور اقتصادی طور پر ترّقی یافتہ اور پچھلی چند صدیوں کی طاقتوں کی زبانیں ہیں، دنیا کا اہم لٹریچر ان زبانوں میں موجود ہے. پھر انڈیا، برازیل اور چین ابھرتی ہوئی طاقتیں جانے جاتے ہیں اس لئے ان کی زبانیں اہم ہیں, اسپینی اور عربی اس لئے کہ دنیا کے ایک بڑے خطّے میں بولی اور سمجھی جاتی ہیں. تو جناب یہ وہ زبانیں ہیں کہ جن کو جاننے اور سمجھنے والے بین الاقوامی تجارت اور اس سے منسلک پیشوں میں اپنے لئے کوئی گنجائش نکال سکتے ہیں. انگریزی پاکستان میں سرکاری زبان ہے، پڑھائی جاتی ہے اور سمجھی جاتی ہے. سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ باقی سب میں سے چینی ہی کا انتخاب کیوں کیا جائے ؟
چین رقبے اور آبادی کے لحاظ سے ایک بہت بڑا ملک ہے، اقتصادی ترّقی کے حوالے سے بھی چین سے بے حد امیدیں وابستہ ہیں، ساتھ ہی ساتھ چین علاقائی اور بین الاقوامی سیاست میں بھی انتہائی سر گرم ہے، یہ ساری باتیں درست مگر انسانی وسائل کے حوالے سے چین کو کوئی مشکل درپیش نہیں، تعلیمی میدان میں بھی اس کی صورتحال بہتر ہے، لہٰذہ اس کا امکان کم ہی ہے کہ چین کو اپنی پیداواری ضروریات پوری کرنے کے لئے بیرونی وسائل کی ضرورت ہوگی، نہ صرف یہ بلکہ چینیوں کی ایک بڑی تعداد ملک سے باہر تقریباً ساری دنیا میں موجود ہے، اور یہ آج کی بات نہیں بلکہ زمانہ قدیم سے جب سے چین میں قائم حکومتیں بحری طاقت بنیں اور جب سے ان کے تعلقات بحری رستوں سے باقی دنیا سے استوار هوئے، تب سے آج تک چین کا بین لاقوامی کردار رہا ہے اور اس کا اثر خصوصاً جنوب مشرقی ایشیا میں بہت زیادہ ہے، چین کی تجارت افریقہ اور پھر یورپ اور امریکہ تک بڑھی اور اس طرح ساری دنیا میں چینی آبادیاں میں پھیل گئیں ، مگر یہ قابل توّجہ امرہے چینی امپیریل عہد کے عروج میں بھی چینی زبان کو پھیلانے کی کوئی سنجیدہ کوشش شاید نہیں کی گئی، اور چینی سرزمین سے باہر یہ زبان چینی تارکین وطن تک ہی محدود رہی, بلکہ یہ تارکین وطن، سیاح اور تاجر ساری دنیا سے علم کی کشید ہی کرتے رہے, اور جہاں رہے وہاں کی زبان و ثقافت سے بہرہ مند ہوے, یہ امر ضروری بھی تھا، بہت سی دوسری امپیریل طاقتوں کی تاریخ مختلف ہے، اسپین، فرانس، پرتگال، ہالینڈ، برطانیہ سب ہی نے جہاں جہاں قبضہ کیا وہاں اپنی زبان اور کلچر کو فروغ دیا، اور ان کے وہاں سے نکلنے کے بعد بھی ان کی زبان ان علاقوں میں زندہ ہے، مگر ساری دنیا میں چینی بولنے والے چینی نسلوں سے ہی ہیں. پھر چینی زبان کی ساخت، گرامر، لکھنے کا انداز یہ سب بھی ہماری زبانوں سے مختلف ہے. پھر دیکھیں تو چین کی تجارت , پیداوار اور ترقی کا دارومدار جہاں اس کی اپنی بڑی مارکیٹ پر ہے وہاں اس کی برآمدات پر بھی ہے، جو ساری دنیا میں بھیجی جاتی ہیں، اس کے علاوہ چین خدمات یا سروسز کی مارکیٹ میں بھی بہت آگے ہے اور چین میں موجود پیشہ ور تکنیک کار ماہرین ساری دنیا میں خدمات باہم پنہچا رہے ہیں، اور مختلف زبانوں کا جاننا اس کے لیے ضروری ہے، عام طور پر انگریزی زیادہ استعمال کی جاتی ہے . تو موجودہ دور میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا در حقیقت چینی زبان کو سرکاری سطح پر پڑھانے سے کیا کوئی بڑا فائدہ ہوگا یا نہیں؟ کیا اس زبان میں شدہ بدھ رکھنے والے افراد قابل ذکر تعداد میں فائدہ اٹھا سکیں گے؟ کیا واقعی چین سے باہر چینی زبان جاننے والوں کی اتنی ضرورت ہے؟ اگر ایسے افراد ہوں تو ان کی کھپت ہوگی یا نہیں؟
بے شک آج کے دور میں زبان ایک اہم ذریعہ ہے ترّقی کے امکانات کی تلاش میں، انڈیا کی مثال سامنے ہے، انہوں نے اپنے نوجوانوں پر خاص طور پر توجہ دی کہ بہتر طور پر انگریزی سیکھ سکیں، اس کا فایدہ یہ ہوا کہ ایسے تکنیکی ماہرین، سائنسدان اور پیشہ ور افراد تیار ہوئے جن کی مانگ تھی اور سروسز کے میدان میں نئے نئے بزنس چلے اور کامیاب هوئے، انڈیا کی سروسز انڈسٹری کی کامیابی میں اہم کردار ان لوگوں کی انگریزی دانی کا ہے جو انڈسٹری میں کام کرتے ہیں، ایک زمانے میں انڈیا میں روسی زبان پڑھانے کا سلسلہ چلا تھا مگر کامیاب نہ ہو سکا، یقینناً ڈیمانڈ اور سپلائی کا اصول لاگو ہوتا ہے. اسی طرح چین میں بھی انگریزی زبان کی ترویج پر توجہ دی جاتی ہے، مسابقت میں ضروری ہے کہ حریف کی صلاحیتوں کا مقابلہ کیا جائے ، ہمیں بھی دیکھنا چاہیے کے ہمارے لیے کونسے شعبے کھلے ہیں اور ان میں کن صلاحیتوں کی ضرورت ہے اور اسی حساب سے اپنے افراد کو تیار کرنا چاہیے.
نئے میدانوں میں طبع آزمائی سے پہلے ہمیں ان مسائل پر زیادہ توجہ دینی ہوگی جو ہمیں آج درپیش ہیں، تعلیم کے میدان میں حالات دگرگوں ہیں، سرکاری اسکول بری حالت میں چل رہے ہیں، اچھے استاد نا پید ہوتے جا رہے ہیں اور سرکاری اداروں میں پڑھنے والوں کی تعداد میں آبادی کے تناسب سے اضافہ نہیں ہو رہا، دیہات اور دور افتادہ علاقوں میں کیا حال ہے، اس کا تو ذکر بھی نہیں کیا جا سکتا، ہماری آبادی کی خاصی بڑی تعداد ایسے ہی علاقوں میں ہے، کیا ہم کو اپنے ان نو نہالوں کے مستقبل کی فکر نہیں ہونی چاہیے جن تک نئے دور کے ثمرات پہچتے ہی نہیں، جو آج بھی معیاری تعلیم کی سہولت سے محروم ہیں، ان کو ان کی مادری زبان میں تعلیم مل جائے تو بہت ہو، چینی جاپانی کی ضرورت تو بہت بعد کی بات ہے. صوبہ سندھ میں سندھی زبان کی ترویج و اشاعت پر توجہ دی جائے، زیادہ سے زیادہ موضوعات پر لٹریچر کو سندھی میں ترجمہ کیا جائے تاکہ لوگ اپنی مادری زبان میں آسانی سے علم کا حصول کر سکیں کیونکہ یہ امر مسلمہ ہے کہ مادری زبان میں پڑھنا، سمجھنا اور سیکھنا زیادہ آسان ہوتا ہے. اگر ایسا ہو جاے تو ہم نا جانے کتنے با صلاحیت اور ہنر مند افراد حاصل کر لیں گے ، شہری علاقوں میں یہی طریقہ کار اردو کے لئے اپنایا جائے، ہر فرد کا حق ہے کہ اس کے لیے تعلیمی، سائنسی ، ادب ، تاریخ اور تمام دیگر شعبوں میں زیادہ سے زیادہ لٹریچر موجود ہو، تعلیم کا مقصد محض روزگار کا حصول ہی نہیں، بلکہ شعور اور سمجھ پیدا کرنا بھی ہے، معاشرہ کوئی فیکٹری نہیں کہ ایک مشین ایک ہی سانچے میں افراد ڈھالنے لگے، اچھے شہری حاصل کرنے کے لیے دور رس اقدامات کی ضرورت ہے. افرادی صلاحیتیں اور مہارت اقتصادی ترّقی کا صرف ایک پہلو ہیں، ایک فرد کو تعلیم، صحت، خوشی، اطمینان حاصل کرنے کے یکساں مواقع ملنے چاہیئں. کیا یہ بہتر نا ہوگا کہ ان خامیوں کی طرف توّجہ دی جائے، حکومت بنیادی تعلیم کی ترویج کے لیے اقدامات کرے , پہلے ہم اپنے عوام تک بنیادی تعلیمی سہولتیں تو پہنچائیں، کچھ روشنی تو پھیلے ہماری اردو اور سندھی تو پھلیں پھولیں، چینی کی چاشنی بھی چکھ لیں گے
.
nice decision..